حُبُّ الوطَنی کے معنی ہیں: ''اپنے وطن سے محبت کرنا‘‘، وطن سے محبت انسان کا فطری تقاضا ہے، ایک حد تک یہ تقاضا چرند پرند اور حیوانات میں بھی پایا جاتا ہے، روزی کی تلاش میں دن بھر سرگرداں رہنے کے بعد پرندے اپنے گھونسلوں میں آتے ہیں، شہد کی مکھیاں اپنے چھتوں کی طرف لوٹتی ہیں، شیر اپنی کچھار کی طرف آتا ہے، پالتو جانور اپنے باڑے کی طرف آتے ہیں، حتیٰ کہ سردیوں کے موسم میں گرم علاقوں کی طرف ہجرت کرنے والے سائبیریا کے پرندے موسم بدلتے ہی اپنے وطن کی طرف لوٹ جاتے ہیں۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ''اگر تم اللہ پر توکل کرو جیساکہ اُس پر توکل کرنے کا حق ہے، تو تمہیں بھی اُسی طرح رزق عطا کیا جائے گاجیسا کہ پرندوں کو رزق دیا جاتا ہے، وہ صبح خالی پیٹ نکلتے ہیں اور شام کو پیٹ بھرے ہوئے (اپنے گھونسلوں کی طرف) لوٹتے ہیں‘‘ (ترمذی: 2344)۔ حضرت سلیمان علیہ السلام اپنے تخت پر فضا میں محوِ پرواز تھے، زمین پر چیونٹیوں کی ملکہ نے اپنی رعایا کو حکم دیا،اس کی بابت اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: (1) ''یہاں تک کہ جب وہ چیونٹیوں کی وادی میں آئے تو (اُن کی ملکہ) چیونٹی نے کہا: چیونٹیو! اپنے بلوں میں گھس جائو، کہیں سلیمان اور ان کے لشکر بے خبری میں تمہیں کچل نہ ڈالیں‘‘ (النمل:18)، (2) ''اور آپ کے رب نے شہد کی مکھی کے دل میں یہ بات ڈالی کہ وہ پہاڑوں، درختوں اور اونچے چھپروں میں گھر بنائیں‘‘ (النحل: 68)۔ پس معلوم ہوا کہ چیونٹیوں اور شہد کی مکھیوں میں بھی اپنے ٹھکانے کا شعور موجود ہوتا ہے۔
قرآنِ کریم نے صرف اس صورت میں ترکِ وطن کی اجازت دی ہے، جب اپنے وطن میں دین و ایمان، عزت و آبرو اور جان و مال محفوظ نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ''اور (اے مسلمانو!) تمہیں کیا ہوا ہے کہ تم اللہ کی راہ میں جنگ نہیں کرتے، حالانکہ کمزور مرد، عورتیں اور بچے یہ دعا کر رہے ہیں: اے ہمارے رب! ہمیں اس بستی سے نکال دے جس کے رہنے والے ظالم ہیں اور ہمارے لیے اپنے پاس سے کوئی کارساز بنا دے اور کسی کو اپنے پاس سے ہمارا مددگار بنا دے‘‘ (النسآء: 75)۔ چونکہ مکۂ مکرمہ میں مسلمانوں کی جان و مال، عزت و آبرو اور دین و ایمان محفوظ نہ تھے، اس لیے ہجرت کا حکم ہوا۔ یہاں وہ ہجرت مراد نہیں ہے جو بہتر روزگار، اعلیٰ تعلیم، زندگی کے عیش و عشرت، راحتوں کے حصول اور بہتر مستقبل کے لیے اختیار کی جاتی ہے۔ پس معلوم ہوا کہ وطن کی محبت اگرچہ غالب رہتی ہے، لیکن اگر وطن میں جان و مال اور عزت و آبرو محفوظ نہ ہو تو دین و ایمان اور جان کی حفاظت کے لیے بادلِ نخواستہ ترکِ وطن کرنا پڑتا ہے۔
رسول اللہﷺ جب کفارِ مکہ کے مظالم سے تنگ آ کر مدینۂ طیبہ تشریف لے گئے تو آپﷺ نے دعا فرمائی: ''اے اللہ! تو مدینے کو بھی ہمارے لیے اسی طرح محبوب بنا، جس طرح تو نے ہمارے لیے مکہ کو محبوب بنایا تھا یا اُس سے بھی زیادہ محبوب بنا دے، اس کے بخار کو جُحفہ کی طرف منتقل فرما اور اس کے ناپ تول کے پیمانوں میں ہمارے لیے برکتیں عطا فرما‘‘ (بخاری:6372)، ایک روایت میں ہے: ''اس کی آب و ہوا کو ہمارے لیے سازگار بنا دے‘‘ (بخاری: 1889)۔ اس سے معلوم ہوا کہ وطن کی محبت انسان کے دل و دماغ اور روح میں پیوست ہوتی ہے، یہ انسانی فطرت کا تقاضا ہے۔ جب سید المرسلینﷺ پر غارِ حرا میں پہلی وحی ربانی نازل ہوئی، آپﷺ اپنے کاشانۂ اقدس میں تشریف لائے اور اُمُّ المؤمنین سیدہ خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو سارا ماجرا بیان کیا اور اندیشے کا اظہار کیا، انہوں نے آپﷺ کو تسلی دیتے ہوئے کہا: آپ کو خوش خبری ہو، قسم بخدا! اللہ آپ کو بے یارو مددگار نہیں چھوڑے گا، کیونکہ آپ صلۂ رحمی کرتے ہیں، سچی بات کہتے ہیں، کمزوروں کا بوجھ اٹھاتے ہیں، ناداروں کے کام آتے ہیں، مہمان نوازی کرتے ہیں اور راہِ حق میں مشکلات میں مبتلا لوگوں کی مددکرتے ہیں۔ پھر حضرت خدیجہؓ آپﷺ کو اپنے چچا ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں۔ انہوں نے زمانۂ جاہلیت میں نصرانی مذہب کو اختیار کر لیا تھا، وہ لکھنا جانتے تھے اور انجیل کو عربی میں لکھتے۔ وہ بوڑھے شخص تھے، ان کی بینائی چلی گئی تھی۔ اُن سے حضرت خدیجہؓ نے کہا: چچا! اپنے بھتیجے کی بات سنو۔ ورقہ بن نوفل نے کہا: بھتیجے! بولو کیا کہنا چاہتے ہو؟ رسول اللہﷺ نے سارا ماجرا ان کو بیان کیا، ورقہ بن نوفل نے کہا: یہ وہی ناموس (رازدار فرشتہ) ہے جسے اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام پر وحی دے کر بھیجا تھا۔ کاش! جب آپ کی قوم آپ کو جِلا وطن کرے گی، اُس وقت میں زندہ اور جوان ہوتا (اور آپ کی حمایت میں کھڑا ہوتا)۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا: کیا وہ مجھے اپنے وطن سے نکال دیں گے؟ ورقہ بن نوفل نے کہا: جو شخص بھی آپ کی طرح پیغامِ وحی لے کر آیا، اُس کی قوم اُس کی دشمن بن گئی، اگر میں آپ کے عہدِ نبوت کو پاتا تو آپ کی پوری پوری مدد کرتا‘‘ (مسلم: 160)۔
