ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ''اے بنی آدم! بے شک ہم نے تم پر ایسا لباس نازل کیا ہے جو تمہاری شرمگاہوں کو چھپاتا ہے اور تمہاری زینت (بھی) ہے اور تقویٰ کا لباس‘ وہی سب سے بہتر لباس ہے، یہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہے تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں۔ اے بنی آدم! کہیں شیطان تم کو فتنے میں نہ مبتلا کر دے، جس طرح وہ تمہارے ماں باپ کے جنت سے اِخراج (اور ان کے لباس اترنے) کا سبب بنا تھا تاکہ وہ انہیں ان کی شرمگاہیں دکھائے، بے شک وہ (شیطان) اور اس کا قبیلہ تمہیں دیکھتا ہے، جہاں سے تم انہیں نہیں دیکھ سکتے۔ بے شک ہم نے شیطانوں کو اُن لوگوں کا دوست بنایا ہے جو ایمان نہیں لاتے‘‘ (الاعراف: 26 تا 27)، نیز اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ''اے آدم! تم اور تمہاری بیوی (دونوں) جنت میں رہو، سو جہاں سے چاہو تم دونوں کھائو اور (قصداً) اس درخت کے قریب نہ جانا ورنہ تم ظالموں میں سے ہو جائو گے، پھر شیطان نے دونوں کے دلوں میں وسوسہ ڈالا تاکہ (انجامِ کار) ان دونوں کی جو شرمگاہیں اُن سے چھپائی ہوئی تھیں، اُن پر ظاہر کر دے اور اس نے کہا: تمہارے رب نے اس درخت سے تم کو صرف اس لیے روکا ہے کہ کہیں تم فرشتے بن جائو گے یا تمہیں دائمی زندگی مل جائے گی اور اس نے قسم کھاکر اُن سے کہا: بے شک میں تم دونوں کا خیر خواہ ہوں۔ پھر فریب سے انہیں (اپنی طرف) مائل کر لیا، پس جب انہوں نے اس درخت سے چکھا تو اُن کی شرمگاہیں اُن کے لیے ظاہر ہو گئیں اوروہ اپنے اوپر جنت کے پتے جوڑنے لگے اور اُن کے رب نے اُن سے پکار کر فرمایا: کیا میں نے تم دونوں کو اس درخت سے منع نہیں کیا تھا اور تم دونوں سے یہ نہ فرمایا تھا کہ بے شک شیطان تمہارا کھلا ہوا دشمن ہے‘‘ (الاعراف: 19 تا 22)۔
ان آیات سے چند باتیں معلوم ہوئیں: حیا، ستر اور حِجاب انسانیت کی فطرتِ سلیم کا تقاضا ہے، اس کے برعکس بے حیائی، فحاشی اور عریانی شیطانی خصلت ہے اور ازل سے شیطان بے حیائی اور عریانی کا داعی رہا ہے۔ ستر و حجاب انسانی فطرت ہے‘ یہی وجہ ہے کہ جب حضرت آدم وحوا علیہم السلام سے لباس دور ہوا تو وہ جنت کے درختوں کے پتوں سے اپنے ستر کو ڈھانپنے لگے۔ الغرض حجاب اور سترپوشی شِعارِ آدمیت اور فطرتِ انسانی کا لازمی تقاضا ہے۔ ابلیس کا ہتھیار روزِ اول سے عریانی اور فحاشی تھا اور شِعارِ آدمیت حجاب اور ستر پوشی تھااور آج بھی انسان کو راہِ راست سے بھٹکانے اور بہکانے کے لیے شیطان کا حربہ یہی ہے۔ بس انداز بدل گئے ہیں‘ اطوار بدل گئے ہیں لیکن روحِ شِعار وہی ہے جو ازل سے تھی۔
مغربی تہذیب میں پردے کو خواتین کے ساتھ ظلم و زیادتی، انحطاط کی علامت اور ترقی کی راہ میں رکاٹ کا ذریعہ سمجھتا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں کے جدت پسندحضرات بھی ستر و حجاب کو فرسودہ نظام اور جاہلیت سے تعبیر کرتے ہیں، حالانکہ یہ محض غلط فہمی اور حقیقت ناشناسی ہے۔ پردے کا تعلق لباس سے ہے، یعنی ایسا لباس جو جسم کو اچھی طرح ڈھانپ دے، اتنا چست نہ ہو کہ اعضا کی ساخت نمایاں ہو جائے، سر ڈھکا ہوا ہو، چہرہ بھی اجنبی کے سامنے ظاہر نہ ہو اور تعلیم کا تعلق انسان کی قوت فکریہ اور اس قوت کے استعمال سے ہے، پس لباس کے ساتھ تعلیم اور ذہنی اور فکری ترقی اور پستی کا تعلق نہیں ہے۔ پردہ عورت کے لیے نہ قید ہے، نہ اس کی تحقیر اور نہ اس پر بے اعتباری کا اظہار، بلکہ اس کا مقصد عورت کا تحفظ، عفت اور پاکدامنی اور اس کی نگہداشت ہے۔ اگر آپ سفر میں جا رہے ہوں تو چادر، تکیہ اور جوتے تو یونہی رکھ دیں گے، لیکن اگر آپ کے ساتھ سونا اور خطیر رقم یا ہیرے موتی ہوں تو اُنہیں یونہی کھلی جگہ پر ڈال دینا گوارا نہیں کریں گے، بلکہ ایسی جگہ رکھنا چاہیں گے کہ جس میں اس کے تحفظ کا بھرپور انتظام ہو اور اسے لوگوں کی نگاہ سے بچا کر رکھنا چاہیں گے۔ یہی حال بلکہ اس سے بڑھ کر خواتین کا ہے۔
ہم اسلامی تعلیمات پر اُن کی روح کے مطابق عمل کرنے کے حوالے سے تنزل (Declining) کے دور سے گزر رہے ہیں۔ مغربی تہذیب اور اُس کی اقدار کا عالمی سطح پر غلبہ ہے اور مسلمانوں پر بحیثیتِ مجموعی مرعوبیت کی کیفیت طاری ہے؛ تاہم عربی کا مقولہ ہے: ''مَالَایُدْرَکُ کُلّہ لَایُتْرَکُ کَلّہ‘‘، ترجمہ: اگر پورے کا پورا مقصد حاصل نہ ہو رہا ہو، تو جو کچھ حاصل ہو سکتا ہے، اس سے تو دستبردار نہیں ہونا چاہیے۔
ستر و حجاب کے حوالے سے قرآن و سنت کی ہدایات اور فقہائے امت کے اقوال حسبِ ذیل ہیں: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: (1) ''اے نبی کی بیویو! تم عام عورتوں کی مانند نہیں ہو، اگر تم تقویٰ اختیار کرو، سو تم کسی سے لچک دار لہجے میں بات نہ کرو کہ جس کے دل میں بیماری ہو، وہ کوئی (غلط) امید لگا بیٹھے اور دستور کے مطابق بات کرنا اور اپنے گھر وں میں ٹھہری رہو اور قدیم جاہلیت کی طرح بنائو سنگھارکی نمائش نہ کرنا‘‘ (الاحزاب: 32 تا 33)، (2) ''اے نبی! اپنی ازواجِ مطہرات، صاحبزادیوں اور مسلمانوں کی عورتوں کو فرما دیں کہ وہ (گھر سے باہر جائیں تو) اپنی چادروں کا کچھ حصہ اپنے منہ پر ڈالے رہیں، اس طرح جلد پہچان ہو جائے گی (کہ وہ آزاد عورتیں ہیں)‘‘ (الاحزاب: 59)۔
حضرت ابن عباسؓ اس آیت کی تفسیر میںبیان کرتے ہیں: ''اللہ تعالیٰ نے مسلمان عورتوں کو یہ حکم دیا ہے کہ جب وہ کسی ضرورت کی بنا پر اپنے گھر وں سے نکلیں تو اپنی چادروں سے سر کو اور چہرے کو اس طرح ڈھانپ لیں کہ فقط ایک آنکھ کھلی رہے‘‘ (جامع البیان: 21861)۔ امام رازی لکھتے ہیں: ''زمانہ جاہلیت میں آزاد عورتیں اور باندیاں چہرہ کھول کر باہر نکلتی تھیں اور فساق و فجار ان کے پیچھے دوڑتے تھے، تب اللہ تعالیٰ نے آزاد عورتوں کو چادر سے چہرہ ڈھانپنے کا حکم دیا‘‘ (تفسیر کبیر، جلد: 9، ص: 184)۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: (1) ''(اے مومنو!) جب تم نبی کی بیویوں سے کوئی چیز مانگو تو پردے کے پیچھے سے مانگو، یہ تمہارے اور اُن کے دلوں کے لیے نہایت پاکیزگی کا باعث ہے‘‘ (الاحزاب: 59)، (2) ''اور وہ بوڑھی عورتیں جو نکاح کی امید نہیں رکھتیں، اُن پر اس میں کوئی گناہ نہیں ہے کہ وہ اپنے حجاب کے کپڑے اتار رکھیں، جبکہ وہ اپنی زیب و زینت دکھانے والی نہ ہوں اور اگر وہ اس سے بھی احتیاط کریں تو اُن کے لیے بہتر ہے اور اللہ سب کچھ سننے والا، جاننے والا ہے‘‘ (النور: 60)، (3) ''اور آپ مسلمان عورتوں سے کہیے کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی پاکدامنی کی حفاظت کریں اور اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں، مگر جو خود ظاہر ہو اور اپنے دوپٹوں کو اپنے گریبانوں پر ڈالے رکھیں اور زیبائش کو صرف اپنے شوہروں پر ظاہر کریں‘‘ (النور: 31)۔
احادیثِ مبارکہ میں ہے: (1) ''حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اﷲ عنہ بیان کرتے ہیں: عورت سراپا چھپانے کی چیز (واجب الستر) ہے، جب عورت گھر سے نکلتی ہے تو شیطان اس کو تکتا رہتا ہے‘‘ (سنن ترمذی: 1173)، (2) ''حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: نبیﷺ نے فرمایا: ہر آنکھ زانیہ ہے اور جب عورت معطر ہوکر کسی مجلس سے گزرتی ہے تو وہ زانیہ ہوتی ہے (سنن ترمذی: 2786، سنن ابوداؤد: 4173)، (3) ''حضرت شماس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں: اُمِّ خلّاد نامی ایک عورت نقاب پہنے ہوئے نبی کریمﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی، وہ اپنے شہید بیٹے کی بابت پوچھ رہی تھی۔ نبی اکرمﷺ کے بعض صحابہ نے کہا: تم اپنے بیٹے کے متعلق اس حال میں پوچھ رہی ہو کہ تم نے نقاب پہنی ہوئی ہے، اس نے کہا: میں نے اپنا بیٹا کھویا ہے، اپنی حیا نہیںکھوئی‘‘ (سنن ابوداؤد: 2488)، (4) ''حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں: میں نے دیکھا: رسول اللہﷺ مجھے اپنی چادر میں چھپائے ہوئے تھے اور میں حبشیوں کی طرف دیکھ رہی تھی، دراں حالیکہ وہ (جنگی کھیل) کھیل رہے تھے، میں اس وقت لڑکی تھی، سوچو کہ نو عمرکھیل کی شوقین لڑکی کے شوق کا عالم کیا ہوگا! (صحیح مسلم: 892)۔
علامہ ابن جوزی لکھتے ہیں: ''آزاد عورتیں چادروں سے اپنے سروں اور چہروں کو ڈھانپ لیں تاکہ معلوم ہو جائے وہ آزاد عورتیں ہیں‘‘ (زادالمسیر، جلد: 6، ص: 422)۔ علامہ ابوسعود لکھتے ہیں: ''عورتیں جب کسی کام سے جائیں تو چادروں سے اپنے چہروں اور بدنوں کو چھپا لیں‘‘ (تفسیر ابو سعود، جلد: 5، ص: 239)۔ ''ابو عبیدہ سلمانی سے الاحزاب: 59 کے متعلق پوچھا گیا تو انہوں نے کہا: تم چادر کو اپنی پیشانی پر رکھ کر چہرے کے اوپر لپیٹ لو، سُدِّی نے کہا: ایک آنکھ کے سوا باقی چہرے کو ڈھانپ لو‘‘ (علامہ ابو الحیان کہتے ہیں:) اندلس میں بھی یہی شِعار ہے کہ عورتیں ایک آنکھ کے سوا باقی چہرے کو ڈھانپ کر رکھتی ہیں۔ حضرت ابن عباسؓ اور حضرت قتادہؓ نے کہا: چادر سے چہرے کو ڈھانپ لے اور دونوں آنکھوں کو کھلا رکھے، ''مِنْ جَلَابِیْبِھِنَّ‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ چادر کے ایک پلّو سے چہرے کو ڈھانپ لیاجائے۔ یہ پردہ ان کی شناخت کے لیے مناسب ہے، کیونکہ جب آزاد عورتیں اپنے چہرے کو ڈھانپ لیں گی تو وہ بے پردہ پھرنے والی بے حیا باندیوں سے ممتاز ہو جائیں گی اور فساق اور فجار کی ایذا رسانی اور چھیڑ خانی سے محفوظ رہیں گی‘‘ (البحرالمحیط، جلد: 8، ص: 504)۔
موجودہ ماحول میں ہماری رائے میں ستر و حجاب کی کم از کم شرعی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے لباس کی وضع حسبِ ذیل ہونی چاہیے: (1) معمول کے لباس کے اُوپر ایسا اور کوٹ جس سے عورت کے نسوانی اَعضاء کی ساخت مستور ہو، (2) سکارف جس سے سر بالوں سمیت ڈھکا ہوا ہو، اس طرح کے لباس میں معمول کے دفتری اور منصبی فرائض انجام دینے میں کوئی رکاوٹ پیدا نہیں ہوتی اور کسی حد تک حیا کی رعایت ہو جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ''بے شک جو لوگ چاہتے ہیں کہ مومنوں میں بے حیائی فروغ پائے، اُن کے لیے دنیا اور آخرت میں دردناک عذاب ہے‘‘ (النور: 19)، حدیث پاک میں ہے: ''حضرت اُمِّ سلمہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں: وہ اور حضرت میمونہؓ رسول اللہﷺ کے پاس تھیں، اس اثناء میں ابنِ اُمِّ مکتوم آئے اور یہ احکامِ حجاب نازل ہونے کے بعد کا واقعہ ہے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ''ان سے پردہ کرو‘‘، میں نے عرض کی: یا رسول اللہﷺ! یہ تو نابینا ہیں، نہ ہمیں دیکھ پا رہے ہیں اور نہ ہمیں پہچانتے ہیں۔ آپﷺ نے فرمایا: کیا تم دونوں بھی نابینا ہو، کیا تم دونوں اُن کو دیکھ نہیں رہیں‘‘ (ترمذی: 2778)۔ اس سے معلوم ہوا کہ مرد اور عورت ہر ایک کے فتنے میں مبتلا ہونے کے امکان کو رفع نہیں کیا جا سکتا۔