آج کی زمینی حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کی معیشت ابتر حالت میں ہے، زبردست دبائو میں ہے اور بظاہر اس مشکل صورتِ حال سے نکلنے کے آثار وقرائن نظر نہیں آ رہے۔ یہ کوئی پیچیدہ فلسفیانہ مسئلہ نہیں ہے، سیدھا سادہ حقائق اور اعداد و شمار کا مسئلہ ہے، یہ دو اور دو چار کی طرح واضح اور آفتاب نصف النّہار سے زیادہ روشن ہے۔ یہ نہ کوئی پہیلی ہے اور نہ پیچیدہ معاشی اصطلاحات کا مسئلہ ہے۔ اگر مسئلے کا حل یہ ہے کہ سارا ملبہ سابق حکمرانوں پر ڈال کر حاکمِ وقت خود بری الذمہ ہو جائیں، تو اس سے آسان نسخہ اور کیا ہو سکتا ہے۔ وزیراعظم اپنے سابقین کے خلاف تقریریں ریکارڈ کرا دیں اور چوبیس گھنٹے پی ٹی وی کے ایک چینل پر کسی وقفے کے بغیر نشر کرنے کا انتظام کر دیں، لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ نہ یہ مسئلے کا حل ہے اور نہ اس کا راستہ حتمی حل کی طرف جاتا ہے، بلکہ یہ گریز کا راستہ ہے اور لوگوں کو ذہنی طور پر مصروف رکھنے کا ایک حربہ ہے۔ ہم یہ بھی نہیں کہتے کہ اس صورتِ حال کی سو فیصد ذمہ دار موجودہ حکومت ہے، ہاں! یہ کہنا بجا ہے کہ موجودہ حکومت کے دور میں زوال کی رفتار ماضی کی حکومتوں کے ادوار کے مقابلے میں بہت زیادہ تیز رہی ہے، حکومتی پالیسیوں کی وجہ سے ملک کے اقتصادی مسائل سلجھنے کے بجائے الجھتے جا رہے ہیں۔
صورتِ حال یہ ہے کہ 2021-22 کے مجوزہ سالانہ بجٹ کے لیے بھی ہمارے محاصل کے تخمینے یعنی آمدن اور اَخراجات کے میزانیے میں تقریباً تین ہزار ارب روپے کا فرق ہے، ظاہر ہے کہ اسے پورا کرنے کے لیے مزید قرضے لینے کے سوا کوئی چارۂ کار نہیں ہے، کیونکہ ہمارے ہاں بجٹ میں تجویز کردہ محاصل کا ہدف پورا کرنا بھی ایک کارِ دشوار ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سالانہ ترقیاتی بجٹ میں دو سو ارب روپے کی کٹوتی کر دی گئی ہے اور بعض چیزوں میں ٹیکس کی جو رعایت دی گئی تھی، اُس میں تقریباً ساڑھے تین سو ارب کی رعایت واپس لینے کے ساتھ ساتھ منی بجٹ کی صورت میں نئے ٹیکس لگانے کی منصوبہ بندی بھی کی جا رہی ہے۔ اس طرح داخلی اور خارجی قرضوں کا بوجھ سال بہ سال بڑھتا چلا جائے گا اور وہ وقت دور نہیں جب ملک پر واجب الادا مجموعی قرض ہماری مجموعی داخلی پیداوار سے بڑھ جائیں گے۔ قرض لینے کے لیے ہمیں سود بھی ادا کرنا پڑتا ہے اور اپنے اثاثے بھی گروی رکھنا پڑتے ہیں، لیکن یہ حکمتِ عملی بھی زیادہ دیر چلنے والی نہیں ہے۔ حکومت کا اپنا ایک طمطراق ہوتا ہے، کرّوفر ہوتا ہے، اقتدار کا اپنا ایک لطف ہوتا ہے، ٹی وی پر روزانہ کا درشن ہے، وزیراعظم ماضی کے حکمرانوں کو کوستے ہوئے اپنا وقت گزار رہے ہیں، لیکن ملک کے مسائل کا انبار کم ہونے یا برقرار رہنے کے بجائے بڑھتا جا رہا ہے۔
ایک تجزیہ کار نے قومی قرضوں سے نَجات کا یہ منصوبہ پیش کیا ہے: ''ہم اپنے آپ کو عالمی مہاجنوں اور قرض خواہوں کے سامنے نادہند قرار دیں اور صفر سے اپنے سفر کا آغاز کریں، اُن کے بقول ماضی میں کئی ممالک ایسا کر چکے ہیں اور پھر اُن کی معیشت بحال بھی ہو گئی ہے‘‘۔ لیکن کیا پاکستان کے لیے ایسا کرنا ممکن ہے، یہ نہایت اہم سوال ہے، کسی ایک ماہرِ معیشت کی طرف سے بھی ہمیں اس تجویز کے قابلِ عمل ہونے کا کوئی تجزیہ نہیں ملا اور نہ کوئی متبادل حل سامنے آیا ہے۔ ہمیں لگتا ہے کہ حکومت کی تبدیلی سے بھی کوئی بڑا جوہری فرق شاید ہی سامنے آئے، صرف انیس بیس یا اٹھارہ بیس یا زیادہ سے زیادہ سولہ بیس کا فرق واقع ہو سکتا ہے۔ اس کا ایک آسان اور سادہ حل تو یہ ہے جو تعلیم یافتہ اور غیر تعلیم یافتہ ہر فرد کی سمجھ میں آ سکتا ہے :'' ہم اپنے اخراجات کم کریں یا اخراجات کے مقابلے میں آمدنی میں اضافہ کر کے بتدریج قرض کے بوجھ کو کم کرتے چلے جائیں، ایک صورت یہ ہے کہ ریاست اداروں میں تخفیف کرکے ان کے بوجھ کو کم کرے، ان کی اہلیت، قوتِ کار اور معیار کو بلند کرکے اس کمی پر قابو پائے اور قوم کو بھی آنے والی نسلوں کے لیے اچھا ورثہ چھوڑنے کی خاطر مشکلات برداشت کرنے پر آمادہ کرے، لیکن اس کا لازمی اثر بے روزگاری میں اضافہ ہو گا۔ ایک مشکل یہ درپیش ہو گی کہ قوم جن آسائشوں کی عادی ہو چکی ہے، ان سے دستبردار ہونا اس کے لیے مشکل ترین مسئلہ ہو گا، کیونکہ ماہرینِ معیشت کا کہنا ہے: ''ضرورت، آسائش اور تعیّش‘‘ اضافی اصطلاحات ہیں، ہم اپنی زندگی میں دیکھ چکے ہیں کہ پاکستان کی پہلی تین دہائیوں میں جو چیزیں آسائش اور تعیّش کے درجے میں تھیں، آج وہ ضرورت بن چکی ہیں۔
نِت نئی سائنسی ایجادات ایک جانب ضرورت کے دائرے کو وسیع کر رہی ہیں اور دوسری جانب صنعتوں میں خود کاری (Automation)، روزگار کے مواقع کو محدود کرتی جا رہی ہے، بلکہ ترقی یافتہ ممالک میں روبوٹ یعنی مشینی شخص ذی حیات انسانوں کی جگہ لے رہے ہیں۔ انسان مشین کے پرزے کی طرح بنتا جا رہا ہے اور گھر کا ہر قابلِ کار فرد کام کرنے پر مجبور ہے، جبکہ تاحال ہمارے ہاں ایک برسرِ روزگار آدمی اوسطاً پانچ تا سات افراد کا کفیل ہوتا ہے اور بعض صورتوں میں یہ تعداد بڑھ جاتی ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں ریٹائرمنٹ کے بعد ریاست اپنے پسماندہ شہریوں کی کفالت کرتی ہے، ان کی معیشت میں اتنی سکت ہے، لیکن تاحال ہماری معیشت میں یہ سکت نہیں ہے۔ اگر ہم اس طرح کا کفالتی نظام قائم کریں گے تو ترقی کا پہیہ رک جائے گا۔ وزیراعظم عمران خان ہیلتھ انشورنس کی طرف جا رہے ہیں، اس کے معنی یہ ہیں : ''پبلک سیکٹر میں موجودہ اور آنے والی ضرورتوں کے پیشِ نظر جو نئے ہسپتال بن سکتے تھے اور موجودہ ہسپتالوں کی استعداد کو بڑھایا جا سکتا تھا، وہ سلسلہ رک گیا ہے۔ گزشتہ سوا تین سال کا جائزہ ہمارے سامنے ہے۔ برسرِ اقتدار آنے سے پہلے اپنی سیاسی مہم میں وزیراعظم ببانگ دہل یہ کہتے تھے کہ پاکستان کا ہر شہری مقروض ہے، پس تازہ ترین اعدادوشمار یہ ہیں: ''2018ء میں پاکستان کا ہر شہری فی کس ایک لاکھ چوالیس ہزار روپے کا مقروض تھا اور اب دو لاکھ پینتیس ہزار روپے کا مقروض ہے‘‘، یعنی موجودہ حکومت کے سوا تین سالہ دور میں فی کس قرضے میں اکیاسی ہزار روپے کا اضافہ ہو چکا ہے، پس معلوم ہوا کہ تنقید آسان ہے، تعمیر مشکل ہے۔ جبکہ ہمارے وزیراعظم اور ان کے وزرا، مشیران اور معاونین اب بھی ہر ناکامی کا ملبہ ماضی کی حکومتوں پر ڈال کر جشنِ فتح منا رہے ہیں، لیکن اب یہ استدلال کارگر ثابت نہیں ہو رہا۔
ہم یہ سمجھ رہے تھے کہ چلو ایک شعبے میں تو بہتری کے اشاریے مل رہے ہیں کہ بیرونِ ملک سے زرِ مبادلہ کی صورت میں ترسیلاتِ زر میں اضافہ ہو رہا ہے، اس سے قومی خزانے میں تو اضافہ نہیں ہوتا، لیکن زرِ مبادلہ کا دبائو کم کرنے میں مدد ملتی ہے، مگر ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی نے انکشاف کیا ہے: ''پچھلے دو برسوں میں برآمدات کے مقابلے میں دیگر ممالک سے کارکنوں کی آنے والی ترسیلات میں زبردست اضافہ ہوا ہے، ان ترسیلات کا بڑا حصہ کارکنوں کی جانب سے بھیجی جانے والی ترسیلات نہیں ہیں، جیساکہ سٹیٹ بینک بتاتا رہا ہے، بلکہ اس کا ایک معتد بہ حصہ مالدار افراد سرمایہ کاری کے لیے بھیجتے ہیں، پھر اس کا بڑا حصہ زرِ مبادلہ کی شکل میں ملک سے باہر چلا جاتا ہے۔ انکم ٹیکس آرڈیننس کی شق سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ترسیلات کا خاصہ بڑا حصہ دراصل کالے دھن کو قومی خزانے میں ٹیکس کا ایک روپیہ جمع کرائے بغیر قانونی تحفظ فراہم کرنے کا بڑا ذریعہ بن چکا ہے۔ ترسیلات کے سکینڈل کو روکنا اور انکم ٹیکس آرڈیننس کی شق 111(4) کو ختم کرنا ضروری ہے‘‘۔
موجودہ حکومت نے ہائوسنگ انڈسٹری کو کافی ترغیبات اور سہولتیں دی ہیں تاکہ لوگوں کے لیے مکانات دستیاب ہوں، کیونکہ حکومت نے سوچے سمجھے بغیر پچاس لاکھ مکان بنانے کا اعلان کیا تھا، جو حکومتی وسائل کے اندر رہتے ہوئے ممکن نہ تھا، سو اُس نے متبادل طریقہ یہ اختیار کیا کہ پرائیویٹ سیکٹر کو ترغیبات دے کر اس میں شامل کیا جائے۔ اس کے علاوہ بھی ملک میں سب سے منافع بخش اور پھلنے پھولنے والی بڑی انڈسٹری ہائوسنگ سکیموں،بلڈرزاور ڈویلپرزکی ہے۔ ملک بھر میں جس شہر یا قصبے سے گزر ہو، آپ کو ہائوسنگ سکیمیں نظر آئیں گی۔ یہ سکیمیں اُفقی سطح پر پھیل رہی ہیں، یعنی بڑے رقبوں پر مکانات اور فام ہائوسز بن رہے ہیں، ابھی ہمارے ملک میں بڑے پیمانے پر عمودی طور پر یعنی کثیر المنزلہ فلیٹس والی عمارات کے پھیلائو کا رواج مقبول نہیں ہے، صرف چند بڑے شہروں تک محدود ہے، لوگوں کا مزاج ہے کہ اپنی زمین اور اپنی چھت ہونی چاہیے۔ اس سے زرعی زمینیں بڑے پیمانے پر سکڑتی جا رہی ہیں اور اگر یہی رفتار جاری رہی تو پچاس سال بعد اس کے منفی اثرات سامنے آنا شروع ہو جائیں گے۔ ہمیں اب بھی زرعی اجناس کی قلّت کا سامنا ہے اور درآمدات پر انحصار کرنا پڑ رہا ہے، جبکہ مستقبل میں آبادی کے پھیلائو کی وجہ سے غذائی اجناس کی ضرورت بڑھتی چلی جائے گی۔ تدبیر وحکمت کی حامل قیادت اپنے ملک اور قوم کے مستقبل کی ضروریات اور مواقع کو اپنی پالیسیوں میں ہمیشہ پیشِ نظر رکھتی ہے، مستقبل بینی اور دور اندیشی سے کام لیتی ہے، آنے والی نسلوں کے حقوق کا تحفظ کرتی ہے، جبکہ ہمارے ہاں ایسا نہیں ہے،کراچی کی مثال آپ کے سامنے ہے۔ چائنا کٹنگ اور تجاوزات کے سبب پارکوں اور گرین بیلٹ پر فلیٹوں کا جنگل آباد ہوگیا ہے، آبادی کے تناسب سے نہ پارک دستیاب ہیں، نہ کھیل کے میدان موجود ہیں، نہ تعلیمی اداروں، ہسپتالوں اور کمیونٹی مراکز کے لیے جگہیں دستیاب ہیں۔ ملک کے بڑے شہروں میں اشرافیہ کے سکول بھی بنگلوں میں چل رہے ہیں، بہت سی یونیورسٹیوں کا حال بھی یہی ہے، الغرض معاشی منصوبہ بندی میں ان تمام امور کو پیشِ نظر رکھنا ہوتا ہے۔
ہمارے ہاں وفاقی دارالحکومت اور صوبائی دارالحکومتوں سمیت بڑے شہروں کے ماسٹر پلان موجود نہیں ہیں، کراچی میں نسلہ ٹاور کے انہدام جیسے سانحات کا درد و کرب اُن لوگوں سے پوچھیے جنھوں نے عمر بھر کی کمائی سے فلیٹ خریدے، اُن میں آباد ہوئے اور پھر اچانک انہیں بے گھر کر دیا گیا۔ لیکن اس امر کا تعیّن نہ ہو سکا کہ جو محکمے اور اُن کے افسران ان تجاوزات کو روکنے کے ذمہ دار تھے، اُن میں سے کسی سے جوابدہی ہوئی ہے یا نہیں، اس کے بارے میں ریکارڈ پر کچھ دستیاب نہیں ہے۔