سندھ اسمبلی کے ایک رکن جناب عبدالرشید نے صوبائی اسمبلی میں ایک پرائیویٹ بل پیش کیا ہے، اس کی رو سے یہ تجویز دی گئی ہے کہ اٹھارہ سال عمر کے لڑکے لڑکیوں کے لیے شادی لازمی قرار دی جائے اور نوجوانوں کے شادی نہ کرنے پر تعزیر ی سزا یا جرمانہ مقرر کیا جائے تاکہ طویل عرصے تک تجرّد کی زندگی گزارنے والے جواں عمر لوگوں کے سبب معاشرے میں دینی اور اخلاقی اعتبار سے خرابیاں پیدا نہ ہوں۔ جماعت اسلامی کے جناب محمد مظفر خان نے ہمیں سوال بھیجا ہے کہ آیا اس طرح کی کسی قانون سازی کی شریعت میں گنجائش ہے۔
اس کا سادہ سا جواب یہ ہے کہ رسول اللہﷺ نے متعدد احادیث میں نکاح کی استطاعت رکھنے والے بالغوں کو نکاح کی ترغیب دی ہے، لیکن کسی خاص عمر کی حد تک پہنچنے والوں کے لیے اسے لازمی قرار نہیں دیا اور نہ اس پر کوئی تعزیر مقرر فرمائی ہے۔ ذیل میں ہم پہلے چند احادیث مبارکہ اور پھر فقہائے کرام کے اقوال پیش کریں گے: (1) ''حضرت علیؓ بیان کرتے ہیں: نبیﷺ نے ان سے فرمایا: علی! تین چیزوں میں دیر نہ کرنا: جب نمازکا وقت آ جائے، جب جنازہ آ جائے اور بے شوہر عورت کو جب برابر کا رشتہ مل جائے‘‘ ( ترمذی: 171)، (2) ''جب تمہیں کوئی ایسا شخص نکاح کا پیغام دے جس کی دینداری اور اخلاق پر تمہیں اطمینان ہو تو اس سے شادی کر لو، اگر ایسا نہیں کرو گے تو زمین میں فتنہ اور فسادِ عظیم برپا ہو گا‘‘ (ترمذی: 1084)، (3) ''حضرت عبدالرحمنؓ بیان کرتے ہیں: میں علقمہ اور اسود کے ساتھ عبداللہؓ بن مسعود کی خدمت میں حاضر ہوا، انہوں نے ہم سے کہا: ہم نبیﷺ کے زمانے میں نوجوان تھے اور ہمیں کوئی چیز میسر نہیں تھی، نبیﷺ نے ہم سے فرمایا: نوجوانو! تم میں سے جو بھی نکاح کی استطاعت رکھتا ہو، اسے نکاح کر لینا چاہیے، کیونکہ یہ نظر کو نیچی رکھنے والا اور شرمگاہ کی حفاظت کرنے والا عمل ہے اور جو کوئی نکاح کی استطاعت نہ رکھتا ہو، اسے چاہیے کہ روزہ رکھے، روزہ اس کی خواہشاتِ نفسانی کو توڑ دے گا۔ (بخاری: 5066)، (4) ''حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں: رسول اللہﷺ نے فرمایا: تین آدمیوں کی مدد اللہ کے ذمۂ کرم پر ہے: (۱) اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والا، (۲) وہ مکاتَب غلام جو بدلِ کتابت ادا کرنا چاہتا ہو، (۳) جو شادی کرکے پاک دامنی حاصل کرنا چاہتا ہو۔ (ترمذی:1655)۔ (5)'' حضرت ابوامامہؓ بیان کرتے ہیں: ایک طویل حدیث میں رسول اللہﷺ نے فرمایا: جس نے اللہ کی رضا کے لیے نکاح کیا، تو اس نے اپنے ایمان کو مکمل کیا۔ (اَلْاِعْتِقَاد لِلْبَیْہَقِی، ص: 178)، (6) ''حضرت انسؓ بیان کرتے ہیں: (۱) رسول اللہﷺ نے فرمایا: جس کو اللہ تعالیٰ نے نیک بیوی عطا کی تو اس نے نصف دین پر اس کی مدد فرمائی، پس بقیہ نصف دین کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرتا رہے۔ (مستدرک حاکم: 2681)، (۲) میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: جو اللہ تعالیٰ سے پاک و صاف ہو کر ملنا چاہتا ہے، وہ آزاد عورت سے شادی کرے۔ (ابن ماجہ:1862)
ہر انسان کی طبیعت، اس کا مزاج اور معاشی حالات دوسروں سے مختلف ہوتے ہیں، اس لیے لوگوں کی طبائع اور ان کے احوال کے اعتبار سے فقہائے کرام نے نکاح کی چھ قسمیں بیان کی ہیں: فرض، واجب، سنت موکّدہ، حرام، مکروہ اور مباح۔ اس کی تفصیل حسبِ ذیل ہے:
(1) اگر نکاح نہ کرنے کی صورت میں برائی میں مبتلا ہونے کا یقین ہو اور بیوی کو نفقہ اور اس کے حقوق ادا کرنے پر قدرت ہو تو اس صورت میں نکاح کرنا فرض ہے۔ (2) اگرنکاح نہ کرنے کی صورت میں برائی میں مبتلا ہونے کا ظنِ غالب ہو اور بیوی کو مہر و نفقہ دینے پر قدرت ہو تو نکاح کرنا واجب ہے۔ (3) شہوت حدِ اعتدال میں ہو اور نفقہ پر قدرت ہو تو اتباعِ سنت کی نیت سے نکاح کرنا سنت موکّدہ اور باعثِ اجر ہے۔ اس کا تارک گناہگار ہوگا۔ (4) اتباعِ سنت کی نیت نہ ہو بلکہ محض نفسانی خواہش کی تکمیل مقصود ہو تو نکاح مباح ہے۔ (5) اس بات کا یقین ہو کہ بیوی کا حقِ زوجیت ادا نہیں کر سکے گا یا اس پر ظلم و زیادتی کرے گا تو ایسی صورت میں نکاح کرنا حرام ہے۔ (6) جسے ان باتوں کا ظنِ غالب کی حد تک اندیشہ ہو تو اس کے لیے نکاح کرنا مکروہِ تحریمی ہے۔ آخری دونوں صورتوں میں روزوں کے ذریعے نفسانی خواہش کو قابو میں رکھے لیکن یہ بندے کے اپنے احوال پر منحصر ہے اور ہر شخص دوسرے کی نسبت اپنے بارے میں بہتر فیصلہ کر سکتا ہے۔ حکومت نکاح کی ترغیب تو دے سکتی ہے، لیکن اس کا نکاح کو لازمی قرار دینے کے لیے عمر کی کوئی حد مقرر کرنا اور اُس حد کو پہنچنے والے پر نکاح نہ کرنے کی صورت میں کوئی مالی یا جسمانی تعزیر مقرر کرنا شریعت سے ثابت نہیں ہے۔ لہٰذا شریعت کی رو سے حکومت ایسی قانون سازی کا اختیار نہیں رکھتی۔ علامہ حصکفی نے حوالہ جات کے ساتھ نکاح کی قسمیں بیان کی ہیں: ''جب شہوت کا غلبہ ہو تو نکاح کرنا واجب ہے، اگر اسے زنا میں مبتلا ہونے کا یقین ہو مگر نکاح کی صورت میں (اُس سے بچنے کا امکان ہو) تو نکاح کرنا فرض ہو جائے گا، لیکن نکاح کرنا اس صورت میں فرض ہوگا کہ بیوی کا مہر اور نفقہ ادا کر سکتا ہو، ورنہ نکاح کی فرضیت ساقط ہو جائے گی اور نکاح نہ کرنے پر کوئی گناہ نہیں ہو گا۔ صحیح ترین قول کے مطابق حالتِ اعتدال میں نکاح سنت مؤکّدہ ہے اور اس کے ترک کرنے پر گناہ گار ہوگا۔ اگر اس نے زنا کے ارتکاب سے بچنے اور اولاد کے حصول کی نیت سے نکاح کیا، جبکہ وہ مجامعت، مہر اور نفقہ دینے پر قادر ہے تو نکاح کرنے پر ثواب پائے گا۔ ''النہر الفائق‘‘ میں اس کے واجب ہونے کو راجح قرار دیا ہے، کیونکہ رسول اللہﷺ نے اس پر خود عمل فرمایا اور اس سے اعراض کرنے والے پر ناراضی کا اظہار فرمایا ہے۔ اگر بیوی پر ظلم کرنے کا اندیشہ ہو تو پھر نکاح کرنا مکروہ ہوگا اور اگر ظلم کا یقین ہو تو پھر نکاح حرام ہے‘‘۔ بعض فقہائے کرام نے لکھا ہے: ''اگر نکاح نہ کرنے کی صورت میں گناہ میں مبتلا ہونے کا اندیشہ ہو اور نکاح کرنے کی صورت میں بیوی پر ظلم کا اندیشہ ہو کہ حقِ زوجیت ادا کرنے پر قدرت نہیں ہے یا بیوی کا نفقہ ادا نہیں کر سکتا تو نکاح نہ کرے، کیونکہ حقوق اللہ اور حقوق العباد میں تعارض کی صورت میں حق العبد کو مقدم رکھا جائے گا‘‘۔
ان فقہی تصریحات کی روشنی میں یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ کسی کی جبری شادی کرانا یا کسی کو شادی پر مجبور کرنا اور نکاح نہ کرنے کی صورت میں جرمانے کی سزا دینا کا شرعاً کو ئی جواز نہیں ہے۔ اگر کوئی نکاح کرنے کی استطاعت رکھتا ہے تو اس کے لیے بہت اچھی بات ہے اور اگر اس کی استطاعت نہیں ہے، تو وہ روزہ رکھے اور خود کو حرام سے بچائے؛ البتہ حکومت، رفاہی ادارے اور متموّل افراد شادی کے سلسلے میں استطاعت نہ رکھنے والوں کی مدد کر سکتے ہیں۔
خاندانی تشدد روکنے اور تحفظ کا بل 2021ء: حال ہی میں پارلیمنٹ سے مندرجہ بالا عنوان کے تحت ایک بل منظور ہوا ہے، اگر اس پر نظر ثانی نہ کی گئی اور اسے مِن وعَن منظور کر کے ایکٹ کی شکل دیدی گئی تو یہ ہمارے خاندانی نظام کے لیے تباہ کن ہوگا۔ اس قانون کے مندرجات سے واضح ہے کہ یہ غیر ملکی وسائل سے مالا مال این جی اوز کی تحریک کا نتیجہ ہے۔ امتناعِ تشدد اور تحفظِ اَزواج و اولاد بہت اچھی بات ہے، یہ دلکش نعرہ ہے، لیکن اس کے لیے جو قانون سازی کی گئی ہے، وہ ''کَلِمَۃُ الْحَقِّ اُرِیْدَ بِھَا الْبَاطِلْ‘‘ کا مصداق ہے، یعنی کسی درست بات کو باطل مقاصد کے لیے استعمال کرنا۔ اس قانون کی رُو سے بیوی، اولاد یا زیرِ کفالت افراد پر بے راہ روی سے روک ٹوک اور اُن کی اخلاقی اصلاح کا جو اختیار والدین کے پاس تھا، اُسے نہ صرف سلب کر دیا گیا ہے بلکہ اُسے ایک قابلِ تعزیر جرم قرار دیا گیا ہے۔ قانون کہتا ہے: ''اگر بیوی، اولاد یا خاندان کا کوئی فرد محسوس کرتا ہے کہ اس کے نجی معاملات میں بے جا دخل اندازی کی جا رہی ہے، اس کی نگرانی یا تعاقب کیا جا رہا ہے، اس کی نجی زندگی، آزادی اور سکیورٹی کو والدین سے خطرہ ہے، اگر والدین نے یہ بھی کہہ دیا کہ میں تمہاری پٹائی کروں گا یا اگر بیوی کو کہا: میں تمہیں طلاق دیدوں گا یا دوسری شادی کر لوں گا، کیونکہ تمہارا دماغ خراب ہے اور تم بانجھ ہو (جو درحقیقت جھوٹ ہو) یا اگر کسی نے اپنی اولاد یا بیوی کی توہین یا تضحیک کی ہو تو اُسے چھ ماہ تا تین سال قید اور بیس ہزار سے ایک لاکھ روپے تک جرمانے کی سزا ہو سکتی ہے۔ جرمانہ ادا نہ کرنے کی صورت میں مزید تین ماہ کی قید ہو سکتی ہے۔ اُسے بازو یا پائوں میں جی پی ایس کڑا پہنایا جا سکتا ہے، اس کا پہننے والا ہر جگہ قانون کی پہنچ میں رہے گا۔ اس قانون میں وزارتِ حقوقِ انسانی کو وسیع اختیارات دیے گئے ہیں: وزارت اس ایکٹ کے مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے مزید قوانین بنا کر سرکاری گزٹ میں شائع کر سکتی ہے۔
ان قوانین بنانے والوں کو ملک کے معروضی حالات، زمینی حقائق، دینی تعلیمات، ثقافتی اقدار اور معاشرتی روایات کا کوئی پاس نہیں ہے۔ ہماری پارلیمنٹ کے ارکان ان قانونی مسودوں کا نہ مطالعہ کرتے ہیں، نہ ان کی معنویت کا انہیں ادراک ہوتا ہے اور نہ ان کے مابعد اطلاقات اور ان پر مرتّب ہونے والے اثرات کا انہیں اندازہ ہوتا ہے، یہ قوانین باہر سے مسلّط کیے جاتے ہیں اور ان کی منظوری ایک فیشن بن چکا ہے۔ سب جانتے ہیں کہ برسرِ زمین ان کا مِن وعَن نافذ ہونا مشکل ترین امر ہے، ان این جی اوز کا مقصد ملک کو سیکولر لبرل بنانا ہے۔
ہم ہرگز اس کے خواہاں نہیں ہیں کہ گھروں میں والدین اولاد کو اور شوہر بیوی کو مار پیٹ کریں، ان سے بدسلوکی کریں، ان کی اہانت کریں لیکن اسلام نے قرآن وسنت میں والدین کو اولاد کی تربیت اور تادیب کا حق دیا ہے، اسی طرح بیوی کے حوالے سے قرآن و سنت میں احکام موجود ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اُن احکام اور نبوی تعلیمات کا مثبت انداز میں ابلاغ کیا جائے اور ان کی خلاف ورزی کی صورت میں خاندان اور معاشرے کے بااثر اور ذمہ دار افراد پر مشتمل مصالحتی کمیٹیاں تشکیل دی جائیں۔ قرآن مجید نے میاں بیوی کے درمیان تنازعات کو طے کرنے کے لیے تحکیم اور ثالثی کی تعلیم دی ہے، ہمیں ان احکام پر نیک نیتی کے ساتھ عمل کرنا چاہیے۔ اسی طرح والدین و اولاد اور شوہر و بیوی کے حقوق و فرائض کے تحفظ اور خاندانی زندگی کو استوار رکھنے کے لیے اخلاقی تعلیمات پر زور دینا چاہیے اور ذرائع ابلاغ کو اس کے لیے مثبت کردار ادا کرنا چاہیے۔