یوں تو تمام صحابۂ کِرام عظیم المرتبت ہیں اور پوری امت کے لیے ان کی سیرت مَشعلِ راہ ہے، پھر ان میں سے عشرۂ مبشّرہ کا ایک ممتاز مقام ہے اور خلفائے راشدین کی تو شان ہی سب سے جُد ا ہے۔ ہر صحابی اپنی ذات میں اوصاف و کمالات کا جامع ہے، لیکن اُن کی شخصیات کے بعض پہلو نہایت نمایاں اور ممتاز ہیں۔ تیسرے خلیفۂ راشد حضرتِ عثمان رضی اللہ عنہ کی شخصیت کے نمایاں پہلو حیا، سَخا (فیاضی )، غِنٰی اور حلم ہیں، یہ ان کی اَخلاقی ساخت، جِبِلّت اور فطری نہاد کے لازمی اجزاء ہیں۔
علامہ جار اللہ زمخشری لکھتے ہیں: ''حیا ایسے تغیّر و انکسار کو کہتے ہیں جو انسان کو ہر اُس چیز کے ارتکاب کے سبب لاحق ہوتا ہے، جو معیوب ہو اور جس کی مذمت کی جائے‘‘ (تفسیر کشاف، ج: 1، ص: 110)، یعنی یہ ایسا نفسانی ملکہ ہے جو انسان کو برائی کے ارتکاب سے روکتا ہے۔ اسے ہم انگریزی میں Shyness سے تعبیر کر سکتے ہیں، لیکن دنیا کی کسی زبان میں ایسا کوئی متبادل لفظ نہیں ہے جو حیا کی پوری معنویت کا جامع ہو۔ حیا سے مراد بندۂ مومن کے اندر ایسے فطری، جِبِلّی اور اَخلاقی وصف کا ہونا ہے جو انسان کو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول مکرمﷺ کی معصیت سے روک دے؛ چنانچہ حدیثِ پاک میں ہے: ''جب تم میں حیا نہ رہے، تو پھر جو چاہے کرتے پھرو‘‘ (صحیح بخاری: 3484)، اس حدیث سے بھی یہ عیاں ہوتا ہے کہ حیا برائی کے لیے طبعی اور فطری رُکاوٹ ہے اور جب حیا نہ رہے تو سارے اَخلاقی بندھن ٹوٹ جاتے ہیں۔ فارسی کا مقولہ ہے: ''بے حیا باش ہر چہ خواہی کُن‘‘۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ''بے شک اللہ تعالیٰ بہت حیا فرمانے والا ہے، نہایت کرم فرمانے والا ہے، جب بندہ اس کے سامنے (عاجزی کے ساتھ) دستِ سوال دراز کرے تو اُسے حیا آتی ہے کہ اس کے پھیلے ہوئے ہاتھوں کو خالی لوٹا دے‘‘ (سنن ترمذی: 3627)۔ رسول اللہﷺ کی ذات سے حضرت عثمانؓ کی محبت اور حیا کا عالم یہ تھا کہ انہوں نے فرمایا: ''جب سے میں نے بیعت کے لیے رسول اللہﷺ کے ہاتھ میں ہاتھ دیا ہے، میں نے نہ کبھی گانا گایا، نہ جھوٹ بولا اور نہ اپنے دائیں ہاتھ سے اپنی شرم گاہ (یا کسی نامناسب) چیز کو چھوا ہے‘‘ (سنن ابن ماجہ: 311)، یعنی اُن کے دل میں رسول اللہﷺ کے دستِ مبارک کے شرفِ لَمس کا اتنا تقدُّس و احترام تھا۔ اسی طرح رسول اللہﷺ بھی آپؓ سے اتنا ہی حیا فرما تے اور آپ کی حیا داری کا پاس فرماتے۔
حدیثِ پاک میں ہے: حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں: رسول اللہﷺ میرے گھر میں پہلو کے بل اس طرح (بے تکلفی کے ساتھ) لیٹے ہوئے تھے کہ آپ کی دونوں پنڈلیاں کھلی ہوئی تھیں، حضرتِ ابو بکرؓ نے اجازت طلب کی، آپﷺ نے ان کو اجازت دے دی اور آپ اسی طرح لیٹے ہوئے باتیں کرتے رہے، پھر حضرت عمرؓ نے اجازت طلب کی، آپﷺ نے ان کو بھی اُسی کیفیت میں اجازت دے دی اور باتیں کرتے رہے، پھر حضرت عثمانؓ نے اجازت طلب کی تو آپﷺ اُٹھ کر بیٹھ گئے اور اپنے کپڑے درست کر لیے، پھر وہ داخل ہوئے اور باتیں کرتے رہے، جب وہ چلے گئے تو حضرتِ عائشہؓ نے پوچھا: (یا رسول اللہ!) حضرت ابو بکرؓ آئے تو آپﷺ نے ایسا کوئی اہتمام نہیں کیا، پھر حضرتِ عمرؓ آئے تو بھی آپﷺ نے پروا نہ کی، پھر حضرتِ عثمانؓ آئے تو آپ بیٹھ گئے اور اپنے کپڑوں کو درست فرما لیا (یعنی اس خصوصی اہتمام کا سبب کیا ہے )، آپﷺ نے فرمایا: میں اس شخص سے کیوں حیا نہ کروں، جس سے فرشتے بھی حیا کرتے ہیں۔ (مسلم: 2401)، ایک اور روایت میں ہے: ''آپﷺ نے فرمایا: عثمان بہت حیا دار ہیں، اگر میں انہیں اسی حالت میں اجازت دے دیتا، تو مجھے اندیشہ تھا کہ وہ اپنے طبعی حیا کی وجہ سے اپنی آمد کا مقصد بھی بیان نہ کرتے (یعنی لوٹ جاتے)‘‘ (صحیح مسلم:2402)۔ دین کی راہ میں آپؓ کی سخاوت اور فیاضی بھی بے مثال تھی۔ چند احادیث پیشِ خدمت ہیں:
(1) حضرت عبدالرحمٰن بن خبابؓ بیان کرتے ہیں: میں رسول اللہﷺ کے پاس ایسے وقت میں حاضر ہوا کہ آپﷺ صحابۂ کرام کو جیشِ عُسرت (غزوۂ تبوک) کی مالی اعانت کے لیے ترغیب دے رہے تھے۔ حضرت عثمانؓ کھڑے ہوئے اور عرض کی: (یا رسول اللہﷺ!) میں اللہ کی راہ میں ساز و سامان سے لدے ہوئے سو اونٹ پیش کرتا ہوں۔ رسول اللہﷺ نے صحابۂ کرام کو پھر ترغیب دی تو حضرت عثمانؓ نے پھر کہا: میں تمام ساز وسامان سے لدے ہوئے دو سو اونٹ پیش کرتا ہوں۔ آپﷺ نے پھر ترغیب دی تو حضرت عثمانؓ نے کہا: میں تمام ساز و سامان سے لدے ہوئے تین سو اونٹ پیش کرتا ہوں۔ راوی بیان کرتے ہیں: میں نے دیکھا: رسول اللہﷺ منبر سے اُترتے ہوئے بار بار یہ ارشاد فرما رہے تھے: آج کے بعد اگر عثمان (بفرضِ مُحال ) کوئی بھی نیک کام نہ کریں، تو اُن پر کوئی مؤاخذہ نہیں ہو گا‘‘ (سنن ترمذی: 3700)۔
(2) حضرت عبدالرحمن بن سَمرہؓ بیان کرتے ہیں: حضرت عثمانؓ ایک ہزار دینار لے کر حضورﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپﷺ کی گود میں ڈال دیے۔ (راوی کہتے ہیں): میں نے دیکھا: رسول اللہﷺ نے اُن اشرفیوں کو اپنی گود میں پلٹتے ہوئے فرمایا: آج کے بعد (بفرضِ مُحال) عثمان کوئی بھی نیکی نہ کرے تو اُن کے لیے کچھ نقصان دہ نہیں ہے (یعنی یہی ایک عظیم نیکی ان کی نجات کے لیے کافی ہے)، (سنن ترمذی: 3701)۔ رسول اللہﷺ جس کی حُسنِ عاقبت اور آخرت میں نجات کی بشارت دے دیں تو یقینی بات ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے مکرِ شیطان، فریبِ نفس اور عملِ بد سے محفوظ رکھتا ہے اور ہر نیکی کی توفیق عطا فرماتا ہے۔ رسول اللہﷺ کی یہ بشارت اُن کے بارے میں آپﷺ کا حُسنِ ظن بھی ہے اور اُن کی صالحیت پر آپﷺ کے یقین کی بھی مظہر ہے۔ جیشِ عُسرت نہایت تنگ دستی کے زمانے میں تھا اور ایسے مشکل وقت میں معمولی سی مالی اعانت بھی اچھے وقتوں کی بڑی سے بڑی عطا سے زیادہ قابلِ قدر ہوتی ہے۔
جب باغیوں نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی رہائش گاہ کا محاصرہ کر لیا اور آپؓ پر پانی بند کر لیا اور مسجدِ نبوی میں نماز پڑھنے کی بھی اجازت نہ دی تو آپؓ اُن کے سامنے نمودار ہوئے اور فرمایا: میں تمہیں اللہ کی قسم دے کر اور حُرمتِ اسلام کا واسطہ دے کر کہتا ہوں: تم لوگوں کو یہ بات اچھی طرح معلوم ہے کہ جب رسول اللہﷺ مدینہ طیبہ تشریف لائے اور وہاں (ایک یہودی کی ملکیت) بِئرِ رومہ کے سوا پینے کے لیے میٹھا پانی دستیاب نہ تھا، تو رسول اللہﷺ نے فرمایا: کون ہے جو جنت کی نعمتوں کے بدلے میں اس کنویں کو خر ید کر مسلمانوں کے لیے وقف کر دے، پھر میں نے اپنے ذاتی مال سے اسے خرید کر وقف کر دیا تھا، تو کیا آج تم مجھ ہی کو اس کا پانی پینے سے روک رہے ہو اور میں نمکین پانی پینے پر مجبور ہوں۔ انہوں نے کہا: ہاں، تو حضرت عثمانؓ نے کہا: میں تمہیں اللہ اور اسلام کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں: مسجدِ نبوی نمازیوں کے لیے تنگ ہو گئی تو رسول اللہﷺ نے فرمایا: کون ہے جو جنت کی نعمتوں کے عوض فلاں جگہ کو خرید کر مسجد کے لیے وقف کر دے، پس میں نے اپنے ذاتی مال سے وہ جگہ خرید کر مسجد کے لیے وقف کر دی تھی، تو کیا آج مجھ کو ہی اس مسجد میں دو رکعت نماز پڑھنے کی اجازت نہیں ہے، اُن (سنگ دل) لوگوں نے کہا: ہاں! (سنن ترمذی: 3703)۔
شاہ ولی اللہ محد ث دہلوی نے سیرتِ عثمانؓ کاایک ایمان افروز واقعہ لکھا ہے: ''حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں مدینے میں قحط پڑا اور غلے کی قلت ہو گئی، حضرت عثمانؓ کا ایک ہزار اونٹوں پر مشتمل تجارتی قافلہ اشیائے ضرورت سے لدا ہوا مدینے پہنچا، تاجر دوڑ پڑے اور پچاس فیصد منافع کی پیشکش کی، حضرت عثمان نے فرمایا: میرے پاس چودہ سو گنا منافع کی یقینی پیشکش موجود ہے اور انہوں نے وہ سارا مال رضائے الٰہی کے لیے فقرائے مدینہ پر صدقہ کر دیا، (ازالۃ الخفا، ج: 2، ص: 224، مُلَخّصاً)۔
عہدِ نبوت کے نمایاں واقعات میں سے ایک یہ ہے: رسول اللہﷺ نے حدیبیہ کے مقام پر صحابۂ کرام سے بیعت لی، اللہ تعالیٰ نے اس ایمان افروز منظر کو قرانی آیات میں ہمیشہ کے لیے محفوظ فرمادیا، ارشاد ہوا: ''(اے رسولِ مکرم!) بے شک اللہ ان ایمان والوں سے راضی ہو گیا، جب وہ درخت کے نیچے آپ کی بیعت کر رہے تھے‘‘ (الفتح: 18)، اسے''بیعتِ رضوان‘‘ کہا جاتا ہے، کیونکہ ان تمام بیعت کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ نے اپنی رضا مندی کے اعزاز سے نوازا ہے، اس کی اہمیت کو قرآنِ کریم نے اِن کلمات میں بیان فرمایا: ''بے شک جو لوگ آپ کی بیعت کر رہے ہیں، وہ درحقیقت اللہ ہی سے بیعت کر رہے ہیں، اُن کے ہاتھوں پر اللہ تعالیٰ کا ہاتھ ہے‘‘ (الفتح: 10)۔ اس آیت میں دستِ مصطفٰےﷺ کو ''یَدُ اللّٰہ‘‘ قرار دیا گیا، جب تمام صحابۂ کرام بیعت کر چکے تو رسول اللہﷺ نے اپنا بایاں دستِ مبارک آگے کیا اور دایاں ہاتھ اس کے اوپر رکھ کر فرمایا: یہ عثمان کی بیعت ہے۔ جولوگ بیعتِ رضوان میں موجود تھے اور اس اعزاز سے براہِ راست مشرف ہو چکے تھے، وہ بھی بیعتِ عثمان کے ہم پلّہ نہیں ہو سکتے، کیونکہ حضرت عبداللہؓ بن عمر نے کہا: ''ہر صحابی نے بیعت کے لیے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا اور عثمان کی بیعت کے لیے رسول اللہ کا ہاتھ آگے بڑھا اورعثمان کے لیے رسول اللہﷺ کا ہاتھ اُن کے اپنے ہاتھ سے بدرجہا بہتر ہے، کیونکہ قرآن نے اُسے ''یَدُ اللّٰہ‘‘ قرار دیا ہے، سبحان اللہ! حضرت عثمان نے کیسا مقدر پایا۔