"MMC" (space) message & send to 7575

مکافاتِ عمل

آج ہمارا معاشرہ اخلاقی زوال کا شکار ہے، دوسروں کی اہانت، تحقیر اور توہین کا سلسلہ حکمراں جماعت نے شروع کیا اور اس کے لیے ملک کے اندر اور باہر مورچے بنا کر سوشل میڈیا کو بے دردی سے استعمال کیا اور اب بیک فائر ہو رہا ہے۔ مکافاتِ عمل کا سلسلہ جاری ہے۔ جو فصل بوئی تھی، وہ بار آور ہو چکی ہے اور وہی حربے جو دوسروں کے خلاف استعمال کیے گئے تھے، اب ان کے خلاف استعمال ہو رہے ہیں۔ اس کے بارے میں یہی کہا جا سکتا ہے: ''اے بادِ صبا! ایں ہمہ آوردۂ تُست‘‘، یعنی آپ کو اپنی ہی بوئی ہوئی فصل کاٹنی پڑ رہی ہے۔ الزام و اتہام، استہزا اور طعن و تشنیع کے جو تیر دوسروں پر چلائے جا رہے تھے اور دوسروں کو ذہنی کچوکے لگا کر لطف اندوز ہو رہے تھے، اب مخالفین وہی حربہ اُن کے خلاف استعمال کر رہے ہیں۔
حال ہی میں وزیراعظم اور اُن کے رفقاء کو ہدف بنایا گیا، تو اب اپنی آبرو کے تحفظ کے لیے سائبر کرائمز کے نام پر قوانین بنائے جا رہے ہیں، پکڑ دھکڑ ہو رہی ہے، لیکن اس کے اثرات بھی حکومت کے لیے منفی ثابت ہوں گے۔ سوشل میڈیا پر بتایا جا رہا ہے کہ مخالفین کو زَچ کرنے کے لیے بیرونِ ملک مراکز بنائے گئے ہیں، لیکن جو حربہ آپ اپنے مخالفین کے خلاف اختیار کر سکتے ہیں، آج کے دور میں دوسرے بھی آپ کے خلاف وہی حربہ استعمال کر سکتے ہیں اور اب یہی ہو رہا ہے۔ وزیراعظم اور اُن کے رفقاء کو یقینا رنج پہنچا، انہیں ذہنی اذیت سے دوچار ہونا پڑا اور یہ فطری بات ہے۔ اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں ہے، لیکن اس کا علاج وہ نہیں جو اختیار کیا جا رہا ہے۔
میثاقِ جمہوریت دو جماعتوں کے درمیان بنا، لیکن پھر اُسے نبھایا نہ جا سکا، میثاقِ معیشت کی پیشکش ہوئی، لیکن حکومت نے اُسے قبول نہ کیا، ہمارے نزدیک اس مسئلے کا حل یہ ہے کہ پوری سیاسی قیادت ''میثاقِ اخلاق‘‘ پر جمع ہو تاکہ سب کی عزتیں محفوظ رہیں اور سیاسی موافقت اور مخالفت سیاسی اصولوں پر کی جائے، ایک دوسرے کی پالیسیوں، منشور اور طرزِ حکومت کو ہدفِ تنقید بنایا جائے، ذاتیات اور خاندانوں کو بے آبرو نہ کیا جائے۔ رسول اللہﷺ نے حجۃ الوداع کے موقع پر اپنے آخری وصایا میں فرمایا تھا:
''تمہاری جانیں، تمہارے مال، (راوی محمد نے کہا: میرا گمان ہے کہ آپﷺ نے (یہ بھی) فرمایا:) اور تمہاری آبروئیں تم پر اسی طرح حرام ہیں، جس طرح آج کے دن (عرفہ)، اس شہرِ (مکہ) اور اس ماہِ (ذوالحجہ) کی حرمت ہے‘‘ (صحیح بخاری: 4406)۔ ایک روایت میں ہے، آپﷺ نے فرمایا: ''اے لوگو! سنو! تمہارا رب ایک ہے، تمہارا باپ (آدم علیہ السلام) ایک ہے، سنو! کسی عربی کو عجمی پر اور کسی عجمی کو عربی پر، کسی گورے کو کالے پر اور کسی کالے کو گورے پر (ذاتی طور پر) کوئی فضیلت حاصل نہیں ہے، سوائے (وجہِ فضیلت) تقویٰ کے، پھر آپﷺ نے حاضرین سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: کیا میں نے (اللہ کا پیغام بلا کم و کاست) تم تک پہنچا دیا ہے؟ صحابہ نے عرض کی: یا رسول اللہﷺ! آپ نے یقینا (اللہ کا پیغام ہم تک) پہنچا دیا ہے، پھر آپﷺ نے فرمایا: آج کون سا دن ہے؟ انہوں نے عرض کی: حرمت والا دن (عرفہ) ہے، پھر آپﷺ نے پوچھا: یہ کون سا مہینہ ہے؟ صحابہ نے عرض کی: حرمت والا مہینہ (ذوالحجہ) ہے، پھر آپﷺ نے پوچھا: یہ کون سا شہر ہے؟ صحابہ نے عرض کی: حرمت والا شہر (مکۂ مکرمہ) ہے۔ آپﷺ نے فرمایا: بے شک اللہ نے تمہارے درمیان (ایک دوسرے پر) تمہاری جانوں اور مالوں کو حرام قرار دیا ہے‘‘ (مسند احمد: 23489)۔
