حجۃ الاسلام امام غزالی لکھتے ہیں: ''جو شخص آنے والے زمانے کے لیے نیکی کا اُمیدوار ہو، تو اُس کی یہ اُمید رَجا کہلاتی ہے، لیکن عین ممکن ہے کہ جس صورت کو وہ رَجا سمجھ رہا ہے‘ اُسے تمنا کہنا مناسب ہو بلکہ وہ تمنا کہلانے کی بھی مستحق نہ ہو، اُسے غرور اور حماقت کہنا زیادہ موزوں ہوگا؛ چنانچہ احمق لوگ اِن تینوں اُمور کے مابین فرق نہیں کر پاتے اور ہر صورت کو رَجا ہی سمجھتے ہیں۔ رَجا کی حقیقت، رَجا اور تمنا و حماقت کے مابین فرق ایک مثال سے سمجھیں: ''اگر کوئی شخص عمدہ تخم (بیج) تلاش کرے، اُسے نرم زمین میں بوئے، پھر اُس زمین کو گھاس پات، خس و خاشاک اور کانٹوں‘ جھاڑیوں سے صاف رکھے، وقت پر پانی دے اور پھر اِس بات کا اُمیدوار ہو کہ اللہ تعالیٰ اسے آفات سے محفوظ رکھے گا اور وقت آنے پر وہ فوائد حاصل کر سکے گا، تو اس کی اُمید یقینا رَجا کہلائے گی لیکن اگر بیج ناقص ہو یا تخم ریزی کے وقت جھاڑ جھنکاڑ سے نہ زمین کو صاف رکھے اور نہ اُسے سیراب کرے، اس کے باوجود منافع کا اُمیدا وار بنے تو ایسی اُمید رَجا نہیں، بلکہ غرور و حماقت کہلانے کی مستحق ہے۔ یونہی اگر بیج تو عمدہ ہو، زمین بھی نرم اور صاف ستھری ہو، اُسے نرم اور صاف بھی رکھے لیکن اِس اُمید پر پانی نہ دے کہ بارش ہو جائے گی اور زمین کو سیراب کر دے گی، حالانکہ وہاں بارش کا ہونا غیر یقینی ہو؛ اگرچہ مُحال بھی نہ ہو، تو ایسے شخص کی اُمید کو آرزو یا تمنا کہا جائے گا، یہ رَجا نہیں ہے‘‘۔
اِسی طرح جو انسان اپنے سینے کے کھیت میں ایمانِ خالص کا بیج ڈالتا ہے، اُسے برے اخلاق سے پاک رکھتا ہے، مسلسل عبادت سے اُس کی آبیاری کرتا ہے اور پھر نگاہِ اُمید سے حق تعالیٰ کے فضل و کرم کی طرف دیکھتا ہے کہ وہ اسے آفات سے محفوظ فرمائے گا، مرتے دم تک اِسی حالت میں برقراررکھے گا، نیز دنیا سے جاتے ہوئے ایمان کو صحیح سلامت لے جائے گا تو یہ رَجا ہے۔ اِس کی علامت یہ ہے: مستقبل میں جو نیک کام اُس سے ممکن ہوں، اُن کی بجا آوری میں کوتاہی نہ کرے، احتیاط کے دامن کو تھامے رکھے، غفلت کا شکار نہ ہو کیونکہ کھیتی کی دیکھ بھال سے غفلت برتنا امید و رَجا کی نہیں، بلکہ نااُمیدی کی نشانی ہے۔ لیکن اگر تخم یعنی ایمان ناقص ہو، سینہ برے اخلاق سے پاک نہ ہو، عبادت کا پانی بھی اُسے میسر نہ ہو، تو ایسی صورتِ حال میں رحمتِ الٰہی پر نگاہ رکھنا رَجا نہیں بلکہ نری حماقت و نادانی ہے، نبی کریمﷺ نے فرمایا: ''وہ شخص احمق ہے جو نفسانی خواہشات کی اتباع کرے اور پھررحمتِ خداوندی کی اُمید بھی رکھے‘‘، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ''پھر وہ نالائق ان (نیک یہودیوں) کے جانشین بن کر تورات کے وارث ہوئے جو اس حقیر دنیا کا سامان لیتے ہیں اور کہتے ہیں: عنقریب ہمیں بخش دیا جائے گا‘‘ (الاعراف:169)، اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اُن لوگوں کی مذمت فرمائی ہے جنہیں انبیائے کرام علیہم السلام کے بعد علم حاصل ہوا لیکن وہ دنیا میں مشغول رہے، اس کے باوجود کہتے رہے: '' ہمیں اُمید ہے کہ ہماری مغفرت کر دی جائے گی‘‘۔
پس ہر وہ چیز جس کے اسباب بندے سے متعلق ہوں، اُن کو اختیار کرنے کے بعد رحمتِ خداوندی پر نگاہ رکھنا تو بیشک رَجا ہے، لیکن ان اسباب کو تباہ و برباد کر کے رحمتِ باری تعالیٰ کی اُمید رکھنا حماقت اور غرور کے سوا کچھ نہیں۔ اگر برباد نہ بھی کیا جائے، لیکن آبادی کی بھی کوئی تدبیر نہ کی جائے تو ثمر کی اُمید رکھنا محض آرزوہے، نبی کریمﷺ کا فرمان ہے: ''دین کا معاملہ محض اچھی آرزوئوں سے درست نہیں ہوتا‘‘۔
لہٰذا جس نے توبہ کی تو اُسے قبولیتِ توبہ کی اُمید رکھنی چاہیے؛ تاہم اگر کوئی شخص توبہ نہ کرے، لیکن اپنے کیے پر غمگین اور ملول ہو اور رحمت کا اُمیدوار ہو اور یہ آس لگائے کہ حق تعالیٰ اُسے توبہ کی توفیق عطا فرمائے گا تو یہ رَجا ہے، کیونکہ اس کا رنج و ملال اس کی توبہ کا سبب بن سکتا ہے اور اگر غمگین بھی نہ ہو اور توبہ کا اُمیدوار ہو تو وہ مغرور و متکبر ہے، یعنی اس بات کا اُمیدوار ہے کہ توبہ خود اس کے پاس چل کر آئے گی۔ اگر توبہ کے بغیر بخشش کا اُمیدوار ہے تو وہ بھی ایسا ہی مغرور و متکبر ہے؛ اگرچہ احمقوں نے ان باتوں کو بھی رَجا کا نام دے رکھا ہے؛ حالانکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ''حقیقتاً جو لوگ ایمان لائے اور جنہوں نے راہِ خدا میں ہجرت کی اور اللہ کی راہ میں جہاد کیا، ایسے لوگ ہی رحمتِ باری تعالیٰ کے اُمیدوار ہوا کرتے ہیں‘‘ (البقرۃ:218)، یحییٰ بن معاذ فرماتے ہیں: ''اُس شخص سے بڑھ کر احمق کون ہو گا جو جہنم کا بیج بو کر جنت کا امیدوار بنے، یعنی اعمال جہنمیوں والے ہوں اور اُمید رکھے اُس مقام کی جو اطاعت گزاروں کے لیے مخصوص ہے یا بغیر عمل کے ثواب کا آرزو مند ہو‘‘ (کیمائے سعادت، ص:917تا 918)۔
قرآن مجید کی متعدد آیات تخویف و انذار پر مشتمل ہیں، جن میں اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت وسطوت، قہاریت و جلال اور مجرمین پر اپنے عذاب و غضب کا ذکر فرمایا ہے۔ ان آیات سے بندے کے دل میں خوف کی کیفیت پیدا ہوتی ہے جبکہ دوسری طرف متعدد آیات وہ ہیں جن میں اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت و مغفرت اور عفو و درگزر کا ذکر فرمایا ہے۔ ان آیات سے بندے کے دل میں اُمید و رَجا کی کیفیت پیدا ہوتی ہے۔ اہلِ علم کہتے ہیں: عام حالات میں ان دونوں صفات کا اعتدال کی حد میں ہونا قابلِ تعریف وصف ہے، اتنا زیادہ خوف کہ بندہ مایوسی اور نااُمیدی کی حد تک پہنچ جائے یا اتنا پراُمید ہو جانا کہ خوف بالکل ہی ختم ہو جائے اور بندہ گناہ اور نافرمانی پر بے باک ہو جائے‘ یہ دونوں معیوب اور بُری صفات ہیں؛ البتہ بعض حالات میں خوف کا غلبہ اور بعض حالات میں رَجا کا غلبہ مناسب ہے۔
صفتِ خوف کی حقیقت کے متعلق حجۃ الاسلام امام غزالی لکھتے ہیں: ''خوف دل کی ایک حالت کا نام ہے، یہ ایک آتشِ درد ہے جو دِل کے اندر سُلگتی رہتی ہے، اس کا خاص سبب بھی ہوتا ہے اور اس سے خاص نتیجہ بھی برآمد ہوتا ہے، اسے ہم ثمر بھی کہہ سکتے ہیں، اس کا سبب آخرت میں پیش آنے والے خطرات کی آگہی اور معرفت ہے؛ چنانچہ انسان جب غفلت و جہالت کے پردوں سے نکل کر ان اسباب و حالات پر نظر ڈالتا ہے جو اسے ہلاکت کی طرف لے جا رہے ہوتے ہیں تو خوف ایک آگ کی طرح اس کے دل میں بھڑک اٹھتا ہے۔ اس آگ کو بھڑکانے کا باعث دو چیزوں کی معرفت ہے: ایک یہ کہ جب اپنے گناہوں، خطائوں، جرائم، عیوب، خباثتوں اور عبادتوں کی آڑ میں کی ہوئی ریاکاریوں کا پردہ انسان کی اپنی نگاہوں میں چاک ہو جاتا ہے، وہ اپنی تمام رو سیاہیوں سے آگاہ ہو جاتا ہے اور اس کے باوجود اُسے یہ نظر آتا ہے کہ اس کی کوتاہیوں کے باجود حق تعالیٰ کی رحمت اُسے اب بھی اپنی آغوش میں لینے کے لیے تیار ہے تو یہ آگ اُس کے دل میں بھڑک اُٹھتی ہے۔ اس وقت اس کی مثال اُس شخص کی سی ہوتی ہے جسے بادشاہ ہمیشہ خلعت و انعام سے نوازتا رہا ہو اور وہ اُس کا شکر گزار ہونے کے بجائے اُسی کے حرم میں اور اُسی کے خزانے میں خیانت کرتا رہا ہو اور پھر اچانک اُسے پتا چلے کہ اُس کی کوئی خیانت اور جرم بادشاہ سے پوشیدہ نہیں ہے کیونکہ وہ اسے ہرحال میں دیکھتا رہا ہے، نیز یہ کہ بادشاہ بے حد غیرت مند، باحمیت، بے باک ہے اور انتقام لیے بغیر نہیں رہے گا، مزید یہ کہ اُس کے پاس بادشاہ کے غضب و انتقام سے بچنے کے لیے کوئی وسیلہ اور سفارش بھی نہیں ہے، تو اندازہ کیجیے کہ جب وہ اپنے آپ کو خطرات میں گھرا ہوا پائے گا تو اس کی حالت کیا ہو گی۔ الغرض خوف و درد کی آگ شدت سے اُس کے دل کو اپنے لپیٹ میں لے لے گی۔
دوسری معرفت یہ ہے: بالفرض وہ شخص انعام پر شکر گزار بھی ہو، اس نے خیانت بھی نہ کی ہو، اس کے باوجود اُس بادشاہ کی قدرت و طاقت اور اُس کی بے باکی اور انتقام سے خائف رہے، جیسے کوئی شخص شیر کے چنگل میں پھنس جائے تو اُس نے شیر کا کچھ بگاڑا نہیں ہوتا، لیکن اس کے باوجود وہ خوف سے کانپنے لگتا ہے، کیونکہ شیر کی طبیعت کا اُسے پتا ہے کہ اس کا کام ہی ہلاک کرنا ہے اور وہ اُس سے ضعیف ہونے کے باعث اپنا بچائو نہیں کر سکتا۔ ایسے ہی جب کوئی شخص حق تعالیٰ کی صفات سے آگاہ ہو، اس کی عظمت و جلال کو پہچانتا ہو، نیز اُسے معلوم ہو کہ حق تعالیٰ اگر سارے عالَم کو پل بھر میں ہلاک کرکے ہمیشہ کے لیے دوزخ میں ڈال دے تو اس کی بادشاہت میں کوئی فرق نہیں آئے گا، تو اس شخص کے دل میں خوف کا پیدا ہونا لازمی بات ہے، کیونکہ یہ خوف کا ایسا مقام ہے کہ اپنی عصمت کا علم ہونے کے باوجود انبیائے کرام پر بھی ایسا خوف طاری رہا، نبی کریمﷺ نے فرمایا: ''میں تم سب سے زیادہ اللہ کی ذات کا عارف ہوں، لیکن اللہ کی قسم! میں ہی سب سے زیادہ اُس کی قدرت و جلالت کا خوف رکھتا ہوں‘‘۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ''بیشک اللہ کے بندوں میں سے علماء ہی اُس سے ڈرتے ہیں (کیونکہ وہی دوسروں کے مقابلے میں اس کی ذات وصفات کو زیادہ جاننے والے ہوتے ہیں)‘‘ (الفاطر:28)۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: نبی کریمﷺ ایک قریب الموت نوجوان کے پاس تشریف لے گئے اور فرمایا: تم کیسا محسوس کر رہے ہو؟ اُس نے کہا: بخدا یا رسول اللہﷺ! میں اللہ تعالیٰ سے (مغفرت کی) اُمید رکھتا ہوں اور اپنے گناہوں سے ڈر بھی رہا ہوں۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا: اِس موقع پر جس مسلمان کے دل میں یہ دو چیزیں جمع ہوں تو اللہ تعالیٰ اُسے وہ عطا کرتا ہے جس کی اُسے اُمید ہے اور اُس سے محفوظ فرما دیتا ہے جس کا اُسے خوف لاحق ہے‘‘(سنن ترمذی:983)۔ اس حدیث کے پیشِ نظر اہلِ علم فرماتے ہیں: جب انسان کی موت کا وقت قریب ہو جائے تو اُس پرخوف کے بجائے رَجا کی کیفیت کا غلبہ مناسب ہے؛ البتہ کیفیتِ رَجا اتنی زیادہ بھی نہ ہو کہ اُسے گناہوں کا خوف باقی نہ رہے۔ ایک حدیث میں آپ ﷺنے اپنی وفات سے تین روز قبل فرمایا: ''تم میں سے کوئی شخص نہ مرے، مگر اس حال میں کہ وہ اللہ تعالیٰ کے بارے میں اچھا گمان رکھتا ہو‘‘ (صحیح مسلم:2877)۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ''اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو جیسے اُس سے ڈرنے کا حق ہے اور تم پر موت صرف اس حالت میں آئے کہ تم مسلمان ہو‘‘ (آل عمران:102)۔