"MMC" (space) message & send to 7575

امر بالمعروف ونھی عن المنکر…(1)

اللہ تبارک وتعالیٰ نے خاتم النبیین سیدنا محمدرسول اللہﷺ کی امت کو قرآنِ کریم میں ''خَیْرُ الْاُمَمِ‘‘ یعنی سب سے بہترین امت اور ''اُمَّتِ وَسَط‘‘ کا لقب عطا فرمایا ہے۔ وَسَط کے معنی ہیں: ''(عقیدہ وعمل میں) اعتدال اور توازن پر قائم رہنے والا جو غُلُوّ اور افراط وتفریط سے پاک ہو۔ مفسرین کرام نے ''وَسَط‘‘ کا ایک معنی بہترین اور افضل امت بتایا ہے۔ اس اعتبار سے ''خَیْرُ الْاُمَمْ‘‘ اور ''وَسَطُ الْاُمَمْ‘‘ ہم معنی کلمات ہیں۔
قرآنِ کریم نے جہاں اس امت کو ''خَیْرُ الْاُمَمْ‘‘ کے اعزاز سے نوازا ہے، وہاںاس کے فرائض بھی بیان فرمائے ہیں۔ ارشاد فرمایا: ''جو امتیں لوگوں کے لیے ظاہر کی گئی ہیں، تم ان میں سب سے بہترین امت ہو، تم نیکی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے روکتے ہو اور تم اللہ پر ایمان رکھتے ہو‘‘ (آل عمران:110)۔ سیدنا محمد رسول اللہﷺ پراللہ تعالیٰ نے نبوت کا سلسلہ ختم فرما دیا، دین کی تکمیل اور اتمامِ نعمت کا اعلان فرمایا اور آپﷺ کو سلسلۂ نبوت و رسالت کا آخری تاجدار بنایا۔ آپﷺ سے پہلے یکے بعد دیگرے انبیائے کرام علیہم السلام تشریف لاتے رہے اور راہِ راست سے بھٹکی ہوئی اپنی امتوں کی اصلاح کا فریضہ انجام دیتے رہے، درمیان میں انقطاعِ نبوت کے ادوار بھی آئے، ان ادوار میں انبیائے کرام کی تعلیمات بھلا دی گئیں، اُن میں تحریف کر دی گئی یا انہیں مسخ کر دیا گیا، تو دین وشریعت کو اپنی اصل شکل پر بحال کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے انبیائے کرام بھیجے، مگر چونکہ آپﷺ کے بعد کسی نبی اور رسول کے آنے کا امکان ختم کر دیا گیا، اس لیے تجدید و اِحیا اور ابلاغِ دین کی ذمہ داری کو آپﷺ کی امت کی طرف منتقل فرما دیا۔ آپﷺ نے حجۃ الوداع کے موقع پر تمام حاضرین سے اس بات کا اقرار لیا کہ آپﷺ نے دین کو بکمال وتمام امت تک پہنچا دیا ہے، پھر یہ فریضہ امت کو منتقل کرتے ہوئے آپﷺ نے فرمایا: (1) ''جو لوگ یہاں موجود ہیں، وہ دین کے اس پیغام کو اُن تک پہنچا دیں جو یہاں پر موجود نہیں ہیں‘‘ (بخاری:104)، (2) ''مجھ سے تم نے جو امانتِ دین حاصل کی ہے، اُسے دوسروں تک پہنچا دو، خواہ ایک آیت ہی ہو‘‘ (بخاری:3461)، (3) ''بے شک اللہ تعالیٰ ہر صدی کے سرے پر اس امت کے لیے ایسے شخص کو مبعوث فرمائے گا، جو اس کے دین کی تجدید کرے گا‘‘ ( ابودائود:4291)، اسی کو ''تجدید واحیائے دین‘‘ یعنی دین کو ہر قسم کی منکَرات وبدعات کی آمیزش سے پاک کرنا کہتے ہیں۔ قرآنِ کریم نے اسے ''امر بالمعروف‘‘ اور ''نھی عن المنکَر‘‘ سے تعبیر فرمایا ہے۔
معروف کے لفظی معنی ہیں: ''جانا پہچانا‘‘، یعنی عقائد، عبادات، معاملات اور اخلاقیات سے متعلق ایسے امور جن سے فطرتِ سلیم مانوس ہے، انہیں قبول کرنے میں اُسے روحانی فرحت وانبساط محسوس ہوتی ہے۔ کوئی انقباض اور تردُّد نہیں ہوتا، یہ قلبِ سلیم کا تقاضا ہوتا ہے اور'' مُنکَر‘‘ کے معنی اجنبی اور نامانوس کے ہیں، یعنی جن امور سے اسلام نے منع فرمایا ہے، انسان کی فطرتِ سلیم اُن سے نفرت کرتی ہے، سوائے اس کے کہ فطرت میں فساد پیدا ہو جائے، شیطنت کا غلبہ ہو جائے تو تقاضے بدل جاتے ہیں۔
اسلام نے دعوتِ حق کا فریضہ بحیثیتِ مجموعی امتِ مسلمہ کو فرضِ کفایہ کے طور پر تفویض کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ''اور تم میں سے ایک جماعت ایسی ہونی چاہیے جو بھلائی کی طرف بلائے، نیکی کا حکم دے اور برائی سے روکے، یہی لوگ کامیاب ہیں‘‘ (آل عمران:104)۔ فرضِ کفایہ ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اگر ایک جماعت دعوتِ حق کے اس فریضے کے لیے اٹھ کھڑی ہو تو باقی لوگ بری الذمہ ہیں، ایسا ہرگز نہیں ہے۔ ہر ایک اپنے دائرۂ کار واختیار کی حد تک جوابدہ رہے گا۔ حدیث پاک میں ہے: (1) ''عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: میں نے رسول اللہﷺ کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا: تم میں سے ہر شخص نگہبان ہے اور ہر شخص اپنے ماتحت لوگوں کی طرف سے جواب دہ ہے۔ سربراہِ حکومت نگہبان ہے، اُس سے پوری رعیّت کے بارے میں پوچھا جائے گا اور ایک شخص اپنے خاندان کا نگہبان ہے اور اُس سے اُن کی بابت پوچھا جائے گا، عورت اپنے شوہر کے گھر کی نگہبان ہے اور اُس سے اس کی بابت سوال ہوگا، ملازم اپنے مالک کے مال کا نگہبان ہے اور اس سے اُس کی بابت سوال ہوگا اور میرا گمان ہے کہ آپﷺ نے یہ بھی فرمایا: ''اور جو شخص اپنے باپ کے مال کا نگہبان ہے، اُس سے اس کی بابت سوال ہوگا، (الغرض) ہر ایک کسی نہ کسی درجے میں نگہبان ہے اور اُس سے اس کے ماتحتوں کے بارے میں سوال ہو گا‘‘ (بخاری: 893)، (2) ''جو تم میں سے کسی برائی کو دیکھے تو اُسے اپنے ہاتھ سے روکے اور اگر یہ نہ کر سکے تو اپنی زبان سے روکے اور اگر یہ بھی نہ کر سکے تو دل میں اُسے برا جانے اور یہ ایمان کا سب سے کمزور درجہ ہے‘‘ (مسلم:49)۔
اس حدیث کی شرح میں علمائے کرام نے کہا ہے: '' برائی کو طاقت سے روکنا ہر عہد کے حکمرانوں کی (درجہ بدرجہ) ذمہ داری ہے، برائی کے خلاف زبان و قلم سے صدائے احتجاج بلند کرنا اہلِ علم کی ذمہ داری ہے اور اگر کوئی اس کی بھی استطاعت نہ رکھے تو برائی کو دل سے برا جانے اور یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے‘‘، حدیث پاک میں اسے ''اَضْعَفُ الْاِیْمَان‘‘ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اس پر بعض حضرات سوال اٹھاتے ہیں: ''جب کوئی شخص نہ طاقت سے برائی کو روکنے کی قدرت رکھتا ہے، نہ زبان سے صدائے احتجاج بلند کر سکتا ہے، تو اس میں اس کا کیا قصور ہے کہ اُس کے ایمان کا درجہ کمزور ترین بتایا گیا ہے، جبکہ باری تعالیٰ کا فرمان ہے: ''اللہ تعالیٰ کسی انسان کو اس کی طاقت سے بڑھ کر کسی بات کے لیے جوابدہ نہیں بناتا‘‘ (البقرہ:286)۔
اس کا جواب بعض علماء نے یہ دیا ہے: ''اس میں مختلف حالات کی طرف اشارہ ہے: کبھی حالات دعوتِ حق کے لیے سازگار ہوتے ہیں اور برائی کو ہاتھ سے روکا جا سکتا ہے، کبھی ایسے ہوتے ہیں کہ برائی کو ہاتھ سے تو نہیں روکا جا سکتا، لیکن زبان وقلم سے صدائے احتجاج بلند کی جا سکتی ہے اورکبھی دین کے لیے حالات اتنے مشکل ہو جاتے ہیں کہ برائی کو نہ ہاتھ سے روکا جا سکتا ہے اور نہ زبان سے صدائے احتجاج بلند کی جا سکتی ہے، تو ایسے حالات میں لوگ اس بات کے مکلّف ہوں گے کہ دل سے برائی سے نفرت کریں اور اپنا دامن برائی سے بچائے رکھیں، ایسے حالات کو ''اَضْعَفُ الْاِیْمَان‘‘ سے تعبیر کیا گیا ہے، الغرض یہ تین درجے (اقویٰ، اوسط اور اضعف) تین قسم کے حالات سے متعلق ہیں اور انسان اپنے حسبِ حال ہی دین کے لیے کردار ادا کرنے کا پابند ہے، حالات کسی کو اَضْعَفُ الْاِیْمَان کے درجے کو پہنچا دیں تواس میں اس کا ذاتی قصور کوئی نہیں ہے۔
کلمۂ حق بلند کرنے کی قدرت کے باوجود لاتعلق رہنے والوں کے لیے، خواہ وہ اپنی ذات میں پارسا ہی کیوں نہ ہوں، حدیث پاک میں وعید آئی ہے: ''حضرت جابرؓ بیان کرتے ہیں: رسول اللہﷺ نے فرمایا: ''اللہ تعالیٰ جبریل علیہ السلام کو حکم فرماتا ہے: فلاں بستی کو اس کے رہنے والوں سمیت الٹ دو، جبرئیل امین عرض کرتے ہیں '' پروردگار! اس بستی میں تیرا فلاں (انتہائی متقی) بندہ ہے ، جس نے کبھی پلک جھپکنے کی مقدار بھی تیری نافرمانی نہیں کی (اس کے بارے میں کیا حکم ہے)‘‘، اللہ تعالیٰ فرماتاہے: اُس سمیت اِس بستی کو الٹ دو، کیونکہ میری ذات کی خاطر اس کا چہرہ کبھی بھی غضبناک نہیں ہوا‘‘ (شعب الایمان:7189)۔ حدیث مبارک کا مطلب یہ ہے کہ اس کے سامنے دینِ اسلام کی حدود پامال ہوتی رہیں، مُنکَرات کا چلن عام رہا، لیکن ان برائیوں کو روکنے کی عملی تدبیر تو دور کی بات ہے‘ حدودِ الٰہی اور دینی اقدار کی پامالی پرکبھی اس کی جبین پر شکن بھی نہیں آئی، وہ صرف اپنی عبادت اور ذکر واذکار میں مشغول رہا، اپنے حال میں مست رہا، برائیوں کو مٹانے اور معاشرے کی اصلاح کے حوالے سے ایک مسلمان پر جو ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں ان کو ادا کرنے سے قطعی طور پر غافل اور لاتعلق رہا۔
الغرض ''تجھ کو پرائی کیا پڑی، اپنی نبیڑ تُو‘‘ کے فلسفے کی شریعت میں گنجائش نہیں ہے، ہر ایک حسبِ استطاعت اور حسبِ حال امر بالمعروف اور نہی عن المنکَر کے لیے اپنا کردار ادا کرنے کا پابند ہے، حدیث پاک میں ہے: ابواُمیّہ شعبانی بیان کرتے ہیں: میں ابوثعلبہ خُشَنی کے پاس آیا اور میں نے اُن سے کہا ''اس آیت کا آپ کیا کرو گے‘‘، انہوں نے پوچھا: کون سی آیت؟ میں نے کہا: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ''اے مومنو! اپنی فکر کرو، اگر تم ہدایت پر ہو تو کسی کی گمراہی تمہیں نقصان نہیں پہنچائے گی‘‘ (المائدہ:105)، (سائل کو شبہ تھا کہ امت کی ذمہ داری تو امر بالمعروف ونہی عن المنکر ہے، ہمیں تو پوری انسانیت کو بچانے کی تدبیر کرنا ہے اور آیت کا ظاہری مفہوم یہ پیغام دے رہا ہے: ''تجھ کو پرائی کیا پڑی، اپنی نبیڑ تُو‘‘)، انہوں نے جواب دیا: میں نے اس کی بابت سب سے زیادہ باخبر شخصیت یعنی رسول اللہﷺ سے پوچھا تھا تو آپﷺ نے فرمایا ''بلکہ تم نیکی کا حکم دیتے اور برائی سے روکتے رہو حتیٰ کہ ایسا وقت آ جائے کہ تم دیکھو کہ بخیل کا حکم مانا جا رہا ہے ، خواہشاتِ نفس کی پیروی کی جا رہی ہے، دنیا کو دین پر ترجیح دی جا رہی ہے اور ہر شخص اپنی رائے کو حرفِ آخر سمجھ رہا ہے (تو یہ مشکل وقت ہے ، پس ایسے وقت میں) اپنے دین کو بچانے کی فکر کرو اور عوام کو اُن کے حال پر چھوڑ دو، کیونکہ اب تمہارے پیچھے اتنے مشکل دن ہیں کہ گویا آگ کی چنگاری کو مٹھی میں لینا، ایسے ایام میں جو خیر پر قائم رہے گا، اُسے پچاس افراد کے برابر اجر ملے گا جو تم جیسا کام کریں‘‘۔ عبداللہ بن مبارکؒ کہتے ہیں: ایک روایت میں ہے: عرض کیا گیا: یارسول اللہﷺ! ہمارے پچاس افراد کے برابر یا اُس دور کے پچاس افراد کے برابر (اجر ملے گا)؟ آپﷺ نے فرمایا: تمہارے پچاس افراد کے برابر‘‘ (سنن ترمذی:3058)۔ اس حدیث پاک کا مطلب یہ ہے کہ جب تک ممکن ہو دعوتِ حق کے فریضے کو ادا کرتے رہنا چاہیے، سوائے اس کے کہ ایسے حالات پیدا ہو جائیں کہ دعوتِ حق کا فریضہ ادا کرنا عملًا ناممکن یا مشکل ترین ہو جائے، پس ایسے حالات میں اپنے دین کو بچانے کی فکر کرنی چاہیے، کیونکہ جب حالات بندے کے بس سے باہر ہو جائیں تو اُس سے اُن کے بارے میں جواب طلبی نہیں ہو گی۔ (جاری)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں