کورونا وائرس ایک عالمی وبا ہے، تاحال اس سے بچائو کے لیے کوئی مؤثر ویکسین مارکیٹ میں نہیں آئی؛ اگرچہ برطانیہ، امریکا، روس اور چین نے ویکسین تیار ہونے کے دعوے کر رکھے ہیں اور مختلف ممالک کی تیار کردہ ویکسین کے نتیجہ خیز ہونے کی شرح ستّر تا نوّے فیصد بتائی جا رہی ہے۔ کورونا وائرس تاریخ انسانی کی ایک ایسی وبا ہے جس سے پسماندہ ممالک کے مقابلے میں جدید سائنسی اور فنی علوم میں دنیا کے صفِ اول کے ترقی یافتہ ممالک زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔ ہم چونکہ روایتی اعتبار سے طویل عرصے تک انگریزوں کی نوآبادیات رہے ہیں‘ اس لیے کسی تجزیے یا تحقیق کے بغیر آنکھیں بند کر کے تقلید کرناہمارا شعار بن گیا ہے اور ہمیں باور کرایا گیا کہ ''لاک ڈائون‘‘ اس وبا کا مقابلہ کرنے کا واحد حل ہے۔ بہت سے یورپی ممالک بالخصوص برطانیہ میں لاک ڈائون کے خلاف احتجاج ہو رہے ہیں، لیکن اس لاک ڈائون کے باوجود برطانیہ اور بعض مغربی ممالک میں تعلیمی ادارے کھلے ہیں، انہوں نے تعلیم پر تالا بندی نافذ نہیں کی، حالانکہ برطانیہ کی آبادی تقریباً چھ کروڑ ہے اور وہاں آج کل کورونا وائرس کی وجہ سے یومیہ اموات کی تعداد ہم سے دس گنا زیادہ ہے، اس کے برعکس الحمدللہ! پاکستان کی آبادی بائیس کروڑ سے متجاوز ہے اور حکومت کے اپنے بیان کے مطابق یومیہ اموات کی تعداد ساٹھ کے دائرے میں ہے۔ ہمارے ہاں کورونا وائرس کے بارے میں اعداد و شمار جاری کرنے اور اس کے سدِّباب کی تدابیر اختیار کرنے کے بارے میں ''نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سنٹر‘‘ قائم کیا گیا ہے۔ ہم اس بحث میں نہیں پڑتے کہ ان اعداد وشمار کی حقیقت کیا ہے، برطانیہ میں بی بی سی ٹیلی وژن پر ٹکر چل رہا تھا: ''اس بات کا کوئی سائنٹیفک ثبوت نہیں ہے کہ لاک ڈائون سے کورونا وائرس کنٹرول ہو جاتا ہے‘‘، الغرض کورونا وائرس کی وبا کے حوالے سے نظریاتی اختلافِ رائے مغرب کے اہلِ علم کے درمیان بھی موجود ہے۔
اس مسئلے کا آسان حل یہ نکالا گیا ہے کہ تعلیمی ادارے بند کردیے جائیں، پھر اس سے بھی زیادہ آسان تر حل یہ نکالا گیا کہ پڑھائے اور امتحان لیے بغیر اگلے درجے میں ترقی دے دی جائے، اب آپ غور فرمائیں کہ اس سے علم کو فروغ حاصل ہوگا یاجہالت کو۔ ایک اور اہم سوال یہ ہے کہ سکولوں کی بندش کی صورت میں کیا بچے گھروں میں محصور ہوکر رہ جائیں گے یا گلی کوچوں میں کھیل کود کریں گے اور میل جول ہو گا، جبکہ ماسک پہن کر بچے کلاس میں بیٹھ سکتے ہیں اور تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا جا سکتا ہے۔ کبھی کہا جاتا ہے :''آن لائن کلاسیں جاری رکھی جائیں‘‘، اور تو چھوڑیے! کیا ملک بھر میں پھیلے ہوئے سرکاری تعلیمی اداروں میں ایسی سہولت موجود ہے، کیا ملک کے نادار طبقات کے پاس ہر جگہ انٹرنیٹ کی سہولت موجود ہے یا حکومت نے اُس کی فراہمی کی ضمانت دی ہے۔ جن انگلش میڈیم اداروں میں آن لائن کلاسوں کے دعوے کیے جا رہے ہیں، وہ بھی محض علامتی اور برائے نام ہیں، یہ ہمارا ذاتی تجربہ ہے، اندھیرے میں تیر چلانے والی بات نہیں ہے، اگر بالفرض کہیں یہ سہولت موجود بھی ہو تو استاد کے ساتھ براہِ راست تعامل اور رابطے کے بغیر انتقالِ علم اعلیٰ معیار پر کسی صورت میں نہیں ہو سکتا، ورنہ ترقی یافتہ ممالک میں تعلیمی اداروں کا نظام ختم کرکے آن لائن تعلیم و تعلّم کا سلسلہ شروع ہوچکا ہوتا۔ سنّتِ الٰہیہ بھی یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی ہدایت کے لیے کتب بھی نازل فرمائیں اور رجالِ کتب یعنی انبیائے کرام علیہم السلام بھی مبعوث فرمائے تاکہ احکامِ الٰہی کو اپنی ذات پر نافذ کرکے قوم کے سامنے نمونۂ عمل پیش کریں۔
ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ درجنوں قسم کے اشرافیہ طبقات کے سکول پابندی سے فیس وصول کر رہے ہیں اور لوگ ادا کر رہے ہیں لیکن شہروں کے نسبتاً پسماندہ علاقوں کے گلی کوچوں میں اور دور دراز قصبات کے پرائیویٹ سکولوں میں جہاں ماہانہ فیسیں پانچ سو سے ہزار کے درمیان یا کم وبیش ہیں، انہیں فیسیں وصول نہیں ہو رہیں، اُن سکولوں میں ضرورت مند طبقات کی لڑکیاں اور لڑکے تدریس کے فرائض انجام دیتے ہیں اور انہیں پانچ سات ہزار کے درمیان تنخواہیں ملتی ہیں، وہ سب بے روزگار ہو چکے ہیں، کیا حکومت نے اُن کی اعانت کا کوئی انتظام کر رکھا ہے؟ سرکاری تعلیمی اداروں کے اساتذہ کو تو باقاعدہ تنخواہیں مل رہی ہیں، اس لیے تعلیمی اداروں کی بندش سے وہ راحت محسوس کریں گے۔
ماضی میں حکومتوں کو دینی مدارس وجامعات سے کوئی سروکار نہیں ہوتا تھا، لیکن اب حکومت چاہتی ہے کہ اُس کے فیصلوں کا اطلاق دینی مدارس پر بھی ہو، جبکہ دینی مدارس کا نظامِ تعلیم بالکل جدا ہے، یہاں ایک درجہ یا کسی فن کی ابتدائی یا وُسطانی کتب پڑھے بغیراگلے درجے میں ترقی عملاً ناممکن ہے۔ نہایت آسان اور قابلِ فہم بات سمجھ لیجیے: مثلاً ایک بچہ دس پارے کا حافظ ہے اور اُس کا حفظِ قرآنِ کریم کا سلسلہ جاری و ساری ہے، اچانک اُسے کہہ دیا جائے کہ آپ تین مہینے کے لیے گھر بیٹھ جائیں، جب آپ واپس آئیں گے تو آپ پندرہ پاروں کے حافظ ہو جائیں گے، آپ کو اس کے مطابق سند اور ترقی مل جائے گی؟ کیا ایسا ممکن ہے؟ حفظِ قرآنِ کریم میں علامتی درجاتی ترقی نہیں ہوتی، بلکہ بندہ یا تو حافظِ قرآن ہے یا نہیں ہے، درمیانی چیز کوئی بھی نہیں ہے، یہی صورتِ حال دینی علوم کے درجات اور ہر فن کی ترتیب وار کتب کی ہے کہ نچلے درجے کی کتاب پڑھے بغیر اوپر والے درجے کی کتاب کا سمجھنا طلبہ کے لیے عملاً ناممکن ہے، نیز یہ بات بھی قرینِ انصاف نہیں ہے کہ پڑھائی اور امتحان کے بغیر اگلے درجے میں ترقی دیدی جائے اور قابل و ناقابل کے درمیان کوئی درجاتی فرق باقی نہ رہے۔ یہ امر بھی پیشِ نظر رہے کہ دینی مدارس کی سالانہ تعطیلات کا تعلق موسم سے نہیں ہوتا، یہ ہمیشہ شعبان تا پندرہ شوال طے شدہ ہیں، اس لیے ان میں تقدیم و تاخیر نہیں ہو سکتی۔
امریکا میں نیویارک سٹیٹ کے گورنر انڈریو کومو نے سخت لاک ڈائون کا اعلان کرتے ہوئے عبادت گاہیں بھی بند کرنے کے احکام جاری کر دیے، یہودی مذہبی طبقات نے اس پر نیویارک کی عدالت میں اپیل کی تو فیصلہ حکومت کے حق میں آیا، پھر انہوں نے امریکا کی سپریم کورٹ میں اپیل کی تو سپریم کورٹ کے جج صاحبان نے پانچ اور چار کی نسبت سے یہودی مذہبی طبقات کے حق میں فیصلہ دے دیا کہ امریکا کی پہلی آئینی ترمیم کی رُو سے کسی کے بنیادی حقوق اور مذہبی حقوق کو سلب نہیں کیا جا سکتا۔ ''امریکی دستور کی پہلی ترمیم کانگریس کو پابند کرتی ہے کہ کسی خاص مذہب کو مستحکم کرنے یا اُس کے مذہبی معمولات کو روکنے کی بابت قانون نہیں بنایا جائے گا، یہ ترمیم آزادیٔ اظہار، پریس کی آزادی، اجتماع کی آزادی یا حکومت کے خلاف اُس کے کسی فیصلے یا حکم نامے کے خلاف پٹیشن کے حق کا تحفظ کرتی ہے‘‘۔
ہمارے ہاں حکومتوں کے اقدامات اوربیانات تضادات کا مظہر ہوتے ہیں، ایک طرف وزراء بیان دیتے ہیں کہ ڈیڑھ سو جلسے بھی حکومت کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے، دوسری طرف ایک جلسے کو روکنے یا ناکام بنانے کے لیے تمام ریاستی وسائل جھونک دیے جاتے ہیں، ہماری نظر میں اس کا فائدہ حکومت سے زیادہ اپوزیشن کو پہنچتا ہے‘ فارسی ضرب المثل کا مفہومی ترجمہ ہے ''ایسی عقل و دانش پر گریہ ہی کیا جا سکتا ہے‘‘۔
ان تمام تر گزارشات کا مقصد یہ ہے کہ عصری تعلیم کے میدان میں پاکستان پہلے ہی اقوامِ عالَم سے پیچھے ہے، پاکستان میں شرحِ خواندگی ناقابلِ رشک بلکہ باعثِ شرمندگی ہے۔ ہمارے لبرل حضرات نے مساجد کی بندش کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا، مگر اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا اور مذہبی طبقات کی کاوشیں کارگر ثابت ہوئیں، صدرِ پاکستان جناب ڈاکٹر عارف علوی اور وزیراعظم جناب عمران خان نے بھی حکمت و تدبراور وسعتِ نظر سے کام لیا اور مسئلہ اَحسن طریقے سے حل ہو گیا۔ پاکستان میں ایک دن کے لیے بھی مساجد بند نہیں ہوئیں اور یہ حرمین طیبین سمیت ساری دنیا میں پاکستان کا ایک امتیاز رہا۔ مساجد میں ارضی و سماوی آفات و بلیّات، بلائوں اور وبائوں سے نجات کے لیے روزانہ پانچ وقت دعائیں مانگی جاتی رہیں، مساجد میں قرآنِ کریم اور احادیثِ نبی کریمﷺ اور دینی علوم کے تعلیم و تعلّم کا سلسلہ ایک دن کے لیے بھی موقوف نہ ہوا اور اس کی برکت سے اللہ تعالیٰ نے پاکستان کو کافی حد تک اس عالمی وبا کے اثرات سے محفوظ رکھا، ورنہ خدا نخواستہ اگر مغربی ممالک کی طرح یہاں وبا کا پھیلائو ہو جاتا تو ہمارے نظامِ صحت کا پورا ڈھانچہ زمیں بوس ہو جاتا، ہماری رائے میں ہمارے کسی کمال نے نہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ کے فضل نے پاکستان کو بڑی حد تک محفوظ رکھا۔ وزیراعظم پاکستان نے ایک سے زائد مرتبہ اس بات کا اعتراف کیا کہ مساجد سے کورونا نہیں پھیلا، نیز جن احتیاطی تدابیر کے ساتھ پاکستان کی مساجد کھلی رہیں۔
تعلیم و تعلُّم کیلئے ایک آفت یہ بھی ہے کہ اگر طویل عرصے کیلئے تعلیم کا سلسلہ موقوف ہو جائے، تو پہلے کا پڑھا ہوا بھی بچوں کے ذہن سے نکل جاتا ہے اور طویل وقفے کے بعد تعلیم کا سلسلہ دوبارہ جاری رکھنے کی صورت میں پچھلا پڑھا ہوا ذہن میں تازہ کرنے کیلئے از سرِ نو اُسے دُہرانا پڑتا ہے، کیونکہ عمارت کا پہلا ردّا جب تک جم نہ جائے‘ اُس پر دوسرا رَدّا نہیں رکھا جا سکتا، ورنہ عمارت میں نقص رہ جاتا ہے، جو بعد میں پوری عمارت کیلئے خطرے کا باعث بنتا ہے، اس لیے این سی او سی سے ہماری استدعا ہے کہ تعلیمی اداروں کی بندش پر از سرِ نو غورکر کے اس بندش کو اٹھایا جائے، کیونکہ حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ صنعتی اداروں کو بند نہیں کیا جائے گا، تو کیا بڑے صنعتی اداروں میں انسانوں کا میل جول نہیں ہوتا؟ ہماری سلامتی کے ادارے ہر وقت ہائی الرٹ اور مصروفِ عمل نہیں ہوتے؟ نیز کیا حکومت کا نظام فرشتے یا جنّات چلا رہے ہیں یا ہمارے ہاں نئی نسل کی تعلیم ترجیحات میں شامل ہی نہیں ہے؟ اگر ایسا ہے تو یہ ایک بہت بڑا المیہ ہے۔ حکومت کا کام یہ ہے کہ تعلیمی اداروں میں ماسک اور سینیٹائزر فراہم کرے، ماحول کو حفظانِ صحت کے اصولوں کے مطابق بنائے، بیت الخلا سمیت صفائی کا اہتمام ہو، پینے کیلئے صاف پانی فراہم کیا جائے اور یہ محض وبا کے زمانے تک محدود نہ ہو، بلکہ ان امور کا مستقل اہتمام ہونا چاہیے۔