رسول کریمﷺ سے کفار طرح طرح کے مطالبے کرتے تھے کہ ہم اس وقت ایمان لائیں گے‘ جب فرشتے ہمارے پاس اتر کر آئیں یا برزخ و آخرت کے بارے میں آپ جو باتیں ہمیں بتاتے ہیں‘ ہمارے جو لوگ مرچکے ہیں‘ وہ زندہ ہو کر آئیں اور آپ کے دعووں کی تصدیق کریں‘ قرآن نے بتایاکہ اُن کی یہ ساری باتیں جہل پر مبنی اور انکارِ حق کے لئے محض بہانے بازی ہے۔
سورۃ الانعام کی آیات 117 تا 118میں فرمایا: جس (حلال جانور) پر ذِبح کے وقت اللہ کا نام لیاگیا ہو‘ اُسے کھاؤ‘ جو حرام چیزیں ہیں‘ انہیں تمہارے لئے تفصیل سے بیان کر دیا گیا‘ صرف حالتِ اضطرار میں اور وہ بھی بقدرِ بقائے حیات کھانے کی اجازت ہے۔ مزید فرمایا: جس ذبیحے پر اللہ کا نام نہ لیا گیا ہو‘ اُسے نہ کھاؤ۔ آیت 123 میں فرمایا: اور اسی طرح ہم نے ہر بستی میں اُس کے مجرموں کو سردار بنایا تاکہ وہ وہاں فریب کاری کریں اور اُن کے دَجل و فریب کا وبال اُنہی پر آئے گا۔ آیات 130 تا 131 میں اتمامِ حُجّت کیلئے فرمایا: ''اے جنّات اور انسانوں کے گروہ! کیا تمہارے پاس رسول نہیں آئے تھے‘ جو تم پر میری آیات بیان کرتے تھے اور تمہیں اس (قیامت کے) دن کی ملاقات سے ڈراتے تھے؟ وہ کہیں گے: ہم خود اپنے خلاف گواہی دیتے ہیں اور اُنہیں دنیاکی زندگی نے فریب میں مبتلا کر رکھا ہے۔ (یہ گواہی اس وجہ سے دی گئی کہ) آپ کا رب بستیوں کو ظلماً ہلاک کرنے والا نہیں ہے‘‘۔ آیات 142 تا 146 میں اللہ تعالیٰ نے پھلوں‘ کھیتوں اور جانوروں کے ذریعے عطا کی جانے والی نعمتوںکا ذکر فرمایا کہ ''اللہ کی ان نعمتوں کو کھاؤ‘ اسراف نہ کرو اور شیطان کے نقشِ قدم پر نہ چلو‘ پھلوں اور کھیتوں کی پیداوار میں اللہ تعالیٰ کے حق (عُشر یا نصف عُشر) کو ادا کرو‘‘ پھر فرمایا کہ ''یہود کی سرکشی کی وجہ سے ناخن والے جانوروں اور گائے اور بکری کی چربی کو ان پر حرام کر دیا گیا تھا‘ انہوں نے اسے پگھلایا اور فروخت کر دیا‘‘۔ آیت 148 میں ہر دور کے منکرین کے ایک نفسیاتی حربے کو بیان کیا کہ وہ جو کچھ بھی کر رہے ہیں‘ یہ اللہ کی مشیت ہے‘ اگر وہ نہ چاہتا تو ہم یہ سب کچھ نہ کرپاتے۔ درحقیقت بات یہ ہے کہ اللہ کی مشیت اور ہے اور اس کی رِضا اور ہے‘ مثلاً: مجرم کو سزا دینا اس کی مشیت ہے‘ لیکن اس کی رِضا اس میں ہے کہ کوئی اس کی نافرمانی نہ کرے۔ اگر سب کو جبری طور پر اطاعت کے راستے پر ڈالنا اللہ تعالیٰ کی مشیت ہوتی‘ تو کسی کی مجال نہ تھی کہ اس کی حکم عدولی کرے۔ آیات 152 تا 154 میں فرمایا کہ (1) اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائو (2) والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کرو (3) تنگ دستی کے خوف سے اولاد کو قتل نہ کرو (4) ظاہر و مستور فحاشی سے اجتناب کرو (5) قتلِ ناحق نہ کرو (6) یتیم کا مال ناجائز طریقے سے نہ کھاو‘ (7) لین دین میں ناپ تول پورا کرو (8) بلا تمیز سب کے ساتھ انصاف کرو (9) اور اللہ سے کئے گئے عہد کی پاسداری کرو؛ چونکہ یہ نو اَحکامِ شرعیہ ہی دینِ اسلام کی تعلیمات کا خلاصہ اور لُبِّ لُباب ہیں اور باقی تمام شرعی اَحکام انہی پر منحصر ہیں‘ اسی لئے فرمایا: ''یہی سیدھا راستہ ہے‘ فرقہ بندی چھوڑ کر اسی کی پیروی کرو اور کتابِ الٰہی کے اَحکام کو ملحوظ رکھو‘‘۔ آیات 163 تا 164میں حقیقتِ ایمان اور روحِ ایمان اور مسلمان کے مقصدِ حیات کو بیان کرتے ہوئے فرمایا: ''(اے رسول!) کہہ دیجئے کہ میری نماز‘ میری قربانی‘ میری زندگی اور میری موت (سب کچھ) اللہ رب العالمین کیلئے ہے‘ اس کا کوئی شریک نہیں اور مجھے یہی حکم دیا گیا ہے اور میں سب سے پہلا مسلمان ہوں‘‘۔
سورۃ الاعراف
اعراف کے معنی بلندی کے ہیں اور اس کا معنی جاننا اور پہچاننا بھی ہے۔ ''اصحابِ اعراف‘‘ کے بارے میں ایک قول یہ ہے کہ ان کی نیکیاں اور گناہ برابر ہوں گے اور ان کا مقام جنت اور دوزخ کے درمیان ہو گا یا یہ وہ لوگ ہیں جو اہل جنت اور اہلِ جہنم کو پہچاننے والے ہوں گے اور ایک قول کے مطابق یہ انبیاء ہیں یا ملائکہ ہیں۔ آیت 8 میں بتایا کہ قیامت کے دن اعمال کا وزن کیا جانا حق ہے اور جن کی نیکیوں کا پلڑا بھاری ہو گا‘ وہی فلاح پانے والے اور کامیاب ہیں اور جن کی نیکیوں کا پلڑا ہلکا ہو گا وہ نقصان اٹھانے والے ہیں۔ آیات 11 تا 27 میں آدم علیہ السلام اور ابلیس کا واقعہ بیان ہوا کہ جب ابلیس نے اللہ کے حکم پر آدم کو سجدہ نہ کیا تو ربِ ذوالجلال نے اس سے پوچھا کہ تو نے میرے حکم کے باوجود سجدہ کیوں نہ کیا؟ اس نے اپنی سرکشی کا جواز عقلی دلیل سے پیش کیا کہ میں آدم سے بہتر ہوں‘ انہیں مٹی سے پیدا کیا گیا ہے‘ میرا جوہرِ تخلیق آگ ہے اور آگ لطیف ہونے کی بنا پر مٹی سے افضل ہے۔ تکبر کی بنا پر اللہ تعالیٰ نے ابلیس کو رسوا کرکے مقامِ عزت سے نکال دیا۔ اللہ تعالیٰ نے آدم وحوا علیہما السلام کو جنت میں داخل کیا اور انہیں خاص درخت کے قریب جانے سے منع فرمایا۔ شیطان نے ان کو وسوسہ ڈالا اور مخلص اور خیر خواہ کا روپ اختیار کرکے کہا کہ آپ لوگوں کو اس درخت کے قریب جانے سے محض اس لئے منع کیا گیا ہے کہ اس کے قریب جاکر آپ لوگ فرشتے بن جائیں گے اور آپ لوگوں کو ابدی زندگی مل جائے گی‘ اس نے قسمیں کھا کر اپنی خیرخواہی کا یقین دلایا‘ پھر ان سے اجتہادی خطا ہوئی اور اس درخت کو چکھنے سے ان کی شرمگاہیں ظاہر ہوئیں اور وہ درختوں کے پتوں سے اپنے ستر کو ڈھانپنے لگے‘ یہاں قرآن نے یہ بھی بتایا کہ شیطان کا مقصد ان کے ستر کو بے حجاب کرنا تھا۔ اپنی اجتہادی خطا کا احساس ہونے پر آدم علیہ السلام نے توبہ کی اور ان کی توبہ کے کلمات آیت 23 میں بیان ہوئے ہیں۔ آیت 26 تا 27 میں اللہ تعالیٰ نے مقصدِ لباس بیان فرمایا کہ ہم نے بنی آدم پر لباس اس لئے اتارا کہ ان کی ستر پوشی ہو اور سامانِ زینت ہو اور سب سے بہتر لباس تو تقویٰ ہے‘ پھر بنی آدم کو متنبہ کیا گیا کہ شیطان کے مکرو فریب میں نہ آنا‘ اس کو یہ مَلکہ دیا گیا ہے کہ وہ تمہیں ہر جہت سے دیکھ سکتا ہے۔ آیت 57 میں اللہ تعالیٰ نے بارانِ رحمت کے نظام کے بارے میں بتایا کہ اس کے حکم سے ہوائیں پانی سے بھرے بادلوں کو اُٹھا کر لے جاتی ہیں اور بنجر زمین پر برسا کر اس میں اللہ کی نعمتیں پیدا کر دیتی ہیں‘ پھر فرمایا کہ اچھی زمین اللہ کے حکم سے سبزہ اگاتی ہے اور خراب زمین باغ و بہار نہیں لاتی۔ آیت 59 سے حضرت نوحؑ اور ان کی قوم کے حالات بیان کئے گئے ہیں کہ ان کی قوم کے سرداروں نے کہا: ''(معاذ اﷲ) آپ کھلی گمراہی میں ہیں۔ حضرت نوح علیہ السلام نے فرمایا کہ میں تو اللہ کا رسول ہوں اور میرا کام تمہاری خیر خواہی اور تم تک دعوتِ حق کو پہچانا ہے‘‘۔ آیت 65 سے اگلی آیات میں حضرت ہود اور ان کی قوم عاد کا ذکر ہے کہ قومِ عاد نے بھی اللہ کے نبی پر طعن کیا کہ (معاذاللہ) آپ حماقت میں مبتلا ہیں‘ پھر ہود علیہ السلام نے اپنی قوم کو وہی جواب دیا‘ جو حضرت نوحؑ نے اپنی قوم کو دیا تھا۔ حضرت ہودؑ نے قومِ عاد کو انعاماتِ الٰہیہ کا شکر اداکرنے کی تلقین کی‘ اُن کے انکار کے سبب اُن پر اللہ کا عذاب اور غضب نازل ہوا‘ اللہ نے حضرتِ ہود اور ان کے ساتھیوں کو نجات دی۔ آیت 73 سے حضرت صالحؑ اور ان کی قوم ثمود کا ذکر ہے۔ قومِ ثمود کے لوگ بڑے طاقتور تھے اور یہ پہاڑوں کو تراش کر ان میں گھر بناتے تھے‘ گویا ان کو اپنی طاقت پر ناز تھا‘ پھر قومِ ثمود نے اللہ کے حکم کی نافرمانی کی اور حضرت صالع کو معجزے کے طور پر دی گئی اونٹنی کی کونچیں کاٹ دیں‘ اللہ تعالیٰ نے ان کی سرکشی کی سزا اس طرح دی کہ ان پر رات کو زلزلے کا عذاب آیا اور صبح کو وہ اپنے گھروں میں اوندھے منہ پڑے رہ گئے۔ آیت 80 سے 84 تک حضرت لوط اور ان کی قوم کا ذکر ہے کہ وہ بے حیائی میں اپنے زمانے کے سب لوگوں پر سبقت لے گئے‘ وہ اپنی جنسی خواہش کو غیر فطری طریقے سے پورا کرتے تھے اور جب اللہ کے نبی عذاب کا ڈر سناتے تو وہ اسے مذاق سمجھتے۔ بالآخر اللہ تعالیٰ نے ان پر عذاب نازل کیا‘ آسمان سے پتھر برسائے اور اس طرح ان کا نام ونشان مٹا دیا گیا‘ یہاں تک کہ حضرت لوط علیہ السلام کی بیوی‘ جو قومِ لوط کی ہم خیال تھی‘ بھی عذاب سے نہ بچ سکی۔ صرف حضرت لوط علیہ السلام اور ان کے ساتھ قبیلے کے چند نیکوکار لوگ ہی محفوظ رہے۔
آیت 85 میں قومِ مَدیَن کا ذکر ہے کہ وہ ناپ تول میں ڈنڈی مارتے اور دوسروں کو چیزیں کم تول کر دیتے تھے اور راستے میں بیٹھ کر اہلِ ایمان کو ڈراتے اور انہیں راہِ راست سے روکتے۔ انہیں بھی کہا گیا کہ فساد فی الارض سے باز آ جاؤ اور اپنے سے پہلی سرکش امتوں کا انجام دیکھ لو۔