7 ستمبر 1974ء کو پاکستان کی پارلیمنٹ نے دوسری آئینی ترمیم کی منظوری دی، اس کی رو سے پوری لفظی و معنوی جامعیت کے ساتھ عقیدۂ ختمِ نبوت کو دستورِ پاکستان میں تحفظ دیا گیا اور منکرینِ ختمِ نبوت کو مرتد اور دائرۂ اسلام سے خارج قرار دے دیا گیا، نیز دستور کے ضمیمے میں جہاں مختلف ریاستی مناصب کے لیے حلف نامے کی عبارات درج کی گئی ہیں، وہیں اسلامی جمہوریہ پاکستان کے صدر اور وزیراعظم کے حلف نامے میں ''عقیدۂ ختمِ نبوت‘‘ کے صریح اقرار کو بھی شامل کیا گیا ہے۔
1953ء کی ختمِ نبوت کی تحریک کے دوران اُس وقت کے چیف جسٹس محمد منیر نے مختلف مذہبی رہنمائوں سے الگ الگ بلا کر مسلمان کی تعریف پوچھی‘ سب نے اپنی اپنی فہم کے مطابق مسلمان کی تعریف بتائی اور ظاہر ہے کہ سب کا مفہوم ملتا جلتا تھا، لیکن یہ قرآن کی کوئی آیت تو نہیں تھی کہ سب کی زبان سے لفظ بہ لفظ اور مِن وعَن ایک ہی جیسے کلمات ادا ہوتے۔ یہ ایک دیدہ ودانستہ فریب تھا اور گریز کا راستہ تلاش کرنا تھا؛ چنانچہ جسٹس محمد منیر نے قرار دیا: ''جب سب کا مسلمان کی تعریف پر اتفاق نہیں ہے، تو کسی کو غیر مسلم کیسے قرار دیا جا سکتا ہے‘‘۔ اسی پسِ منظر کو ذہن میں رکھتے ہوئے مولانا کوثر نیازی نے 1973ء کی اسمبلی میں علماء کو چیلنج کیا کہ وہ مسلمان کی ایک متفقہ تعریف پیش کر دیں، اُسے دستور میں شامل کر دیا جائے گا۔ علماء نے اس چیلنج کو قبول کرتے ہوئے اگلے دن مسلمان کی متفقہ تعریف مرتب کرکے اسمبلی میں پیش کر دی اور حکومت کے پاس گریزکا کوئی راستہ نہ رہا، سو اس تعریف کو دستورِ پاکستان میں شامل کر دیا گیا، اس میں بھی عقیدۂ ختمِ نبوت کا تحفظ شامل تھا۔
1974ء میں جو تحریکِ ختمِ نبوت چلی، اس کا سبب قادیانی خود تھے، ربوہ کے سٹیشن پر طلبہ‘ جو کہیں جا رہے تھے‘ نے ختمِ نبوت کے حق میں نعرے لگائے اور قادیانیوں نے انہیں زدوکوب کیا، اس کے نتیجے میں پورے پاکستان میں تحریکِ ختمِ نبوت برپا ہوئی اور تمام مکاتبِ فکر پر مشتمل ایک متحدہ مجلسِ ختمِ نبوت کی تشکیل ہوئی۔ پھر علامہ شاہ احمد نورانی صدیقی رحمہ اللہ تعالیٰ نے ''ارتدادِ قادیانیت‘‘ کی قرارداد قومی اسمبلی میں پیش کی، اس پر اسمبلی میں موجود جید علمائے کرام سمیت متعدد ارکانِ اسمبلی کے تائیدی دستخط تھے؛ چنانچہ ایک کمیٹی کی شکل دی گئی اور اس کی بابت قومی اسمبلی کی کارروائی طویل عرصے تک پسِ پردہ جاری رہی۔ مرزا قادیانی کے تیسرے خلیفہ مرزا ناصر نے خود درخواست کی کہ اسے قومی اسمبلی میں اپنا کیس پیش کرنے کی اجازت دی جائے، اسی طرح لاہوری قادیانی جماعت کے امیر نے بھی اپنا موقف پیش کرنے کی درخواست کی۔ قومی اسمبلی نے علماء کی تائید کے ساتھ دونوں کی درخواست قبول کر لی، لیکن یہ شرط لگائی کہ اُن پر جرح بھی کی جائے گی۔
یہ اللہ تعالیٰ کی غیبی تائید و نصرت اور قومی اسمبلی میں موجود علماء کی بہترین دانش اور حکمتِ عملی تھی۔ قادیانی رہنمائوں کی اپنا موقف پیش کرنے کی خواہش عربی کی اس کہاوت کا مظہر بن گئی: ''ایک بَدُّو اپنے مویشیوں کو لیے صحرا میں جا رہا تھا، اسے بھوک محسوس ہوئی۔ اس نے بکری کو ذبح کرنے کا ارادہ کیا، لیکن اس کی چھری گم ہو گئی، اس نے چھری تلاش کی، لیکن ناکام رہا۔ اتفاقاً اُسی بکری نے اپنا کھر مارا اور وہ چھری ریت تلے دبی ہوئی نظر آ گئی، بَدُّو نے چھری پکڑی اور تسمیہ پڑھ کر بکری کو ذبح کر دیا‘‘۔ اسی طرح پارلیمنٹ کے سامنے قادیانیت کے اصل چہرے کو بے نقاب کرنے کا موقع انہوں نے خود فراہم کیا، غالب نے کہا ہے:
دیکھنا تقریر کی لذت، کہ جو اس نے کہا
میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے
مرزا ناصر اور اُن کے مشیروں کاخیال تھا کہ وہ تاریخی حوالہ جات پیش کر کے کہیں گے: ''مختلف ادوار میں مختلف لوگوں نے ایک دوسرے کو کافر کہا ہے‘‘۔ سو اس طرح وہ پارلیمنٹیرین کو یہ باور کرانے میں کامیاب ہو جائیں گے کہ یہ سلسلہ تو ماضی میں بھی چلتا رہا ہے، لہٰذا مرزا غلام احمد کو علماء نے کافر قرار دیدیا ہے تو یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ لیکن علماء نے کہا: ''ختمِ نبوت ایک ایسا بنیادی عقیدہ ہے کہ قرنِ اوّل سے لے کر آج تک پوری امت کے تمام مسلّمہ مکاتبِ فکر نے کُلّی اور قطعی اجماع کے ساتھ ہر منکرِ ختمِ نبوت اور ہر جھوٹے مدّعی نبوت کو کافر و مرتد قرار دیا ہے، اس میں عہدِ خلافتِ راشدہ سے لے کر آج تک کسی کابھی اختلاف ثابت نہیں ہے؛ چنانچہ جب خلیفۂ اول حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جھوٹے مدعیانِ نبوت کے خلاف جہاد کا فیصلہ کیا تو امت کے سب سے بہترین نفوس صحابۂ کرام نے اس سے مکمل اتفاق کیا اورجھوٹے مدعیانِ نبوت کو کیفرِ کردار تک پہنچایا‘‘، پس مرزا ناصر کی خواہش خودکش حملہ ثابت ہوئی۔
نیز اس کا خیال یہ بھی تھا کہ ہم قومی اسمبلی میں دقیق اور عمیق علمی بحثیں چھیڑیں گے، جو ارکانِ اسمبلی کے سروں کے اوپر سے گزر جائیں گی، وہ ان خشک مناظرانہ بحثوں سے اکتا کر اس ساری مہم سے لا تعلق ہو جائیں گے اور ہمیں اپنے مقصد میں کامیابی حاصل ہو جائے گی، مثلاً:یہ کہ قرآنِ کریم کی آیۂ مبارکہ (الاحزاب: 40) میں لفظِ ''خَاتم‘‘ تا کے زبر کے ساتھ ہے یا اُس کی زیر کے ساتھ اور یہ کہ ''خَتم‘‘ کے معنی و مصداق کیا ہیں۔ رفعِ عیسیٰ علیہ السلام کی بحث میں ''رفع‘‘ سے کیا مراد ہے، عیسیٰ علیہ السلام کے حوالے سے سورہ آل عمران (آیت 55) میں لفظِ ''مُتَوَفِّیْکَ‘‘ اور المائدہ (آیت 117) میں لفظِ ''تَوَفَّیْتَنِیْ‘‘ میں ''وفات‘‘ یا ''تَوفّی‘‘ کے کیا معنی ہیں، اسی طرح النسآء (آیت 156) میں کلمات ''وَلٰکِنْ شُبِّہَ لَھُمْ‘‘ میں تشبیہ سے مراد کیا ہے، وغیرہ۔ مگر صورتِ حال اُن کی توقعات کے برعکس رونما ہوئی اور جو خواب انہوں نے دیکھا تھا، اس کی تعبیر الٹ نکلی، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے کئی آیات میں فرمایا: ''کیا (اللہ نے) اصحابِ فیل کی چال کو ناکام و نامراد نہ کر دیا؟‘‘ (الفیل: 2)، (2) ''بے شک کافر اپنی سی چال چلتے ہیں اور میں اپنی خفیہ تدبیر فرماتا ہوں‘‘ (الطارق: 15 تا 16)، (3) ''اور انہوں نے اپنی چال چلی اور اللہ نے اپنی خفیہ تدبیر فرمائی اور اللہ سب سے بہتر خفیہ تدبیر فرمانے والا ہے‘‘ (آل عمران: 54)۔ ایسی ہی صورتِ حال کے بارے میں مرزا غالب نے کہا تھا:
مری تعمیر میں مضمر ہے اک صورت خرابی کی
ہیولیٰ برقِ خرمن کا ہے خونِ گرم دہقاں کا
الغرض مرزا ناصر نے جو چال چلی تھی اور جو تدبیر اُس کو سوجھی تھی، اللہ تعالیٰ نے اُسی میں اُس کی ناکامی مقدر فرما دی اور یہ اللہ تعالیٰ کی غیبی مدد تھی، اگر اُس کو اس انجام کا معمولی سا بھی شائبہ ہوتا تو وہ اپنی بربادی کا یہ اہتمام کبھی نہ کرتا۔ قومی اسمبلی میں موجود ہمارے جید اکابر علماء نے بروقت اس سازش کا ادراک کر لیا اور دامِ تزویر میں نہیں آئے بلکہ اُن کی خود پیش ہونے کی پیشکش کو نعمتِ غیرمترقّبہ (Unexpected Blessing) سمجھا اور اسے دین کے اعلیٰ مقصد کے لیے استعمال کیا، یہی سنتِ انبیاء ہے؛ چنانچہ قرآنِ کریم نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے نمرود سے مناظرے کو اِن کلمات میں بیان فرمایا: ''(اے رسولِ مکرّم!) کیا آپ نے اُس شخص کو نہیں دیکھا جس نے ابراہیم سے اس بات پرجھگڑا کیا کہ اُسے سلطنت اللہ نے عطا کی ہے، جب ابراہیم نے کہا: میرا پروردگار وہ ہے جو زندگی عطا کرتا ہے اور موت دیتا ہے، اُس نے کہا: میں بھی زندہ کرتا ہوں اور مارتا ہوں، ابراہیم نے کہا: پس بے شک اللہ سورج کو مشرق سے نکالتا ہے (اور اگر تجھے اپنی خدائی کا زُعم ہے تو) تُو اِسے مغرب سے نکال کرد کھا دے، پس وہ کافر لاجواب ہو گیا‘‘ (البقرہ: 258)۔ یہاں ابراہیم علیہ السلام نے اس پر بحث نہیں کی کہ اِحیاء کے معنی حیات عطا کرنے کے ہیں، کسی کی سزائے موت معاف کرنے کے نہیں ہیں اور اِمَاتَتْ کے معنی موت دینے کے ہیں، قتل کرنے کے نہیں، قتل سببِ موت ہے، لیکن حیات سلب کرنے والی ذات اللہ کی ہے۔ اگر حضرت ابراہیم علیہ السلام اس بحث میں پڑ جاتے تو اس کی سطح عام لوگوں کے ذہنوں سے بلند ہو جاتی، مگر اُن کا مقصد محض مناظرہ جیتنا نہیں تھا بلکہ نمرود اور اس کے ماننے والوں پر حق کو آشکار کرنا اور غالب کرنا تھا، اس لیے انہوں نے دلیل کا رخ فوراً اس طرف پھیرا جو عام آدمیوں کے ذہن کو اپیل کرنے والی تھی؛ چنانچہ اس سے نمرود کی خدائی کا باطل دعویٰ ان پر آشکار ہوا۔
مرزا قادیانی نے اپنی فردِ جرم یا چارج شیٹ خود مرتب کر رکھی تھی، اس کا تحریری ریکارڈ اُس کی مطبوعہ کتابوں میں موجود تھا، یہ کتابیں خود قادیانیوں کی اپنی طبع کردہ تھیں، کوئی یہ الزام بھی نہیں لگا سکتا تھا کہ مرزا کی کتاب میں تحریف کر دی گئی ہے یا ردّوبدل کر دیا گیا ہے۔ جب مرزا ناصر سے سوال کیا جاتا تو کتاب بھی اُس کے سامنے پیش کر دی جاتی، پس اُسے انکار کی مجال نہیں تھی۔ کتابیں اردو میں تھیں اور پارلیمنٹ کے ارکان کے لیے انہیں سمجھنے میں کوئی دشواری بھی نہیں تھی۔ علماء براہِ راست مرزا ناصر سے سوال نہیں کر سکتے تھے، وہ سوال لکھ کر اُس وقت کے اٹارنی جنرل جناب یحییٰ بختیار کو دیتے اور وہ اُن میں سے انتخاب کر کے مرزا ناصر سے پوچھتے۔ مرزا ناصر پیچ و تاب کھاتا رہتا، گریز کے راستے تلاش کرتا، پتلی گلی سے نکلنے کی کوشش کرتا، لیکن اُس کی یہ ساری تدبیریں اور سب چالیں ناکام و نامراد ہوئیں، اس میں اٹارنی جنرل جنابِ یحییٰ بختیار کا کردار اور مہارت بڑی نمایاں تھی۔ مرزا ناصر کے گریز کی صورت میں بعض اوقات انہیں ایک سوال کئی انداز سے کرنا پڑتا، اس طرح تمام حقائق پارلیمنٹ کے ارکان پر روزِ روشن کی طرح واضح ہو گئے۔ مرزا غلام احمد نے اپنی کتابوں میں خود کو(معاذ اللہ) خاتم النبیین کہا بلکہ نہ ماننے والے کو کافر بھی قرار دیا اور اس طرح ختم نبوت کے عقیدے کا منکر ہوا۔ اب ارکانِ پارلیمنٹ کے سامنے دو ہی راستے تھے؛ یا تو معاذ اللہ اپنے اوپر لگائے گئے مرزا کے فتوے کو مانتے یا اُسے دائرۂ اسلام سے خارج قرار دیتے اور ظاہر ہے کہ ان کے پاس فقط یہی آپشن تھا۔