"MMC" (space) message & send to 7575

کارواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا!

زیاں اور خسارہ بلاشبہ ناکامی کی علامت ہے، لیکن زیاں سے بھی بڑھ کر المیہ یہ ہے کہ فرد یا ملّت کے دل و دماغ سے ''احساسِ زیاں‘‘ بھی جاتا رہے؛ چنانچہ علامہ اقبال نے کہا:
وائے ناکامی! متاعِ کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا
اگر فرد یا ملّت کے دل و دماغ میں ''احساسِ زیاں‘‘ زندہ رہے تو اس بات کا قوی امکان ہے کہ ایک وقت آئے گا کہ اُس زیاں پر قابو پا لیا جائے گا، اس کی تلافی کی جائے گی اور قوم و ملّت دوبارہ عزت و سرفرازی کی منزلوں کی طرف گامزن ہو جائے گی، لیکن اگر قوم و ملّت کے دل سے ''احساسِ زیاں‘‘ ہی جاتا رہے، تو پھر علامہ اقبال نے زیاں سے بھی بڑھ کر ''احساسِ زیاں‘‘ کے فقدان کو سب سے بڑی ناکامی سے تعبیر کیا ہے، کیونکہ جس قوم اور ملّت میں احساسِ زیاں باقی نہ رہے، یعنی اجتماعی ضمیر (Collective Conscience) اور دینی و ملّی حمیت مر جائے، تو پھر اس کی نشاۃ (Renaissance) یعنی اِحیا کا امکان باقی نہیں رہتا۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ''بلکہ انسان اپنے نفس پر خود آگاہ ہے، خواہ وہ (اپنی بے عملی اور ناکامی کو چھپانے کے لیے) عذر تراشتا رہے‘‘ (القیامہ: 14 تا 15)۔ عروج و زوال اور فتح و شکست کے دن قوموں کی تاریخ میں آتے رہتے ہیں‘ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ''اور ہم لوگوں کے درمیان (عروج و زوال کے) ان دنوں کو گردش دیتے رہتے ہیں‘‘ (آل عمران: 140)۔
قیصر کے دربار میں جب رسول اللہﷺ کا نمائندہ پہنچا، تو اُس نے رسول اللہﷺ کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے لیے قریش کے تجارتی قافلے کے سربراہ ابوسفیان کو دربار میں بلایا اور اس سے پوچھا: ''تمہاری کبھی اُن سے جنگ بھی ہوئی ہے؟ ابوسفیان نے کہا: ہاں! اُس نے پوچھا: اس جنگ کا کیا نتیجہ نکلا؟ ابوسفیان نے کہا: جنگ میں کبھی ہمارا پلڑا بھاری ہو جاتا اور کبھی اُن کا‘‘ (صحیح بخاری: 7)، لیکن بالآخر اللہ تعالیٰ نے اسلام کو مکمل غلبہ عطا فرمایا اور فتحِ مُبین عطا کی۔ الغرض جب قومیں جفاکش، اولوالعزم اور حوصلہ مند ہوتی ہیں، قوتِ ایمانی اور جذبۂ ایثار سے معمور ہوتی ہیں تو ایک وقت آتا ہے کہ پانسہ اُن کے حق میں پلٹ جاتا ہے۔ علامہ اقبال نے کہا ہے:
رہزنِ ہمّت ہُوا، ذوقِ تن آسانی ترا
بحر تھا صحرا میں تُو، گلشن میں مثلِ جُو ہوا
''یعنی تن آسانی نے مسلمانوں سے ہمت اور حوصلے کو چھین لیا، کبھی تو وہ صحرا میں بحرِ بے کراں کی مانند تھے اور اب حال یہ ہے کہ گلشن میں ایک سمٹی ہوئی نہر بن چکے ہیں‘‘، وہ کہتے ہیں:
آشنا اپنی حقیقت سے ہو اے دہقاں ذرا
دانہ تو، کھیتی بھی تو، باراں بھی تو، حاصل بھی تُو
آہ، کس کی جستجو آوارہ رکھتی ہے تجھے
راہ تُو، رہرو بھی تُو، رہبر بھی تُو، منزل بھی تُو
کانپتا ہے دل ترا اندیشۂ طوفاں سے کیا
ناخدا تو، بحر تو، کشتی بھی تو، ساحل بھی تُو
ان اشعار میں علامہ اقبال دہقاں کو ایک استعارے کے طور پر استعمال کرتے ہوئے کہتے ہیں: ''اگر مردِ مومن اپنی حقیقت سے آگاہ ہو جائے، تو پھر اُسے سمجھ میں آ جائے گا کہ اگر وہ ہمت کرے تو بہت کچھ کر سکتا ہے، اپنی کھوئی ہوئی متاعِ افتخار کو دوبارہ حاصل کر سکتا ہے، بشرطیکہ وہ اس حقیقت کو سمجھ لے:
نہ تُو زمیں کے لیے ہے، نہ آسماں کے لیے
جہاں ہے تیرے لیے، تُو نہیں جہاں کے لیے
ہم نے یہ کلمات تمہید کے طور پر لکھے ہیں۔ ہم 16 دسمبر 1971ء فراموش کر چکے ہیں۔ آج اس سانحے کو پچاس سال ہوا چاہتے ہیں، لیکن ہماری نئی نسل اس المیے سے بے خبر ہے، کیونکہ ہمارے ہاں نہ 1857ء کی جنگِ آزادی پڑھائی جاتی ہے، نہ تحریکِ پاکستان کا مطالعہ کیا جاتا ہے اور نہ پاکستان کی تاریخ ہمارے قومی نصاب کا حصہ ہے۔ حالانکہ امریکا اور مغربی ممالک میں کوئی شخص سائنس، ٹیکنالوجی، معاشیات، سماجیات، ادبیات اور تاریخ الغرض کسی بھی شعبے میں جانا چاہتا ہو، مگر سکول گریجویشن کی سطح تک اُسے اپنے ملک کی تاریخ پڑھنا ہو گی۔ مزید المیہ یہ ہے کہ ہماری تاریخ متفق علیہ نہیں ہے، ہر ایک کی اپنی تشریح ہے، اپنی تعبیر ہے، ہر ایک اپنا من پسند نتیجہ نکالنا چاہتا ہے۔ ہم قوم کے نوجوانوں کو ماضی کے احساسِ زیاں اور ناکامیوں سے بہرہ مند ہوتے دیکھنا نہیں چاہتے، ہم حقائق کو اُن کے سامنے مستور رکھنا چاہتے ہیں تاکہ اُن پر ایک مصنوعی سحر طاری رہے اور وہ یہ سوال نہ کر سکیں کہ قائداعظم کا بنایا ہوا پاکستان کیوں ٹوٹا، اس کا ذمہ دار کون ہے، اس کے اسباب کیا تھے، کیا کبھی اس کے ذمہ داروں کو عدالت کے کٹہرے میں کھڑا کیا گیا۔
آج کہنے کو تو ہماری منتخب پارلیمنٹ موجود ہے، لیکن ہم اس میں اپنی قومی اور ملی تاریخ کو، اپنی کامیابیوں اور ناکامیوں کی داستان کو زیرِ بحث لانا ہی نہیں چاہتے، ہم گروہوں میں بٹے ہوئے ہیں، ہماری کوئی متفق علیہ اور مسلّمہ منزل نہیں ہے، نہ کوئی آدرش ہے، نہ کوئی ملّی امنگ ہے اور نہ کوئی اولوالعزم اور حوصلہ مند رہنما ہے۔ علامہ اقبال کہتے ہیں:
نشانِ راہ دکھاتے تھے جو ستاروں کو
ترس گئے ہیں کسی مردِ راہداں کے لیے
نِگہ بلند، سخن دل نواز، جاں پُرسوز
یہی ہے رختِ سفر میرِ کارواں کے لیے
پس نہ کوئی نشانِ راہ ہے، نہ کوئی مردِ راہداں اور نہ کوئی میرِ کارواں ہے، جس کے اوصاف علامہ اقبال نے مندرجہ بالا اشعار میں بیان کیے ہیں۔ ہمارا آج کا میرِ کارواں ملک کے اندر ہو یا ملک سے باہر کہیں جائے‘ وہ چوراہے کے بیچ میں کھڑے ہوکر اپنے ہی آلودہ پوتڑے دنیا کو دکھارہا ہوتا ہے، گویا یہ پیغام دے رہا ہوتا ہے کہ ہمارے پاس نہ کوئی اعزاز ہے، نہ افتخار، نہ نشانِ منزل ہے اور نہ میرِکارواں کہ جو دنیا کو پاکستان کا اچھا چہرہ دکھائے، اپنی قوم کو امید کی کرن دکھائے، بس ہمارے پاس قوم کے نوجوانوں کو ورثے کے طور پر منتقل کرنے کے لیے یاس ہے، حِرماں ہے، ملامت ہے، تاسُّف ہے، رنج وملال ہے، ایک دوسرے سے نفرت ہے، اگر نہیں ہے تو امید کی کرن نہیں ہے۔
ہمارے بعض کالم نگار، تجزیہ کار، دانشور، سیاست دان الغرض تمام طبقات قوم کو تازہ مسائل کے الجھائو میں مبتلا رکھنا چاہتے ہیں۔ انہیں اپنی دکان کی رونقیں قائم رکھنے کے لیے تازہ سودا بیچنا ہوتا ہے، جس کا ماحصل نئی نسل کے لیے ذہنی اور فکری انتشار کے سوا کچھ بھی نہیں ہوتا۔ وہ ایسا شور وغوغا بپا کرنا چاہتے ہیں کہ کسی کو اپنا قومی اور ملّی ماضی جاننے کا شعور بھی نہ رہے۔ نئی نسل تو ویسے بھی ٹک ٹاک، ٹویٹر، انسٹاگرام، وٹس اپ، فیس بک اور نہ جانے کن کن خرافات میں ہمہ وقت محو رہتی ہے۔ ایسے میں اقبال کی بانگِ درا پر کون کان دھرے گا اور وہ نوجوان نسل کا رشتہ جس ماضی سے جوڑنا چاہتے ہیں، اس کی طرف کون متوجہ ہوگا؟ وہ اپنا دردِ دل اور اپنا ذہنی کرب بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں:
کبھی اے نوجواں مسلم! تدبّر بھی کِیا تُو نے
وہ کیا گردُوں تھا، تُو جس کا ہے اک ٹُوٹا ہوا تارا
تجھے اس قوم نے پالا ہے، آغوشِ محبّت میں
کچل ڈالا تھا جس نے، پاؤں میں تاجِ سرِ دارا
غرض مَیں کیا کہُوں تجھ سے، کہ وہ صحرا نشیں کیا تھے
جہاں گیر و جہاں دار و جہاں بان و جہاں آرا
اگر چاہوں تو نقشہ کھینچ کر، الفاظ میں رکھ دوں
مگر تیرے تخیّل سے فزوں تر ہے، وہ نظارا
تجھے آبا سے اپنے کوئی نسبت، ہو نہیں سکتی
کہ تُو گفتار وہ کردار، تُو ثابت وہ سیّارا
گنوا دی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی
ثُریّا سے زمیں پر آسماں نے ہم کو دے مارا
حکومت کا تو کیا رونا، کہ وہ اک عارضی شے تھی
نہیں دنیا کے آئینِ مسلَّم سے کوئی چارا
مگر وہ علم کے موتی، کتابیں اپنے آبا کی
جو دیکھیں ان کو یورپ میں، تو دل ہوتا ہے سیپارا
علامہ اقبال کہتے ہیں: میں نے جب اَزْمنۂ (زمانہ کی جمع) وُسطیٰ کے مسلمانوں کی سائنسی، علمی اور تحقیقی کتابوں کو یورپ کی لائبریریوں میں دیکھا تو میرا دل ریزہ ریزہ ہو گیا، حکومت تو ایک عارضی شئے تھی جو اپنی نالائقیوں کے باعث چلی گئی، لیکن علم کی امامت تو ابدی اور دائمی اثاثہ ہے، اس کا چھن جانا بہت بڑا المیہ اور ناقابلِ تلافی نقصان ہے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا تھا: ''حکمت ودانش کی ہر بات مومن کی متاعِ گم گشتہ ہے، سو وہ اُسے جہاں بھی پائے، اس کا اصل حق دار یہی ہے، اسے آگے بڑھ کر اُسے لے لینا چاہیے‘‘ (ترمذی:2687)۔ وہ کہتے ہیں: اے مردِ مومن! تجھے اپنے آبا سے کوئی نسبت ہی نہیں، کیونکہ تُو گفتار ہی گفتار ہے، یعنی محض باتونی ہے اور وہ صاحبانِ کردار تھے، تُو قوموں کی ترقی کی دوڑ میں جمود کا شکار ہے اور وہ سرعتِ رفتار سے ترقی کی منازل کو طے کرتے جاتے تھے، سو جب ہم نے اسلاف کی میراث کو گنوا دیا تو اللہ تعالیٰ کے قانونِ فطرت کے مطابق آسماں نے ہمیں ثریا کی بلندیوں سے زمین پر دے مارا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں