سورۃ الاحقاف
اس سورہ میں ماں باپ کے ساتھ حسنِ سلوک کا تاکیدی حکم ہے اور ماں نے حمل اور وضعِ حمل کے دوران جو بے پناہ مشقتیں اٹھائیں ان کا ذکر ہے اور یہ بھی بتایا کہ حمل اور دودھ چھڑانے کی مدت تیس ماہ ہے‘ چونکہ حدیث کی رو سے دودھ پلانے کی مدت دو سال ہے‘ اس لئے فقہا نے فرمایا کہ ممکنہ طور پر کم ازکم مدتِ حمل چھ ماہ ہے۔ پھر قرآن نے بتایا کہ صالح اولاد پختگی کی عمر کو پہنچنے کے بعد اللہ تعالیٰ سے اس کی ان نعمتوں کا جو اس نے اس پر اور اس کے والدین پر کیں‘ شکر ادا کرنے کی توفیق طلب کرتی ہے اور اس بات کی دعا بھی کہ مجھے اپنا پسندیدہ عمل کرنے کی توفیق عطا فرما اور میری اولاد کی بھی اصلاح فرما اور میں تیری بارگاہ میں توبہ کرتاہوں اور میں اطاعت گزاروں میں سے ہوں۔ اللہ تعالیٰ اپنے وفا شِعار اور اپنے ماں باپ کے فرمانبردار بندوں کے لئے فرماتا ہے کہ ہم ان کے نیک اعمال کو قبول فرماتے ہیں اور ان کی لغزشوں سے درگزر کرتے ہیں‘ یہ لوگ اہلِ جنت میں سے ہیں اور یہ اللہ کا سچا وعدہ ہے۔ اس آیت میں ابتداً ماں باپ دونوں کے ساتھ حسنِ سلوک کا ذکر ہے‘ لیکن ماں کی قربانیوں کا قرآن مجید نے زیادہ ذکر فرما کر اس کے زیادہ استحقاق کی طرف متوجہ فرمایا، رسول اللہﷺ نے حدیثِ پاک میں بھی اس کی مزید تاکید فرمائی۔ آیت 29 سے حضورﷺ کی بارگاہ میں جنات کے حاضر ہونے کا ذکر ہے کہ جنات کے ایک گروہ نے آپ کے پاس سے گزرتے ہوئے قرآن سنا اور جا کر اپنی قوم سے کہا کہ ہم نے ایسی آسمانی کتاب سنی ہے جو موسیٰ علیہ السلام کے بعد نازل کی گئی اور جو پہلی آسمانی کتابوں کی تصدیق کرنے والی ہے‘ ان جنات نے اپنی قوم سے کہا کہ اللہ کی طرف بلانے والے کی دعوت کو قبول کرو اور اس پر ایمان لاؤ‘ اس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ تمہارے گناہوں کو بخش دے گا اور تمہیں درد ناک عذاب سے نجات عطا فرمائے گا اور جو شخص اللہ کی طرف بلانے والے کی دعوت کو قبول نہیں کرے گا تو زمین میں اللہ کی گرفت سے اس کے لئے کوئی جائے پناہ نہیں ہوگی۔
سورہ محمد
غزوۂ بدر سے پہلے اسلام کے تفصیلی جنگی قانون نازل نہیں ہوئے اور یہ ہدایت نہیں آئی تھی کہ جنگی قیدیوں کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے۔ اس سورۂ مبارکہ کی آیت 4 میں فرمایا کہ جب جنگ ختم ہو جائے‘ مسلمانوں کو غلبہ حاصل ہو جائے تو جنگی قیدیوں کے ساتھ تین طرح کا سلوک کیا جا سکتا ہے‘ انہیں قید کر دیا جائے تا کہ وہ مسلمانوں کو دوبارہ شر نہ پہنچا سکیں یا ان کی اصلاح اور قبولِ اصلاح کی امید ہو تو ان پر احسان کر کے انہیں آزاد کر دیا جائے یا فدیہ لے کر ان کو چھوڑ دیا جائے۔ آیت 15 سے اہلِ تقویٰ کے لئے جنت کی نعمتوں کا ذکر ہے کہ جنت کی نہروں میں ایسا شفاف اور تازہ پانی ہو گا جس میں کوئی باسی پن یا تغیر نہیں آئے گا‘ دودھ جیسی نہریں ہوں گی جن کا ذائقہ کبھی نہیں بدلے گا‘ شرابِ طہور کی ایسی نہریں ہوں گی‘ جو لذت سے مامور ہوں گی اور خالص اور شفاف شہد کی نہریں ہوں گی اور ان کے لئے ہر طرح کے پھل دستیاب ہوں گے‘ پھر اللہ تعالیٰ نے انسان کے عقلِ سلیم کو مخاطَب کرکے فرمایا کہ کیا ان عالی مرتبت لوگوں کی تقلید کی جائے یا ان کی راہ پہ چلا جائے جو دائمی طور پر جہنم میں رہیں گے اور انہیں جہنم کی آگ میں کھولتا ہوا پانی پلایا جائے گا جو ان کی آنتوں کو کاٹ دے گا۔
سورۃ الفتح
اس سورہ کی آیت 8 سے اللہ عزوجل نے رسولِ مکرمﷺ کی شان کو بیان فرمایا کہ ہم نے آپ کو گواہی دینے والا‘ جنت کی بشارت دینے والا اور عذاب سے ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے، مزید فرمایا کہ اللہ کے رسولﷺ کی تعظیم وتوقیر کرو۔ آیت 10 میں اللہ تعالیٰ نے بیعت رضوان کے منظر کو بیان کرتے ہوئے رسول اللہﷺ کے ہاتھ کو اپنا ہاتھ قرار دیا‘ اس لئے ان کے ہاتھ پر بیعت درحقیقت اللہ ہی سے بیعت ہے۔ آیت 11 میں جہاد سے پیچھے رہنے والوں کی حقیقتِ حال سے اپنے نبیِ کریمﷺ کو باخبر کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ لوگ بہانہ بازی کریں گے کہ ہم اپنے مال اور اہلِ خانہ کی مصروفیت کی وجہ سے شریک نہ ہو سکے‘ سو ہماری خطا معاف فرما دیجئے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ اپنے منہ سے وہ بات کہتے ہیں ‘ جو ان کے دل میں نہیں ہے۔ آیت 18 سے اللہ تعالیٰ نے ان وفا شِعار صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو‘ جنہوں نے حدیبیہ کے مقام پر رسول اللہﷺ کے ہاتھ پر جانثاری اور جاں سپاری کی بیعت کی تھی‘ ا پنی رضا مندی کی قطعی سند سے نوازا‘ پس جس سے اللہ راضی ہو جائے‘ اس کے ایمان کی صداقت‘ اخلاص اور بے ریائی ہر قسم کے شک وشبہے سے بالا تر ہوتی ہے اور ان کے بارے میں دل میں کوئی بھی بدگمانی اللہ تعالیٰ کی اس سندِ رضا کی نفی ہے۔ رسول اللہﷺ نے صحابۂ کرام کو فرمایا تھا کہ میں نے خواب دیکھا ہے کہ ہم بے خوف وخطر ہو کر بیت اللہ میں داخل ہو رہے ہیں لیکن جب صلحِ حدیبیہ کے موقع پر معاہدۂ حدیبیہ کی شرائط کے تحت صحابۂ کرام کو عمرہ ادا کئے بغیر احرام کھولنا پڑا تو بعض صحابۂ کرام کے جذبات کو ٹھیس پہنچی اور انہوں نے اپنے قلبی اضطراب کا اظہار کیا‘ اللہ تبارک وتعالیٰ نے فرمایا: اللہ نے اپنے رسول کے حق پر مبنی خواب کو سچ کر دکھایا اور ایک نہ ایک دن تم ضرور بے خوف وخطر ہوکر سرکو منڈاتے ہوئے یا بال ترشواتے ہوئے ان شاء اللہ حرمِ کعبہ میں داخل ہو گے اور پھر اللہ تعالیٰ نے عنقریب فتح کی نوید بھی سنائی۔ اس سورہ کی آخری آیت میں رسول اللہﷺ کے اصحاب کی وہ صفات بیان فرمائیں جو پہلے سے تورات اور انجیل میں بیان کر دی گئی تھیں کہ وہ کفار کے مقابلے میں انتہائی سخت ہیں، آپس میں رحیم وشفیق ہیں، اے مخاطَب تو جب بھی انہیں دیکھے گا اللہ کی عبادت میں مشغول پائے گا، وہ اللہ کے فضل اور رضا کے طلبگار رہتے ہیں اور ان کی جبینیں سجدے کے اثر سے نیر و تاباں ہیں۔ مفسرینِ کرام نے فرمایا کہ اس آیت میں خلافتِ راشدہ کی ترتیب کی طرف بھی اشارہ ہے۔
سورۃ الحجرات
سورۂ حجرات کی ابتدا میں اللہ تعالیٰ نے بارگاہِ نبوت کے آداب کو بیان فرمایا کہ ان کی آواز پر آواز کو اونچا کرنا بھی ادب کے منافی ہے‘ رسول اللہﷺ کے ساتھ اونچی آواز سے بات کرنا بھی ایسی بے ادبی ہے جس سے ساری نیکیاں برباد ہو سکتی ہیں اور اہلِ ادب کے لئے مغفرت اور اجرِ عظیم کی نوید سنائی گئی ہے ۔ آیت 9 میں مسلمانوں کے متحارب گروہوں میں عدل وانصاف پر مبنی صلح کا حکم دیا گیا ہے اور اخوتِ ایمانی کا بیان ہوا ہے۔ اس سورہ کے دوسرے رکوع میں اخلاقیات کی تعلیم ہے خاص طور پر یہ کہ مسلمان مرد و زن ایک دوسرے کا مذاق نہ اڑائیں‘ ایک دوسرے کی عیب جوئی نہ کریں‘ ایک دوسرے کو برے ناموں سے نہ پکاریں‘ ایک دوسرے کے بارے میں بدگمانی نہ کریں‘ دوسرے کے پوشیدہ احوال کا سراغ نہ لگائیں اور ایک دوسرے کی غیبت نہ کریں اور پھر غیبت کو اتناگھناؤنا جرم قرار دیا کہ گویا اپنے مردہ بھائی کا گوشت نوچنا ہے۔ یہ بھی بتایا کہ انسانیت کی اصل ایک ہی ہے‘ یعنی سب آدم و حوا علیہما السلام کی اولاد ہیں اور قبائل اور برادریاں تفاخر کے لئے نہیں‘ تعارف کے لئے ہیں۔
سورہ ق
اس سورہ میں ایک بار پھر اللہ تعالیٰ کی قدرت کی نشانیوں کو بیان کیا گیا ہے‘ یعنی آسمانوں کی رفعت اور شمس و قمر اور کواکب و نجوم سے اس کا مزین کرنا‘ اس میں کسی شگاف کا نہ ہونا‘ زمین کی وسعت اور اس میں بلند و بالا پہاڑوں کو لنگر کی طرح ثبت کر دینا‘ آسمان سے بارش کا برسنا اور اس سے طرح طرح کا اناج پھل پھول اور باغات کا اگانا‘ مردہ زمین کو زندہ کرنا وغیرہ۔
سورۃ الذاریات
اس سورہ میں اہلِ تقویٰ کے انعاماتِ اخروی کو بیان کرنے کے بعد ان کے اوصاف بیان کئے کہ وہ راتوں کو بہت کم سوتے ہیں‘ رات کے پچھلے پہر استغفار کرتے ہیں اور یہ بھی اللہ تعالیٰ نے جن کو نعمتِ مال سے نوازا ہے‘ ان کے مال میں سائل کا بھی حق ہے اور ان کا بھی جو نعمتِ مال سے محروم ہیں۔ اس سورہ کے آخر میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس فرشتوں کی بشری شکل میں آمد اور ان کی طرف سے ضیافت کے اہتمام کا ذکر ہے اور فرشتوں کے کھانے کی طرف ہاتھ نہ بڑھانے پر جو انہیں بہ تقاضائے بشری خوف لاحق ہوا اس کا ذکر ہے اور پھر حضرت ابراہیم اور حضرت سارہ علیہما السلام کے بڑھاپے کی عمر میں حضرت اسحاق علیہ السلام کی بشارت کا ذکر ہے۔