"MMC" (space) message & send to 7575

حوادث ومصائب …(1)

دنیامیں انفرادی و اجتماعی طور پرلوگوں کومختلف قسم کے مصائب، حوادث اور قدرتی آفات وبلیات کاسامناکرنا پڑتا ہے، اس کی حقیقت وحکمت توبہرحال اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے؛ البتہ قرآن مجید اور احادیثِ طیبہ کے مطالعے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ انسانوں پرمصیبتوں وتکالیف کے آنے کی بڑی اور بنیادی وجوہات دو ہیں۔ انسانوں میں سے جولوگ گناہوں کے مرتکب ہوسکتے ہیں، اُن پرآنے والی مصیبتیں اور تکلیفیں خود اُن کے اپنے شامتِ اعمال کانتیجہ ہوتی ہیں۔ گناہ اور نافرمانیاں خواہ کفر وشرک کی حدکو پہنچی ہوئی ہوں یاعام صغیرہ یا کبیرہ گناہ ہوں، بسا اوقات مکافاتِ عمل کے طور پرانسان کو ان کاخمیازہ بھگتنا پڑتا ہے اور آخرت کے بڑے عذاب سے پہلے اِسی دنیا میں انسان کوبطورِ تنبیہ مختلف اقسام کی پریشانیوں اور تکلیفوں میں مبتلا کردیا جاتا ہے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: (1)''اورتجھے جو بھی مصیبت پہنچتی ہے وہ تیری وجہ سے ہی پہنچتی ہے‘‘ (النساء: 79)، (2): ''اور تمہیں جو بھی مصیبت پہنچتی ہے تو وہ تمہارے اپنے اعمال کی وجہ سے ہے، (حالانکہ) اللہ بہت سے گناہوں کو معاف بھی فرما دیتا ہے‘‘ (الشوری: 30)۔ (3): ''خشکی اورتری میں لوگوں کے ہاتھوں سے کی ہوئی بد اعمالیوں کے باعث فساد پھیل گیا تاکہ اللہ اُنہیں اُن کے بعض کرتوتوں کا مزہ چکھائے، شاید وہ باز آجائیں‘‘ (الروم: 41)۔
فساد سے مراد ہر وہ خرابی ہے جس سے انسانی معاشرے کا امن وسکون تباہ ہوجائے، یہ کبھی انسان کے ایک دوسرے پر ظلم کرنے کی وجہ سے ہوتا ہے اور کبھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے تنبیہ ہوتی ہے، جیسے نعمتوں کا زائل ہونا اور آفات اور مصائب کا آنا، مثلاً قحط آنا اور زمین میں پیداوار کا نہ ہونا، بارشوں کا رک جانایا بکثرت سمندری طوفانوں کا آنا، دریائوں میں سیلاب آنا، فوائد کم اور نقصانات زیادہ ہونا، زلزلوں کا آنا، آگ لگ جانے، ڈوب جانے، مال چھن جانے، چوری اور ڈاکے کے واقعات کا زیادہ ہونا، یہ تمام فساد اللہ تعالیٰ سے بغاوت اور سرکشی کا نتیجہ ہے، یہ شرک اور بداعمالیوں کا ثمرہ ہے۔نیز اللہ تعالیٰ کاارشادہے: (1)''اور ہم نے اُنہیں عذاب کے ساتھ پکڑا تاکہ وہ لوٹ آئیں‘‘ (الزخرف: 48)، (2): ''اور ہم اُنہیں بڑے عذاب سے پہلے نزدیک کا عذاب بھی چکھاتے ہیں تاکہ وہ باز آجائیں‘‘ (السجدۃ: 21)، یعنی بعض لوگوں کو آخرت کے بڑے عذاب سے قبل اسی دنیا میں ذراکم درجے کے عذاب مثلاً: مصائب، بیماریوں، قتل وغارت گری، قحط سالی اورمال واولاد وغیرہ کی ہلاکت کا مزہ بھی چکھایا جاتا ہے تاکہ وہ اپنی بداعمالیوں سے بازآکر اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرلیں۔
قرآنِ کریم کی ان آیات سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ جملہ مصائب وتکالیف کی ایک وجہ انسان کااپنابُراعمل ہوتا ہے، اگرچہ اُسے اپنی غفلت، کم عقلی اورکوتاہ نظری کی وجہ سے اپنی کوئی خامی اور برائی دکھائی نہیں دیتی اور ہر چیز اُسے بظاہر ٹھیک اور درست سَمت میں نظر آتی ہے، لیکن اُس کی وہ خرابیاں اور کوتاہیاں اللہ تعالیٰ کے علم میں ہوتی ہیں جن کی وجہ سے اُس پر مصیبت وپریشانی آئی ہے؛ چنانچہ غزوہ اُحد میں پہنچنے والی مصیبت کے حوالے سے بعض صحابہ کرام کے دلوں میں اِسی قسم کاخیال آیاتھا، جسے بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ''کیا جب تمہیں کوئی مصیبت پہنچے کہ اُس سے دگنی تم پہنچا چکے ہو، تو کہنے لگو: یہ کہاں سے آئی، تم فرما دو کہ وہ تمہاری ہی طرف سے آئی، بے شک اللہ ہر چیز پر قادر ہے‘‘ (آل عمران: 165)۔
اس دنیا کو اللہ تعالیٰ نے دارالاسباب بنایا ہے اور ہرسبب کے لیے کوئی نہ کوئی نتیجہ بھی مقرر فرمایا ہے، جس قسم کے اسباب اختیار کیے جائیں گے، نتیجہ بھی اُسے کے مطابق برآمد ہوگا، ایسا نہیں کہ اگر کافربھڑکتے ہوئے شعلوں میں ہاتھ ڈالے گا تو اُس کاہاتھ تو جل جائے گا مگر مومن ڈالے گا تو اُسے کچھ نہیں ہوگایا کافربلند وبالا عمارت سے چھلانگ لگائے گا تواُس کی ہڈیاں چکنا چور ہوجائیں گی، جبکہ مومن صحیح سلامت رہے گایاکافر اگر میٹھی چیزیں زیادہ کھائے گا تو اُسے تو شوگر ہوگی، لیکن مسلمان کھائے گا تو نہیں ہوگی، گوشت اور نمکین اشیا کے زیادہ استعمال سے کافر کا بلڈپریشر ہائی ہوگا اور مومن کا نہیں ہوگا۔ بہر حال مصیبتیں اور پریشانیاں خواہ بیماریوں کی شکل میں ہوں یا ناکامیوں کی صورت میں، سب انسان کے شامتِ اعمال اور اُس کے اپنے کیے دھرے کا نتیجہ ہوتی ہیں، البتہ مصائب وآلام کی ٹھوکرلگنے پر اگرتوفیقِ الٰہی بندے کے شامل حال ہوتی ہے تو اُس کی آنکھیں کھل جاتی ہیں اوروہ ان مصائب وتکالیف میں اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرتا ہے، اپنے گناہوں اورنافرمانیوں پر نادم وپشیمان ہوتا ہے، مصائب وتکالیف پر صبر کرتے ہوئے اُنہیں عبرت و نصیحت کی نگاہوں سے دیکھتا ہے اور اپنے اعمال کی درستی اوراصلاح کرلیتا ہے، اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ یہی تکالیف اور مصیبتیں اُس کے لیے خیر وبھلائی اوررحمت بن کر اُس کے گناہوں کی معافی اور درجات کی بلندی کا ذریعہ بن جاتی ہیں اور اللہ تعالیٰ اس دنیاوی تکلیف ومصیبت کی وجہ سے اُسے آخرت کے عذاب سے محفوظ فرمادیتا ہے۔
احادیثِ مبارکہ میں ہے: (۱) حضرت علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: رسول کریم ﷺنے قرآن مجید کی یہ آیت تلاوت فرمائی: ''اور تمہیں جو بھی مصیبت پہنچتی ہے تووہ تمہارے اپنے کرتوتوں کا نتیجہ ہے‘‘ (الشوری: 30)، پھر فرمایا: اے علی!میں تمہیں اس آیت کی تفسیر بتاتا ہوںـ: ''تم پر جو بیماری آتی ہے یا کوئی سزا ملتی ہے یا دنیامیں کوئی مصیبت آتی ہے، تو اس کی وجہ تمہارے اپنے کرتوت ہیں اوراللہ تعالیٰ اِس سے بہت زیادہ کریم ہے کہ وہ تم کو(اِس دنیا میں مصائب وتکالیف میں مبتلاکرنے کے بعد)دوبارہ آخرت میں سزا دے اور اللہ تعالیٰ نے جس گناہ کو دنیا میں معاف فرمادیا تو اللہ اس سے بہت زیادہ حلیم ہے کہ وہ معاف کرنے کے بعد دوبارہ سزا دے‘‘ (مسند احمد: 649)، (۲)''اُم المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں: میں نے نبی کریمﷺسے عرض کی: یا رسول اللہﷺ!قرآن مجید میں ایک آیت مجھے بہت سخت معلوم ہوتی ہے، نبی ﷺنے فرمایا: کون سی آیت ہے؟ میں نے عرض کی: ''جو کوئی بھی برائی کرے گا، اُسے اُس کا بدلہ دیاجائے گا‘‘ (النسآء: 123)، یہ سن کر نبی ﷺنے فرمایا: اے عائشہ !کیا تم نہیں جانتیں کہ مومن کو جب کوئی مصیبت پہنچتی ہے یا اُسے کوئی کانٹابھی چبھتا ہے تویہ اُس کے برے عمل کا بدلہ ہوجاتا ہے‘‘ (سنن ابوداؤد: 3093)۔
(۳)''اس بارے میں حضرت عامر الرامی رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث بہت واضح ہے، وہ بیان کرتے ہیں: نبی کریمﷺنے فرمایا: ''مومن کو جب کوئی بیماری پہنچتی ہے، پھر اُسے اللہ تعالیٰ اس بیماری سے عافیت عطا کردیتا ہے تو یہ اُس کے گزشتہ گناہوں کے لیے کفارہ اور آئندہ کے لیے نصیحت ہوجاتی ہے اور جب کوئی منافق بیمار ہوتا ہے اور پھر اُسے عافیت مل جاتی ہے تو وہ اُس اُونٹ کی مانند ہوتاہے، جسے اُس کے مالک نے باندھ رکھا تھااورپھر اُسے چھوڑ دیا، پس وہ نہیں جانتا کہ اُسے کیوں باندھا تھا اور کیوں چھوڑا تھا‘‘، آپﷺ کے اِرد گرد بیٹھے لوگوں میں سے ایک شخص نے کہا: یا سول اللہﷺ!یہ بیماریاں کیا ہیں، میں تو کبھی بیمارہی نہیں ہوا، آپﷺ نے فرمایا: ہمارے پاس سے اٹھ جاؤ، تم ہم میں سے نہیں ہو‘‘ (سنن ابوداؤد: 3089)، (۴)حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں: رسول اللہﷺ نے فرمایا: ''جب بندے کے گناہ زیادہ ہوجاتے ہیں اور اُس کے پاس ایسے اعمال نہیں ہوتے کہ جو اُس کے گناہوں کے لیے کفارہ بن سکیں تو اللہ تعالیٰ اُسے غم میں مبتلاکردیتا ہے تاکہ اس کے ذریعے اس کے گناہوں کو معاف کردے‘‘ (مسنداحمد: 25236)، (۵)''حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: ''جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ بھلائی کا ارادہ کرتا ہے تو اُسے مبتلائے مصیبت کردیتا ہے‘‘ (صحیح بخاری: 5645)۔
(۶)''حضرت صہیب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: اللہ کے رسولﷺنے فرمایا: ''مومن کے معاملے پر تعجب ہے، بیشک اُس کے تمام معاملات میں خیر ہوتی ہے جوکہ مومن کے علاوہ کسی کوحاصل نہیں، اگراُسے خوشی پہنچتی ہے تو وہ شکرکرتا ہے، جو اُس کے لیے بہتر ہے اور اگر اُسے ضرر پہنچتا ہے تو وہ صبر کرتا ہے جو کہ اُس کے لیے بہترثابت ہوتا ہے‘‘ (صحیح مسلم: 2999)۔
ان آیات واحادیث میں غور کرنے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ فی نفسہٖ مصائب وتکالیف اللہ تعالیٰ کی طرف سے سزا اور عقاب نہیں، بلکہ خیر وبھلائی، گناہوں کی معافی اور درجات کی بلندی کا ذریعہ ہیں؛ البتہ یہ سزا اور عقاب کی شکل اُس وقت اختیار کرتے ہیں، جب انسان ان پریشانیوں اور آفتوں سے عبرت ونصیحت حاصل کرنے اور اپنی اصلاح کرنے کے بجائے انہیں زمانے کی گردش اور ہیر پھیر سمجھتا رہے اور اپنی سابقہ روش کوبرقرار رکھتے ہوئے گناہوں اور نافرمانیوں میں مصروف رہے، بلکہ سرکشی میں مزید آگے نکل جائے توایسے شخص کو نبی کریمﷺ نے اُس اُونٹ کے ساتھ تشبیہ دی ہے، جسے اُس کے مالک نے کچھ دیر کے لیے باندھ کر چھوڑ دیا ہو، اُسے معلوم ہی نہیں ہوتا کہ اُسے کیوں باندھاگیا تھا اور کیوں کھولاگیاہے، سووہ آخرت کے عذاب کے علاوہ دنیا کے عذاب میں بھی مبتلا رہتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں پر ناراضی اور افسوس کا اظہار فرمایا ہے، جنہیں اُن کے گناہوں کی وجہ سے مصیبتوں اور پریشانیوں میں مبتلا کیا گیاتواللہ تعالیٰ کے آگے گریہ وزاری کرنے، عَجز واِنکساربجالانے اور عبرت ونصیحت حاصل کرنے کے بجائے اپنے تمردو سرکشی پر قائم رہے؛ چنانچہ ارشاد فرمایا: ''اور اگر ہم ان پر رحم کریں اوران پرآئی تکلیف کو دور کردیں توبھی یہ بھٹکتے ہوئے اپنی سرکشی پراَڑے رہیں گے اوربیشک ہم نے انہیں عذاب میں پکڑا تو نہ وہ اپنے رب کے حضور جھکے اور نہ گڑگڑاتے ہیں‘‘ (المومنون: 75-76) نیز فرمایا: ''اور بے شک ہم نے آپ سے پہلی اُمتوں کی طرف رسول بھیجے، ہم نے اُنہیں سختی اور تکلیف سے پکڑا کہ وہ کسی طرح گڑگڑائیں، پس ایسا کیوں نہ ہوا کہ جب ان پر ہمارا عذاب آیا تووہ گڑگڑائے ہوتے، لیکن اُن کے تو دل سخت ہو گئے اور شیطان نے ان کے کام ان کی نگاہ میں بھلے کر دکھائے‘‘ (الانعام: 42 تا 43)۔ اللہ تعالیٰ کو یہ بات بہت پسند ہے کہ مصیبت اور پریشانی کے وقت بندہ انبیائے کرام کی سنّت پر عمل کرتے ہوئے اُس کے آگے گریہ وزاری کرے اور اپنی عاجزی اور کم ہمتی کا اعتراف کرے۔ حضرت ابواُمامہؓ بیان کرتے ہیں: نبی کریمﷺ نے فرمایا: ''جو بھی بندہ کسی بیماری کی وجہ سے (اللہ کے آگے) عَجز کااظہار کرتا ہے، تواللہ تعالیٰ اُسے اُس بیماری سے اس حال میں اُٹھاتا ہے کہ وہ(گناہوں سے) پاک ہوتا ہے‘‘ (مجمع الزوائد: 3803)۔ (جاری)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں