قیامت سے پہلے انسانی معاشرے میں اللہ تعالیٰ کی زمین پر جو خرابیاں پیدا ہوں گی اور پھیل جائیں گی‘ احادیثِ مبارکہ کی روشنی میں پچھلے کالم میں ہم نے اُن کو بیان کیا، مگر اس عنوان پر احادیثِ مبارکہ بکثرت ہیں۔ اُن میں بعض امور کا تکرار ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ جیسے ایک خطیب یا مُصلِح یا واعظ ایک عنوان پر مختلف مجالس میں گفتگو کرے تو ہر مجلس میں کوئی نئی بات بھی آ جاتی ہے اور بعض گزشتہ باتوں کا تکرار بھی ہوتا رہتا ہے، اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہر مجلس میں سامعین ایک ہی طرح کے نہیں ہوتے، لہٰذا نئے شرکا کے لیے انہی باتوں کا ابلاغ دین کی دعوت و حکمت کا تقاضا ہوتا ہے، اس کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ تئیس سالہ نبوی زندگی میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے نزولِ وحی اور اپنے حبیبِ مکرمﷺ کو امورِ غیبیہ عطا کرنے کا سلسلہ جاری رہا، سطورِ ذیل میں ہم چندنئی باتوں کی نشاندہی کر رہے ہیں:
(1) سابق امتوں کی پیروی: آپﷺنے فرمایا: ''تم ضرور پچھلی امتوںکے طریقوں کی مِن وعَن پیروی کرو گے، بالشت برابر اور ہاتھ برابر، حتیٰ کہ اگر وہ کسی گو ہ کے سوراخ میں داخل ہوئے ہوں گے، تو تُم بھی داخل ہو گے۔ (صحابہ کرام فرماتے ہیں) ہم نے عرض کی: یا رسول اللہﷺ! آپ کی مراد یہود و نصاریٰ ہیں؟ آپﷺنے فرمایا: اور کون!‘‘ (صحیح بخاری: 7320)۔
(2) وقت سمٹ جائے گا: رسول اللہﷺ نے فرمایا: ''قیامت اُس وقت تک قائم نہیں ہو گی حتیٰ کہ زمانہ قریب ہو جائے گا، سال مہینے کے برابر، مہینہ ہفتے کے برابر، ہفتہ ایک دن کے برابر، دن ایک ساعت کی مانند گزر جائے گا اور ساعت آگ کی ایک چنگاری کی مانند پلک جھپکنے میں گزر جائے گی‘‘ (ترمذی: 2332)۔ وقت کے سمٹائو کی ایک صورت تو یہ ہے کہ وہ فاصلے جو ماضی میں مہینوں اور سالوں میں طے ہوتے تھے‘ اب گھنٹوں میں طے ہو رہے ہیں، وہ پیغام جسے پہنچانے میں دن‘ ہفتے اور مہینے لگ جاتے تھے، اب لمحوں میں پہنچ جاتے ہیں اور اگر ہم مشرق سے مغرب کی جانب سفر کریں اور عشاء کی نماز کراچی میں پڑھ کر جائیں تواگلے دن کی فجر کی نماز نیویارک میں جا کر پڑھ سکتے ہیں، حالانکہ کراچی سے نیویارک کا فاصلہ کم وبیش بارہ ہزار کلومیٹر ہے، لیکن اگر ہم مغرب سے مشرق کی جانب سفر کریں تو معاملہ اس کے برعکس ہو جاتا ہے۔ اس کا ایک مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ تکلیف کے لمحات صدیوں کی مانند بھاری محسوس ہوتے ہیں اور راحت کے لمحات کے بارے میں لگتا ہے کہ پل بھر میں گزر گئے۔
(3) اقدار بدل جائیں گی: رسول اللہﷺ نے فرمایا (۱): ''قیامت اُس وقت تک قائم نہیں ہوگی حتیٰ کہ زُہد روایت اور ورع و تقویٰ تصنُّع اور بناوٹ بن جائے گا‘‘ (حلیۃ الاولیاء، ج: 3، ص: 119)، (۲) ''قیامت اُس وقت تک قائم نہیں ہوگی کہ بے وقوفوں کی اولاد دنیا میں سب سے زیادہ خوش نصیب بن جائے گی‘‘ (ترمذی: 2209)۔
(4) اچانک اموات: نبی کریمﷺ نے فرمایا: قیامت قائم نہیں ہو گی حتیٰ کہ مساجد کو گزرگاہ بنا لیا جائے گااور اچانک موت کے واقعات زیادہ ہونے لگیں گے۔ (المعجم الاوسط: 4861)۔ آج کل بوجوہ ہارٹ اٹیک، برین ہیمرج کے واقعات ماضی کی نسبت زیادہ ہو رہے ہیں، اُس کی ایک وجہ یہ ہے کہ چکنائی سے معمور غذائوں اور کئی طرح کے کیمیکلز کی وجہ سے جدید دوائیں ذیلی اثرات (Side Effects) کی حامل ہو جاتی ہیں، یعنی اگر کوئی دوا ایک بیماری کا ازالہ کرتی ہے تو دوسری بیماری کاسبب بن جاتی ہے، اسی لیے ان دوائوں کے نقصانات کے ازالے کے لیے دوسری دوائیں شامل کی جاتی ہیں، جنہیں طبِ قدیم کی اصطلاح میں ''بَدرَقَہ‘‘ کہتے ہیں۔
(5) ہم جنس پرستی: طویل حدیث میں آپﷺ نے فرمایا: ''قیامت کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ ہم جنس پرستی کا دور دورہ ہو گا، مرد مردوں سے اور عورتیں، عورتوں سے اپنی جنسی خواہش پوری کریں گی، زنا کی کثرت ہو گی‘‘۔ اب تو مغرب میں نسب بھی محفوظ نہیں ہیں۔ ایک حدیث میں فرمایا: ''باندی اپنے آقاکو جنے گی‘‘۔ اس کا ایک سبب یہ ہے کہ مغرب میں نکاح اور طلاق کو مشکل بنا دیا گیا ہے اور جوان جوڑے رسمی شادی کے بغیر جنسی خواہشات کی تکمیل کرتے ہیں، کرائے کی ماں برائے خدمت دستیاب ہوتی ہے، اس لیے دستاویزات میں ماں کا نام ضروری قرار دیا گیا ہے، کیونکہ بعض لوگوں کو باپ کا نام معلوم ہی نہیں ہوتا اور اب تو مردوں کی ہم جنس پرستی، عورتوں کی ہم جنس پرستی، متضاد جنس پرستی سے آگے بڑھ کر LGBT+ گروپ بنا لیا گیا ہے، یعنی اب یہ آوارگی مصنوعی جنسی اعضاء سے آگے بڑھ کر حیوانات تک وسیع ہو جائے گی۔
(6) دین پر چلنا دشوار ہو جائے گا: اسلام کی رُو سے امت اور انسانیت کی اصلاح مسلمانوں کی اجتماعی ذمہ داری اور فرضِ کفایہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ''(اے مسلمانو!) تم بہترین امت ہو جسے تمام لوگوں کی (ہدایت )کے لیے ظاہر کیا گیا، تم نیکی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے روکتے ہو اور تم اللہ پر ایمان رکھتے ہو‘‘ (آل عمران: 110)۔ پھر جب قرآنِ کریم کی یہ آیت سامنے آئی: ''اے ایمان والو! تم اپنی فکر کرو، جب تم ہدایت پر ہو تو کسی کی گمراہی سے تمہیں کوئی ضرر نہیں پہنچے گا‘‘ (المائدہ: 105)۔ بعض حساس صحابہ کرام کو اس پر تشویش لاحق ہوئی، کیونکہ اس کے ظاہری معنی سے کوئی یہ تاثر لے سکتا تھاکہ دوسروں کا غم پالناچھوڑو، بس اپنی فکر کرو، جبکہ اسلام تو پوری انسانیت کی اصلاح کو مسلمانوں کی اجتماعی ذمہ داری قرار دیتا ہے؛ چنانچہ ابو امیہ شعبانی روایت کرتے ہیں: میں نے حضرت ابوثعلبہ خُشَنِیؓ سے مذکورہ بالا آیت کے بارے میں پوچھا: انہوں نے کہا: (یہ بات مجھے بھی کھٹکی تھی اور) میں نے اس کی بابت رسول اللہﷺ سے پوچھا تھا: آپﷺ نے فرمایا: (نہیں!) بلکہ تم لوگوں کو نیکی کا حکم دیتے رہو اور برائی سے روکتے رہو، حتیٰ کہ جب تم دیکھو: کمینوں کی اطاعت کی جا رہی ہے اور خواہشاتِ نفس کی پیروی کی جا رہی ہے، دنیاکو آخرت پر ترجیح دی جا رہی ہے، اور (دلیلِ حق سے اعراض کر کے) ہر شخص اپنی رائے کو حرفِ آخر سمجھ رہا ہے، تو پھر تم اپنی فکر کرو اور لوگوں کا خیال چھوڑ دو، کیونکہ اب تمہارے آگے صبر کے دن آنے والے ہیں، پس ایسے مشکل وقت میں صبر کر کے دین پر قائم رہنااس قدر مشکل ہو جائے گا جیسے آگ کے کھولتے ہوئے انگارے کو مٹھی میں لینا، پس اُس وقت جو دین پر عمل پیرا رہے گا، اُسے پچاس افراد کے برابر ثواب ملے گا۔ صحابہ نے عرض کی: یا رسول اللہﷺ! کیا اُس دور کے پچاس افراد کے برابر؟ آپﷺ نے (صحابہ سے) فرمایا: تمہارے پچاس افراد کے برابر! (ابودائود: 4341)۔
(7) عیسائیوں کا غلبہ: مستورِد القرشی نے حضرت عمرو بن عاصؓ کی موجودگی میں کہا: میں نے رسول اللہﷺ کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا: ''قیامت سے پہلے رومیوں (مسیحیوں) کی کثرت ہو گی، اُن سے حضرت عمروؓ نے کہا: تمہیں معلوم ہے کیا کہہ رہے ہو؟ انہوں نے کہا: وہی کہہ رہا ہوں جو میں نے رسول اللہﷺ سے سنا ہے۔ حضرت عمروؓ نے کہا: اگر تم ٹھیک کہتے ہو، تو اُن میں چار خصلتیں ہیں: وہ آزمائش کے وقت سب لوگوں سے زیادہ حلیم ہیں، مصیبت کے وقت بہت جلد اس کا تدارک کرتے ہیں، شکست کھانے کے بعد جلد دوبارہ حملہ کرتے ہیں، مسکینوں، یتیموں اور کمزوروں کے لیے بہتر ہیں۔ پھر آپﷺ نے ان کی پانچویں اہم خصلت بھی بیان فرمائی کہ سب سے زیادہ بادشاہوں کو ظلم سے روکنے والے ہیں‘‘ (مسلم: 2898)۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اُخروی نجات کا مدار تو ایمان و اعمالِ صالحہ پر ہے، لیکن دنیا میں ملّتیں اپنے کرتوتوں کے سبب زوال سے دوچار ہوتی ہیں۔ آج یہود و نصاریٰ کے غلبے اور مسلمانوں کے زوال کے اسباب ہمارے سامنے ہیں۔
(8) بارشوں کا بے مصرف ہونا: رسول اللہﷺ نے فرمایا: ''قحط یہی نہیں کہ بارش نہ ہو، بلکہ یہ بھی قحط ہے کہ خوب بارش ہو اور زمین کوئی چیز نہ اگائے‘‘ (مسلم: 2904)۔ اس کی ایک صورت مشاہدے میں آتی ہے کہ شدید بارشوں کے سبب بعض اوقات سیلاب آتے ہیں تو سب کچھ بہا کر لے جاتے ہیںاور بارش کے بعد جس خوشحالی کی توقع کی جاتی ہے، لوگ اس سے محروم رہ جاتے ہیں۔
(9) علمائے حق کا اٹھ جانا: حدیثِ مبارک میں ہے: ''عبداللہ بن عمرو بن العاصؓ نے رسول اللہﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: بے شک اللہ علم کو ایسے نہیں اٹھائے گا کہ لوگوں کو (محسوس طریقے سے) کوئی چیز اٹھتی ہوئی محسوس ہو بلکہ علمائے حق کے اٹھ جانے سے علم اٹھتا چلا جائے گا، حتیٰ کہ جب کوئی عالمِ ربانی باقی نہیں رہے گا تو لوگ جاہلوں کو پیشوا بنائیں گے، پھر اُن سے مسئلے پوچھے جائیں گے تو وہ جہل پر مبنی فتوے دیں گے، پس وہ خود بھی گمراہ ہوں گے اوردوسروں کو بھی گمراہ کریں گے‘‘ (صحیح بخاری: 100)۔ حضرت حکیمؓ بیان کرتے ہیں: میں نے رسول اللہﷺ سے شر کی بابت پوچھا: آپﷺ نے تین بار فرمایا: مجھ سے شر کے بارے میں نہ پوچھو، خیر کے بارے میں پوچھو، پھر فرمایا: سب سے بڑی برائی برے علماء اور سب سے بڑی خیر اچھے علماء ہیں (سنن دارمی: 400)۔ کیونکہ لوگ دین کی نسبت سے علماء کی تکریم کرتے ہیں، ان کی بات کا اعتبار کرتے ہیں، سو اُن پر دیگر طبقات کے مقابلے میں زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے، وہ اپنے آپ کو اسلام کے معلّم کے طور پر پیش کرتے ہیں، لیکن اگروہ اس معیار پر پورے نہیں اترتے تویہی وجۂ فساد ہے۔ آپﷺ نے علمائے یہود کی بابت فرمایا: ''پہلے پہل بنی اسرائیل میں خرابی نے اس طرح نفوذ کیا کہ جب ایک شخص دوسرے کو برائی میں مبتلا دیکھتا تو کہتا: یہ کیا کر رہے ہو، اللہ سے ڈرو، یہ کرتوت چھوڑ دو، یہ تمہارے لیے جائز نہیں ہے، پھر اگلے دن ملتا تو اسے اُس کام سے نہ روکتا بلکہ اس کا ہم نوالہ و ہم پیالہ اور ہم نشین بن جاتا، پھر جب اُن کے کرتوت اسی طرح ہوتے چلے گئے، تو (اس کے وبال کے طور پر) اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں کو ایک دوسرے کے رنگ میں رنگ دیا، پھر آپﷺ نے المائدہ کی آیات 78 تا 80 تلاوت کر کے فرمایا: ہرگزنہیں! تم ضرور بالضرور نیکی کا حکم دو گے اور برائی سے روکو گے اور تم ضرور ظلم کا راستہ روکو گے اور لوگوں کو حق قبول کرنے پر مجبور کر دو گے‘‘ (ابودائود: 4336)۔ قارئین مندرجہ بالا تین آیات کا ترجمہ قرآنِ کریم میں دیکھ لیں۔