(20) اللہ کا تعالیٰ کا ارشاد ہے: ''اور تم میں سے فضیلت اور مالی وسعت والے اس بات کی قسم نہ کھائیں کہ وہ (آئندہ) اپنے رشتے داروں، مسکینوں اور اللہ کی راہ میں ہجرت کرنے والوں کوکوئی چیز نہیں دیں گے، اُنہیں چاہیے کہ وہ معاف کر دیں اور درگزر کریں، کیا تم پسند نہیں کرتے کہ اللہ تمہیں بخش دے اور اللہ بہت بخشنے والا، نہایت رحم فرمانے والا ہے‘‘ (النور:22)۔ اس آیت کی تفسیر میں چھٹی صدی ہجری کے معروف ومشہور شیعہ مفسر شیخ ابوعلی فضل بن حسن طبرسی لکھتے ہیں:
''یہ آیت ابوبکرؓ اور مِسْطَحْ بن اثاثہ کے متعلق نازل ہوئی ہے، مسطح ابوبکر کے خالہ زاد بھائی تھے، وہ بدَری صحابی، مہاجر اور فقیر تھے اور ابوبکراُن کی کفالت کرتے تھے، جب حضرت عائشہؓ کے حوالے سے مسطح بن اثاثہ سے حضرت ابوبکر صدیقؓ کو اذیت پہنچی تو انہوں نے (بشری تقاضے کے تحت) اس کی کفالت سے ہاتھ کھینچ لیا اور قسم کھائی کہ وہ آئندہ اس کی کفالت نہیں کریں گے، جب یہ آیت نازل ہوئی تو ابوبکر نے حسبِ سابق اُن کی کفالت شروع کر دی اور قسم کھاکر کہا کہ میں اس بات کو پسند کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ مجھے بخش دے اور بخدا میں اس کی کفالت جاری رکھوں گا‘‘ (مجمع البیان، ج:7، ص:210)۔
شیخ طبرسی کی اس تفسیر کے مطابق اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے حضرت ابوبکرؓ کو صاحبِ فضل قرار دیا ہے، حضرت ابوبکرؓ ناداروں پر اپنا مال خرچ کیا کرتے تھے اور جب حضرت ابوبکرؓ نے بشری تقاضے کے تحت مسطح کی کفالت سے ہاتھ کھینچ لیا تو اللہ تعالیٰ نے اُن کی اصلاح کی اور فرمایا: ''کیا وہ یہ نہیں چاہتے کہ اللہ اُن کی مغفرت فرمائے‘‘، حضرت ابوبکرؓ نے اپنے نفسانی جذبے کو قربان کر کے اللہ تعالیٰ کے فرمان کے آگے سرِ تسلیم خم کیا اور کہا کہ میں اللہ تعالیٰ سے مغفرت کا طلبگار ہوں، اس سے معلوم ہوا کہ حضرت ابوبکرؓ میں نفسانیت بالکل نہیں تھی، بلکہ وہ پیکرِ اخلاص تھے۔
(21) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ''اور وہ جو سچا دین لے کر آئے اور جنہوں نے اس کی تصدیق کی، وہی لوگ متقی ہیں، ان کے لیے ان کے رب کے پاس وہ سب کچھ ہوگا جو وہ چاہیں گے، یہی نیکوکاروں کی جزا ہے‘‘ (الزمر: 33تا 34)۔ شیخ طبرسی لکھتے ہیں: ''ایک قول کے مطابق پیغام صدق لانے والے رسول اللہﷺ ہیں اور اس کی تصدیق کرنے والے ابوبکرؓ ہیں‘‘ (مجمع البیان، ج:8، ص:777)۔ شیخ طبرسی کی تفسیر کے مطابق اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں حضرت ابوبکرؓ کو رسول اللہﷺ کا مصدق، کامل متقی، محسن اور آخرت میں اللہ تعالیٰ کے پاس حسبِ خواہش جزا پانے والا قرار دیا ہے۔
(22) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ''اور نارِ جہنم سے اُسے دور رکھا جائے گا جو سب سے بڑا متقی ہے اور اپنا مال (اللہ کی راہ میں) دیتا ہے تاکہ باطن کا تزکیہ ہو جائے اورکسی کا اُس پر کوئی احسان نہیں ہے، جس کا بدلہ چکا رہا ہو، وہ صرف اللہ بزرگ و برتر کی رضا کے لیے (مال خرچ کرتا ہے )اور اللہ عنقریب اُس سے راضی ہو جائے گا‘‘ (اللیل:17تا21)۔ شیخ طبرسی ان آیات کی تفسیر میں لکھتے ہیں: ''ابوالزبیر سے مروی ہے: یہ آیات ابوبکرؓ کے متعلق نازل ہوئی ہیں، کیونکہ اُنہوں نے ایسے متعدد غلاموں کو خرید کر آزاد کیا جو مسلمان ہو چکے تھے، مثلاً بلالؓ اور عامرؓ بن فہیرہ وغیرہ‘‘۔ (مجمع البیان: ج:10، ص:776)۔ شیخ طبرسی کے مطابق اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں حضرت ابوبکرؓ کو راہِ حق میں خرچ کرنے والا سب سے زیادہ متقی قرار دیا ہے، جو اپنے مال کو صرف اللہ کی رضا کے لیے خرچ کرتے ہیں، اُنہیں جہنم سے نجات کی نوید سنائی ہے، آخرت میں اپنی رضا کی بشارت دی ہے، نیز یہ بھی واضح فرما دیا کہ وہ کسی کے احسان کا بدلہ نہیں چکا رہے۔
(23) حضرت علیؓ بیان کرتے ہیں: ''ہم رسول اللہﷺ کے ساتھ جبلِ حرا پر موجود تھے کہ (زلزلے کی وجہ سے) پہاڑ حرکت کرنے لگا تو آپﷺ نے فرمایا: ٹھہر جا! تجھ پر ایک نبی، دوسرا صدیق اور تیسرا شہید ہے‘‘ (الاحتجاج الشافی للطبرسی، ج: 2، ص:428)۔
(24) عروہ بن عبداللہ بیان کرتے ہیں: ''میں نے امام جعفر الصادق سے سوال کیا: تلواروں کے دستے پر چاندی چڑھانا جائز ہے، آپ نے فرمایا: اس میں کوئی حرج نہیں، کیونکہ ابوبکر صدیقؓ نے بھی اپنی تلوار کے دستے پر چاندی چڑھائی تھی، (عروہ کا گمان بھی یہ تھا کہ شاید اہل بیت اور صحابہ میں ناچاقی ہے، اس بنا پر) انہوں نے پوچھا: ''آپ بھی اُنہیں صدیق کہتے ہیں؟‘‘ وہ کہتے ہیں: یہ سن کر امام جعفر الصادق جلال میں کھڑے ہوگئے، قبلہ رخ ہوئے اور تین مرتبہ فرمایا: ہاں! وہ صدیق ہیں اور جو انہیں صدیق نہیں کہے گا، اس کی بات کو اللہ دنیا اور آخرت میں جھوٹا ثابت کرے گا‘‘ (کَشْفُ الْغُمَّہ فِیْ مَعْرِفَۃِ الْاَئِمَّۃ، ص:362)۔
(25) امام جعفر الصادق فرمایا کرتے تھے: ''میرا حضرت ابوبکرؓ سے دہرا نسبی رشتہ ہے‘‘، آپ کی والدہ اُم فروہ حضرت ابوبکر صدیقؓ کی پڑپوتی تھیں، یعنی قاسم بن محمد بن ابی بکر صدیق کی صاحبزادی تھیں اور اُمِ فروہ کی والدہ حضرت ابوبکر صدیقؓ کی پوتی تھیں، یعنی اسماء بنت عبدالرحمن بن ابی بکر تھیں‘‘ (کَشْفُ الْغُمَّہ، ص:376)‘‘۔
(26) محمد بن حنفیہؓ بیان کرتے ہیں: ''میں نے اپنے والد ماجد حضرت علی رضی اللہ عنہ سے عرض کی: رسول اللہﷺکے بعد تمام لوگوں میں سب سے بہتر کون ہیں؟ فرمایا: ابوبکرؓ، میں نے عرض کی: پھر کون ہیں؟ فرمایا: عمرؓ‘‘ (بخاری:3671)۔
(27) حضرت علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: ایک دن مشرکین نے رسول کریمﷺ کو اپنے گھیرے میں لے لیا، وہ کہہ رہے تھے کہ تم وہی ہو جو کہتا ہے: خدا ایک ہے، خدا کی قسم! حضرت ابوبکرؓ کے سوا کسی کو ان مشرکین سے مقابلے کی جرأت نہیں ہوئی، وہ آگے بڑھے، مشرکین کو مار کر اور دھکے دے کر ہٹاتے اور فرماتے: تم پر افسوس ہے کہ تم ایسے شخض کو ایذا پہنچا رہے ہو جو کہتا ہے: ''میرا رب صرف اللہ ہے‘‘، یہ فرما کر حضرت علیؓ اتنا روئے کہ آپ کی ڈاڑھی تر ہو گئی، پھر فرمایا: لوگو! یہ بتاؤ کہ آلِ فرعون کا مومن اچھا تھا یا ابوبکرؓ اچھے تھے، لوگ یہ سن کر خاموش رہے تو حضرت علیؓ نے فرمایا: لوگو! جواب کیوں نہیں دیتے، خدا کی قسم! ابوبکرؓ کی زندگی کا ایک لمحہ آلِ فرعون کے مومن کی ہزار ساعتوں سے بہتر ہے، کیونکہ وہ لوگ اپنا ایمان ڈر کی وجہ سے چھپاتے تھے اور ابوبکرؓ نے اپنے ایمان کا عَلانیہ اظہار کیا‘‘ (مسند البزار:761)۔
(28) ساتویں صدی ہجری کے معروف مُتَشَیِّع بزرگ شیخ ابن ابی الحدید لکھتے ہیں: ''عبداللہؓ بن مسعود بیان کرتے ہیں: عمرؓ کو لوگوں پر جن وجوہات کی بنا پر فضیلت حاصل ہے، اُن میں سے ایک یہ ہے کہ بدر کے قیدیوں کے متعلق اُن کی رائے کے موافق قرآن مجید کی یہ آیت نازل ہوئی: ''کسی نبی کے شایانِ شان نہیں کہ اُس کے پاس (جنگی) قیدی ہوں حتیٰ کہ وہ زمین میں اُن کا اچھی طرح خون نہ بہائے‘‘ (الانفال:67) (یہ حکم اُس وقت کے ساتھ خاص تھا) نبی کریمﷺ کی ازواج کے حجاب کے متعلق ان کی رائے کے مطابق یہ آیت نازل ہوئی: ''اور جب تم نبی کی ازواج سے کوئی چیز مانگو تو پردے کی اوٹ سے مانگو‘‘ (الاحزاب:53) اور اُن کی فضیلت کی ایک وجہ یہ ہے کہ نبی کریمﷺ نے حضرت عمرؓ کے اسلام کی دعا کی: اے اللہ! ان دوشخصوں میں سے کسی ایک کے ذریعے اسلام کوتقویت عطا فرما‘‘ (شرح نہج البلاغہ، ج:12، ص:57تا 58)۔
(29) مشہور شیعہ محقق عالم ابو عمرو محمد بن عبدالعزیز الکشی بیان کرتے ہیں: ''ابوعبداللہ (علیہ السلام) نے کہا مجھے سفیان ثوری نے محمد بن المنکدر سے یہ روایت کی ہے: حضرت علی (علیہ السلام) نے کوفہ میں منبر پر کھڑے ہو کر فرمایا: اگر میرے پاس ایسا شخص لایا گیا جو مجھے ابوبکر و عمر پر فضیلت دیتا ہو تو میں اس کو ضرور وہ سزا دوں گا جو مفتری (کذاب)کو سزا دی جاتی ہے، ابو عبداللہ (علیہ السلام) نے کہا: ہمیں مزید حدیث بیان کریں تو سفیان نے جعفر سے روایت کیا: ابوبکر و عمر سے محبت رکھنا ایمان ہے اور ان سے بغض رکھنا کفر ہے‘‘ (رِجَالُ الْکَشِّیْ، ص:338، مطبوعہ مُوْسَّسَۃُ الْاَعْلَمِیْ لِلْمَطْبُوْعَات، کربلا)۔
(30) ''حضرت ابوذر غفاریؓ بیان کرتے ہیں: میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: جو شخص مجھ پر سب سے پہلے ایمان لایا اور جس نے سب سے پہلے میری تصدیق کی وہی قیامت کے دن سب سے پہلے مجھ سے مصافحہ کرے گا‘ وہی صدیق اکبر ہے اور وہی فاروق ہے جو میرے بعد حق اور باطل میں فرق کرے گا‘‘ (رِجَالُ الْکَشِّی،ص:29)۔
(31) امام محمد باقرؓ بیان کرتے ہیں: جابرؓ بن عبداللہ نے بیان کیا: جب وصال کے بعد حضرت عمرؓ کو غسل دیکر کفن پہنایا گیا تو حضرت علیؓ تشریف لائے اور فرمانے لگے: اللہ ان پر رحمت فرمائے، میرے نزدیک تم میں سے کوئی شخص مجھے ان سے زیادہ محبوب نہیں کہ میں اُن جیسا نامہ اعمال لے کر بارگاہِ الٰہی میں حاضر ہوں۔ (تلخیص الشافی:219، مطبوعہ ایران)
(32) ''ایک شخص نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے پوچھا: میں نے خطبہ میں آپ کو یہ فرماتے سنا ہے: اے اللہ! ہم کو ویسی ہی صلاحیت عطا فرما جیسی تو نے ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کو عطا فرمائی تھی، ازراہِ کرم آپ مجھے ان ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کے نام بتا دیں، یہ سن کر حضرت علی رضی اللہ عنہ آبدیدہ ہو گئے اور فرمایا: وہ میرے دوست ابوبکرؓ و عمرؓ تھے، ان میں سے ہر ایک ہدایت کا امام اور شیخ الاسلام تھا، رسول کریمﷺ کے بعد وہ دونوں قریش کے مقتدیٰ تھے، جس شخص نے ان کی پیروی کی وہ اللہ تعالیٰ کی جماعت میں داخل ہو گیا‘‘ (تاریخ الخلفائ،ص:138)