علامہ ابوالقاسم سہیلی حدیثِ ورقہ کے تحت ''حُبّ الرّسُولِﷺ وَطَنہ‘‘ (رسول اللہﷺ کی اپنے وطن سے محبت) کا عنوان قائم کر کے لکھتے ہیں: ''ورقہ بن نوفل نے رسول اللہﷺ سے کہا: ''آپ کی قوم کے لوگ آپ کو جھٹلائیں گے‘‘، اس پر آپﷺ نے کچھ نہیں کہا، پھر انہوں نے کہا: ''وہ آپ کو اذیت پہنچائیں گے‘‘، اس پر بھی آپﷺ نے کچھ نہیں کہا، پھر جب انہوں نے یہ کہا: ''وہ آپ کو اپنے وطن سے نکالیں گے‘‘، تو اس پر آپﷺ نے فرمایا: ''کیا واقعی وہ مجھے اپنے وطن سے نکالیں گے؟‘‘، یہ اس بات پر دلیل ہے: ''وطن کی محبت تقاضائے فطرت ہے اور وطن سے جدائی انسان کو گراں گزرتی ہے اور مکۂ مکرمہ کی تو بات ہی کیا ہے کہ وہاں اللہ کا حرم ہے، بیت اللہ ہے، آپﷺ کے جدِّ اعلیٰ حضرت اسماعیل علیہ السلام کا وطنِ مالوف ہے، سو اس سے نکالے جانے کے تصور سے ہی رسول اللہﷺ کا دل کانپ اٹھا‘‘ (الروض الانف، ج: 2، ص: 273)۔ ہجرت کی شب مکہ سے یثرب جاتے ہوئے آپﷺ نے سرزمینِ مکہ کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا: ''اے مکہ! بخدا! تو اللہ کی زمین پر اللہ کے نزدیک سب سے پسندیدہ اور سب سے محبوب ہے، اگر مجھے یہاں سے زبردستی نہ نکالا جاتا تو میں کبھی تجھے نہ چھوڑتا‘‘ (ترمذی: 3925)۔ جب آپﷺ کا وطن مالوف کفارِ مکہ کی ستم رانیوں کے سبب چھوٹ گیا تو آپﷺ نے مدینۂ منورہ کی محبوبیت کے لیے دعا فرمائی۔ علامہ ابن حجر عسقلانی لکھتے ہیں: ''یہ حدیث مدینۂ منورہ کی فضیلت اور حب الوطنی کی اہمیت پر دلالت کرتی ہے اور دل وطن کی طرف مائل ہوتا ہے‘‘ (فتح الباری، ج: 3، ص: 783)۔ علامہ ابن بطال لکھتے ہیں: ''اللہ نے وطن کی محبت اور شوق پر جانوں کو پیدا کیا ہے، رسول اللہﷺ نے یہی کیا اور یہی بہترین نمونہ ہے‘‘ (شرح ابن بطال، ج: 4، ص: 435)۔
رسول اللہﷺ جب سفر سے واپس آتے اور مدینے کے بالائی علاقوں پر آپ کی نظر پڑتی تو اپنی اونٹنی کو تیز کر دیتے اور سواری کے جانور کو ایڑ لگا دیتے‘‘ (بخاری: 1886)۔ اُمّ المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں: ایک مرتبہ ایک شخص رسول اللہﷺ کی بارگاہ میں حاضری کے لیے مکۂ مکرمہ سے مدینۂ منورہ آیا۔ اُمّ المؤمنینؓ نے پوچھا: اُصَیل! تم نے مکہ کو کس حال میں چھوڑا؟ اس نے کہا: میں نے مکہ کو اس حال میں چھوڑا کہ اس کی وادی چمک دار تھی، گھاس گھنی ہو چکی تھی اوردرختوں کی کونپلیں نکل چکی تھیں۔ آپﷺ کی آنکھیں اشکبار ہوئیں اور فرمایا: اُصَیل! تم نے ہمارے دل میں مکہ کے شوق کو ابھاردیا ہے‘‘۔ ایک روایت میں ہے: ''(بس کرو) دلوں کو قرار پکڑنے دو‘‘ (زرقانی علی المؤطا، ج: 4، ص: 364)۔
آج کل ہمارے ہاں بعض لوگ بزعمِ خویش حب الوطنی کے اجارہ دار بنے ہوئے ہیں اور اپنے مخالفین پر غداری کی تہمت لگا رہے ہیں۔ عہدِ حاضر کے تناظر میں جس دستوری نظام کے تحت ہم جی رہے ہیں، اُس میں ایک حکومت ہوتی ہے، جو جمہوری طریقے سے ملک کا نظم و نسق چلاتی ہے، اُس سے اتفاق بھی کیا جا سکتا ہے اور دلائل کی بنیاد پر اختلاف بھی کیا جا سکتا ہے، یعنی اُسے تقدیس کا درجہ حاصل نہیں ہوتا کہ اُس سے اختلاف کی گنجائش نہ رہے۔ بس صرف اطاعت کی جا سکتی ہے، اس کے مقابل ریاست و مملکت ہے، جو محترم ہے، اُس سے وفا کا رشتہ ہر حال اور ہر صورت میں قائم رکھنا لازم ہے۔ اسی لیے وطن کی سرزمین کو ''مادرِ وطن‘‘ کہتے ہیں کہ وہ ماں کی طرح اپنے باشندوں کو اپنی آغوش میں لیتی ہے، اس کے سینے پر اور اس کے اندر اللہ تعالیٰ کی جو نعمتیں ہیں، وہ اپنے باشندوں پر نچھاور کرتی ہے۔ الغرض حکومت اور ریاست کادرجہ یکساں نہیں ہے۔ ریاست کو دوام ہے، جبکہ حکومتیں بدلتی رہتی ہیں، اتار چڑھائو آتا رہتا ہے، حکومت کا مخالف غدار نہیں ہوتا، بلکہ بعض صورتوں میں اقتدار پر فائز طبقے سے زیادہ وطن کا وفادار ہوتا ہے، جبکہ ریاست کا مخالف یقینا غدار ہوتا ہے، کیونکہ وہ اپنی ''مادرگیتی‘‘ کی حرمت کا سودا کرتا ہے۔ اگر حکومت و ریاست لازم و ملزوم ہوتے تو حکومتِ وقت کی پالیسیوں کی مخالفت غداری کہلاتی، حالانکہ ایسا نہیں ہے۔
''جب رسول اللہﷺ بیعتِ عقبہ کے موقع پر اہلِ یثرب کی بیعت لے رہے تھے تو اہلِ یثرب نے پوچھا: بیعت کی شرائط کیا ہیں؟ آپﷺ نے فرمایا: حالات خوشگوار ہوں یا دشوار، تم ہر قیمت پر میری بات سنو گے، میرا کہا مانو گے، فراخی و تنگی ہر حال میں ساتھ دو گے، امر بالمعروف اور نھی عن المنکر میں ساتھ دو گے، ہر حال میں کلمۂ حق کہنے میں کسی کی پروا نہیں کرو گے اور میری مدد کرو گے، اپنے قبیلے کی طرح میرا دفاع کرو گے اور میں اس کے صلے میں تمہیں جنت کی ضمانت دیتا ہوں۔ اہلِ یثرب نے پوچھا: یا رسول اللہﷺ! جب ہم آپ کا ساتھ نبھائیں گے اور اللہ تعالیٰ آپ کو غلبہ عطا فرمائے گا تو کیا آپﷺ ہمارا ساتھ چھوڑ دیں گے؟ آپﷺ نے تبسم فرمایا اورکہا: نہیں! ہم تمہارے جان و مال اور آبروکا دفاع کریں گے، جس سے تمہاری جنگ ہے، اُس سے ہم بھی جنگ کریں گے اور جس سے تمہارا امن کا معاہدہ ہے، ہم اُس کی پاسداری کریں گے اور تمہارا ساتھ کسی حال میں نہیں چھوڑیں گے‘‘ (سبل الھدیٰ والرشاد، ج: 3، ص: 201 تا 203، خلاصہ)۔ چنانچہ آٹھ ہجری میں مکہ فتح ہو گیا، رسول اللہﷺ پورے حجاز کے حاکم بن گئے۔ لیکن تب سے آج تک آپﷺ اہلِ مدینہ کے درمیان موجود ہیں اور قیامت تک رہیں گے۔