تحریکِ طالبانِ افغانستان کوئی مدارس کے طلبہ کا گروہ یا جتھا نہیں ہے، یہ افغانوں کی ایک قومی اور ملّی تحریک ہے، اس کے مقاصد میں نفاذِ اسلام کے ساتھ ساتھ غاصب قوتوں سے حریتِ وطن بھی ہے، اس میں افغان معاشرے کے ہر طبقے کے لوگ شامل ہیں۔ تحریکِ طالبان پاکستان اس سے مختلف چیز ہے، یہ دہشت گرد ہیں، پاکستان میں کوئی غیر ملکی قوت قابض نہیں ہے، اہلِ پاکستان کا اپنا نظامِ حکومت ہے اور دنیا کی ہر حکومت کی طرح اس سے اتفاق اور اختلاف کرنے والے موجود ہیں۔ دستورِ پاکستان آئین و قانون کی حدود میں رہتے ہوئے اختلاف کے حق کو تسلیم کرتا ہے۔ اختلاف کرنے والے بھی اتنے ہی محب وطن تسلیم کیے جاتے ہیں جتنا کہ اقتدار پر فائز حکمران طبقہ۔ ایک دوسرے کو غدّار کہنا ہمارے ہاں سیاسی گالی بن چکا ہے لیکن اس کا استعمال اصطلاحی معنی میں نہیں ہوتا، جیسے ایک دوسرے کو چور ڈاکو کہا جاتا ہے، اس طرح غدار بھی کہہ دیا جاتا ہے، سو یہ معمول کی بات ہے، اگرچہ نہیں ہونی چاہیے۔ ٹی ٹی پی یا کسی بھی مسلّح گروہ کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ طاقت کے بل پر پاکستان پر قبضہ کرنے کے منصوبے بنائے یا بزورِ طاقت اپنی کوئی پالیسی پاکستان پر مسلّط کرے۔
امریکی انخلا کے اعلان کے بعد طالبان کا چند دنوں میں پورے افغانستان کا کنٹرول سنبھال لینا اور کابل کے صدارتی محل تک پہنچنا، سب کے لیے حیرت کا باعث ہے۔ کہیں بھی کوئی توانا یا دیرپا مزاحمت نہیں ہوئی۔ طالبان نے بڑی حکمت سے صورتِ حال کو اپنے حق میں تبدیل کیا ہے۔ طالبان کا موجودہ ایڈیشن بیسویں صدی کے آخری عشرے کے ایڈیشن سے کافی مختلف ہے۔ انہوں نے طویل مزاحمت اور عزیمت کا بیس سالہ دور گزارا ہے، بگرام اور گوانتاناموبے کے عقوبت خانوں میں ناقابلِ تصور اذیتوں کو برداشت کیا ہے، کئی سو افرادکنٹینروں کے لاک اپ میں دم گھٹنے سے سسک سسک کر موت سے ہمکنار ہوئے۔ موجودہ دور میں جیل خانوں میں قید مجرموں اور جنگی قیدیوں کے بھی حقوق ہوتے ہیں، لیکن یہ سب حقوق سے محروم کر دیے گئے تھے۔ آج کے طالبان کو جدید دنیا کے تقاضوں کا ادراک ہے، کمال کا اعتماد ہے، انداز جارحانہ نہیں بلکہ مفاہمانہ ہے۔ اب وہ اپنے علاوہ دوسرے طبقات کو بھی تسلیم کرنے پر آمادہ ہیں اور اتفاق رائے کا ماحول پیدا کرنا چاہتے ہیں، لیکن اقتدار پر غلبہ بھی اپنا حق سمجھتے ہیں اور یہ بجا ہے۔
امریکا کے افغانستان سے انخلا کے اعلان اور اس پر عملدرآمد کا سلسلہ شروع ہونے کے بعد تحریکِ طالبانِ افغانستان نے سرعت کے ساتھ پیش قدمی کی، وہ افغانستان کے بیشتر علاقے پر قابض ہو چکے ہیں، اس طرح کے شواہد بھی سامنے آ رہے ہیں کہ کئی مقامات پر اشرف غنی حکومت کے عہدیدار اور افواج خود طالبان کے سامنے سرنگوں ہو گئے یا اُن سے جاملے یا اُن سے مزاحمت نہیں کی جبکہ امریکی صدر جو بائیڈن کے بقول افغان فوج جدید اسلحے سے لیس امریکا و نیٹو کی تربیت یافتہ تھی۔ اس پر گزشتہ بیس سال میں سینکڑوں ارب ڈالر خرچ کیے جا چکے ہیں، اس کے مشاہرے اور آسائشیں بھی پُرکشش تھیں، اس کے باوجود وہ ریت کا ڈھیر ثابت ہوئی۔ اس ناکامی نے پوری دنیا کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا، یہ امریکا ا ور نیٹو کے لیے بھی سبکی کا باعث بنا، کیونکہ ان کی ساری سرمایہ کاری اور پیشہ ورانہ تربیت ناکامی سے دوچار ہوئی۔ امریکا اور اتحادیوں کا ہمیشہ یہ شعار رہا ہے کہ وہ اپنی ناکامیوں کو تسلیم کرنے کے بجائے کوئی اور قربانی کا بکرا تلاش کرتے ہیں، جس پر ناکامی کا سارا ملبہ ڈال کر وہ اپنی قوم اور اپنے ٹیکس دہندگان کے سامنے سرخرو ہو جائیں۔
جب تک کسی بات کا حقیقی تجزیہ نہ کیا جائے، سطحی تجزیے سے نہ حقائق سامنے آتے ہیں اور نہ صحیح نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے۔ افغان طالبان کا ذہن پڑھنے کی ضرورت ہے، اُن کا موقف یہ ہے کہ امریکا نے طاقت کے بل پر اقتدار اُن سے چھینا تھا یا انہیں اقتدار سے بے دخل کیا تھا اور وہ بیس سال تک اپنے وطن کو غاصب و قابض قوتوں سے نجات دلانے کے لیے مصروفِ جہاد رہے، بے پناہ قربانیاں دیں، بگرام اور گونتاناموبے کے اذیت خانوں میں یا تو جان سے ہاتھ دھو بیٹھے یا اتنی اذیتیں برداشت کیں کہ خود اذیت پہنچانے والوں کا حوصلہ جواب دے گیا، انہیں کنٹینروں میں مقفّل کر کے اذیت ناک موت سے دوچار کیا گیا، اس لیے ان کے نزدیک وہی امریکی انخلا کے بعد افغانستان کے اقتدار کے حق دار ہیں، آخر ویتنام سے امریکی انخلا کے بعد اقتدار انہی قوتوں کو ملا تھا جو طویل عرصے تک امریکا کے ساتھ برسرِپیکار رہیں۔ امریکی فوجی اس لیے بھی نفسیاتی بیماریوں کا شکار رہے کہ اُن کے پاس اپنے وطن سے ہزاروں کلومیٹر دور ایک غیر ملک میں اپنی جانیں قربان کرنے کا کوئی جواز نہیں تھا، اسی طرح اپنے ایجنڈے کی تکمیل کے لیے جو مقامی افغان فوج انہوں نے تیار کی، وہ بھی وقت آنے پر ہمت ہار بیٹھی۔
ہمارے ہاں یونیورسٹی کی سطح کے تعلیمی اداروں میں بھی معروضی تحقیق کا کوئی حقیقت پسندانہ نظام نہیں ہے، ایک ہی جگہ بیٹھے بٹھائے ادھر ادھر سے منتشر مواد یکجا کر کے مقالہ مرتب کر لیا جاتا ہے یا کسی کا علمی سرقہ کر لیا جاتا ہے، پی ایچ ڈی کی سطح پر ایسے علمی سرقے کی کئی مثالیں ہمارے ملک کی جامعات میں موجود ہیں، اعلیٰ عدالتوں میں اس کی بابت مقدمات بھی دائر ہوتے رہے ہیں۔ شاید مغرب میں طالبان کی جدوجہد پر حقیقت پسندانہ تحقیق کا کوئی پروجیکٹ قائم ہو، اُس کے لیے فنڈز مختص ہوں اور لائبریری میں بیٹھ کر تحقیق کرنے کے بجائے افغانستان کے طول و عرض میں جاکر برسرِ زمین جائزہ لیا جائے، ہر علاقے میں مختلف طبقات کے نمائندہ افراد کے انٹرویو لیے جائیں، ان کے دانشوروں کی آرا حاصل کی جائیں۔ یہ بھی جائزہ لیا جائے کہ امریکا اور اتحادیوں کے خرچ کیے ہوئے دو ہزار دو سو ساٹھ ارب ڈالر میں سے برسرِ زمین کتنا خرچ ہوا، کیا ان وسائل کی نچلی سطح تک منصفانہ تقسیم کا کوئی شفاف نظام تھا؟ کیا چند بڑے شہروں کو چھوڑ کر دور دراز کے اضلاع، قصبات اور دیہاتوں تک اس سرمائے کا کوئی فیض پہنچا یا بس امریکی اتحادی اسٹیبلشمنٹ اور ان کی مسلّط کردہ افغان اسٹیبلشمنٹ ہی اس کا بڑا حصہ لے اڑے۔ ترجمانوں، مخبروں اور ٹھیکیداروں نے کتنا سمیٹا اور سرمائے کی اس ریل پیل نے امریکی افواج کے نظم میں کرپشن اور عشرتوں کو کتنا فروغ دیا۔ یہ بھی جائزہ لینا چاہیے کہ مقامی لوگوں کی دینی، تہذیبی اور ثقافتی روایات سے آنکھیں بند کر کے اپنی اقدار کو نافذ کرنے سے نچلی سطح پر عوام کے دلوں میں کسی درجے میں پذیرائی ملتی ہے۔
نائن الیون کے بعد امریکا اور مغرب کی مجالسِ مفکرین، این جی اوز اور ان کے کارندوں نے بے انتہا وسائل سمیٹے۔ لارنس آف عریبیا نے تو مذہبی اور مقامی وضع قطع اختیار کر کے دینی عالم اور ہمدرد کے روپ میں شرقِ اوسط میں نفوذ کیا تھا، دامِ ہمرنگِ زمیں بچھایا تھا، جس طرح ابلیس نے مخلص اور خیر خواہ کے روپ میں حضرت آدم وحوا علیہما السلام کو پھُسلایا تھا، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ''اور اس نے ان دونوں کو قسمیں کھا کر یقین دلایا کہ میں تمہارا خیرخواہ ہوں‘‘ (الاعراف: 21)۔ نائن الیون کے بعد ہمارے ملک میں بھی جو این جی اوز کا جال بچھایا گیا، مغربی تہذیب کے علَم بردار نوجوان لڑکے‘ لڑکیاں مغربی وضع قطع اختیار کر کے عشرتوں کے ماحول میں لوگوں کے درمیان گئے تو اس کا کوئی نتیجہ برآمد ہوا، آیا نچلی سطح پر عوام نے انہیں دل وجان سے قبول کیا، اس پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے۔
نیز بعض جعلی مفکرین نے مغرب کو یہ جھانسا دیا کہ سارا قصور جہادی اسلام کا ہے، لہٰذا اب صوفی اسلام کی مارکیٹنگ شروع کرنی چاہیے، صوفی منفعل مزاج (Submissive) ہوتے ہیں، اثرات جلد قبول کرتے ہیں، ان کے لیے روحانی حظّ و سرور (Spiritual Enjoyment) کے مواقع فراہم کرنا ہی کافی ہوتا ہے، یہ نہ کسی سے الجھتے ہیں، نہ نظام کو بدلنے کی بات کرتے ہیں، یہ اچھے بچے ہوتے ہیں۔ لیکن اُس دور میں جب مغربی مفکرین سے بات ہوتی اور وہ صوفی اسلام کو فروغ دینے کی بات کرتے، تو میں اُن سے کہتا: ''یہ آپ کا عجب فطری تضاد ہے کہ روحانی حظّ و سرور کے دلدادہ کو تم میدانِ عمل کے مجاہد کے مقابل کھڑا کر کے ان سے ٹکرانا چاہتے ہو، یعنی اپنی جنگ اُن سے لڑانا چاہتے ہو، یہ نہیں ہو سکتا اور بالآخر نہ ہوسکا‘‘، بس کچھ لوگوں کو امریکا اور یورپ کے سفر کرائے گئے، کانفرنسیں اور سمینار منعقد ہوئے اور ''کھیل ختم، پیسا ہضم‘‘ پر سلسلہ اختتام کو پہنچا۔ میں اُن سے کہتا: ''جو نتائج تم حاصل کرنا چاہتے ہو، وہ تمہارے اس مفروضے اور مزعومے تصوف سے حاصل نہیں ہو سکتے، نہ ہماری اپنی ریاستیں حقیقی تصوف کو درجۂ قبولیت دینے کے لیے تیار ہیں، اس کے لیے تو مجدِّد الف ثانیؒ کے تصوف کا اِحیاکرنا ہو گا، جو وقت کے صاحبِ اقتدار کو چیلنج کرے۔ علامہ اقبال نے مجدد ِالفِ ثانیؒ کے بارے میں کہا تھا:
حاضِر ہُوا میں شیخِ مجدّد کی لحَد پر
وہ خاک کہ ہے، زیرِ فلک مطلعِ انوار
اس خاک کے ذرّوں سے ہیں، شرمندہ ستارے
اس خاک میں پوشیدہ ہے، وہ صاحبِ اسرار
گردن نہ جھُکی جس کی، جہانگیر کے آگے
جس کے نفَسِ گرم سے ہے، گرمیِ اَحرار
وہ ہِند میں سرمایۂ ملّت کا نِگہباں
اللہ نے بروقت کیا، جس کو خبردار
اسی طرح غوث الاعظم مُحی الدین عبدالقادر الجیلانی رحمہ اللہ تعالیٰ کے پاس خلیفۂ وقت جب اشرفیوں کی تھیلی لے کر آیا تو انہوں نے اُسے نچوڑا، اس سے خون رسنے لگا تو انہوں نے کہا: ''لوگوں کا خون چوستے ہواور ہمیں نذرانے لا کر دیتے ہو، اے اللہ! انہیں ہدایت عطا فرما یا ان کی شوکت کو توڑ دے‘‘۔ پس یہ غوث الاعظمؒ کا تصوّف تھا جو آج کل کے قادریوں میں مفقود ہے یا پھر چیچنیا میں امام شامل کی تحریک کا مطالعہ کرنا ہوگا یا ترکی میں بدیع الزماں سعید نورسی کی تحریک کا جائزہ لینا یا اُن صوفیہ کے کردار کا مطالعہ کرنا ہوگا جنہوں نے سوویت یونین کے پچھتر سالہ کمیونزم کے جبر میں پسِ پردہ رہتے ہوئے کسی نہ کسی انداز میں دینِ اسلام کو زندہ رکھا اور اُسے مرنے نہ دیا۔ خواجہ معین الدین چشتی اجمیریؒ نے کہا تھا:''میں نے پرتھوی راج کو زندہ گرفتار کر کے لشکرِ اسلام کے سپرد کر دیا‘‘۔