جناب عمران خان کا مقبول نعرہ تھا ''یکساں نصاب اور یکساں نظامِ تعلیم‘‘ چنانچہ یکساں نصابِ تعلیم مرتب کرنے کے لیے وفاقی وزارتِ تعلیم کے زیر انتظام ''نیشنل کریکولم کونسل‘‘بنائی گئی اور اب تک وزارت کے دعوے کے مطابق‘ پانچویں جماعت تک کی نصابی کتابیں مرتب کر لی گئی ہیں۔ صرف اسلامیات کی کتابوں پر نظر رکھنے کے لیے ''اتحادِ تنظیمات مدارس پاکستان‘‘ کی رکن پانچوں تنظیمات کا ایک ایک نمائندہ اس میں شامل کیا گیا تاکہ کم ازکم اسلامیات کی نصابی کتب میں کوئی قابلِ اعتراض علمی لازمہ شامل نہ ہو‘ جو بعد میں نزاع کا باعث بنے۔ کتابوں کے مرتبین ومؤلفین جدید تعلیم کے مغربی اداروںسے لیے گئے تھے، قارئین کرام کو اس پر حیرت نہیں ہونی چاہیے کہ نیشنل کریکولم کونسل کے اراکین میں شہزاد رائے جیسے مشہور مغنّی اور دیگر این جی اوز کے نمائندے بھی شامل ہیں، موصوف سکولوں میں جنسی تعلیم کے علمبردار ہیں۔ اس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ مغرب کے وسائل سے فیض یافتہ این جی اوز ہمارے نظام میں کس حد تک نفوذ کیے ہوئے ہیں کہ ان کی شمولیت کے بغیر قومی نصاب بھی نہیں بنایا جا سکتا، یہی وجہ ہے کہ ہر مضمون کے نصاب کے لیے جو رہنما خطوط وضع کیے گئے ہیں، وہ تقریباً یکساں ہیں اور ان کا مرکزی خیال لبرل سیکولر ذہن تیار کرنا ہے۔
دعویٰ یہ کیا جا رہا ہے کہ مدارس سے لے کر اعلیٰ انگلش میڈیم سکولوں تک یکساں نصاب پڑھایا جائے گا اور اس طرح تعلیم کے میدان میں تفاوت اور طبقاتی تقسیم ختم ہو جائے گی، پوش سوسائٹیوں کے رہائشی اور دور افتادہ دیہاتوں کے باسیوں کے بچے ایک معیار پر آ جائیں گے، یعنی مسابقت کا میدان سب کے لیے ہموار ہوگا، انگریزی میں اسے ''Level field‘‘ کہتے ہیں، غالب نے کہا تھا:
اس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خدا!
لڑتے ہیں اور ہاتھ میں تلوار بھی نہیں
ہمارے نزدیک یہ ایک Myth، اَفسوں، اُسطور اور یوٹوپیا ہے، یعنی محض تخیلاتی باتیں ہیں، زمینی حقائق سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے، منطق میں کہا جاتا ہے: ''یہ مُحالِ عقلی تو نہیں ہے، لیکن معروضی صورتِ حال اور زمینی حقائق کی روشنی میں مُحال عادی ضرور ہے‘‘۔ یہ کیسے فرض کر لیا گیا ہے کہ اشرافیہ اور مقتدرہ کے بالادست طبقات اور سونے کا چمچہ منہ میں لے کر پیدا ہونے والے اپنی برتری اور بالادستی کو قربان کر دیں گے؟ عرش سے فرش پر آ بیٹھیں گے؟ آقا و غلام اور حاکم و محکوم ایک ہو جائیں گے؟ مولانا جلال الدین رومی نے کہا تھا:
ہم خدا خواہی و ہم دنیائے دُوں
ایں خیال است و محال است و جنوں
مفہومی ترجمہ: ''ایک جانب اللہ کی قربت کا دعویٰ اور دوسری جانب حقیر دنیا کا طلبگار بن کر رہنا، یہ دونوں چیزیں یکجا نہیں ہو سکتیں، یہ محض خیال ہے، اس کا حصول مُحال ہے، اسے جنون ہی سے تعبیر کرسکتے ہیں‘‘۔
جدید تعلیم کے ادارے اپنے نظام میں ان کتابوں کو کیسے قبول کریں گے؟ ہرگز نہیں، دیوار پر یہی لکھا ہوا ہے، کوئی حقائق سے آنکھیں بند کرنا چاہتا ہے تو اس کی مرضی۔ نیز برطانوی سسٹم کے تحت دسیوں ہزار او لیول اور اے لیول کے امتحانات دینے والے طلبہ و طالبات کیا یہی نصاب پڑھیں گے؟ ہمیں خود فریبی سے نکل آنا چاہیے، خالق اور خَلق اور خود سے سچ بولنے کی روش اختیار کرنی چاہیے۔ اگر ہم تھوڑی دیر کے لیے یہ فرض بھی کر لیں، تو کیا اساتذہ کا معیار، سکول کا ماحول، لائبریری، ہم نصابی سرگرمیاں، آمد و رفت کی پُرتعیش سہولتیں اور رہائش کے اعلیٰ معیار کا نظام سب کو کہاں میسر آ سکتا ہے؟ نیز اشرافیہ کے یہ شہرۂ آفاق سکول تعلیم کا ایک بڑا بوجھ والدین پر ڈالتے ہیں، ٹیوٹر کے بغیر تو بچہ چل ہی نہیں سکتا۔
اگر بالفرض یکساں نصاب پر مشتمل درسی کتب مرتب کر بھی لی جائیں، تب بھی طبقاتی تفاوت برقرار رہے گا۔ ہمارے ملک کے معروضی حالات کا تقاضا یہ ہے کہ انٹرمیڈیٹ سطح تک تعلیم کو لازمی قرار دیا جائے، ضرورت کے مطابق عمارتیںاور مفت نصابی کتب فراہم کی جائیں، سکولوں میں جدید لائبریریاں اور لیبارٹریاں بنائی جائیں،کمپیوٹر لیبارٹریاں بنائی جائیں، ہر بچے کی کمپیوٹر تک رسائی ہو، بچوں کی سکول آمد و رفت کے لیے ٹرانسپورٹ فراہم کی جائے، اس کے لیے لاکھوں کی تعداد میں جدید تعلیم یافتہ اور تربیت یافتہ اساتذہ درکار ہوں گے اور تعلیمی بجٹ میں دسیوں گنا اضافہ کرنا ہوگا، جبکہ موجودہ صورتحال یہ ہے کہ ہائر ایجوکیشن کمیشن اور پبلک سیکٹر کی ہر یونیورسٹی مالی وسائل کی قلت کا رونا رو رہی ہے اور ہم فضائوں میں معلق جنت تعمیر کرنے کے خواب دیکھ رہے ہیں۔ افراد پر تو شیخ چلی کی پھبتی کسی جاتی تھی، ہم بحیثیت قوم شیخ چلی بننا چاہتے ہیں، اساتذہ کی کثیر تعداد پری کمپیوٹر جنریشن سے تعلق رکھتی ہے۔
کیا ہم یہ سوال کر سکتے ہیں کہ ایچی سن کالج اور اس معیار کے دوسرے اداروں نے کتنے سائنسدان پیدا کیے،ان کے ہاتھوں سے کتنی ایجادات ہوئیں،کتنے تحقیقی شاہکار ہیں جنہیں عالمی سطح پر پذیرائی ملی۔ ہماری معلومات کے مطابق ڈاکٹر عبدالقدیر خاں، ڈاکٹر سلیم الزمان صدیقی، ڈاکٹر عطاالرحمن، ورلڈ ٹریڈ ٹاور کے آرکیٹیکٹ ڈاکٹر فضل الرحمن وغیرہ سب سرکاری سکولوں اور کالجوں کے پڑھے ہوئے تھے۔ الغرض علم پر کسی کا اجارہ نہیں، علم وراثت ِ نبوت ہے، ذہانت اور حافظہ عطیّہ خداوندی ہے۔ اس ملک و ملت کے کتنے ہی بے مثال ہیرے ہوں گے، جو پہاڑوں، صحرائوں، کھیتوں، کھلیانوں اور کارخانوں کی چمنیاں دہکاتے ہوئے رل گئے، کاش کہ انہیں بھی اپنا جوہر دکھانے کا موقع ملتا اور قوم ان کی بے مثال ذہانت، بے پایاں قوتِ حافظہ، جوہرِ قابلیت اور خداداد صلاحیتوں سے فائدہ اٹھاتی۔
ایک معروف لبرل سیکولر پروفیسر ڈاکٹر پرویز ہود بھائی ایک پرائیویٹ ٹیلی وژن چینل پر فریاد کناں تھے ''مجھے اندیشہ ہے کہ وفاقی وزارتِ تعلیم کے تیار کردہ نصاب سے مدرسے کے طلبہ تو ایچی سن کے معیار پر نہیں آئیں گے، البتہ ایچی سن کے طلبہ مدرسے کے معیار پر آ جائیں گے‘‘۔ الغرض ہر طولانی بحث وتمحیص کی تان مدرسے پر آ کر ٹوٹتی ہے، مجھے حیرت ہے کہ خود حکومتی اعداد وشمار کے مطابق اس قوم کے ڈیڑھ کروڑ بچے کسی سکول کی چاردیواری کے اندر داخل ہی نہیں ہو پاتے، مگر ان کی فکر کسی کو نہیں ہے، وہ چائے کے کیبن پر، پان کی دکان پر، پنکچر شاپ پر، موٹر ورکشاپ میں، گھروں پر پوچا لگاتے ہوئے اور بیگمات کی ڈانٹ سنتے ہوئے ہر جگہ نظر آئیں گے، گھریلو خادمائوںکے طور پر کام کرنے والی بچیوں پر وحشیانہ مظالم کی تصویریں تو آئے دن ٹیلی ویژن چینلوں پر دکھائی جاتی ہیں، لیکن ہم نے ان کے غم میں گھلتے ہوئے کسی کو نہیں دیکھا، اگر فکر ہے تو مدرسے کے ان طلبہ کی جن کا انتظام اس قوم کا دردِ دل رکھنے والے مخیر حضرات رضاکارانہ طور پر اپنی نیک کمائی سے کرتے ہیں۔ ان کے قیام و طعام، لباس، نصابی کتب، کرایہ آمد و رفت اور وظائف وغیرہ پر نہ تو حکومتی خزانے سے ایک پائی خرچ ہوتی ہے اور نہ بیرونی امداد سے پلنے والی این جی اوز نے کبھی ان پر ایک پیسہ خرچ کیا ہے۔ دراصل بیرونی آقائوں کے اشارے پراین جی اوز اور ہمارے لبرل میڈیا نے یہ فکر قوم پر مسلط کی ہے اور ایف اے ٹی ایف کے حوالے سے حکومت کی مجبوریوں کا ہمیں بھی بخوبی ادراک ہے۔
اس کے مظاہر ہم نے اس وقت بھی دیکھے جب مساجد کو کھولنے کی بات ہوئی، اس وقت لبرلز نے آسمان سر پہ اٹھا لیا کہ مسجدوں سے وبا گھر گھر پھیل جائے گی اور کوئی نہیں بچے گا، اللہ کا شکر ہے کہ ایسا نہیں ہوا، ان کے سارے اندیشے باطل ثابت ہوئے اور مساجد کو بند رکھنے کی مذموم مہم ناکامی سے دوچار ہوئی۔ صدرِ پاکستان اور وزیراعظم پاکستان نے برملا اعتراف کیا کہ مساجد سے کورونا نہیں پھیلا اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ احتیاطی تدابیر پر سب سے زیادہ عمل بھی مساجد میں ہوا اور اگر کہیں حکومت ایکشن میں آئی تو اس کا نشانہ بھی مساجد ہی قرار پائیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھاکہ ہمارا لبرل میڈیا مساجد کے بارے میں مغرب کے آگے معذرت خواہانہ انداز اختیار کرنے اور دیندار طبقے کو بے جا ہدفِ تنقید بنانے کے بجائے اس بات کو فخریہ طور پر پیش کرتا کہ جب کورونا وائرس کی وبا کے نتیجے میں حرمین طیبین سمیت ساری دنیا میں تمام مذاہب کی عبادت گاہیں بند تھیں اور مذہبی اجتماعات موقوف ہوگئے تھے، اس وقت ہمارے ملک کے انہی مدارس کے سرکردہ علماء صدر اور وزیر اعظم کے ساتھ بیٹھے، متفقہ لائحہ عمل ترتیب دیا، ایس او پیز بنائیں جس کے تحت پورے پاکستان میں نمازوں کے لیے مساجد کھلی رہیں، جمعہ کے اجتماعات، نمازِ تراویح، اعتکاف اور ماہِ رمضان کی دیگر عبادات بحسن وخوبی ادا ہوئیں اور آج دنیا بھر کی تمام مساجد حتیٰ کہ حرمین طیبین اور یورپ و امریکا کی مساجد بھی انہی ایس او پیز کو سامنے رکھتے ہوئے ہر قسم کی عبادات کے لیے بتدریج کھولی جا رہی ہیں، بلکہ اگر دیکھا جائے تو حج کامحدود انعقاد بھی انہی ایس اوپیز کے تحت ممکن ہو سکا۔
میڈیا نے پہلے قربانی کے خلاف مہم چلائی، مگر انہیں اس میں ناکامی سے دوچار ہونا پڑا، پھر انہوں نے پینترا بدل کر قربانی کو اللہ کی عبادت کے بجائے خور و نوش کے سالانہ جشن میں تبدیل کرنے کی کوشش کی تاکہ عبادت کی تقدیس کا تاثر لوگوں کے ذہنوں سے مٹ جائے اور قربانی کو سالانہ ''فوڈ فیسٹیول‘‘ میں تبدیل کر دیا جائے۔ میں نے قربانی کے دنوں میں ایک قومی اخبار دیکھا، اس کا پورا رنگین ایڈیشن اس عنوان کے لیے وقف تھا: ''قربانی کے لیے بار بی کیو کا اہتمام‘‘، پھر اس کے تحت درجنوں پکوانوں کی ترکیبیں درج تھیں، گویا عبادت نہ ہوئی، خورو نوش کا سالانہ میلہ سج گیا۔ اسی طرح سوشل میڈیا پر اور اخبارات میں تنوری ران بنانے کے اشتہار چھپتے ہیں۔ عیدالاضحی کی شام کچن اور ڈائننگ روم کی رونقیں دکھائی جاتی ہیں، ایسے میں حضرت ابراہیم و اسماعیل عَلَیْھِمَاالسَّلَام کی بے مثال قربانی کی یاد کیسے تازہ ہوگی، ایثار کی وہ مثال ہمارا آئیڈیل کیسے بنے گی۔ الغرض اسلامی اقدار و شعائرسے دور کرنے کے لیے ایک شعوری مہم جاری ہے۔ ایک صاحب نے ایک وڈیو کلپ بھیجا کہ ہماری قوم نے بانیٔ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کو خراجِ تحسین پیش کرنے کا نادر نمونہ پیش کیا ہے، مزارِ قائد کے گنبد پر چڑھنے کا مقابلہ ہو رہا ہے اور اس کی فلمیں بن رہی ہیں، قائد اعظم کی روح تڑپ رہی ہوگی کہ کیا خراجِ عقیدت پیش کرنے کا اب یہ شعار رہ گیا ہے۔