اسی بات کو اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں بیان فرمایا: ''اے لوگو! ہم نے تمہیں ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا ہے اور تمہیں قومیں اور قبیلے بنایا تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو، بے شک اللہ تعالیٰ کے نزدیک تم میں سے سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے، جو سب سے زیادہ متقی ہے، بے شک اللہ تعالیٰ خوب جاننے والا، بہت باخبر ہے‘‘ (الحجرات: 13)۔ الغرض یہ قومیں اور قبیلے تعارف کے لیے بنائے گئے ہیں، نَخوت و غرور اور تفاخر کے لیے نہیں بنائے گئے۔ رسول اللہﷺ نے ہمیں تعلیم فرمایا کہ جب مکافاتِ عمل کے نتیجے میں فریقِ مخالف کی طرف سے ردِّعمل آئے، تو اس کا ذمے دار وہ ہے جس نے خود پہل کی ہے۔ حدیثِ پاک میں ہے: رسول اللہﷺ نے فرمایا: کبیرہ گناہوں میں سے ایک کسی شخص کا اپنے ماں باپ کو گالی دینا ہے۔ صحابہ کرامؓ نے عرض کی: یا رسول اللہﷺ! کیا کوئی ایسا (بدبخت) شخص بھی ہے جو اپنے ماں باپ کو گالی دیتا ہے؟ آپﷺ نے فرمایا: ہاں! وہ دوسرے شخص کے باپ کو گالی دیتا ہے اور وہ (ردِّ عمل میں) اس کے باپ کو گالی دیتا ہے، وہ دوسرے شخص کی ماں کو گالی دیتا ہے اور وہ (ردِّ عمل میں) اس کی ماں کو گالی دیتا ہے۔ (مسلم: 90)۔ الغرض دوسرے کے ماں باپ کو گالی دینے والا دراصل اپنے ماں باپ کو گالی دینے کا سبب بنتا ہے، دوسرے کے ماں باپ کی بے عزتی کرنے والا اپنے ماں باپ کی بے توقیری کا سبب بنتا ہے، اگر اس کے ہاتھوں دوسرے کے ماں باپ کی عزت و آبرو پامال نہ ہو تو اس کے ماں باپ کی آبرو بھی سلامت رہے۔ یہی منظر ہم آج کل دیکھ رہے ہیں کہ جنہوں نے دوسروں کی عزتوں پر حملہ کیا، اب ان کی اپنی عزتیں محفوظ نہیں رہیں۔ اسی کو ''مکافاتِ عمل‘‘ کہتے ہیں۔
ہمارے حکمرانوں نے ملک کی قومی وحدت اور معیشت کو تو برباد کر ہی دیا ہے، لیکن اس سے بھی بڑا نقصان اخلاقیات کی تباہی اور بربادی ہے۔ نئی نسل کے لیے مخالفین کی عزتوں سے کھیلنا اپنی قیادت سے وفا کی علامت اور ایک فیشن بن گیا ہے۔ اس سے ان کے نفسِ اَمّارہ کو تسکین ملتی ہے اور قیادت کی جانب سے حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔ حدیث پاک میں ہے: ''حضرت جابرؓ بیان کرتے ہیں: رسول اللہﷺ نے فرمایا: ابلیس اپنا تخت پانی پر بچھاتا ہے، پھر اپنی جماعتیں (لوگوں کو گمراہ کرنے کے لیے) بھیجتا ہے، پس جو سب سے بڑا فتنہ برپا کرے، اس کا مرتبہ اُس (ابلیس) کے دربار میںسب سے بڑا ہوتا ہے۔ ایک شیطانی چیلا آتا ہے اور کہتا ہے: میں نے یہ یہ کام کیا، وہ کہتا ہے: تم نے کچھ نہیں کیا۔ آپﷺ نے فرمایا: پھر اس کا ایک چیلا آتا ہے اور کہتا ہے: میں نے (فلاں شخص کا) پیچھا نہیں چھوڑاحتیٰ کہ اُس کے اور اس کی بیوی کے درمیان علیحدگی کرا دی۔ شیطان اسے اپنے قریب کرتا ہے اور کہتا ہے: ہاں! تم نے بڑا کارنامہ انجام دیا ہے‘‘ (صحیح مسلم: 2813)، یعنی خاندانوں میں تفریق اور عداوت کے بیج بونا شیطان کا پسندیدہ مشغلہ ہے۔
''حضرت ابوموسیٰؓ بیان کرتے ہیں: نبی کریمﷺ نے فرمایا: ابلیس جب صبح کرتا ہے تو اپنے لشکروں کو (مختلف اطراف میں) بھیج دیتا ہے اور کہتا ہے: آج جوکسی مسلمان کو گمراہ کرے گا، میں اُسے تاج پہنائوں گا، پھر اُن میں سے ایک آ کر کہتا ہے: میں فلاں شخص کے ساتھ چمٹا رہا حتیٰ کہ وہ اپنی ماں کا نافرمان ہو گیا، حالانکہ وہ اس سے حُسنِ سلوک کرنے والا تھا۔ پھر ایک دوسرا آتا ہے اور کہتا ہے: میں فلاں شخص کے ساتھ چمٹا رہا یہاں تک کہ اس نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی اور ایک آکر کہتا ہے: میں فلاں شخص کے ساتھ چمٹا رہا یہاں تک کہ اس نے شرک کیا تو ابلیس کہتا ہے: تو نے بڑاکارنامہ انجام دیا اور ایک آکر کہتا ہے: میں فلاں شخص کے ساتھ چمٹا رہا یہاں تک کہ اس نے قتلِ ناحق کیا، شیطان کہتا ہے: تو نے بڑا کارنامہ انجام دیا اور اسے تاج پہناتا ہے‘‘ (مستدرک حاکم: 8027)۔
آج کل ہمارے انٹرٹینمنٹ ٹیلی وژن چینلوں پر یہی کچھ ہو رہا ہے۔ اکثر ڈراموں کی روح رشتوں کی بے حرمتی، گھریلو سازشیں اور میاں بیوی میں تفریق ہوتی ہے اور اب ہمارے سیاست دان بھی یہی کام کر رہے ہیں۔ ایک دوسرے کی بیویوں، بیٹیوں اور بہوئوں کو ہدف بنا رہے ہیں۔ یہ اخلاقی پستی کی انتہا ہے۔ حدیث پاک میں ہے: ''حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: رسول اللہﷺ نے فرمایا: لوگوں کی عورتوں کی پاکدامنی کا احترام کرو تاکہ لوگ تمہاری عورتوں کی پاکدامنی کااحترام رکھیں، اپنے باپ دادا سے اچھا سلوک کرو تاکہ تمہاری آنے والی اولاد تم سے اچھا سلوک کرے، جس کے پاس اس کا بھائی عذر خواہی کے لیے آئے تو وہ اُسے قبول کر لے (اور اس کے قصور کو معاف کر دے)، خواہ وہ حق پر ہو یا باطل پر، پس اگر وہ اس کے عذر کو قبول نہیں کرے گا تو اُسے میرے حوضِ کوثر پر آنا نصیب نہیں ہو گا‘‘ (مستدرک حاکم : 7258)۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: (1) ''لوگوں کے کرتوتوں کے سبب خشکی اور تری میں فساد برپا ہو گیا تاکہ اللہ انہیں اُن کے بعض کرتوتوں کا مزہ چکھائے، شاید وہ باز آ جائیں‘‘ (الروم: 41)، (2) ''آپ کہیے: وہ اس پر قادر ہے کہ تم پر تمہارے اوپر سے یا تمہارے پائوں کے نیچے سے عذاب بھیجے یا تمہیں گروہوں میں بانٹ کر ایک دوسرے سے( لڑائی) کا مزہ چکھائے، دیکھیے! ہم کس طرح بار بار دلیلوں کو بیان کر رہے ہیں تاکہ یہ سمجھ سکیں‘‘ (الانعام: 65)۔ مفسرین نے لکھا ہے: اوپر سے عذاب مسلّط ہونے کے معنی ہیں: ''ظالم حاکم کا مسلّط ہو جانا‘‘ اور نیچے عذاب بھیجنے کے معنی ہیں: ''ریاست کے ماتحتوں کا نافرمان ہو جانا اور قوم کا گروہوں میں بٹ کر ایک دوسرے سے الجھنا‘‘۔ الغرض دلوں کو توڑنا آسان ہے‘ جوڑنا مشکل ہے۔ مولانا رومی نے کہا:
تو برائے وصل کردن آمدی
نے برائے فصل کردن آمدی
مفہوم: ''(اے مردِ مومن!) تو لوگوں کے ملاپ کے لیے آیا ہے‘ فراق کے لیے نہیں آیا‘‘۔
کمال ہاتوی نے کہا ہے:
ہوا سے کہہ دو کہ یوں خود کو آزما کے دکھائے
بہت چراغ بجھاتی ہے‘ اِک جلا کے دکھائے

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں