عزم اور عزیمت کا معنی ہے: ''کسی کام کو کر گزرنے اور مقصودکو حاصل کرنے کے لیے مضبوط، مستحکم اور مصمم ارادہ کر لینا، مشکلات و تکالیف کی پروا کیے بغیر مقصد کے حصول کے لیے اپنی پوری ہمت و استطاعت کو صرف کر دینا‘‘۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولِ مکرم سیدنا محمدﷺ کو راہِ حق میں پیش آنے والی تکالیف و مشکلات پر صبر و استقامت کی تلقین کرتے ہوئے فرمایا: ''آپ اُسی طرح صبر کریں جیسے اُولوالعزم رسولوں نے صبر کیا تھا‘‘ (الاحقاف:35)، یعنی اگر آپﷺ کو کلمہ حق بلند کرنے کی پاداش میں ظلم و جور، طعن وتشنیع اور مصائب وتکالیف کا نشانہ بنایا جا رہا ہے تو یہ کوئی نئی بات نہیں، آپﷺ سے پہلے اس دنیا میں آنے والے پیغمبروں کو بھی دعوتِ توحید کی پاداش میں روح تڑپا دینے والی اذیتوں اور ظلم وستم سے دوچار کیا گیا تھا، لیکن وہ صبرورضا کا پیکر بنے رہے، اُنہوں نے خندہ پیشانی کے ساتھ تمام تر مظالم اور صعوبتوں کو برداشت کیا، راہِ خدا میں جِدّوجُہد کرتے رہے،
ظالموں اور جابروں نے انسانی تاریخ کے سب سے اذیت ناک مظالم ڈھائے، مگر اُن کے پائے ثبات میں کوئی لغزش نہیں آئی۔ پس ہر مسلمان کو چاہیے کہ ہر مشکل کے باوجود دلجمعی، عزم و استقلال اور پامردی کے ساتھ اپنا مشن جاری رکھے۔
اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول مکرمﷺ نے اپنے بندوں کو جن اُمور کی بجاآوری یا ترک کا مُکلَّف وپابند بنایا ہے، اُن اُمور سے تعلق رکھنے والے احکام کے حوالے سے فقہِ اسلامی میں عزیمت اور رخصت کے عنوان سے دو درجے مقرر ہیں۔ فقہی اُصول و اصطلاح میں عزیمت شریعت کے اس حکم کوکہتے ہیں جو اصلی اور مستقل ہو، عارضی اُمور سے وابستہ نہ ہو، یعنی شریعت کا وہ حکم جو عارضی حالات، کسی عذرومجبوری اور اضطرار کے پیشِ نظر مشروع نہ ہو، بلکہ عام اور معمول کے حالات میں انسان کو جن احکام کا مکلف بنایا گیا ہے، اُن پر عمل عزیمت کہلاتا ہے۔ عزیمت کے مقابلے میں رخصت کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے، یہ لفظ سہولت، آسانی اور نرمی کے معنی پر دلالت کرتا ہے، یہ لفظ رَخَصَ سے ماخوذ ہے، جس کا معنیٰ ہے: ''کم ہونا‘‘؛ چنانچہ جب کوئی چیز ارزاں ہو جاتی ہے اور اس کے نرخ کم ہو جاتے ہیں تو اس کے متعلق عربی میں''رَخَصَ السِّعْرُ‘‘ کہاجاتا ہے، یعنی نرخ کم ہو گئے۔
