عربی زبان میں دنیایا تو دُنُوْئَ ۃْ اوردَنَائَ ۃْ سے مشتق ہے، اس کے معنی ہیں: ''خسیس ہونا، کمینہ وذلیل ہونا‘‘یا ''دَنِیْئٌ‘‘ سے یا ''دُنُوٌّ‘‘ سے ماخوذہے، اس کے معنی ہیں: کسی چیز کے قریب ہونا، کیونکہ دنیا آخرت کے مقابلے میں قریب ترین ہے، الطاف حسین حالی نے کہا ہے:
دنیائے دَنی کو نقشِ فانی سمجھو
رودادِ جہاں کو اِک کہانی سمجھو
پر جب کرو آغاز کوئی کام بڑا
ہر سانس کو عمر جاودانی سمجھو
احادیثِ مبارکہ میں ہے (۱)''حضرت عبداللہؓ بن عمر بیان کرتے ہیں: رسول اللہﷺ نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھااور فرمایا: دنیا میں اس طرح (اجنبی بن کر)رہو کہ گویا تم مسافر ہو یا راستہ عبور کرنے والے (یعنی اسے اپنی مستقل قرارگاہ نہ سمجھو)، پھر عبداللہؓ بن عمر کہا کرتے تھے: جب تم شام کرلو تو صبح کا انتظار نہ کرو اور جب تم صبح کرو تو شام کا انتظار نہ کرواور اپنی تندرستی کے زمانے میں اپنی (ممکنہ )بیماری کے لیے کچھ پس انداز کر کے رکھو اور اپنی حیات سے اپنی موت (یعنی عاقبت )کے لیے کچھ تیاری کر کے رکھو‘‘ (صحیح البخاری:6416)، (۲)''حضرت عبداللہؓ بن عباس بیان کرتے ہیں: رسول اللہﷺ نے ایک شخص سے نصیحت کرتے ہوئے فرمایا: پانچ چیزوں سے پہلے پانچ چیزوں کو غنیمت جانو: بڑھاپے سے پہلے جوانی کو، بیماری سے پہلے صحت کو، تنگدستی سے پہلے خوشحالی کو، کارِ معاش کی مشغولیت سے پہلے فراغت کو اور موت سے پہلے زندگی کو‘‘ (المستدرک علی الصحیحین للحاکم: 7846)‘‘۔ یعنی صحت کے عالَم میں وہ سب اچھے کام کر گزرو، جن کی تمہیں بیماری لاحق ہونے پر خواہش پیدا ہو اور ایسے کام کرو جن کا نفع تمہیں آخرت میں ملے۔
رسول اللہﷺ نے آخرت کی ابدی نعمتوں کے مقابلے میں دنیوی نعمتوں کی ناپائیداری کا احساس دلانے کے لیے فرمایا (۱)''آخرت کے مقابلے میں دنیا کی نعمتیں ایسی ہیں جیسے تم میں سے کوئی اپنی انگلی سمندر میں ڈبوئے اورپھر دیکھے کہ تمہاری انگلی کو لاحق ہونے والی تراوٹ سمندر کے مقابلے میں کیا حیثیت رکھتی ہے‘‘ (صحیح مسلم:2858)۔ دوسری حدیث میں دنیا کی نعمتوں کی ناپائیداری کو ایک مثال سے واضح فرمایا(۲)''حضرت جابرؓ بیان کرتے ہیں: رسول اللہﷺ کا گزربکری کے ایک مردہ کن کٹے بچے کے پاس سے ہوا، آپﷺ نے صحابہ سے فرمایا: تم میں سے کوئی اسے ایک درہم قیمت میں لے گا، انہوں نے عرض کی: ہم اسے کسی بھی قیمت پر لینا پسند نہیں کریں گے، آپﷺ نے فرمایا:اللہ کے نزدیک (آخرت کی نعمتوں کے مقابلے میں دنیا کی نعمتیں )اس سے بھی زیادہ بے توقیر ہیں‘‘ (صحیح مسلم:2957)، (۳)رسول اللہﷺ نے فرمایا:تم کو بشارت ہو اور اس چیز کی توقع کرو جو تم کو خوش کرے گی، پس اللہ کی قسم! مجھے تم پر فقر کا خوف نہیں ہے، لیکن مجھے تم پر خوف یہ ہے کہ تم پر دنیا کشادہ کردی جائے گی، جیسے تم سے پہلے لوگوں پر کشادہ کی گئی تھی، پس تم دنیا میں اس طرح رغبت کرو گے جس طرح انہوں نے رغبت کی تھی اور دنیا تم کو اس طرح ہلاک کردے گی جس طرح اس (دنیا) نے ان کو ہلاک کردیا تھا‘‘ (صحیح البخاری:4015)، (۴)''کعبؓ بن عیاض بیان کرتے ہیں: میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے ہوئے سنا:ہر امت کے لیے ایک آزمائش ہے اور میری امت کی آزمائش مال ہے‘‘ (سنن ترمذی: 2336)، (۵)''حضرت انسؓ بیان کرتے ہیں: نبیﷺ نے فرمایا: بنی آدم کو قیامت کے دن لایا جائے گا، وہ بھیڑ کے بچے کی طرح بے آبرو ہوگا، اُسے اللہ کے حضور کھڑا کردیا جائے گا، اللہ تعالیٰ اُس سے فرمائے گا: میں نے تجھے زندگی، صحت وسلامتی اور عافیت عطا کی اور تجھے بے پناہ مال عطا کیا، تو تم نے اُس کا کیا کیا، وہ عرض کرے گا: پروردگار! میں نے اُسے جمع کیا اور اُسے بڑھایا اور پہلے سے زیادہ چھوڑ کر آیا، پس مجھے ایک بار دنیا میں بھیج دیجیے کہ میں وہ سب کچھ لے کر حاضر ہوجائوں، لیکن چونکہ اُس بندے نے قیامت کے لیے کچھ بھی آگے نہ بھیجا تو اُس مال سمیت اُسے جہنم میں ڈال دیا جائے گا‘‘ (سنن ترمذی:2427)۔
(۶)''حضرت عبداللہؓ بن مسعود بیان کرتے ہیں: نبیﷺ نے فرمایا: ابنِ آدم سے قیامت کے دن پانچ سوال کیے جائیں گے: یہ کہ اُس نے اپنی زندگی کیسے گزاری، اپنے عالَم شباب کو کیسے ضائع کیا، اپنا مال کیسے کمایا اور کہاں خرچ کیااور اپنے علم کے تقاضوں کے مطابق کس حد تک عمل کیا‘‘ (سنن ترمذی:2416)، (۷)''حضرت ابوذرؓ بیان کرتے ہیں: رسول اللہﷺ نے فرمایا: جس کے دل کو اللہ تعالیٰ نے ایمان کے لیے خالص کردیا تو وہ فلاح پاگیا، اُس کے قلب کو اللہ نے (حسد، کینہ، بغض اور اخلاقِ ذمیمہ سے) محفوظ فرمادیااور اس کی زبان کو (اپنے قول وقرار میں ) صدق پر قائم رکھا اور اس کے نفس کو نفسِ مُطْمَئِنَّہْ بنایا(جس کی شان قرآنِ کریم میں یہ بیان کی گئی کہ وہ رب سے راضی ہوا اور رب اُس سے راضی ہوا)اور اُس کی فطرت کو(اِفراط وتفریط سے بچاکر) مستقیم بنایااور اس کے کانوں کو (پیغامِ حق کوتوجہ کے ساتھ) سننے والا بنایا اور اس کی آنکھوں کو (اَنفس و آفاق میں) اللہ کی قدرت کے دلائل کو دیکھنے والا بنایا‘‘ (شعب الایمان:108)۔
عام انسانی فطرت یہ ہے کہ جس چیز کی کثرت اور فراوانی ہوجائے، اُس سے طبیعت اُچاٹ ہوجاتی ہے، اُس کی خواہش ماند پڑنے لگتی ہے، لیکن دنیا کے مال وزر اور متاع واسباب کی، اس میں نعمتِ اقتدار بھی شامل ہے، جتنی کثرت ہوتی ہے، اتنی ہی اُس کی طلب بڑھ جاتی ہے اور حرص وہوس میں اضافہ ہوتا ہے اور یہ ہم میں سے ہر ایک کا مشاہدہ ہے۔ اسی حقیقت کو احادیثِ مبارکہ میں بیان فرمایا: (۱)''حضرت عباس بن سہل بیان کرتے ہیں: میں نے عبداللہؓ بن زبیر کو مکۂ مکرمہ میں منبر پر خطبہ دیتے ہوئے سنا، وہ کہہ رہے تھے: لوگو! نبیﷺ فرمایا کرتے تھے: اگر ابنِ آدم کو سونے سے بھری ہوئی ایک وادی دے دی جائے تو وہ دوسری وادی کی تمنا کرے گا اور اگر اسے دوسری وادی بھی دے دی جائے تو وہ تیسری وادی کی تمنا کرے گااور ابن آدم کے پیٹ کو کوئی چیز نہیں بھرے گی سوائے قبر کی مٹی کے اور اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول فرماتا ہے جو اس سے توبہ کرتا ہے‘‘ (صحیح البخاری:6438)، (۲)''کعب بن مالک اپنے والد سے بیان کرتے ہیں: رسول اللہﷺ نے فرمایا: دوبھوکے بھیڑیے بکریوں کے ایک ریوڑ میں چھوڑ دیے جائیں تو وہ اتنی بربادی نہیں کرتے، جتنا مال کی حرص وہوس اور جاہ کی طلب اُس کے دین کو برباد کرتی ہے‘‘ (سنن ترمذی: 2376)۔
ہمارے نظام میں، خواہ گزشتہ حکمران ہوں یا موجودہ، لوٹ مار کی داستانیں میڈیا پر آتی رہتی ہیں، ملک کو جاہل اور نادار لوگوں نے نہیں لوٹا، بلکہ اُن لوگوں نے لوٹا، جن کے پاس پہلے سے دولت کے انبار تھے اور آج اُن سے حساب طلب کیا جارہا ہے، مگر وہ دولت اُن کے کس کام کی جو نہ اُن کی عزت کی حفاظت کرسکے اور نہ نجات کا سامان بن سکے، اسی لیے احادیثِ مبارکہ میں اس کی طرف بار بار متوجہ فرمایا، رسول اللہﷺنے فرمایا:(۱)''بندہ کہتا ہے میرا مال، میرا مال، اُس کے جمع کردہ مال میں اُس کا حصہ تو فقط تین چیزیں ہیں:ایک جو اُس نے کھالیا اور فنا ہوگیا، دوسرا جو اُس نے پہن لیا اور بوسیدہ ہوگیا یا وہ جو اُس نے اللہ کی راہ میں دیدیا اور وہ اس کے لیے ذخیرۂ آخرت بن گیااور جو کچھ اس کے سوا ہے، سو وہ سفرِ آخرت پر رواں دواں ہے اور آخر میں لوگوں (وارثوں) کے لیے چھوڑ جائے گا‘‘ (صحیح مسلم:2959)، (۲) ''حضرت عثمان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: نبیﷺ نے فرمایا: بنی آدم کا صرف تین چیزوں میں حق ہے : رہنے کے لیے گھر، بدن چھپانے کے لیے لباس اور سامانِ خوراک‘‘ (سنن ترمذی:2341)، (۳)حضرت انسؓ بیان کرتے ہیں: آپﷺ نے فرمایا: ''میت کے ساتھ (قبر تک) تین چیزیں جاتی ہیں، اُن میں سے دو چیزیں قبر سے لوٹ آتی ہیں اور ایک چیز باقی رہ جاتی ہے، قبر تک ساتھ جانے والی یہ تین چیزیں اُس کے اہل، اس کا مال اور اس کا عمل ہیں، سو قبر کے کنارے سے اُس کے رشتے دار اورمال لوٹ آتے ہیں اور اس کا عمل باقی رہ جاتا ہے‘‘ (صحیح البخاری:6514)، (۴)''حضرت عبداللہؓ بن مسعود بیان کرتے ہیں: رسول اللہﷺ نے فرمایا: تم میں سے کون ہے جس کے نزدیک اُس کے وارث کا مال اُس کے اپنے مال سے زیادہ محبوب ہے، صحابہ نے عرض کی: یارسول اللہ! ہم میں سے ہر ایک کو وارث کے مال کے مقابلے میں اپنا مال زیادہ محبوب ہے، تو آپﷺ نے فرمایا: پس تمہارا مال تو وہ ہے جو تم نے (آخرت کے لیے )آگے بھیجا اور جو کچھ پیچھے چھوڑا، وہ تو اس کے وارث کا مال ہے‘‘ (صحیح البخاری:6442)، (۵)''حضرت سہلؓ بن سعد بیان کرتے ہیں: ایک شخص نبیﷺ کے پاس حاضر ہوااور عرض کی: یارسول اللہ! مجھے ایسا عمل بتائیے کہ جب میں کروں تو اللہ بھی مجھ سے محبت فرمائے اور لوگ بھی مجھ سے محبت کریں، آپﷺ نے فرمایا:دنیا سے بے رغبتی اختیار کرو، اللہ تجھے محبوب بنالے گااور جو کچھ لوگوں کے پاس ہے، اُس سے لاتعلق ہوجائو، لوگ تجھ سے محبت کریں گے‘‘ (سنن ابن ماجہ: 4102)۔ رسول اللہﷺ کا فقر اضطراری نہیں تھا، بلکہ اختیاری تھا، آپﷺ نے فرمایا: ''میرے رب نے مجھے اختیار دیا کہ وادیِ مکہ کو میرے لیے سونے کا بنادیا جائے، تو میں نے عرض کی: پروردگارِ عالَم! میرے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ ایک دن میں سیر ہوکر کھائوں اور ایک دن بھوکا رہوں، پس جب میں بھوکا رہوں تو میں تیری بارگاہ میں گڑگڑا کردعائیں مانگوں اور تجھے یاد کرتا رہوں اور جب میں سیر ہوکر کھائوں تو تیری حمد بیان کروں اور تیرا شکر ادا کروں‘‘ (سنن ترمذی:2347)۔ (جاری )