قرآنِ مجید میں ہے: (ترجمہ) ''اے ہمارے رب! اگر ہم بھول جائیں یا ہم سے بے ارادہ غلطی صادر ہو جائے تو ہماری گرفت نہ فرمانا، اے ہمارے رب! ہم پر بھاری بوجھ نہ ڈال جیسے کہ تونے ہم سے پہلے لوگوں پر ڈالا تھا، اے ہمارے رب! ہم پر ایسا بوجھ نہ ڈال جس کی ہم طاقت نہیں رکھتے، ہمیں معاف فرمادے، ہمیں بخش دے اور ہم پر رحم فرما، تو ہمارا آقا ہے، تو کافروں کے خلاف ہماری امداد فرما‘‘ (البقرہ: 286)۔
نسیان کے معنی ہیں: ''بھول جانا‘‘۔ نماز کی بابت آپﷺ نے فرمایا: ''جو نماز کے وقت سویا رہ جائے یا نماز پڑھنا بھول جائے، تو جوں ہی یاد آئے اور نیند سے بیدار ہو جائے تو نماز پڑھ لے‘‘ (مصنف ابن ابی شیبہ: 4738)، یعنی اس پر گناہ نہیں ہے۔ روزے کی بابت فرمایا: ''جس نے روزے کی حالت میں بھول کر کھا لیا یا پی لیا (یعنی اُسے اپنا روزہ دار ہونا یاد نہ رہا)، تو اپنا روزہ پورا کرے، (یوں سمجھے کہ) اللہ نے اُسے کھلایا اور پلایا‘‘ (صحیح مسلم: 1155)۔ یعنی اس سے نہ اُس کا روزہ ٹوٹا، نہ اس کے اجر میں کمی واقع ہوئی۔ رسول اللہﷺ کا فرمان ہے: ''بے شک اللہ تعالیٰ نے میری امت سے (تین چیزوں کے اخروی مواخذے سے) درگزر فرمایا ہے، یعنی خطا، نسیان اور جس چیز پر اُسے مجبور کر دیا گیا ہو‘‘ (ابن ماجہ: 2043)۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ''اور تم پر ان امور پر کوئی گناہ نہیں جو تم سے خطائً سرزد ہوں، لیکن جس (گناہ ) کا تم قصد کر لو (تو اس پر مواخذہ ہے) اور اللہ بہت بخشنے والا، نہایت مہربان ہے‘‘ (الاحزاب: 5)۔ البتہ خطا پر شرعی احکام مرتب ہوتے ہیں، مثلاً: (1) یہ سمجھ کر روزہ کھول لیا کہ سورج غروب ہو گیا ہے، لیکن بعد میں پتا چلا کہ ابھی دن باقی تھا، تو اس پر کفارہ تو نہیں ہے، لیکن قضا روزہ رکھنا ہو گا، (2) اسی طرح قتلِ خطا کے کفارے کا بیان قرآنِ کریم میں ہے، خطا یا تو نیت میں ہوتی ہے: جیسے یہ سمجھ کر فائر کیا کہ سامنے شکار ہے اور وہ انسان نکلا اور یا فعل میں ہوتی ہے: جیسے شکار کی طرف نشانہ باندھا اور فائر کر دیا اور درمیان میں اچانک انسان آ گیا۔ قتلِ خطا کے تفصیلی احکام فقہ میں مذکور ہیں۔
پچھلی امتوں پر اُن کی سرکشی کی وجہ سے بعض بھاری احکام عائد کیے گئے تھے‘ مثلاً: بنی اسرائیل نے بچھڑے کی پوجا کی، تو انہیں توبہ کاجو حکم ہوا، قرآنِ کریم نے اسے بیان کیا ہے: ''اور یاد کرو جب موسیٰ نے اپنی امت کو فرمایا: اے میری امت! تم نے بچھڑے کو معبود بنا کر اپنی جانوں پر ظلم کیا ہے، لہٰذا تم اپنے پیدا کرنے والے کی بارگاہ میں توبہ کرو اور آپس میں ایک دوسرے کو قتل کرو، یہ تمہارے خالق کے نزدیک تمہارے لیے زیادہ بہتر ہے، پھر اس نے تمہاری توبہ قبول فرمائی، بے شک وہی بہت توبہ قبول فرمانے والا، نہایت مہربان ہے‘‘ (البقرہ: 54)۔ اسی طرح اُن کی سرکشی کے سبب بعض حلال چیزوں کو بنی اسرائیل پر حرام کر دیا گیا تھا، ان پر پچاس نمازیں فرض تھیں، زکوٰۃ میں چوتھائی مال کو ادا کرنا فرض تھا، اگر اُن کا کپڑا ناپاک ہوتا تو اُسے کاٹ کر پھینکنا پڑتا، نیز وہ گناہ کرتے تو اُسے عیاں کر دیا جاتااور اس طرح ان کی رسوائی ہوتی، وہ صرف عبادت گاہ میں نماز پڑھنے کے پابند تھے، مالِ غنیمت اور صدقات اُن کے لیے حلال نہیں تھے، تیمم کی سہولت نہیں تھی، ہفتے کے دن شکار کی ممانعت تھی، بعض گناہوں کی پاداش میں ان کی صورتیں مسخ کرکے بندر اور خنزیر بنا دیا گیا، لیکن صورتیں مسخ ہونے کے بعد وہ مر گئے، اس سے ان کی کوئی نسل جاری نہیں ہوئی کہ جس سے ہندو مذہب کے نظریۂ انتقالِ ارواح یا تناسخِ ارواح یا اواگوَن یا Transmigration of soul کے عقیدے کو ثابت کیا جائے کہ روحیں نئی نئی جُون میں منتقل ہوتی رہتی ہیں اور یہی اُن کے لیے صورتِ ثواب یا عذاب ہوتی ہے۔
امتِ خیرالانام کو رب تبارک وتعالیٰ نے خود یہ دعا تعلیم فرمائی: ''اے ہمارے رب! ہم پر (احکام کا) وہ بوجھ نہ ڈال جو تو نے ہم سے پہلی امتوں پر ڈالا، اے ہمارے رب! ہم پر (آزمائشوں اور احکام کا) وہ بوجھ نہ ڈال، جس سے عہدہ برآ ہونے کی ہم میں طاقت نہیں ہے‘‘۔ چنانچہ رسول اللہﷺ نے اپنی امت کو ان کلمات میں تعلیم فرمائی: ''اے لوگو! دشمن سے مقابلے کی تمنا نہ کرو اور اللہ سے عافیت کا سوال کرو، لیکن جب (قضائے الٰہی سے) تمہارا دشمن سے سامنا ہو جائے تو پھر (جنگ کی مشقت پر) صبر کرو اور جان لو کہ جنت تلواروں کے سائے کے نیچے ہے‘‘ (صحیح بخاری: 2966)۔ اس حدیث مبارک کا مطلب یہ ہے کہ کبھی بھی مصیبت کو نہ خود دعوت دینی چاہیے اور نہ اس کی تمنا کرنی چاہیے، بلکہ ہمیشہ اللہ تعالیٰ سے عافیت کی دعا مانگنی چاہیے، لیکن اگر قضائے الٰہی سے مصیبت نازل ہو جائے، تو پھر جزع و فزع، کم ہمتی اور بزدلی کے بجائے صبر و استقامت کے ساتھ جرأت و ہمت کا مظاہرہ کرنا چاہیے اور باطل کے مقابلے میں ثابت قدم رہنا چاہیے۔ نیز اللہ تعالیٰ سے نصرت و فتح کی دعا مانگنی چاہیے۔ حدیث پاک میں ہے: ''عبدالرحمن بن ابی بکرہؓ بیان کرتے ہیں: انہوں نے اپنے والد سے کہا: اے ابا جان! میں صبح و شام آپ کو تین مرتبہ یہ دعا پڑھتے ہوئے سنتا ہوں: ''اے اللہ! مجھے میرے بدن میں، میری سماعت میں اور میری بصارت میں عافیت عطا فرما، تیرے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں، ان کے والد نے کہا: میں نے رسول اللہﷺ کو اسی طرح صبح و شام یہ دعائیں مانگتے ہوئے سنا ہے، تو میں چاہتا ہوں رسول اللہﷺ کی سنّت پر عمل کروں‘‘۔ حضرت عباسؓ بیان کرتے ہیں: رسول اللہﷺ صبح و شام تین مرتبہ یہ دعا بھی کیا کرتے تھے: ''اے اللہ! میں کفر سے، فقر سے اور عذابِ قبر سے تیری پناہ میں آتا ہوں، تیرے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں‘‘ سو تم بھی یہ دعائیں مانگا کرو، میں بھی چاہتا ہوں کہ رسول اللہﷺ کی سنّت پر عمل کروں اور رسول اللہﷺ فرماتے تھے: مصیبت زدہ کو یہ دعا مانگنی چاہیے: ''اے اللہ! میں تیری رحمت پر یقین رکھتا ہوں، مجھے پلک جھپکنے کی مقدار بھی میرے نفس کے سپرد نہ فرما (یعنی میری کارسازی فرما)، میرے تمام احوال کی اصلاح فرما، تیرے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں‘‘ (ابودائود:5090)۔
حضرت ابوعبیدہؓ بیان کرتے ہیں: رسول اللہﷺ کے وصالِ مبارک کے بعد حضرت ابوبکر صدیقؓ کھڑے ہوئے اور کہا: (ہجرت کے) پہلے سال رسول اللہﷺ میری جگہ کھڑے ہوئے تھے اور فرمایا تھا: اللہ سے عافیت کا سوال کرو، کیونکہ کسی بندے کو اللہ کی طرف سے عافیت سے بہتر کوئی نعمت عطا نہیں کی گئی اور سچائی اور نیکی کو لازم پکڑو، کیونکہ یہ دونوں جنت میں لے جانے کا سبب ہیں اور جھوٹ اور نافرمانی سے بچ کر رہو، کیونکہ یہ دونوں چیزیں جہنم میں لے جانے کا سبب بنتی ہیں‘‘ (مسند احمد: 46)۔
پچھلی امتوں پر آزمائشوں کا ذکر قرآنِ کریم میں ایک سے زائد مقامات پر بیان ہوا ہے۔ غزوۂ احزاب کے موقع پر جب پورے عالَمِ عرب کے قبائل مدینۂ منورہ پر حملہ کرنے کے لیے اُمڈ آئے تھے اور نہایت مشکل وقت تھا، مدینۂ منورہ کے دفاع کے لیے خندق کھودی گئی تھی اور رسول اللہﷺ نے بذاتِ خود اس میں حصہ لیا تھا، اُن حالات کی سنگینی کی بابت اللہ تعالیٰ نے فرمایا: (1) ''اے ایمان والو! تم اپنے اوپر اللہ کی اس نعمت کو یاد کرو جب تم پر کفار کے لشکر حملہ آور ہوئے تو ہم نے ان پر ایک آندھی اور ایسے لشکر بھیجے جنہیں تم نے نہیں دیکھا اور اللہ تمہارے کاموں کو خوب دیکھنے والا ہے، جب کفار تمہارے اوپر سے اور تمہارے نیچے سے تم پر حملہ آور ہوئے، جب تمہاری آنکھیں پتھرا گئی تھیں اور کلیجے منہ کو آنے لگے تھے اور تم اللہ (کی نصرت کے) بارے میں طرح طرح کے گمان کرنے لگے تھے، اس موقع پر مومنوں کی آزمائش کی گئی تھی اور ان کو شدت سے جھنجھوڑ دیا گیا تھا اور اس وقت منافق اور جن لوگوں کے دلوں میں (شک کی) بیماری تھی، یہ کہہ رہے تھے کہ اللہ اور اس کے رسول نے ہم سے جو بھی وعدہ کیا‘ وہ محض فریب تھا‘‘ (الاحزاب: 9 تا 12)، (2) ''کیا تم نے یہ گمان کر لیا ہے کہ تم جنت میں داخل ہو جائو گے حالانکہ ابھی تک تم پر ایسی آزمائشیں نہیں آئیں جو تم سے پہلے لوگوں پر آئی تھیں، ان پر آفتیں اور مصیبتیں پہنچیں اور وہ (اس قدر) جھنجھوڑ دیے گئے کہ (اس وقت کے) رسول اور اس کے ساتھ ایمان لانے والے پکار اٹھے کہ اللہ کی مدد کب آئے گی، سنو! بے شک اللہ کی مدد عنقریب آئے گی‘‘ (البقرہ: 214)۔
پس لازم ہے کہ مسلمانوں پر جب مشکل وقت آئے تو وہ تمام تر دستیاب ظاہری اسباب اختیار کرنے کے باوجود فیصلہ کن کامیابی کے لیے اپنی قوتِ بازو اور اسبابِ ظاہری پر بھروسا نہ کریں، بلکہ اللہ کی نصرت، تائید غیبی اور اسبابِ غیب پر توکل کریں، کیونکہ جب اس کی مدد شاملِ حال ہوتی ہے تو اسباب مؤثر ہو جاتے ہیں، حوصلے بلند ہو جاتے ہیں، دشمنوں کی ہمت پست ہو جاتی ہے، حالات موافقت میں بدل جاتے ہیں۔ احادیث مبارکہ میں ہے: (1) ''حضرت سعد بن ابی وقاصؓ بیان کرتے ہیں: میں بدر کے دن نبی کریمﷺ کے سامنے اپنی کمان میں تیر رکھتا اور یہ دعا پڑھ کر تیر چلاتا: اے اللہ! ان کے قدموں کو لڑکھڑا دے، ان کے دلوں پر مسلمانوں کا رعب طاری کر دے، ان کو انجامِ بد سے دوچار فرما دے، تو نبی اکرمﷺ فرماتے: اے اللہ! سعد کی دعا قبول فرما‘‘ (المعجم الکبیر للطبرانی: 318)، (2) ''عبید بن عمیر بیان کرتے ہیں: حضرت عمر رضی اللہ عنہ رکوع کے بعد یہ دعا کرتے: اے اللہ! ہماری، سارے مومنین، مومنات، مسلمین اور مسلمات کی مغفرت فرما، ان کے دلوں کو جوڑ دے، ان کے درمیان اصلاح فرما، اپنے اور اُن کے دشمنوں کے خلاف نصرت عطا فرما، اے اللہ! کفار اور اُن اہلِ کتاب پر لعنت فرما جو تیرے راستے سے روکتے ہیں، تیرے رسولوں کو جھٹلاتے ہیں، تیرے محبوب بندوں سے لڑتے ہیں، اے اللہ! ان کے درمیان اختلاف پیدا فرما، ان کے قدموں کو ڈگمگا دے اور ان پر وہ عذاب نازل فرما جو مجرموں سے ٹلتا نہیں ہے، پھر بسم اللہ پڑھ کر قنوت کی معروف دعا پڑھتے‘‘ (السنن الکبریٰ للبیہقی: 3143)۔