فقہی اصطلاح میں رخصت اُس شرعی حکم کو کہا جاتا ہے جو صعوبت سے سہولت کی طرف منتقل ہوا ہو، اُس میں کسی عذر کے باعث آسانی پیدا کر دی گئی ہو؛ اگرچہ اساسی حکم کا سبب جوں کا توں اپنی جگہ قائم وبرقرار ہو۔ خلاصہ کلام یہ کہ رخصت کا اطلاق اُن احکام پر ہوتا ہے جو اصلی اور مستقل نہیں ہوتے بلکہ بندگانِ خدا کی مجبوریوں اوراَعذار کے پیشِ نظر اُن کی سہولت و آسانی کے لیے عارضی طور پر دیے جاتے ہیں، اگر وہ اَعذار نہ ہوتے تو اصلی حکم اپنی جگہ باقی رہتا، گویاکہ یہ اصلِ کلّی سے استثنائی حکم ہے تاکہ عمل کا داعیہ باقی رہے اور بندگانِ خدا کی زندگی مشقت سے محفوظ رہ سکے۔ مثال کے طور پر نماز کے لیے وضو کرنا شریعت کا اصل حکم ہے، البتہ جو شخص مرض وغیرہ کی وجہ سے پانی کے استعمال پر قادر نہ ہو یا کسی ایسی جگہ ہو کہ جہاں پانی دستیاب نہ ہو یا پانی کے حصول پر قدرت نہ ہو، تو ایسے شخص کو شریعت نے تیمم کرنے کی رخصت واجازت عطا فرمائی ہے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ''اے ایمان والو! جب نماز پڑھنے کا ارادہ کرو (اور تم بے وضو ہو) تو اپنے چہروں کواور اپنے ہاتھوں کو کہنیوں سمیت دھو لو اور اپنے سروں کا مسح کرو اور اپنے پیروں کو ٹخنوں سمیت دھو لو اور اگر تم حالتِ جنابت میں ہو تو خوب اچھی طرح پاکیزگی حاصل کر لو اور اگر تم بیمار یا مسافر ہو یا تم میں سے کوئی قضائے حاجت کرکے آئے یا تم نے عورتوں سے مباشرت کی ہو، پھر تم پانی نہ پائو تو پاک مٹی سے تیمم کرلو، سو تم اپنے چہروں اور ہاتھوں پر اس پاک مٹی سے مسح کرو‘‘ (المائدۃ:6)۔ اِسی طرح اللہ تعالیٰ نے بعض نمازیں چار رکعت فرض فرمائی ہیں، لیکن مسافر کے لیے اُن کی رکعتوں میں تخفیف فرماکر قصر کا حکم دیا ہے، چنانچہ فرمایا: ''جب تم زمین میں سفر کرو تو تم پر کوئی حرج نہیں کہ تم نمازوں میں قصر کرو‘‘ (النسآء: 101)، نیز نبی کریمﷺ نے فرمایا: ''یہ اللہ کی طرف سے تمہارے لیے ایک صدقہ ہے، سو اس کا صدقہ قبول کرو‘‘ (مسلم:686)۔
علامہ راغب اصفہانی لکھتے ہیں: ''عزم کا معنی ہے: دل میں کسی کام کا پکا اور پختہ ارادہ کر لینا کہ خواہ کوئی اس کام سے کتنا ہی روکے‘ میں یہ کام ضرور کروں گا، اس لیے جن کاموں کو اللہ تعالیٰ نے اصلاً فرض کیا ہے، ان کو عزیمت کہتے ہیں‘‘ (المفردات، ص:346)۔ پس کسی پیش آمدہ مشکل یا عارض کی بنا پر اس فرض میں جو آسانی کر دی جاتی ہے، اس کو رخصت کہتے ہیں، جیسے: جائے اقامت میں ظہر، عصر اور عشاء میں چار رکعات فرض ہیں،
یہ عزیمت ہے اور سفر کی مشقت کی وجہ سے ان اوقات میں دو رکعات فرض ہیں، اس کو رخصت کہتے ہیں۔
اسلام دینِ فطرت ہے، سلامتی اور خیر خواہی کا دین ہے، اللہ تعالیٰ نے انسان کو جس فطرت وطبیعت پر پیدا کیا ہے، اس کے تمام تقاضوں کا اس دین میں لحاظ رکھا ہے۔ فطری طور پر چونکہ تمام انسانوں کی طبیعتیں، ان کے مزاج اور قُویٰ یکساں نہیں ہوتے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے دینِ اسلام میں بھی اصل احکام کے ساتھ کچھ رخصتیں رکھ دی ہیں تاکہ قوی اور ضعیف ہر طبیعت و مزاج کے لوگوں کے لیے کسی صعوبت و دشواری کے بغیر دینی احکام پر چلنے اور عمل کرنے میں آسانی و سہولت ہو؛ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے پانی نہ ملنے یا اُس کے استعمال پر قدرت نہ ہونے کی صورت میں تیمم کی رخصت و اجازت دیتے ہوئے فرمایا: ''اللہ تم پر تنگی کرنا نہیں چاہتا، لیکن وہ تم کو خوب پاک کرنا چاہتا ہے‘‘ (المائدۃ:6)، بیماری یا سفر کی وجہ سے روزوں کو ترک کرنے کی رخصت و اجازت عنایت کرنے کے بعد فرمایا: ''اللہ تمہارے ساتھ آسانی چاہتا ہے، وہ تمہارے ساتھ سختی نہیں چاہتا‘‘ (البقرۃ:185)۔
رخصت پر مبنی یہ احکام اسلام کے دینِ فطرت ہونے کی دلیل ہیں، صرف اتنا ہی نہیں کہ بعض مخصوص حالات میں ان رخصتوں پر عمل کی ترغیب دلائی ہے بلکہ بعض صورتوں میں رخصت پر عمل نہ کرنے اور عزیمت پر ہی کاربند رہنے کو ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا ہے۔ حضرت عبداللہؓ بن عباس بیان کرتے ہیں: نبی کریمﷺ نے فرمایا: ''اللہ تعالیٰ اپنی جانب سے دی گئی رخصتوں پر عمل کرنے کواسی طرح پسند فرماتا ہے، جس طرح عزیمت پر عمل کرنے کو پسند فرماتا ہے‘‘ ( ابن حبان:354)، ایک روایت میں ہے: ''اللہ تعالیٰ کو اپنی جانب سے بندوں کو دی جانے والی رخصتوں پر عمل کرنا اُسی طرح پسند ہے، جس طرح اپنی نافرمانی ناپسند ہے‘‘ (ابن خزیمہ:950)۔ حضرت عقبہؓ بن عامر بیان کرتے ہیں: نبی کریمﷺ نے فرمایا: ''جس شخص نے اللہ کی دی ہوئی رخصت کو قبول نہیں کیا، اُسے عرفات کے پہاڑوں کے برابر گناہ ہوگا‘‘ (مسندامام احمد:17450)۔ آپﷺ نے فرمایا: ''جو شخص بھی دین پر غلبہ حاصل کرنے کی کوشش کرے گا، دین اس پر غالب آ جائے گا‘‘ (بخاری:39)۔ دین پر غلبہ حاصل کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ہر موقع پر عزیمت یعنی دین کے اصل حکم کو اختیار کرنے پر اصرار کیا جائے اور اس معاملے میں دین کی عطا کردہ رخصت پرعمل نہ کیا جائے۔ پس جو اپنے اوپر شدت کرتے ہوئے مشکل و دشوار احکام پر اصرار کرے اور دین کی عطا کردہ رخصتوں اور سہولتوں سے فائدہ نہ اُٹھائے تو ایک وقت ایسا آتا ہے کہ وہ رخصتوں پر عمل کرنے سے بھی عاجز ہو جاتا ہے۔ حدیث کاخلاصہ ہے: ''عبداللہؓ بن عمرو دن کو روزہ رکھتے تھے اور رات بھر تلاوت کرتے تھے، رسول اللہﷺ کو اس کا پتا چلا تو آپﷺ نے فرمایا: مہینے میں تین دن روزے رکھ لیا کرو اور قرآن ختم کر لیا کرو، انہوں نے عرض کی: میں اس سے زیادہ کی طاقت رکھتا ہوں۔ آپﷺ نے فرمایا: دائود علیہ السلام کی طرح ایک دن روزہ رکھ لیا کرو اور ایک دن چھوڑ دیا کرو۔ انہوں نے کہا: میں اس سے زیادہ کی طاقت رکھتا ہوں اور تاحیات دن میں روزے رکھوں گا اور راتوں کو تلاوت کروں گا۔ آپﷺ نے تخفیف کی حکمت بیان کرتے ہوئے اُن سے فرمایا: تمہاری بیوی کا بھی تم پر حق ہے، تمہارے مہمان کا بھی تم پر حق ہے اور تمہارے جسم کا بھی تم پر حق ہے۔ عبداللہؓ بن عمرو بیان کرتے ہیں: پس میں نے سختی کی تو مجھ پر سختی کر دی گئی۔ آپﷺ نے فرمایا: کیا خبر تم طویل عمرو پائو۔ پھر وہ مرحلہ آ گیا، پس جب میں بوڑھا ہوگیا اور ہمت جواب دینے لگی تو تب میں نے آرزو کی کہ کاش میں نے رسول اللہﷺ کی رخصت کو قبول کر لیا ہوتا‘‘ (مسلم:1159)۔
دینی احکام میں رخصت وسہولت کی اہمیت کا اندازہ خود نبی کریمﷺ کے اس طرزِ عمل سے بھی ہوتا ہے کہ آپﷺ آسان کام کو اختیار فرماتے۔ حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں: ''جب بھی رسول اللہﷺ کو دو چیزوں کے مابین اختیار دیا گیا تو آپﷺ نے (امت کی آسانی کے لیے) سہولت والے امر کو اختیار کیا‘‘ (بخاری:3560)، نیز آپﷺ نے اپنی اُمت کو اس بات کی نصیحت فرمائی ہے کہ وہ لوگوں کے لیے (شریعت کی حدود میں رہتے ہوئے) آسانی اور سہولتیں پیدا کریں، لوگوں کو ایسے کاموں کا مکلّف نہ بنائیں جو اُن کے لیے مشقت ودشواری کا باعث ہوں؛ چنانچہ آپﷺ نے فرمایا: تم آسانی پیدا کرنے والے بناکر بھیجے گئے ہو، دشواری میں ڈالنے والے بناکر نہیں بھیجے گئے‘‘ (بخاری:220)۔
اسلام نے عبادات ومعاملات سمیت زندگی کے تمام شعبوں سے متعلق احکام میں یُسر وسہولت کے پہلوکو پیش نظر رکھا ہے، یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم میں رسول اللہﷺ کے فریضۂ منصبی کو بیان کرتے ہوئے فرمایا: ''آپﷺ اپنے پیروکاروں کے لیے طیب اور پاکیزہ چیزوں کوحلال کرتے ہیں اور ناپاک چیزوں کو حرام کرتے ہیں اور ان کے بوجھ ان سے اتارتے ہیں اور (دور کرتے ہیں ان سے) گلے کے طوق جو ان پر تھے‘‘ (الاعراف:157)۔
مفسرین نے لکھا ہے: اس آیت میں بیڑی اور طوق سے مراد حلال و حرام سے متعلق دینِ یہود کے وہ سخت احکام ہیں، جو ان پر دینی معاملات میں اُن کے غُلوّ (انتہا پسندی) اور شدت اختیار کرنے کے سبب لازم کر دیے گئے تھے ۔الغرض اسلام نے حلال وحرام سے متعلق احکام میں بھی یُسر و سہولت کے پہلو کا خاص طور پر لحاظ رکھاہے، ان تمام باتوں سے ایک طرف جہاں اسلامی شریعت کے عمومی مزاج کا پتا چلتا ہے، وہاں یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ زندگی کے معاملات میں مشقت پر سہولت کی ترجیح اور رخصت کی فراہمی کا پہلو کسی بھی انسانی نظامِ حیات کے لیے ناگزیر ہوتا ہے، شاید یہی وجہ ہے کہ دینِ فطرت اسلام نے اس پہلو کی کماحقہٗ رعایت کی ہے۔ (جاری)