"MMC" (space) message & send to 7575

لاٹ صاحب!…(حصہ اول)

انگریزی لفظ ''Lord‘‘ کو ہندی زبان میں تبدیل کر کے ''لاٹ‘‘ بنایا گیا تھا۔ Lord کے معنی ہیں: ''خداوند، آقا، مالک، امیر، ملک کا حاکم، گورنر، لیفٹیننٹ گورنر وغیرہ‘‘ (قائد اللغات)۔ برطانوی استعمار کے دور میں چونکہ انگریز ہندوستان میں آقا بن کر آئے تھے، اس لیے ہر درجے کے گورے افسر کو ''لاٹ صاحب‘‘ کہا جانے لگا، اس کے لازمی معنی یہ ہیں کہ اُن کے مقابل دیسی لوگ غلاموں کے درجے میں سمجھے جاتے تھے۔ 1962-63ء میں ہم بسلسلۂ تعلیم لاہور میں تھے، اُس وقت مشرقی پاکستان کی آبادی مغربی پاکستان سے زیادہ تھی، اس لیے مشرقی پاکستان کے غلبے سے بچنے کے لیے مشرقی اور مغربی پاکستان میں مساوات(Parity) کا اصول بنایا گیا اور آبادی میں تفاوت کے باوجود 1956ء اور 1962ء کے دساتیر میں قومی اسمبلی میں مساوی نمائندگی رکھی گئی تھی؛ نیز مغربی پاکستان میں صوبوں کو ضم کر کے ''ون یونٹ‘‘ بنا دیا گیا تھا۔ پنجاب یونیورسٹی کے پرانے کیمپس کے بالمقابل مال روڈ کے اختتام پر کچہری روڈ ہے، اُسی پر مغربی پاکستان کا سیکرٹریٹ تھا جو اَب پنجاب سیکرٹریٹ کہلاتا ہے۔ انگریزوں کے زمانے میں اسے ''لاٹ صاحب کا دفتر‘‘ کہا جاتا تھا؛ چنانچہ اُس دور میں بھی بس کنڈکٹر اس سٹاپ کو ''دفتر لاٹ صاحب‘‘ کے نام سے پکارتے تھے۔
الغرض جب ''گورے لاٹ صاحب‘‘ 1947ء میں واپس چلے گئے، تو انہوں نے اپنا ورثہ ''دیسی لاٹ صاحب‘‘ کو منتقل کر دیا۔ ان کے اندر وہی گورے لاٹ صاحب کی روح رواں تھی اور وہ خود کو آقا اور عوام کو غلام سمجھتے رہے۔ ملک کی آزادی کو چوہتر سال گزر چکے ہیں، لیکن یہ سوچ آقائوں کے ذہن سے اب تک نہیں نکلی۔ تمام قومی اخبارات کے جمعۃ المبارک (19 نومبر) کے ایڈیشن کی شہ سرخی اور اس کا متن وزیر اطلاعات فواد چودھری کے اُس خطاب کی رپورٹنگ پر مشتمل تھا جو انہوں نے ''انسٹیٹیوٹ آف پالیسی سٹڈیز اسلام آباد‘‘ میں کیا تھا۔ اُن کے فرمودات کو اخبارات نے مِن و عَن نقل کیا۔ اُن کے دوسرے فرموداتِ عالیہ پر الگ سے گفتگو ہو گی، اس وقت اُن کے مندرجہ ذیل فرمودات پر بات کرنا مقصود ہے: ''پاکستان کی تاریخ دیکھی جائے تو مذاکرات وزیراعظم یا وزیر داخلہ نہیں، بلکہ تھانیدار کرتا تھا‘‘، نیز انہوں نے کہا: ''برطانیہ نے مقامی لا انفورسمنٹ نظام قائم کیا تھا، ہم نے وہ نظام تو ختم کر دیا، لیکن اس کا متبادل نظام نہیں لا سکے، اس نظام کے تین بڑے ستون چوکیدار، نمبردار اور تھانیدار تھے، نمبردار کا انسٹیٹیوشن ختم ہونے سے چوکیدار کا نظام ختم ہو گیا‘‘۔
چودھری صاحب کے نزدیک برطانوی استعمارکا دور آئیڈیل تھا: ''گورے لاٹ صاحب کے نیچے تھانیدار، نمبردار اور چوکیدار سب کو غلاموں کی طرح ہانکتے تھے، کسی کو اُن کے سامنے اُف کرنے کی مجال نہیں تھی، اگر کوئی سرپھرا احتجاج کرتا تو اُسے نشانِ عبرت بنا دیا جاتا‘‘۔ یہ اُن لوگوں کی جاگیردارانہ سوچ ہے جن کے آبائو اجداد کو لاٹ صاحب کی خدمت کے انعام کے طور پر جاگیریں ملتیں، عوام کو ظالمانہ انداز میں کچلنے کے لیے انعامات و اعزازات سے نوازا جاتا تھا۔ یہ سوچ اُن کی موجودہ نسلوں کی جینیاتی ساخت میں بھی شامل ہے، اُن کو یہ ذہنی ساخت اپنے اجداد سے ورثے میں ملی ہے، لہٰذا وہ کیسے برداشت کر سکتے ہیں کہ کوئی کمی کمین وزیراعظم یا وزیر یا مشیر وغیرہ سے براہِ راست بات کرے۔ عوام کی یہ جسارت ہرگز برداشت نہیں ہے، قدموں میں بیٹھنے والے اُن کے برابر کیسے بیٹھ سکتے ہیں؟ قیامِ پاکستان کے چوہتر سال گزرنے کے باوجود یہ ذہنی ساخت اور سوچ نہیں بدلی۔ اس لیے روحانی درد اورکرب سمجھ میں آتا ہے کہ انگریزوں کے زمانے میں جن عوام کی تھانیدار تک رسائی نہیں تھی‘ وہ وزیراعظم یا وزیر داخلہ سے بات کرنے کی جسارت کیسے کرتے ہیں۔ اس سوچ کا تقاضا ہے کہ وزیراعظم کے عوام سے ٹیلی فونک روابط اور پورٹل قسم کی چیزیں اُن کے شایانِ شان نہیں ہیں، کمی کمین لوگوں کو منہ لگانا ہی نہیں چاہیے، اس کے لیے تھانیدار اور پٹواری کو استعمال کرنا چاہیے۔ یہ جمہوری لبادے میں آمرانہ سوچ ہے۔عوام میں جڑیں رکھنے والی مذہبی سیاسی جماعتوں کا فریضہ ہے کہ اس سوچ کے خلاف آواز بلند کریں، عوام میں آگہی پیدا کریں، اُن میں جرأتِ اظہار پیدا کریں اور اُن کو احساس دلائیں کہ وہ بھی آدم زاد ہیں اور برابر کے انسانی حقوق رکھتے ہیں۔ پاکستان اس لیے قائم نہیں کیا گیا تھا کہ آقا و غلام کے برطانوی ورثے کو لے کر آگے چلا جائے۔ اس ضمن میں علامہ اقبال کے متفرق اشعار ملاحظہ کیجیے:
تمیزِ بندہ و آقا فسادِ آدمیّت ہے
حذَر اے چِیرہ دستاں! سخت ہیں فطرت کی تعزیریں
حقیقت ایک ہے ہر شے کی، خاکی ہو کہ نُوری ہو
لہو خورشید کا ٹپکے اگر ذرّے کا دل چِیریں
زمیں سے نُوریانِ آسماں پرواز کہتے تھے
یہ خاکی زندہ تر، پائندہ تر، تابندہ تر نکلے
بندگی میں گھَٹ کے رہ جاتی ہے اک جُوئے کم آب
اور آزادی میں بحرِ بے کراں ہے زندگی
حضرت عمر فاروقؓ نے فرمایا تھا: ''لوگوں کواُن کی مائوں نے آزاد جنا تھا، تم نے ان کو غلام کب سے بنا لیا‘‘۔ جنگِ قادسیہ کے آخری مرحلے سے پہلے اتمامِ حجت کے لیے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت سعد رضی اللہ عنہ کو لکھا: جنگ شروع کرنے سے پہلے اسلامی شِعار کے مطابق یزدگرد کے سامنے صلح کی شرائط پیش کر دی جائیں اور اس مقصد کے لیے سفیر مدائن بھیجے جائیں۔ یزدگرد کواسلامی سفیروں کی آمد کی اطلاع ملی تو اس نے دربار کو خاص طور پر آراستہ کیا۔ اس نے سوچا کہ اتنی عظیم مملکت کے سفیروں کا استقبال اُن کے شایانِ شان تُزُک و احتشام کے ساتھ ہونا چاہیے۔ جب مسلم سفیر وہاں پہنچے تو طویل سفر کے سبب چہروں پر تھکاوٹ کے آثار، کندھوں پر بوسیدہ چادریں، ہاتھوں میں چابک، پائوں میں موزے اور سواری کے دبلے پتلے گھوڑے گرد اڑاتے چلے آ رہے تھے۔ یزدگرد یہ منظر دیکھ کرحیران ہو گیا، اتنی عظیم مملکت اور اس کے سفیروں کی یہ حالتِ زار، اُسے اُن سے بات کرنا بھی گوارا نہ تھا۔ لیکن جب اس کے درباریوں نے اس پر زور دیا تو وہ بادلِ نخواستہ ان سے ملنے کے لیے آمادہ ہو گیا۔ وفد دربار میں پہنچا تو ان کے رئیس نے حسبِ معمول شہنشاہِ ایران سے کہا: ''یا تو اسلام قبول کر کے ہم میں سے ہو جائو یا اسلامی مملکت کے اقتدار کی برتری تسلیم کر لو تاکہ تمہارا ملک اور عوام محفوظ رہیں اور اگر یہ بھی قبول نہیں تو پھر تلوار کے فیصلے کا انتظار کرو‘‘۔
یزدگرد نے یہ سنا تو غصے سے آگ بگولا ہوگیا اورکہا: تم وحشی، بدتہذیب عرب، گَوہ کھانے والے، اونٹوں کا دودھ پینے والے گنوار اور تمہاری جرأت و جسارت کا یہ عالم! کیا تم بھول گئے ہو کہ جب تم معمولی سی سرکشی کیا کرتے تھے تو ہم اہلِ فارس خود تمہارے مقابلے میں آنا اپنی شان کے خلاف سمجھتے تھے، ہم اپنے باجگزار سرداروں کو حکم دیتے تھے اور وہ تمہاری گوشمالی کر کے تمہیں سیدھا کر دیتے تھے۔ اب اگر بھوک اور افلاس نے تم لوگوں کو جنگ پر آمادہ کر دیا ہے، تو ہم تمہارے لیے روٹی کپڑے کا بندوبست کر دیتے ہیں، جائو! آرام سے بیٹھو، کیوں اپنی جان کے درپے ہو۔ رئیس وفد نے یزدگرد کی باتوں کو نہایت سکون و اطمینان سے سنا اور کہا: تم نے ہماری پہلی حالت کے متعلق جو کچھ کہا ہے، وہ بالکل ٹھیک ہے، ہم اس سے بھی زیادہ جاہل اور زبوں حال تھے، لیکن اللہ کی کتاب اور اس کے رسولﷺ کی تعلیم و تربیت نے ہمارے اندر جو انقلاب برپا کر دیا ہے، اس کاتمہیں علم نہیں، اب ہم ایک بدلی ہوئی قوم ہیں اور انہوں نے پھر تینوں شرطیں دہرائیں۔ علامہ اقبال نے کہا ہے:
نگاہِ کم سے نہ دیکھ، اُن کی کج کلاہی کو
یہ بے کلاہ ہیں، سرمایۂ کلاہ داری
ترجمہ:''تاج و تخت سے محروم لوگوں کو حقارت سے نہ دیکھو، یہ تاج و تخت کے بغیر ہیں، لیکن ان کی خودی اور حمیتِ دینی نے انہیں تاج وتخت والوں کے لیے قابلِ رشک بنا دیا ہے‘‘۔
یہ سن کر یزدگرد آپے سے باہر ہوگیا اورغیظ وغضب میں آ کر بولا: اگر سفیروں کو قتل کرنا سفارتی اَقدار کے منافی نہ ہوتا، تو میں تمہاری گردنیں اڑا دیتا۔ جائو! جو تمہارے جی میں آئے کرو، لیکن جاتے جاتے ایک تحفہ ضرور لیتے جائو۔ یہ کہہ کر اس نے مٹی کا ایک ٹوکرا منگایا اور اسے رئیس وفد کے سامنے رکھ دیا۔ انہوں نے ٹوکرا اٹھایا اور شاداں و فرحاں اپنے سپہ سالار حضرت سعد رضی اللہ عنہ کے پاس واپس پہنچے۔ اُن کوسارا ماجرا سنایا اور اس کے بعد مٹی کا وہ ٹوکرا پیش کرتے ہوئے کہا: ''مبارک ہو، یزدگرد نے خود ہی اپنی زمین ہمارے حوالے کر دی‘‘۔ بعد کے واقعات نے ثابت کر دیا کہ اس مٹی کے ٹوکرے میں فی الواقعہ سلطنت فارس کی سرزمین سمٹ کر آگئی تھی۔ علامہ اقبال کے متفرق اشعار ملاحظہ کیجیے:
خاکساران جہاں را بہ حقارت منگر
تو چہ دانی کہ دریں گرد سوارے باشد
ترجمہ: ''دنیا کی خاک چھاننے والوں کو حقارت سے نہ دیکھو، تجھے کیا خبر! اس گَرد میں غیور و بہادر مردانِ باکمال بھی ہوتے ہیں‘‘۔
نہ پُوچھ ان خرقہ پوشوں کی، ارادت ہو تو دیکھ ان کو
یدِ بیضا لیے بیٹھے ہیں اپنی آستینوں میں
لیکن علامہ اقبال نے ایسے ہی چودھریوں کے بارے میں اظہارِافسوس کرتے ہوئے کہا:
فلک نے ان کو عطا کی ہے خواجگی، کہ جنہیں
خبر نہیں، رَوِشِ بندہ پروری کیا ہے
ترجمہ: ''انقلاباتِ زمانہ کے نتیجے میں تقدیر نے انہیں سلطنت پر فائز کر دیا کہ جنہیں ''بندہ پروری‘‘ یعنی ''عوام کے حقوق‘‘ کی پاس داری اور حُرمت کا شعور ہی نہیں ہے‘‘۔ آنجناب تھانیداروں پر ضرور ناز کریں،لیکن یہ بھیمعلوم ہونا چاہیے کہ جب خَلق خدا دیوانہ وار نکلتی ہے تو ریت کی یہ دیواریں ڈھے جاتی ہیں اور ان کے ذرّے خس و خاشاک کی طرح اڑ جاتے ہیں۔ آپ جیسوں کی تمکَنت و غرور خاک میں مل جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے عیش و عشرت میں پھلے پھولے ماضی کے بدمست لوگوں کے انجام کے بارے میں بتایا ہے: ''وہ کتنے ہی باغات، (میٹھے پانی کے) چشمے، لہلہاتے کھیت، عظیم الشان محلّات اور ناز و نِعَم جن سے وہ لطف اندوز ہو رہے تھے، (اپنے پیچھے) چھوڑ گئے۔ ہاں! اسی طرح ہوا اور ہم نے ان سب چیزوں کا وارث دوسروں کو بنا دیا۔ تو نہ اُن پر چشمِ فلک روئی اور نہ زمین گریہ کناں ہوئی اور نہ انہیں مہلت دی گئی‘‘ (الدخان: 25 تا 29)۔(جاری)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں