"MMC" (space) message & send to 7575

علامہ جمیل احمد نعیمی کا سانحۂ ارتحال(1936ء۔2020ء)

دارالعلوم نعیمیہ کے ٹرسٹی اور ناظمِ تعلیمات استاذ العلماء علامہ جمیل احمد نعیمی ضیائی صابری رَحِمَہُ اللّٰہُ تَعَالیٰ نے 17 نومبر 2020ء نصف شب کو داعیٔ اجل کو لبیک کہااوراپنی آخری منزل کی طرف کوچ کر گئے، فَاِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن، اِنَّ لِلّٰہِ مَا اَخَذَ وَلَہٗ مَا اَعْطٰی وُکُلُّ شَیْ ئٍ عِنْدَہٗ بِاَجَلٍ مُسَمّٰی۔
علامہ جمیل احمد نعیمی غیر منقسم ہندوستان میں انبالہ چھائونی کے علاقے میں 1936ء میں پیدا ہوئے،قیامِ پاکستان کے بعد 1947ء میں اپنے والدین کے ہمراہ ہجرت کر کے لاہور آئے اور ابتدائی سال شاہ عالم لاہور میں گزارے، پھر 1950ء میں آپ کے خاندان نے کراچی کی طرف ہجرت کی اور پھر تادمِ آخریں یہیں مقیم رہے۔ سکول کی ابتدائی تعلیم کے بعد 1952ء میں دارالعلوم مخزنِ عربیہ بحر العلوم آرام باغ کراچی میں داخل ہوئے اور 1960ء میں دینی تعلیم کی تکمیل کی اور مسندِ فضیلت پر فائز ہوئے۔ آپ کے اساتذہ کرام میں سب سے نمایاں نام تاج العلماء علامہ مفتی محمد عمر نعیمی رحمہُ اللہ تعالیٰ کا تھا، جو صدر الافاضل علامہ سید محمد نعیم الدین مراد آبادی رحمہُ اللہ تعالیٰ کے شاگردِ خاص تھے، ان سے اکتسابِ فیض کیا، پھر جامعہ نعیمیہ مراد آباد میں مدرس ومفتی کے منصب پر فائز رہے اور 1950ء میں ہجرت کر کے کراچی چلے آئے۔ یہاں انہوں نے آرام باغ میں اپنا دینی ادارہ ''مخزنِ عربیہ بحرالعلوم ‘‘ قائم کیا، جو ان کے وصال کے بعد زیادہ عرصہ نہ چل سکا۔ علامہ جمیل احمد نعیمی نے کچھ عرصہ اس ادارے میں تدریس کے فرائض انجام دیے اور تاحیات وہ سبز مسجد صرافہ بازار کراچی میں خطابت کے فرائض انجام دیتے رہے۔ 1973ء میں ہم نے ''دارالعلوم نعیمیہ ٹرسٹ‘‘قائم کیا، حضرت علامہ ڈاکٹر مفتی سید شجاعت علی قادری رَحِمَہُ اللّٰہُ تَعَالیٰ اس کے منیجنگ ٹرسٹی اور راقم الحروف پہلے جنرل سیکرٹری اور بعد میں 1993ء میں مفتی صاحب رَحِمَہُ اللّٰہُ تَعَالیٰ کے وصال کے بعد منیجنگ ٹرسٹی مقرر ہوئے،نیز بالترتیب علامہ جمیل احمد نعیمی، علامہ مفتی محمد اطہر نعیمی، مولانا محمد اقبال حسین نعیمی، حافظ محمد ازہر نعیمی اور مولانا سراج احمد نعیمی رَحِمَہُمُ اللہ تعالیٰ ٹرسٹی مقرر ہوئے۔ علامہ جمیل احمد نعیمی ناظمِ تعلیمات مقرر ہوئے،تعلیمی نظم بندی کے ساتھ ساتھ مختلف شعبوں بالخصوص شعبۂ حدیث میں تدریس کے فرائض بھی انجام دیتے رہے؛ تاہم جب آپ کی صحت زوال پذیر ہوئی تو آپ نے تدریس کا سلسلہ موقوف فرمادیا، البتہ باقاعدگی سے تشریف لاتے، لائبریری میں کتب کا مطالعہ کرتے، اپنے وقت کے مشاہیر سے خط وکتابت کرتے،اپنے احباب اور محبین سے ملاقاتیں فرماتے اورلائبریری کی نگرانی بھی فرماتے۔ تحریک نظامِ مصطفی میں جیل بھی گئے۔
علامہ جمیل احمد نعیمی کو اللہ تعالیٰ نے بے پناہ قوتِ حافظہ سے نوازا تھا، اشخاص واماکن اور کتب کے نام اور حوالے انہیں ازبر رہتے، زندگی میں جس سے بھی ایک بار ملاقات ہوئی، انہیں وقت، مقام اور تاریخ کے حوالے سے ہمیشہ یاد رہی۔ علامہ صاحب نہایت خلیق اور مزاجاً نہایت متواضع انسان تھے،ہم نے طویل عرصہ ایک ادارے میں ایک ساتھ کام کیا، لیکن الحمد للہ! کبھی جبیں پر شکن نہیں آئی، ہر ایک کے دل میں جگہ بنالیتے، پاک وہند اور بیرونِ ملک اپنے معاصر علماء ومشایخ سے ہمیشہ رابطے میں رہتے، کسی کی تعزیت پر خط لکھنا کبھی نہ بھولتے۔قلم میں روانی نہیں تھی، لیکن اپنی یادداشت پر انہوں نے کئی کتابیں لکھوائیں، جو بجائے خود ایک تاریخ ہیں۔ آپ کی خطابت کا انداز سادہ مگر پُرکشش تھا، تقریر میں اشعار کا استعمال بھی خوب فرماتے اور کتابوں اور بزرگوں کے حوالہ جات تاریخ کے ساتھ بیان فرماتے، انہیں اس بات کا شوق بھی رہتا کہ آج کے نوجوان علماء اُن سے اہلسنّت وجماعت کے تاریخی واقعات سنیں تاکہ وہ ذہنی،فکری اور عملی اعتبار سے اپنے ماضی سے جڑے رہیں اور اپنے اسلاف کے افکارِ زرّیں سے رہنمائی حاصل کر کے اپنی منزل کا تعیّن کریں۔ علامہ جمیل احمد نعیمی کے چند مخلص اہلِ ثروت دوست تھے، ان کے ذریعے وہ ضرورت مند اشخاص، اہلسنّت کے دینی مدارس، تنظیمات وتحریکات اور تصنیف وتالیف کے شعبے سے وابستہ افراد کی خاموشی سے اعانت کیا کرتے تھے۔
علامہ جمیل احمد نعیمی اپنے مزاج کے اعتبار سے تحریکی اور تنظیمی شخص تھے، انہوں نے اپنی عملی زندگی کے ابتدائی ایام میں اکتوبر 1962ء میں انجمنِ محبّانِ اسلام قائم کی اور20 جنوری 1968ء کو انجمنِ طلبۂ اسلام کی بنیاد ڈالی اور اس کی تنظیم اور تحریک کے لیے پاکستان کے شہر شہر، قصبہ قصبہ، قریہ قریہ اور کوچہ کوچہ گئے۔ بعد میں اے ٹی آئی نے کالجوں کی طلبہ یونینوں میں نمایاں کامیابیاں حاصل کیں۔ آپ حضرت علامہ عبدالحامد بدایونی کے دور میں بھی جمعیت علمائے پاکستان سے وابستہ رہے، پھر کراچی کے اکابر علمائے اہلسنّت نے 1967-68ء میں جماعتِ اہلسنّت کی بنیاد ڈالی، آپ نے اس میں بھی متحرک کردار ادا کیا، بعد کو اسی جماعت اہلسنّت نے جمعیت علمائے پاکستان کے پلیٹ فارم سے 1970ء کے قومی وصوبائی انتخابات میں حصہ لیا اور نمایاں کامیابی حاصل کی، اُس وقت شیخ الاسلام حضرت خواجہ قمر الدین سیالوی رَحِمَہُ اللّٰہُ تَعَالیٰ اس کے صدر تھے، بعد کو قائدِ اہلسنّت وقائدِ ملّتِ اسلامیہ علامہ شاہ احمد نورانی صدیقی ؒ جمعیت علمائے پاکستان کے صدر منتخب ہوئے۔
1970ء کے زمانے میں جماعتِ اہلسنّت کو کراچی میں بے پناہ مقبولیت اور عروج حاصل تھا، اُس وقت کے ہمارے اکابر علامہ شاہ احمد نورانی صدیقی، علامہ عبدالمصطفیٰ الازہری، علامہ مفتی محمد شفیع اوکاڑوی، علامہ سید سعادت علی قادری، علامہ مفتی سید شجاعت علی قادری، علامہ محمد حسن حقانی اورعلامہ جمیل احمد نعیمی رحمہم اللہ تعالیٰ جیسی مایہ ناز شخصیات ایک پلیٹ فارم پر نظر آتی تھیں۔ علامہ سید سعادت علی قادری 1971ء میں سری نام چلے گئے تو علامہ جمیل احمد نعیمی جماعتِ اہلسنّت کے ناظمِ اعلیٰ مقرر ہوئے، راقم الحروف جماعت کا خازن تھا، سعید منزل ایم اے جناح روڈ پر جماعتِ اہلسنّت کا مرکزی دفتر تھا جو بعد میں اَخلاف کی نااہلی کی وجہ سے ہاتھ سے نکل گیا۔ جماعتِ اہلسنّت کے زیرِ اہتمام ماہنامہ ''ترجمانِ اہلسنّت‘‘ کا اجرا ہوا، علامہ جمیل احمد نعیمی اُس کے پبلشر، علامہ مفتی سید شجاعت علی قادری صدر مجلسِ ادارت اور راقم الحروف مدیر مسئول تھا۔ تین سال تک بلاناغہ یہ ماہنامہ جاری رہا، ہم نے اس کے تحت تاریخی '' ختمِ نبوت نمبر ‘‘نکالا، جو اُس وقت کے اراکینِ قومی اسمبلی میں تقسیم ہوا، جبکہ قومی اسمبلی قادیانیوں کے مسئلے پر بحث کر رہی تھی، اُسی کے نتیجے میں بالآخر پاکستان کی پارلیمنٹ نے اتفاقِ رائے سے 7 ستمبر 1974ء کو قادیانیوں کودوسری آئینی ترمیم کے ذریعے غیرمسلم قرار دیا، اس قرارداد کے محرِّک قائدِ اہلسنّت علامہ شاہ احمد نورانی صدیقی تھے۔
جمعیت علماء پاکستان پر ایک مشکل وقت بھی آیا، جب متحدہ پاکستان کو شکست وریخت سے بچانے کے لیے علامہ شاہ احمد نورانی صدیقی ڈھاکا گئے، عاقبت نااندیش سیاستدانوں، خوشامدی میڈیا اور ناتجربہ کار سیاسی کارکنوں نے مخالفت شروع کردی، کیونکہ اُس وقت ایک منفی سوچ پیدا کی جارہی تھی، بظاہر تویہ جذبات شیخ مجیب الرحمن کے خلاف ابھارے جارہے تھے، لیکن درحقیقت یہ سقوطِ مشرقی پاکستان کی ابتدا اور متحدہ پاکستان کے خلاف سازش تھی، پھر 16دسمبر1971ء کو اس چشمِ فلک نے پلٹن میدان ڈھاکا میں وہ منظر دیکھا جو ہر ذی شعور پاکستانی کے ذہن سے کبھی محو نہیں ہوگا۔جو شخص1970ء میں پیدا ہوا، آج اس کی عمر پچاس سال ہے، لیکن اُسے کچھ خبر نہیں کہ 16 دسمبر 1971ء کو پاکستان پر کیسی قیامت گزر گئی۔ علامہ جمیل احمد نعیمی نے علامہ شاہ احمد نورانی صدیقی کے ساتھ زندگی کے آخری سانس تک وفا کا عہد نبھایا۔مجھے یہی گلہ ہے کہ ہمارے ہاں قومی اور ملکی تاریخ نہیں پڑھائی جاتی،پاکستان کی تاریخ ہمارے نصابِ تعلیم کا حصہ نہیں ہے، شاید اس کا مقصد یہ ہو کہ قوم کی نوجوان اور آنے والی نسلوں کو تاریخِ پاکستان سے بے خبر رکھا جائے تاکہ قومی مجرموں کے مکروہ چہرے نظروں سے اوجھل رہیں اور یہاں حقیقی احتساب کی روایت کبھی بھی قائم نہ ہوسکے۔ الغرض علامہ جمیل احمد نعیمی ممتاز عالمِ دین، مفکر، مدرّس،مایہ ناز مؤرّخ، محقِّق، خطیب اور مصنف ہونے کے ساتھ ساتھ اہلسنّت کے اَسلاف کا مثالی نمونہ اور اَخلاف کے لیے قابلِ تقلید شخصیت تھے۔
کراچی میںروایت یہ تھی کہ مختلف علاقوں کے لوگ اپنے اپنے علاقوں میں میلاد النبیﷺ کے جلوس نکالا کرتے تھے، اس مقصد کے لیے علاقوں اور محلوں کی سطح پر انجمنیں قائم تھیں، جب 1970ء میں اہلسنّت کو سیاسی عروج ملا توعلامہ جمیل احمد نعیمی کی نظامتِ اعلیٰ کے زمانے میں ہم نے جماعتِ اہلسنّت پاکستان کے پرچم تلے کراچی کی تمام میلاد کمیٹیوں، انجمنوں اور تنظیموں کو جمع کیا اور اُن کو اس بات پر آمادہ کیا کہ متفرق طور پر جلوس نکالنے کے بجائے ایک ہی مرکزی جلوس نکالا جائے جوجشنِ میلاد مصطفیﷺ کے شایانِ شان ہو، تمام علاقوں سے جلوس مزارِ قائد پر مجتمع ہوں اور پھر نشتر پارک میں عظیم الشان جلسۂ میلاد النبیﷺ منعقد کیا جائے، اُس دور میں یہ جلسہ عظمت ووحدتِ اہلسنّت کا عظیم الشان مظہر تھا، ہمارے اُس دور کے اکابر علمائے اہلسنّت علامہ شاہ احمد نورانی صدیقی، علامہ عبدالمصطفیٰ الازہری،علامہ مفتی محمد شفیع اوکاڑوی، علامہ مفتی سید شجاعت علی قادری، علامہ سید سعادت علی قادری، علامہ جمیل احمد نعیمی، علامہ محمد حسن حقانی، پروفیسر شاہ فرید الحق، علامہ شاہ تراب الحق قادری، راقم الحروف سمیت علماء و مشایخ، تمام دینی، سیاسی اوررفاہی تنظیمات کے سربراہان ایک سٹیج پر نظر آتے، رنگارنگ پھولوں کا یہ گلدستہ پورے پاکستان کے لیے ایک مثالی نمونۂ عمل تھا، لوگ اسے رشک بھری نظروں سے دیکھا کرتے تھے، بعد میں یہ اکابر ایک ایک کر کے رخصت ہوتے چلے گئے، بے بہا علمی ہیرے اور موتی بکھرتے چلے گئے، وحدت کے وہ مظاہر تاریخ میں گم ہوتے چلے گئے۔ میری نظر میں آج ان اکابر کو حقیقی خراجِ عقیدت پیش کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ وحدت وجمعیت کی اُس فضا کا ایک بار پھر اِحیا کیا جائے، چشمِ فلک ایک بار پھر یہ حسین نظارہ دیکھے، زمینی اور آسمانی کواکب ونجوم ایک ساتھ جگمگ کریں اور اہلسنّت عروج کی منزل کو ایک بار پھر پالیں، یہ بظاہر ایک خوبصورت خواب ہے، موہوم سی امید ہے، مگر اللہ تعالیٰ کی قدرت سے کچھ بھی بعید نہیں ہے، اقبال نے کہا تھا:
نہیں ہے ناامید اقبالؔ اپنی کشتِ ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی
علامہ خادم حسین رضوی رَحِمَہُ اللّٰہُ تَعَالیٰ کا جنازہ اس خواب کی تعبیر پانے کے لیے ایک روشن مثال ہے، اس سے امید کی کرن نمودارہوتی ہے اور مایوسی کے بادل چھٹتے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں