"MMC" (space) message & send to 7575

زعمِ پارسائی… (حصہ دوم)

خوش فہمی، خود بینی اور تعلّی انسان کو حقیقت پسندی سے دور کر دیتی ہے، ایسے لوگ خوابوں کی دنیا میں رہنا پسند کرتے ہیں، اپنے لیے بھی مدح و ستائش کو پسند کرتے ہیں اور خود بھی اپنے ولیِ نعمت کی چاپلوسی کو اپنے لیے اعزاز سمجھتے ہیں، جھوٹ بولتے ہیں اور اپنے ممدوح کے کانوں میں جھوٹ ہی کا رس گھولتے ہیں؛ چنانچہ ایک وزیر نے یہ نیا فلسفہ تراشا: ''موٹر سائیکل کی خریداری میں اضافہ عوام کے تَمَوُّل (Richness) کی علامت ہے‘‘، یہی وجہ ہے کہ وزیراعظم اور اُن کے حواریوں نے موٹر سائیکل اور کاروں کی فروخت کو عوام کے خوشحال ہونے کی دلیل بنا دیا جبکہ زمینی صورتِ حال یہ ہے: ''بیسویں صدی کے پانچویں، چھٹے، ساتویں اور آٹھویں عشرے تک اخبار فروش، دودھ فروش اور چھوٹا موٹا سامان ڈھونے والے سائیکل استعمال کرتے تھے اور بعض اوقات سائیکل کے پیچھے ایک پہیوں والا ریڑھا بھی جُڑا ہوتا تھا مگر اب ان تمام کاموں کے لیے موٹر سائیکل استعمال ہو رہی ہے، دیہاتوں اور کراچی جیسے شہر میں بھی موٹر سائیکل کرائے کی سواری کے طور پر بھی استعمال ہوتی ہے اور اس کے لیے باقاعدہ ایک کمپنی بھی موجود ہے۔ پہلے کراچی میں دھوبی حضرات گھروں سے کپڑے جمع کرنے، پھر دھو کر اور استری کر کے واپس گاہکوں کے گھروں میں پہنچانے کے لیے گدھاگاڑی استعمال کرتے تھے مگر اب ان جیسے دیگر کاموں کے لیے ''موٹر سائیکل ڈالا‘‘ استعمال ہو رہا ہے۔
سبزی منڈی، فروٹ منڈی اور تمام ہول سیل مارکیٹوں میں نقل وحمل کے لیے اس کا استعمال عام ہے، شہروں میں پرانے رکشے بتدریج غائب ہو رہے ہیں اور ان کی جگہ موٹر سائیکل رکشے لے رہے ہیں، کیونکہ ان میں زیادہ آدمیوں کی گنجائش ہوتی ہے، غریب آدمی آنے جانے اور تقریبات میں شرکت کے لیے اپنی پوری فیملی کو موٹر سائیکل پر لاد دیتا ہے، ڈرائیور کے علاوہ دو دو اور تین تین سواریاں بھی نظر آ جائیں گی، سو اب موٹر سائیکل تعیّش یا تموّل کی علامت نہیں ہے، بلکہ اکثر صورتوں میں بنیادی ضرورت میں شامل ہے۔ کیونکہ زیریں متوسط طبقے کے لوگ اب ٹیکسی کا کرایہ ادا کرنے کے متحمل نہیں رہے، چھوٹی کاروں کی کثرت بھی اسی لیے ہے کہ ڈھائی کروڑ کی آبادی پر مشتمل کراچی جیسے صنعتی اور تجارتی شہر میں کوئی باوقار پبلک ٹرانسپورٹ نہیں ہے اور لوگوں کے پاس متبادل آپشن بھی نہیں ہے، لیکن حیرت ہے کہ حکمرانوں کے نزدیک موٹر سائیکل کی فروخت تموّل کی علامت ہے۔
یورپ اورمغرب میں آبادی کی ایک معتَد بہ تعداد حکومت کی طرف سے سوشل کیئر سسٹم کے تحت گزارہ کر رہی ہے، اُن کی مقامی حکومتیں انہیں مفت مکان بھی فراہم کرتی ہیں اور گزر اوقات کے لیے ہفتہ وار وظیفہ بھی دیتی ہیں۔ کار، ٹیلی وژن، ریفریجریٹر، ڈیپ فریزر، واشنگ مشین، مرکزی حرارتی نظام سے آراستہ مکان اور ہیلتھ انشورنس بھی اُن کو دستیاب ہے، اوباما ہیلتھ کیئر کا سب کو علم ہے، لیکن اُن کی حکومت یہ نہیں کہتی کہ تم نے کار رکھی ہوئی ہے، تم تو مالدار ہو، لہٰذا سوشل کیئر سسٹم سے تمہارا نام خارج کیا جا رہا ہے، سو حکمرانوں کو ہمارا مشورہ ہے: ''الحذر! اے چیرہ دستاں! سخت ہیں فطرت کی تعزیریں‘‘۔
1990ء تک خال خال لوگوں کے پاس لینڈ لائن ٹیلی فون ہوتے تھے، نواز شریف صاحب نے اپنے پہلے دورِ حکومت میں اسے عام کیا، اسی طرح پاسپورٹ بھی رئیس یا با رسوخ ہونے کی علامت تھی، عام آدمی کو دستیاب نہیں تھا، پہلی مرتبہ اسے ذوالفقار علی بھٹو مرحوم نے عام کیا اور غریب عوام کے لیے سعودی عرب، کویت اور امارات وغیرہ میں روزگار کے مواقع پیدا ہوئے۔ فواد چودھری جیسے لوگ عوام کو خس و خاشاک نہ سمجھتے اور زمین کی مخلوق کا حصہ سمجھ رہے ہوتے تو انہیں پاکستان کی تاریخ، معاشی ارتقا اور معاشرتی بُنَت (Fabrication) کا پتا ہوتا، مگر کیا کیجیے! حکومت میں شیخ رشید صاحب تو ہیں‘ مگر کوئی ''رَجُلِ رشید‘‘ نہیں ہے، اگر ایسا ہوتا تو وزیراعظم اور وزرا عوام کا اس طرح مذاق نہ اڑاتے۔ اس لیے ہم نے لکھا تھا: ''معاش اور معاشرت کی جو چیزیں کبھی آسائش اور تعیّش کے درجے میں ہوتی تھیں، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ ضرورت میں بدل جاتی ہیں‘‘۔ ماضی میں لوگ گیس کے بغیر بھی گزارہ کرتے رہے ہیں، لیکن اب ایسا ممکن نہیں ہے، وقت کا پہیہ الٹا نہیں گھوم سکتا کہ لوگ پھر لکڑی اور کوئلے کے ایندھن اور مٹی کے تیل کے چولہوں کی طرف پلٹ جائیں، اب تو شاید لکڑی گیس سے بھی مہنگی دستیاب ہو، اب کچن بھی پرانے طرز کے نہیں رہے۔
حقیقت پسندی سے گریز کا نتیجہ ہے کہ حکومت کو ترجمانوں کا لشکرِ جرّار پالنا پڑ رہا ہے، وزیرِاعظم کی مصروفیات میں ترجیحِ اول روزانہ یا ایک آدھ دن کے وقفے سے ترجمانوں کے اجلاس ہیں، ترجمانوں کی اتنی افراط ہم نے دنیا کے کسی جمہوری ملک میں نہیں دیکھی۔ خیبر پختونخوا کے سترہ اضلاع میں مقامی انتخابات میں عبرت ناک شکست کے بعد عقل مندی کا تقاضا تھا کہ حکومتی جماعت اپنی شکست کا بھونڈا جواز پیش کرنے کے بجائے حقیقت پسندی کے ساتھ اس کا تجزیہ کرتی، اپنی غلطیوں کا اعتراف کرتی اور ان کے ازالے کی تدبیر کرتی، عوام دشمن ناکام پالیسیوں کو بدلنے کا سوچتی، لیکن اس مسئلے پر بھی ہمیں سنجیدگی نظر نہیں آئی، وہی روایتی کھلنڈرا پن نظر آرہا ہے؛ چنانچہ اب میڈیا سے معلوم ہوا: ''وزیر اعظم نے اپنی حکمراں جماعت پاکستان تحریک انصاف کی ''تنظیم نو‘‘ کر دی ہے، آئیے! دیکھیں اس کی حقیقت کیا ہے:
''نو‘‘ اگر فارسی لفظ ہے تو اس کے معنی ہیں: ''نئی‘‘، مگر اس میں نیا پن کچھ بھی نہیں ہے، سب پرانے دیکھے بھالے چہرے ہیں، اس معنی میں اس پر ''تنظیم نو‘‘ کا اطلاق سجتا نہیں ہے؛ البتہ اسے ''ترتیبِ نو‘‘ کہہ سکتے ہیں، لیکن ''ترتیبِ نو‘‘ کہنا بھی زیادہ نہیں جچتا، کیونکہ اسد عمر صاحب پہلے بھی پارٹی کے جنرل سیکرٹری رہ چکے ہیں اور اگر تنظیمِ نو میں''نو‘‘ سے مراد انگریزی لفظ ''No‘‘ ہے، تو معنوی اعتبار سے درست قرار پائے گا، علامہ اقبال نے کہا ہے:
آئینِ نو سے ڈرنا، طرزِ کُہن پہ اَڑنا
منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں
ترجمہ: '' پرانی طرز پر جمے رہنا اور حقیقی اور معنوی تبدیلی سے گھبرانا، قوموں کی زندگی میں یہی مرحلہ مشکل ہوتا ہے‘‘۔ اس پر فارسی کا یہ محاورہ صادق آتا ہے: ''ہرکہ درکانِ نمک رفت، نمک شد‘‘، یعنی جو نمک کی کان میں گیا، وہ بھی پگھل کر نمک بن گیا‘‘۔ فقہا نے کہا ہے: ''اگر گدھا نمک کی کان میں گر جائے اور اس کا جسم گلنے کے سبب پانی ہوکر کان میں جذب ہو جائے، تو اس کی ماہیت بدل جاتی ہے اور حرمت کا حکم باقی نہیں رہتا‘‘۔ سو خان صاحب جس طرح دوسری سیاسی جماعتوں مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی وغیرہ پر الزام لگاتے تھے کہ ان کی تنظیمیں جعلی ہیں، قائدین کے من پسند لوگ عہدوں پر فائز کیے جاتے ہیں، کسی انتخابی عمل سے گزر کر عہدیدار نہیں بنتے، پس اب پی ٹی آئی بھی اسی صف میں شامل ہے۔
کافی وقفے کے بعد شیخ رشید صاحب بولے: ''ہمارے سر سے ہاتھ نہیں اٹھا‘‘، موصوف کے ان فرمودات کے ''بینَ السطور‘‘ یہ پیغام پوشیدہ ہے کہ سر پر دستِ شفقت کے بغیر حکومت کے توتے کی جان نکل جاتی ہے، یہی وجہ ہے کہ چند دن پہلے مایوسی کا مظہر یہ بیان جاری ہوا تھا: ''سزایافتہ لوگوں کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے لیے راستہ ہموار کیا جارہا ہے‘‘، اسی کی بنیاد پر تجزیہ کاروں نے رونقیں لگائیں کہ کچھ نہ کچھ ہو رہا ہے، مگر جو کچھ بھی ہورہا ہے، زیرِ زمیں ہو رہا ہے، برسرِ زمیں ہمیں صرف حکومتی زعما کے چہروں کی پژمردگی اوراپوزیشن کے چہروں کی رونقیں نظر آ رہی ہیں۔ علامہ اقبال بہت پہلے کہہ چکے ہیں:
اس کھیل میں تعیینِ مراتب ہے ضروری
شاطر کی عنایت سے تو فرزیں، میں پیادہ
بیچارہ پیادہ تو ہے، اِک مہرۂ ناچیز
فرزیں سے بھی پوشیدہ ہے، شاطر کا ارادہ!
حکومتِ وقت کا ایک اور بیّن تضاد یہ ہے: ''وزیر اعظم بزعمِ خویش ''ریاستِ مدینہ‘‘ قائم کرنے کے دعویدار ہیں اور خود کو اُس کا آئیڈیل بنا کر پیش کر رہے ہیں، جبکہ حکومت کے ترجمان اور زبان یعنی وزیرِ اطلاعات ببانگ دہل سیکولرازم اور لبرل ازم کے مدعی ہیں؛ پس وزیراعظم صاحب کو چاہیے کہ اپنی خود ساختہ ''ریاستِ مدینہ‘‘ کے پنجرے سے ان کو آزاد کریں اور انہیں موقع دیں کہ اپنی لبرل سیکولرجماعت بناکر میدان میں آئیں، پھرآٹے دال کا بھائو معلوم ہوجائے گا۔ رئیس فروغ نے کہا ہے:
ہرا سمندر گوپی چندر
بول میری مچھلی، کتنا پانی
علامہ اقبال نے ذہنی اور فکری آزادی اور محکومی کا تقابل ان اشعار میں پیش کیا ہے:
رِندوں کو بھی معلوم ہیں صوفی کے کمالات٭ ہرچند کہ مشہور نہیں اُن کی کرامات٭ خود گیری وخودداری وگلبانگِ اَنا الحق٭ آزاد ہو سالک، تو ہیں یہ اس کے مقامات٭ محکوم ہو سالک، تو یہی اُس کا ہمہ اُوست٭ خود مُردہ وخود مَرقد وخود مرگِ مفاجات
پس آپ سوچ سکتے ہیں کہ آج کل ہمارے محکوم مزاج سیاست دانوں کے لیے ''ہمہ اُوست‘‘ کون ہے، آصف علی زرداری صاحب کے عہدِ صدارت میں ''آج گئے کہ کل گئے‘‘ کرتے کرتے حکومت نے پانچ سال گزار ہی لیے تھے، لگتا ہے کہ موجودہ حکومت بھی اسی انداز میں پانچ سال گزار لے گی، کیونکہ سیاست ''بیم و رجا‘‘ کا نام ہے، اگر امید کا دامن ہاتھ سے چھوڑ دیا جائے تو پھر ''مرگِ مفاجات‘‘ کے لیے تیار رہنا پڑتا ہے۔ الغرض اس امید پر کہ شاید عالَم غیب سے کوئی مدد آ پہنچے اور اقتدار کا ہما سر پر آ بیٹھے، سیاست میں امکانات کے دروازے ہمیشہ کھلے رکھنے پڑتے ہیں۔ اسی لیے تو کہتے ہیں: ''امید پر دنیا قائم ہے‘‘۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں