"MMC" (space) message & send to 7575

امریکی سماج کی شکست وریخت…(حصہ دوم)

6 جنوری 2021ء کو ایک ایسے وقت میں جب نومنتخب صدر بائیڈن کی انتخابی فتح کی توثیق کے لیے کیپیٹل ہل میں امریکی کانگریس کا اجلاس ہو رہا تھا‘ اچانک ایک ہجوم نے کیپٹل ہل پر حملہ کر دیا، حملے سے پہلے اس ہجوم سے صدر ٹرمپ نے خطاب کر کے ان کے جذبات کو مشتعل کیا۔ واضح رہے کہ ٹرمپ نے بائیڈن کی انتخابی جیت کو تسلیم نہیں کیا تھا بلکہ بعض ریاستوں میں صدارتی انتخاب کے بارے میں دھاندلی اور جعل سازی کے الزامات لگائے تھے۔ الغرض مشتعل ہجوم نے توڑ پھوڑ کی، ایک پولس مین اور ایک خاتون سمیت پانچ آدمی ہلاک ہوئے، کانگریس کے اراکین نے بھاگ کر یا میزوں کے نیچے چھپ کر اپنی جان بچائی۔ اس کی بابت تحقیقات ہوئیں، سی این این کے تجزیہ کار سارا سینڈرز، اناماجا اور مارشل کوہن نے اب تک کی تحقیقات کا تجزیہ کیا ہے، اس تجزیے میں پنٹاگون ریکارڈ اور عدالتی کارروائی سے مدد لی گئی ہے، اس کی تفصیل درج ذیل ہے:
''امریکی دارالحکومت میں تشدد اور بغاوت کے الزام میں پہلے ایک سو پچاس گرفتارکیے جانے والے افراد میں معتد بہ تعداد امریکا کے موجودہ اور سابق فوجی اہلکاروں کی ہے۔ دستیاب تفصیلات کے مطابق 150 گرفتار شدگان میں سے 21 افراد یعنی 14 فیصد تعداد موجودہ یا سابق امریکی فوجی اہلکاروں کی ہے، جبکہ مردم شماری اور دفاعی شماریات کے اداروں کے مطابق 2018ء میں امریکا کی کل آبادی 32 کروڑ 70 لاکھ نفوس پر مشتمل تھی، ان میں سے حاضر سروس فوجی اہلکاروں کی تعداد تیرہ لاکھ جبکہ سابق فوجی اہلکاروں کی تعداد اٹھارہ ملین تھی، یعنی مسلّح افواج (مرد و زن) کا تناسب کل آبادی کا 5.9 فیصد ہے، جبکہ کیپٹل ہل پر حملے کے جرم میں ڈیڑھ سو گرفتار شدہ افراد میں فوجیوں کا تناسب14 فیصد ہے، یہ امریکا کے لیے ایک الارمنگ صورتِ حال ہے کہ ان کی افواج میں 14 فیصد نسل پرست جرائم پیشہ افراد موجود ہیں۔ ان گرفتار شدگان میں دو آرمی اور دو نیشنل گارڈز کے افراد ہیں، سابق فوجیوں میں سے چھ سابق آرمی کے ارکان، آٹھ سابق میرین، دو نیوی اور ایک ایئر فورس کے ہیں، ان کے سروس ریکارڈ سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان میں سے کم از کم ایک ویتنام میں بھی خدمت انجام دے چکا ہے۔ باقی افراد افغانستان اور عراق کی جنگ میں شرکت کر چکے ہیں، ان میں سے ایک فوجی کو امریکی حکومت کی جانب سے ''پرپل ہارٹ‘‘ کا تمغہ بھی دیا جا چکا ہے۔ انہیں مختلف قسم کے مناصب سے فارغ کر دیا گیا تھا، ان میں آفیسر، ایک کیپٹن اور ایک لیفٹننٹ کرنل بھی شامل ہے۔ کیپٹن ایملی رائنے، لیفٹیننٹ کرنل لیری رینڈل بروک جونیئر (ایئر فورس ریٹائرڈ)، سابق فوجی سٹیورٹ رہوڈز، سابق نیوی سیلر ایڈم نیو بولڈ شامل ہیں۔ ٹیکساس سے ایئر فورس کے ریٹائرڈ لیفٹیننٹ کرنل کو سینیٹ کے فلور پر ہیلمٹ اور زرہ پہنے تصویر بنوانے کے بعد گرفتار کیا گیا۔ سان ڈیاگو سے تعلق رکھنے والی ایئر فورس کی ایک اور سابق فوجی کو جب وہ ہائوس چیمبر کے قریب رکاوٹیں عبور کرنے کی کوشش کر رہی تھی، کیپٹل پولیس آفیسر نے گولی مار کر ہلاک کیا۔ ایک سابق نیوی اہلکار اور ورجینیا سے تعلق رکھنے والے دو پولیس اہلکاروں کو بھی ایف بی آئی نے گرفتار کیا ہے۔ پنٹاگون نے یہ بتانے سے انکار کیا ہے کہ کتنے دوسرے حاضر سروس اہلکار زیر تفتیش ہیں، قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں پر تشدد سے لے کر بغاوت کی سازش تک کے الزامات شامل ہیں۔ ان الزامات کے ثابت ہونے پر 20 سال تک قید کی سزا ہو سکتی ہے۔ 6 جنوری کو حاضر سروس اور سابق فوجی اہلکاروں پر اپنے ملک کے خلاف اعلانِ جنگ اور آئین پر حملہ کرنے کا الزام لگایا گیا، ان میں سے کچھ فوجی گیئر اور اسلحہ سے لیس تھے۔ عدالتی دستاویزات سے ظاہر ہوتا ہے کہ حاضر سروس فوجی اہلکار اور سابق فوجی دارالحکومت پر حملہ آور ہجوم میں شامل تھے۔ بعض سابق فوجیوں پر عائد الزامات کا تجزیہ کرتے ہوئے پراسیکیوٹر نے کہا: انہوں نے تشدد اور لاقانونیت کی قیادت کی، اس سے صدر جو بائیڈن کی انتخابی فتح کے تصدیقی عمل میں خلل پڑا۔ سابق فوجیوں اور انتہائی دائیں بازو کے نوجوانوں کی تنظیم FRPB کے درمیان مبینہ رابطوں کا بھی انکشاف ہوا ہے۔ سی این این نے ایسے نو افراد کی نشاندہی کی ہے۔ گرفتار شدگان میں سب سے زیادہ معروف شخص جنگ میں حصہ لینے والا 37 سالہ سابق فوجی جوزف رینڈل بِگز ہے، جو احتجاج کے دوران، پورٹ لینڈ، اوریگان سے لیکر واشنگٹن ڈی سی تک فاشزم مخالف تنظیم (Antifa) کے خلاف پُرتشدد جھڑپوںکے لیے مشہور ہے، وہ پُرجوش تقریروں اور بعض اوقات خواتین اور Antifa کے خلاف پُرتشدد بیان بازی سے فار رائٹ کی آن لائن شخصیت بنے ہوئے ہیں۔ 2012ء سے جائزہ لیں تو اس کے ٹویٹر اکائونٹ میں جنسی تشدد سے بھرپور کئی ٹویٹس موجود تھے، جس کے دستاویزی ثبوت Media Matter For America گروپ کے پاس موجود ہیں، ان میںجنسی تشدد کے حوالے سے گمراہ کن باتیں لکھی ہیں۔ بگز نے رونے کی آواز میں ٹویٹ کیا: ''Antifa مردہ باد‘‘ اور دوسرے ٹویٹ میں اس نے کہا: ''پورٹ لینڈ میں ریلی کے لیے بندوق اور گولہ بارود حاصل کرو‘‘، مسلسل قواعد وضوابط کی خلاف ورزی پر ٹویٹر نے اس کا اکائونٹ معطل کر دیا تھا۔ 6 جنوری کو بگز بیان بازی سے کہیں آگے چلا گیا۔ ایف بی آئی نے بگز کی اس تصویر کو اپنے حلف نامے میں استعمال کیا کہ وہ ایک کھلے دروازے سے 20 سیکنڈ میں داخل ہوا۔ ایک وڈیو میں سی این این نے 6 جنوری سے جائزہ لیا ہے جس میں بگز کو Proud Boys Troops کی قیادت کرتے ہوئے اور کیپٹل ہل پر حملے کی رہنمائی کرتے ہوئے دیکھا گیا ہے۔ فیڈرل پراسیکیوٹر نے کہا: اس نے وفاقی املاک کی تباہی کی غرض سے دوسروں کی اعانت کی، ان کومشورہ دیا اور برانگیختہ کیا تاکہ وہ غیر قانونی طور پر دارالحکومت میں داخل ہو جائیں۔ اس پر غیر قانونی داخلے، کیپٹل ہل میں نامناسب برتائو اور کانگرس کی سرکاری کارروائی میں رکاوٹ ڈالنے کے الزامات ہیں۔ ایک فیڈرل ایجنٹ نے کہا: ''بگز حملہ کرنے والے ہجوم میں پہلا شخص تھا جو کیپٹل میں داخل ہوا‘‘۔
بگز کے Proud Boys میں سے ایک ڈومینیک پزولا ہے، اس پر سازش کے الزامات ہیں۔ اسے ایک تصویر میں کیپٹل ہل کی ایک کھڑکی کو توڑتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ ایک شخص گارشیا کو ایف بی آئی نے ایک وڈیو میں یہ کہتے ہوئے دکھایا: ''ہم نے آگے بڑھ کر کیپٹل پر حملہ کیا ہے‘‘۔ اس نے حملہ آوروںکو روکنے والے پولس کے سپاہی کو گالی دی اور غدار کہا۔ وہ ایک لاکھ ڈالر کے مچلکے پر ضمانت پر ہے۔ سابق مرین نکولس اپنے ایک سابق میرین دوست کے ساتھ کیپٹل حملے میں شریک تھا، وہ ایک وڈیو میں بیل کے سینگ کے ساتھ ایک بڑے ہجوم سے چیختے ہوئے کہتا ہے: ''اگر آپ کے پاس ہتھیار ہیں تو آپ کو اپنے ہتھیار اٹھانے کی ضرورت ہے، یہ انقلاب ہے، پُرامن احتجاج نہیں ہے‘‘۔ عدالتی دستاویزات کے مطابق شناخت کرنے والے ایک شخص نے کہا: ''میرے پاس ان کے سوشل میڈیا سے ایک سکرین شاٹ ہے، الیکس کے بیان سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ وہ خانہ جنگی کی منصوبہ بندی کر رہے تھے‘‘۔ اداروں کا بیان ہے کہ نکولس کے پاس مرچوں کا سپرے، لوہے کے نوکدار اور مڑے ہوئے راڈ تھے۔ وہ کیپٹل ہل کے داخلی راستوں کی طرف مرچوں کا سپرے کرتا تھا جہاں حملہ آوروں کو روکنے کے لیے فیڈرل ایجنٹ کھڑے تھے۔ نکولس نے سابق میرین دوست ہارڈ ریکر کی تصویر شائع کی، اس نے لکھا تھا: ''ہم اندر ہیں، دو لوگ پہلے ہی مر چکے ہیں، ہمیں اپنے ملک کے تمام محب وطن لوگوں کی ضرورت ہے، وہ اٹھیں اور ہماری آزادی کے لیے لڑیں، ورنہ ہمیشہ یہی ہوتا رہے گا‘‘۔ اس نے سوشل میڈیا پرلکھا: ''ہمیں آزادی دو یا موت‘‘۔ ہارڈریکر اور نکولس پر سازش، خطرناک ہتھیاروں سمیت غیر قانونی داخلے، پُرتشدد اقدامات، سول نافرمانی، وفاقی سرکاری افسروں پر خطرناک اسلحے کے ساتھ حملے کا الزام عائد کیا گیا ہے، یہ دونوں ابھی تک جیل میں ہیں۔ پرپل ہارٹ تمغہ جیتنے والے جوشوا لولر نے فیس بک پر پوسٹ کیا: ''ہاں میں ٹھیک ہوں، آنسو گیس کا شکار ہوا، پولیس اہلکاروں کے ساتھ لڑا، جس کے متعلق میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا‘‘۔ جوشوا پر پُرتشد داخلے، سرکاری آفیسرز کے ساتھ نامناسب رویے اور وفاق کی جانب سے محفوظ فنکشن میں رکاوٹ ڈالنے سمیت کئی جرائم کا الزام عائد کیا گیا ہے۔ عدالت نے بندوق، گیس ماسک اور جسم کو بچانے والا لباس جوشوا کے والد کے پاس محفوظ رکھنے کا حکم دیا ہے۔ کے پی آر سی چینل کے مطابق زیادہ تر سابق فوجیوں پر سازش کا الزام عائد کیا گیا ہے۔ سابق فوجی جیسیکا واٹکنز پر انتہا پسند تنظیم Far-Right کا حلف یافتہ ہونے کا الزام ہے، اس کے خلاف سابق میرین ڈونوون کرال اور نیوی کے سابق فوجی تھامس کالڈوِل کے ساتھ مل کر سازش تیار کرنے کا الزام ہے۔
دو پولیس آفیسر فسادیوں کے حملے میں اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے، ان میں سے ایک کا تعلق کیپٹل پولس اور دوسرے کا میٹرو پولیٹن پولس سے تھا۔ سی این این کے مطابق دو پائپ بم ڈیموکریٹک اور ریپبلکن پارٹیوں کے ہیڈ کوارٹر کے پاس سے ملے جو بغاوت سے ایک رات پہلے نصب کیے گئے تھے۔ تفتیشی اداروں کا کہنا ہے: یہ بم قانون نافذ کرنے والے اداروں کی توجہ بٹانے کے لیے لگائے گئے تھے اور یہ منصوبے کا حصہ تھے تاکہ کیپٹل ہل میں داخلہ آسان ہو جائے۔ سابق ایف بی آئی ایجنٹ مائیکل جرمن نے‘ جو سفید فام بالا دستوں اور مقامی انتہا پسندوں کے درمیان خفیہ ایجنٹ کے طور پر خدمات انجام دے چکا ہے‘ فوج میں انتہا پسندی کے بارے میں کہا: ''ہم نے اکثر دیکھاہے کہ فوج میں اس قسم کی نظریاتی انتہا پسندی موجود ہونے کی اجازت ہے، اس کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کی کماحقہٗ کوششیں نہیں ہوتیں، نہ اس کی حقیقی تصویر کشی ہوتی ہے، ہماری سکیورٹی فورسز میں غیر جمہوری تحریک ہماری سکیورٹی کے لیے سنگین خطرہ ہے، یہ خطرہ مسلح افواج اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی نسبت باہر زیادہ ہے، صرف سابق فوجی اور پولیس آفیسر تشدد اور غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث نہیں ہیں، بلکہ گزشتہ چار سالوں میں پورے ملک میں جتنے لوگ انتہا پسند انہ تشدد میں ملوث رہے، ان کی پشت پر منتخب سیاسی نمائندوںکا ہاتھ رہا ہے‘‘۔یہ تفصیل ہم نے اس لیے پیش کی ہے تاکہ قارئین کو معلوم ہو کہ جو ہمارے لیے امن و سلامتی اور اخلاقیات کے معلّم بنتے ہیں، ان کے معاشرے کو تو چھوڑیے، دفاعی اداروں میں کس ذہنیت کے نسل پرست، فاشسٹ اور جرائم پیشہ لوگ گھسے ہوئے ہیں، اقبال عظیم نے کہا تھا:
جب گھر کی آگ بجھی، تو کچھ سامان بچا تھا جلنے سے
سو وہ بھی ان کے ہاتھ لگا، جو آگ بجھانے آئے تھے

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں