اگر محترم مضمون نگار کے بیان کیے ہوئے اصول کو قبولِ عام دے دیا جائے تو آپ نے اِشکال نمبر5میں جویہ لکھا ہے : اس کلام وبیان کے ساتھ یہ خدشہ موجود ہے کہ کل وہ یہ بھی کہہ گزریں: کمزور یا عدم بار آور سپرم رکھنے والا مرد، کسی دوسرے مرد کا سپرم خرید کر اپنی اہلیہ کے ہاں میکانکی انداز سے منتقل کرواکے بچہ حاصل کرسکتا ہے، لیکن اس کا باقاعدہ اعلان کرنا ہوگا، اس کا وقوع امکان کے درجے سے بڑھ کر حقیقت کا روپ دھار چکا ہے، چنانچہ مغرب میں مصنوعی اعضا کی دکانیں برسرِ عام کھل گئی ہیں، شنید ہے کہ مغرب میں حتیٰ کہ بھارت میں بھی اس شعبے کے لیے باقاعدہ کاروباری بنیاد پر ایجنسیاں کھل گئی ہیں، پس ایسی صورت میں کنواری دوشیزائیں بھی شوقیہ یا اجرت پر اپنی خدمات پیش کرسکتی ہیں۔بھارت میں غربت کی وجہ سے یہ کام تیزی سے وسعت پذیر ہوگا۔الغرض انسان مرتبہ انسانیت سے گر کر حیوانیت کے درجے میں آگیاہے، معاشرے میں یہ عمل کسی عار کا سبب نہیں رہا، پس یہ شریعت کی تعلیمات سے دوری اور اخلاقی زوال کی انتہا ہوگی۔ شروع میں جو ہم نے لکھا ہے کہ Surrogationپر زنا کا اطلاق نہیں ہوتا، کیونکہ شریعت نے ثبوتِ زنا کے لیے سخت شرائط مقرر کی ہیں، یہی وجہ ہے کہ اس کی سزا بھی سنگین ہے۔
البتہ اگرکسی بیماری یا عارضہ کی وجہ سے شوہر عمل تزویج پر قادر نہ ہویاعورت میں کوئی خرابی پائی جاتی ہو اور وہ اپنے شوہر کے ساتھ حاملہ ہونے کی صلاحیت نہ رکھتی ہوتومصنوعی عمل تولید یا ٹیسٹ ٹیوب بے بی کے ذریعے حقیقی شوہر کا جرثومہ اس کی اپنی بیوی کے رحم میں منتقل کرنا شرعاً ناپسندیدہ ہونے کے باوجود جائز ہے۔ ہمارے فقہا پر اللہ تعالیٰ کروڑوں رحمتیں نازل فرمائے‘ اُنہوں نے آج سے تقریباً ایک ہزاربرس پہلے ایسے اُصول و قواعد بیان کردیے کہ جن سے کئی سو برس بعد پیش آنے والے مسائل حل ہوگئے، حتیٰ کہ صحبت کے بغیرعورت کے حاملہ ہونے کی صورتوں کو بیان فرمادیا۔ابن سَماعہ بیان کرتے ہیں :امام ابوحنیفہ نے فرمایا:''کسی باندی نے اپنے مالک کے مادّہ مَنویّہ کو کسی چیز میں لے کر اپنے رحم میں داخل کرلیا، اس سے وہ حاملہ ہوگئی اور اس نے بچہ جنا، تو بچہ اس کے مالک کا ہوگا اور وہ اُمِّ وَلَد قرار پائے گی‘‘ (المحیط البرہانی، ج:9، ص:404)۔علامہ ابن ہمام لکھتے ہیں: ''یہ جو کہا گیا ہے کہ کسی شخص سے ثبوتِ نسب سے یہ لازم نہیں آتا کہ اس نے جماع بھی کیا ہو، کیونکہ بغیر جماع کے بھی عورت کے رحم میں نطفہ پہنچانے سے عورت حاملہ ہوجاتی ہے، تو ایسی صورت نادر الوقوع ہے‘‘ (فتح القدیر، ج: 4، ص:350)۔
آپ نے اجرت کے عوض یا رضاکارانہ اپنا رحم پیش کرنے والی ماں کے حوالے سے پوچھا ہے:''آج کے دور میں یہ مسئلہ آیا ہے کہ اگر ایک خاتون اپنے رحم میں جسمانی نقص کے سبب ماں نہیں بن سکتی تو آیا دوسری خاتون کو کرائے پر حاصل کر کے اس سے بچہ پیدا کرایا جاسکتا ہے، اس حوالے سے شریعت کی روشنی میں آپ کا موقف کیا ہے؟ دوسرا یہ کہ خاتون کسی جسمانی نقص میں مبتلا نہیں ہے، لیکن وہ بچہ پیدا کرنے کی زحمت اٹھانے کے لیے آمادہ نہیں ہے اور زوجین باہمی اتفاقِ رائے سے دوسری خاتون کی خدمات حاصل کر کے بچہ پیدا کرواتے ہیں، کیا شریعت کی رو سے یہ جائز ہے؟ ‘‘، اس کی بابت ڈاکٹر وہبہ زحیلی لکھتے ہیں:''مصنوعی عملِ تولید یعنی صحبت کے بغیر مادہ مَنویّہ کو عورت کے رحم میں داخل کرنا، پس اگر یہ عمل حقیقی شوہراپنی بیوی کے لیے اپنے مادّہ مَنویّہ کے ساتھ کرتا ہے توشرعاً جائز ہے، بلکہ بعض اوقات جب بیوی سے صحبت کرنے میں کوئی شرعی مانع پایاجاتا ہوایسا کرنا مستحب ہے۔لیکن اگر یہ عمل کسی ایسے شخص کے مادہ منویہ کے ذریعے کیاجائے جو عورت کے لیے اجنبی ہواور ان کے درمیان ازدواجی رشتہ نہ ہو، تو ایسا کرنا حرام ہے، اس لیے کہ یہ معناً(نہ کہ حقیقتاً)زنا ہے، کیونکہ عورت کے رحم میں ایسے شخص کا نطفہ پہنچایا جاتا ہے کہ ان دونوں درمیان زوجیت کا رشتہ نہیں ہوتا اور یہ عمل انسانی اَقدار کے بھی خلاف ہے‘‘۔ (اَلْفِقْہُ الْاِسْلَامِیْ وَاَدِلَّتُہ، ج:4، ص:2649)
علامہ غلام رسول سعیدی نے اس مسئلے کی تحقیق کے لیے کہ بچہ صاحبِ فراش کا ہے، امام سرخسی کا حوالہ دیا ہے، اس بحث کے بارے میں برطانیہ سے مولانا عبدالمجید شرقپوری لکھتے ہیں:''ٹیسٹ ٹیوب بے بی پر بھی حضرت علامہ نے بہت مبسوط بحث کی ہے، میں نے جب اس کا مطالعہ کیا تو بہت محظوظ ہوا، چند دنوں کے بعد میں ایک بین المذاہب مکالمے میں شریک ہوا، اس مکالمے میں ایک درجن کے قریب انگریز سکالر بھی تھے۔ میں نے اس مجلس میں اسلام کی حقانیت کے بارے میں چند باتیں پیش کرتے ہوئے کہا:رسول اللہﷺکا ماضی اور مستقبل کی خبریں دینا تو الگ رہا، میں تم کو ان کے ایک غلام کی کرامت بیان کرتا ہوں، علامہ شمس الدین سرخسی (متوفٰی 483ھ) نے لکھا ہے:''جو شخص بوجوہ جماع نہیں کر سکتا، ایسے شوہر کا نطفہ اگر جماع کے بغیر کسی اور ذریعے سے اُس کی بیوی کے رحم میں پہنچادیا جائے اور بچہ پیدا ہو جائے، تو اُس بچے کا نسب اس عورت کے شوہر سے ثابت ہو گا‘‘۔ (شرح صحیح مسلم، ج:3، ص: 938) میں نے کہا:میڈیکل سائنس کو آج معلوم ہوا کہ بغیر جماع کے بچہ پیدا ہو سکتا ہے جبکہ ہمارے فقہا نے ایک ہزار سال پہلے یہ مسئلہ بتا دیا تھا، یہ تقریر سنتے ہی اُن میں سے دو انگریزوں نے اسلام قبول کر لیا، میں نے ایک کا نام محمد سلیم اور دوسرے کا محمد عابد رکھا، اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے وہ دونوں نماز اوردینی مسائل سیکھ رہے ہیں۔علامہ سرَخسِی کی جس عبارت کا حوالہ سن کر دو انگریز سکالر مسلمان ہو گئے، وہ تقریباً ایک ہزار سال سے مبسوط میں چھپ رہی ہے، لیکن اس عبارت کومنظر عام پر لانے اور اس کو ٹیسٹ ٹیوب بے بی پر منطبق کرنے اور اسلامی فقہ کی ہمہ گیری اور آفاقیت کو اُجاگر کرنے کا سہراعلامہ غلام رسول سعیدی کے سر ہے‘‘۔ (شرح صحیح مسلم، ج:1، ص:65-66)۔ بلاشبہ رسول اللہﷺنے نکاح کا مقصدافزائشِ نسلِ انسانی کو قرار دیا ہے، چنانچہ حدیث مبارک میں ہے:''ایک شخص نبی ﷺکے پاس آیا اورعرض کی:میں نے ایک خاندانی اور جمال والی عورت پائی ہے لیکن وہ بچہ جننے کی صلاحیت نہیں رکھتی، کیا میں اُس سے نکاح کرلوں، آپ ﷺنے فرمایا:نہیں، پھر اس نے دوبارہ اور سہ بارہ یہی سوال کیا، ہربار آپ ﷺنے منع کرتے ہوئے فرمایا:زیادہ محبت کرنے والی اور زیادہ بچے پیدا کرنے کی صلاحیت رکھنے والی عورت سے نکاح کرو، کیونکہ میں تمہاری کثرت کے سبب دوسری امتوں پر فخر کا اظہار کروں گا‘‘ (ابودائود: 2050)۔
آپﷺکا فرمان ایک ترجیحی امر ہے، ایسا ضروری نہیں ہے، کئی ازواجِ مطہراتؓ سے آپﷺ کے بچے پیدا نہیں ہوئے، لیکن اس کے باوجود آپﷺ نے ان کو طلاق نہیں دی، ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا رسول اللہﷺکی واحد کنواری بیوی تھیں اوران سے آپﷺ کی کوئی اولاد نہیں ہوئی، لیکن اس کے باوجود آپﷺ ان سے محبت فرماتے تھے اوران کا لقب حَبِیْبَۃُ الرَّسُوْل(محبوبہ رسول)تھا۔
جہاں تک اولاد کاتعلق ہے تو ایک مسلمان کو اس بات پر پختہ یقین رکھناچاہیے کہ اولادعطا کرنے والی اور اس سے محروم رکھنے والی ذات اللہ تعالیٰ کی ہے، اگر شادی کے بعد کچھ سالوں تک اولاد نہ ہو تو مایوس ہونے اور ناجائز ذرائع واسباب اختیار کرنے کے بجائے رجوع الی اللہ اور صبر و توکل سے کام لینا چاہیے اور اس مقصدکے لیے جائز اسباب اختیار کرنا توکل کے منافی نہیں ہے۔علاج کی ضرورت ہو تو جائز طریقوں سے علاج بھی کرنا چاہیے، تمام اسباب اختیار کرنے کے باوجود اگر اولاد نہ ہو توتولید وتناسل کی صلاحیت کی طرح بانجھ پن بھی اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کی طرف سے ہے، اللہ پاک جسے چاہے اپنی حکمت کے تحت بانجھ کردیتا ہے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ''آسمانوں اور زمینوں میں حکومت اللہ ہی کی ہے، وہ جو چاہے پیدا کرتا ہے، جسے چاہتا ہے بیٹیاں عطا کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے (صرف)بیٹے عطا کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے بیٹے اور بیٹیاں(دونوں )عطا کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے بانجھ کردیتا ہے، بیشک وہ بے حد علم والا بہت قدرت والا ہے‘‘۔ (الشوریٰ:49-50) لیکن بانجھ پن کی صورت میں خلافِ شرع طریقے اختیار کرنا جائز نہیں ہے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:''(وہ مومن کامیاب ہوگئے)جو اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرنے والے ہیں، ماسوا اپنی بیویوں کے یا وہ جو اُن کی مِلک میں ہیں، یقینا وہ ملامت زدہ نہیں ہیں، پس جو کوئی ان کے علاوہ (اپنی خواہش کی تکمیل )چاہے گا، تو وہی لوگ(اللہ کی حدود سے)تجاوز کرنے والے ہیں‘‘۔ (المومنون: 5تا 7)
یہ اللہ کی طرف سے آزمائش بھی ہوسکتی ہے، ایک مومن کی شان یہ ہونی چاہیے کہ وہ ہر حال میں اللہ تعالیٰ کے احکام کو مقدم رکھے، شوہر اگر بیوی کے بے اولاد ہونے کی وجہ سے اولاد کا خواہش مند ہے تو شریعت نے اس کے لیے دوسرے نکاح کی گنجائش رکھی ہے اور اگر بیوی لاوَلد ہے اور اولاد کی خواہش مند ہے، تو اپنے کسی عزیز کے ایسے بچے کو، جس کا اس کے ساتھ مَحرم کا رشتہ ہو‘ گود لے سکتی ہے، لیکن گود لینے سے وہ اس کا یا اس کے شوہر کا وارث نہیں بنے گا، اس کا نسب بھی اس کے حقیقی باپ کی طرف منسوب ہوگااور سب سے بڑی بات قناعت اور تقدیرِ الٰہی پر راضی رہنا ہے، اس کے لیے خلافِ شرع طریقے اختیار کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہم اسے اُس درجے کی شرعی ضرورت قرار نہیں دے سکتے، جس کی بابت یہ فقہی اصول بیان کیا گیا ہے:''ضرورتیں ممنوعات کو مباح کردیتی ہیں‘‘ اور ضرورت کو بھی اُس کی حد کے اندر رکھا جائے، اُسے عام معمول نہ بنایا جائے۔مضمون نگار صاحب بہت سے معاملات میں تقریباً اباحتِ کُلی کے قائل ہیں، فقہ اور اصولِ فقہ تو دور کی بات‘ وہ احادیثِ مبارکہ کی قید سے آزاد ہوکر قرآن کو سمجھنا اور بیان کرنا چاہتے ہیں، ہم اپنی بشری استطاعت کی حد تک اُصولِ شرعِ مُطَہِّر کے پابند ہیں۔