امام احمد رضا قادری رحمہ اللہ تعالیٰ کے وصال کو ایک سو تین سال گزر چکے ہیں، ان کی شخصیت کثیر الجہات ہے۔ انہوں نے علم کے متعدد شعبوں میں تحریری شاہکار چھوڑے ہیں۔ اُن کے فتاویٰ کا مجموعہ مفصّل اور مدلّل ہے۔ اُن کا نعتیہ کلام قرآن و حدیث سے ماخوذ ہے اور اُنہی کی ترجمانی ہے۔ اُنہوں نے سیرتِ نبوی کے واقعات کو نہایت جامعیت، کاملیت اور معنویت کے ساتھ نعتیہ اشعار میں ایسے سمویا کہ گویا دریا کو کوزے میں بند کر دیا۔ سفرِ ہجرت میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی جاں نثاری اور ایک سفر کے حوالے سے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی رسول اللہﷺ سے کمال محبت کو ایک ساتھ بیان کرتے ہوئے اس سے یہ نتیجہ نکالتے ہیں: غلامانِ مصطفیﷺ کے لیے اللہ تعالیٰ کی بندگی کے تقاضوں پر پورا اترتے ہوئے اصل الاصول اور روحِ ایمان رسول اللہﷺ کا ادب و احترام ہے اور یہ شِعارِ ایثار و ادب صحابہ کرامؓ میں مرتبۂ کمال پر تھا، اس میں خلفائے راشدین کامقام سب سے نمایاں ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
مولا علیؓ نے واری تیری نیند پر نماز
وہ بھی عصر، سب سے جو اعلیٰ خَطَر کی ہے
صدیقؓ، بلکہ غار میں جاں اُن پہ دے چکے
اور حفظِ جاں تو جان، فُروضِ غُرَر کی ہے
ہاں تو نے اُن کو جان، انہیں پھیر دی نماز
پر وہ تو کر چکے تھے، جو کرنی بشر کی ہے
ثابت ہوا کہ جملہ فرائض، فروع ہیں
اصل الاصول بندگی، اُس تاجور کی ہے
ان اشعار کا مفہوم یہ ہے: غزوۂ خیبر سے واپسی کے سفر میں رسول اللہﷺ حضرت علی کرّم اللہ تعالیٰ وجہَہٗ الکریم کے زانو پر سر رکھ کر آرام فرما رہے تھے، انہوں نے آپﷺ کے آرام کو فرض نماز کی ادائی پر ترجیح دی اور اُن کی عصر کی نماز قضا ہو گئی۔ رسول اللہﷺ کی دعا سے سورج پلٹ آیا اور انہوں نے عصر کی نماز وقت کے اندر ادا کی، اسی طرح حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے غارِ ثور میں سانپ کے بِل پر اپنا انگوٹھا رکھا اور ڈسے جانے کی اذیت کے باوجود انہوں نے آپﷺ کے آرام میں خلل نہ آنے دیا اور اپنی حد تک تعظیمِ مصطفی میں اپنی جان نذر کر دی۔ خلفائے راشدینؓ کے اس شِعار سے معلوم ہوا کہ رسول اللہﷺ کی تعظیم فرائض پر مقدم ہے۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حضور سلام پیش کرتے ہوئے ان کی شانِ عدالت اور ترجمانِ رسالت ہونے کا ذکر فرمایا: انہیں امامِ ہدایت، حق و باطل کے درمیان فرق کرنے والا اور باطل پرستوں کے لیے ننگی تلوار قرار دیتے ہوئے کہا: اُن کے دشمنوں کا ٹھکانا جہنم ہے:
ترجمانِ نبی، ہم زَبانِ نبی / جانِ شانِ عدالت پہ لاکھوں سلام
وہ عمرؓ، جس کے اَعدا پہ شیدا سقر/ اس خدا دوست حضرت پہ لاکھوں سلام
فارق حق و باطل امامُ الہدیٰ/ تیغِ مسلول شدت پہ لاکھوں سلام
حضرت سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حضور سلام پیش کرتے ہوئے ذوالنّورین کے لقب کے ساتھ اُن کا ذکر کیا اور بتایا: آپﷺ کا خاندان نور ہی نور تھا اور آپﷺ کی دو نورانی صاحبزادیاں یکے بعد دیگرے حضرت عثمانؓ کے عقد میں آئیں:
نور کی سرکار سے پایا دو شالہ نور کا
ہو مبارک تم کو ذوالنورین جوڑا نور کا
تیری نسلِ پاک میں ہے بچہ بچہ نور کا
تو ہے عینِ نور، تیرا سب گھرانہ نور کا
غدیرِ خُم کے مقام پر آپﷺ نے فرمایا تھا: ''جس کا میں مولیٰ ہوں، اس کے علی مولیٰ ہیں‘‘، انہوں نے حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کا مولیٰ کے وصف کے ساتھ ذکرکیا اور یہ کہ آپﷺ نے انہیں بوتراب کا لقب عطا فرمایا تھا، وہ دشمن پر پلٹ پلٹ کر حملہ کرنے والے سب سے بہادر شیر ہیں، سید المرسلینﷺ کی نسلِ پاک اُن سے جاری ہوئی، وہ وصالِ باری تعالیٰ کا وسیلہ ہیں اور ولایت کے سلسلوں کا مدار ومحور ہیں؛ چنانچہ وہ لکھتے ہیں:
اس نے لقبِ خاک، شہنشاہ سے پایا
جو حیدرِ کرّار، کہ مولیٰ ہے ہمارا
مرتضیٰ شیرِ حق، اَشْجَعُ الْاَشْجَعِیْن
ساقیٔ شِیر و شربت پہ لاکھوں سلام
اصلِ نسلِ صفا، وجہِ وصلِ خدا
بابِ فصلِ ولایت پہ لاکھوں سلام
پھر امام احمد رضا قادری نے ایک حدیث کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت علیؓ سے فرمایا: ''ابوبکر و عمر‘‘ انبیاء ومرسلین کے سوا اولین و آخرین کے پختہ عمر جنتیوں کے سردار ہوں گے، تم انہیں نہ بتانا‘‘ (ترمذی: 3666)۔
بعض شارحین نے اس کا معنی بیان کیا: علیؓ! تم انہیں نہ بتانا، میں خود انہیں بشارت سنائوں گا؛ چنانچہ وہ لکھتے ہیں:
فرماتے ہیں، یہ دونوں ہیں سردارِ دوجہاں
اے مرتضیٰ! عتیق و عمر کو خبر نہ ہو
اسی طرح امام احمد رضا اس روایت کا حوالہ دیتے ہیں: اہلِ صفّہ بھوک سے نڈھال تھے، کوئی دودھ کا برتن لے کر آیا، آپﷺ نے حضرت ابوہریرہؓ سے کہا: سب کو پلائو، کم و بیش ستر اصحابِ صفہ نے پیٹ بھر کر پیا، پھر حضرت ابوہریرہؓ نے پیا، آخر میں ساقیٔ کوثرﷺ نے خود نوش فرمایا اور فرمایا: پیاسی قوم کو سیراب کرنے والا خود سب سے آخر میں اپنی پیاس بجھاتا ہے۔ یہ رسالت مآبﷺ کا معجزہ تھا کہ تھوڑا سا دودھ اتنے اصحاب کی بھوک اور پیاس کو مٹانے کے لیے کافی ثابت ہوا:
کیوں جنابِ بوہریرہؓ! تھا وہ کیسا جامِ شیر
جس سے ستر صاحبوں کا دودھ سے منہ پھر گیا
اہلِ بیتِ اطہار رضوان اللہ علیہم اجمعین کی شان بیان کرتے ہوئے امام احمد رضا لکھتے ہیں: ''نسلِ پاکِ مصطفیﷺ کا جو چمنستان ہے، خاتونِ جنت سیدہ فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا کی کلی سے حسنین کریمین رضی اللہ عنہما کی صورت میں نورانی شگوفے نکلے۔
کیا بات رضا، اُس چمنستانِ کرم کی
زَہراؓ ہے کلی جس میں، حسینؓ اور حَسنؓ پھول
امام احمد رضا جب سیدہ فاطمۃ الزہراؓ کے آستانے پہ حاضر ہوئے تو کچھ عرض کرنے کا حوصلہ نہ تھا، ایسا لگا کہ فرشتوں نے کہا: اے آقائے دوجہاں کی شہزادی! آپ کے در پر رسول اللہﷺ کامنگتا حاضر ہے:
مجھ کو کیا منہ عرض کا، لیکن فرشتوں نے کہا
شہزادی! در پہ حاضر ہے یہ منگتا نور کا
امام احمد رضا اہلِ بیت اطہارؓ کی شان میں سلام عرض کرتے ہوئے لکھتے ہیں: بارگاہِ اقدسﷺ کے یہ پھول صحیفے کے پاروں کی طرح ہمارے لیے متبرک اور عقیدت کا مرکز ہیں، آیتِ تطہیر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: اِن کی نشو و نما آبِ تطہیر سے ہوئی ہے، اہلِ بیت نبوت کا سارا باغ ہی شرافت کے پھولوں سے آباد ہے :
پارہ ہائے صُحف، غنچہ ہائے قُدس
اہلِ بیتِ نبوت پہ لاکھوں سلام
آبِ تطہیر سے جس میں پودے جمے
اُس ریاضِ نجابت پہ لاکھوں سلام
خونِ خیر الرسل سے ہے جن کا خمیر
اُن کی بے لوث طینت پہ لاکھوں سلام
اُس بتولِ جگر، پارۂ مصطفی
حجلہ آرائے عِفّت پہ لاکھوں سلام
جس کا آنچل نہ دیکھا مہ و مہر نے
اُس رِدائے نَزاہت پہ لاکھوں سلام
سیّدہ زاہرہ طیّبہ طاہرہ
جانِ احمد کی راحت پہ لاکھوں سلام
حضراتِ حسنین کریمینؓ کوآپﷺ نے اپنے لعابِ دہن مبارک میں کھجور کی مٹھاس ملا کر گھٹی دی، ان کے لیے اپنے سجدوں کو طویل کیا، انہیں اپنی گود میں بٹھاکر خطبہ ارشاد فرمایا۔ امامِ عالی مقام حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دشتِ غربت میں انتہائی شقاوت وسنگدلی سے شہید کیا گیا، امامِ حسنِ مجتبیٰ رضی اللہ عنہ سخیوں کے سردار، راکبِ دوشِ نبوت اور آفتابِ ہدایت تھے، اُن کی شان میں آپ لکھتے ہیں:
شہد خوارِ لُعابِ زبانِ نبی/ چاشنی گیرِ عصمت پہ لاکھوں سلام
اُس شہیدِ بَلا، شاہِ گلگوں قَبا/ بے کسِ دشتِ غربت پہ لاکھوں سلام
حَسَنِ مجتبیٰ، سیّدُ الْاَسْخِیَآء/ راکبِ دوشِ عزت پہ لاکھوں سلام
اَوجِ مَہرِ ہُدیٰ، موجِ بحرِ نَدیٰ/ رَوحِ رُوحِ سخاوت پہ لاکھوں سلام
سیدالمرسلینﷺ کا سایہ نہ تھا، حسنینِ کریمینؓ نورِ نبوت کا پرتو تھے اور اُن دونوں شہزادوں کی صورتوں کے ملاپ سے صورتِ مصطفی کی شبیہ بنتی تھی:
معدوم نہ تھا سایۂ شاہِ ثقلین
اُس نور کی جلوہ گاہ تھی ذاتِ حسنین
تمثیل نے اُس سایہ کے دو حصے کیے
آدھے سے حسن بنے ہیں، آدھے سے حسین
ایک سینہ تک مشابہ اِک وہاں سے پاؤں تک
حُسنِ سبطین ان کے جاموں میں ہے نِیما نور کا
صاف شکلِ پاک ہے دونوں کے ملنے سے عیاں
خطِّ توام میں لکھا ہے یہ دو وَرقہ نور کا
ازواجِ مطہرات، امہات المؤمنین رضوان اللہ علیہن سے اظہارِ عقیدت کرتے ہوئے انہیں اس گھر کی آبرو قرار دیتے ہیں، جہاں آیتِ تطہیر اتری، وہ عفت مآب تھیں:
اہلِ اسلام کی مادرانِ شفیق/ بانوانِ طہارت پہ لاکھوں سلام
جلوہ گیانِ بیتُ الشَّرَف پر دُرود/ پردگیانِ عفّت پہ لاکھوں سلام
نوٹ: امام احمد رضا کے کلام میں عربی اور فارسی کے ثقیل الفاظ ہیں، قارئین کے لیے ہم نے حرکات لکھ دی ہیں، کالم کی تنگ دامانی کے سبب معانی نہ لکھنے پر معذرت خواہ ہیں۔