جنوبی افریقہ میں سفید فام اقلیت کی نسلی حکومت تھی، نسلی امتیاز کے اس نظام کو Apartheid کہاجاتا ہے، طویل جِدّوجُہد اور قربانیوں کے بعد 27 اپریل 1994ء میں جنوبی افریقہ سفید فام اقلیت کے تسلّط سے آزاد ہوا، آزادی کی اس جِدّوجُہد میں نیلسن منڈیلا 27 سال تک اذیّت ناک قید میں پابندِ سلاسل رہے، آخرِ کار آزادی ملی اور نیلسن منڈیلا جنوبی افریقہ کے پہلے براہِ راست صدر منتخب ہوئے۔ انہوں نے تحریکِ آزادی کا قائد ہونے کے باوجود دوسری بار صدارتی انتخاب میں حصہ نہیں لیا اور اپنے جانشینوں کے لیے منصِب چھوڑ دیا۔
نیلسن منڈیلا بڑے قومی لیڈر تھے، بجائے اس کے کہ سفید فام نسلی اقلیت کو انتقام کا نشانہ بناتے، اُن کی نسل کُشی کرتے، اس کے بجائے انہوں نے بڑے پن کا ثبوت دیا اور''Truth and Reconciliation Commission‘‘بنایا۔ اس کے معنی ہیں: ''کمیشن برائے صداقت و مفاہمت‘‘۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ سب اپنے اپنے جرائم اور مَظالم کا اعتراف کریں اور اس کے بعد انہیں عفوِ عام (General Amnesty) دے دی جائے گی تاکہ انتقام در انتقام کا لامتناہی سلسلہ شروع کرنے کے بجائے مفاہمت کے ماحول میں ملک کو چلایا جائے اور ایک نئی خانہ جنگی کی بنیاد ڈالنے کے بجائے ملک کو ترقی کی شاہراہ پر ڈالا جائے۔ یہ نیلسن منڈیلا کا ایک اعلیٰ قائدانہ کردار تھا۔ وہ چاہتے تو سفید فام نسلی اقلیت سے اُن کے ایک ایک ظلم کا حساب لے سکتے تھے۔
اس وقت پاکستان بھی ایسی ہی صورتِ حال سے دوچار ہے، سیاست دان ایک دوسرے سے نفرت، بُغض اور عَداوت کی انتہا پر ہیں۔ پہلے عمران خان کو اپنے بارے میں پارسائی کا دعویٰ تھا، وہ دوسروں کو پاپی، مجرم اور خطاکار سمجھتے تھے، چور اور ڈاکو کے القاب اُن کے لیے استعمال کرتے تھے، لیکن اب پتا چلا کہ اس حمام میں سب ننگے ہیں، کوئی بھی کوثر و تسنیم میں دھلا ہوا نہیں ہے، بلکہ خان صاحب کا اخلاقی برتری کا دعویٰ خیالِ خام ہے، یہ مکافاتِ عمل ہی تو ہے کہ دوسروں کی پردہ دری کرنے والے آج اپنے لیے پردہ پوشی کی دلیلیں تلاش کر رہے ہیں۔ انسان کو ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے انتقام اور غضب سے پناہ مانگنی چاہیے، کبریائی صرف اللہ تعالیٰ کی ذات کو سزاوار ہے۔
سب سے زیادہ مقامِ افسوس یہ ہے کہ انہوں نے پیروکاروں کا جو جتھّا تیار کیا ہے، اُن کی کتاب میں اخلاقیات کا کوئی عنوان سِرے سے نہیں ہے، حالانکہ امریکہ اور مغربی ممالک میں اخلاق و کردار کے اعتبار سے جو باتیں عام لوگوں کے لیے قابلِ لعنت و ملامت نہیں ہوتیں اور انہیں اس معاشرے میں عیب نہیں سمجھا جاتا، مگر وہ بھی سیاسی قیادت کو اس بارے میں کوئی چھوٹ دینے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ وہ سیاسی رہنمائوں کو برتر اخلاقی پوزیشن میں دیکھنا چاہتے ہیں، لہٰذا اُن کے براہِ راست منتخب صدر کا بھی مواخذہ ہو سکتا ہے۔ رچرڈ نِکسن کو واٹر گیٹ سکینڈل کے حوالے سے محض جھوٹ بولنے پر صدارت سے مستعفی ہونا پڑا، بِل کلنٹن کو مونیکا لیونسکی کے ساتھ روابط کے الزام پر مواخذے کے عمل سے گزرنا پڑا اور ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف بھی کیپٹل ہِل پرحملے کی حوصلہ افزائی کرنے اور ٹیکس کے معاملات میں خیانت کے الزام میں تحقیقات کا سلسلہ جاری ہے۔ فرق یہ ہے کہ ان کے تحقیقاتی ادارے آزاد ہیں، اُن کی غیر جانبداری پر انگلی نہیں اٹھائی جاتی، جبکہ ہمارے ہاں اداروں کی غیر جانبداری پر ہمیشہ انگلی اٹھائی جاتی رہی ہے اور اُس کے شواہد بھی موجود ہیں، فیصلوں میں سُقم بھی ہرکس وناکس کو نظر آتا ہے۔
لہٰذا بہتر ہے کہ تمام قومی سیاسی جماعتیں مل کر ماضی کے بارے میں ایک ''Truth and Reconciliation Commission‘‘ قائم کریں، سب صدقِ دل سے اپنے اپنے جرائم کا اعتراف کریں، اللہ تعالیٰ اور قوم سے معافی مانگیں، توبہ تائب ہوں اور آئندہ قیادت کے لیے اختیارات کے استعمال، مالی دیانت اور اخلاقیات کا ایک معیار مقرر کریں اور اس کی جانچ پرکھ اور محاسبے کا نظام بھی شفاف ہونا چاہیے، کوئی عدالتی ضوابطِ کار اور پیچیدگیوں کی آڑ میں جائے پناہ تلاش نہ کرے، بلکہ امریکی سینیٹ کی کمیٹیوں کی طرح اس حوالے سے اعلیٰ اخلاقی اقدار کے حاملین پر مشتمل ایک پارلیمانی کمیشن بنایا جائے جو دوٹوک فیصلے صادر کرے اور ان کے فیصلوں کو آئینی تحفظ حاصل ہو۔
ہمارا نظامِ عدل غیر جانب دار اور شفاف معیار قائم نہ کر سکا، ریمارکس، آبزرویشن اور فیصلوں میں ایک طرف جھکائو (Tilt) واضح طور پر نظر آتا رہا ہے حالانکہ ہمارے ہاں عدالتِ عظمیٰ میں سترہ عالی مرتبت جج صاحبان ہیں، جبکہ امریکہ کی آبادی تینتیس کروڑ سے زائد ہے اور رقبے کے اعتبار سے بہت بڑا ملک ہے، اُس کی معیشت دنیا کی سب سے بڑی معیشت ہے، وہ سپر پاور ہے، مگر اُس کی سپریم کورٹ میں جج صاحبان کی کل تعداد نَو ہے۔ صدرِ امریکہ جج کو نامزد کرتا ہے اور امریکی سینیٹ کی ''جوڈیشری کمیٹی‘‘ اُس کی پوری زندگی کی چھان بین کرتی ہے، اُس کی پیشہ ورانہ مہارت، ٹیکس ریکارڈ اور اخلاقیات کا ریکارڈ کھنگالا جاتا ہے، اُسے سوال و جواب کے لیے سینیٹ کی کمیٹی کے سامنے پیش ہونا پڑتا ہے اور پوری طرح اطمینان کر لینے کے بعد کمیٹی اُس کی منظوری دیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکی سپریم کورٹ کے جج کے لیے ریٹائرمنٹ کی کوئی مدت نہیں ہوتی، اُس کی مسنَد وفات پر یا طِبّی لحاظ سے ناقابلِ کار ہونے کی بنا پر یا وہ خود مستعفی ہونے کا فیصلہ کر لے‘ تو تب خالی ہوتی ہے۔ آج بھی امریکی سپریم کورٹ کی ایک جج جسٹس رَتھ بیڈر گنسبرگ کی عمر ستّاسی سال ہے۔
ہمارے قومی داخلی و خارجی قرض ہماری جی ڈی پی کے برابر ہوتے جا رہے ہیں، ہمارے پاس ضروری درآمدات کے لیے زرِ مبادلہ نہیں ہے، کراچی پورٹ پر درآمد شدہ مال کے کنٹینر کافی دنوں سے کھڑے ہیں، اُن کی ایل سی کھولنے کے لیے بینکوں کے پاس زرِ مبادلہ نہیں ہے، یہ ساری صورتِ حال انتہائی تشویش ناک ہے۔ ملک کو اس مقام تک پہنچانے میں حسبِ توفیق سب کاحصہ شامل ہے اور اس میں خان صاحب کے دور کا حصہ تناسُب کے لحاظ سے سب سے زائد ہے، جبکہ اُن کے دور میں برسرِ زمین کوئی ایک بڑا ترقیاتی منصوبہ بھی پایۂ تکمیل تک نہیں پہنچا، پچھلی حکومت کے منصوبے بھی کھٹائی میں پڑے رہے۔ لہٰذا یہ فرض کرلینا کہ قبل از وقت انتخاب ہونے یا خان صاحب کے بالفرض دوبارہ برسرِ اقتدار آنے سے مسائل حل ہوجائیں گے، خام خیالی ہے۔
ہمارے ہاں بیرونی قرضوں کی اقساط مع سود کی ادائی اور زرِ مبادلہ کے توازن کو برقرار رکھنے کا ایک ہی حل اختیار کیا جاتا ہے اور وہ ہے: آئی ایم ایف، ورلڈ بینک، ایشین ڈویلپمنٹ بینک، اسلامک ڈویلپمنٹ بینک اور سعودی عرب و چین وغیرہ سے مزید قرضوں کا حصول، اس کے نتیجے میں بوجھ بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ ہماری نظر میں نئے قرض لینے کے بجائے بہتر یہ ہے کہ پرانے قرضوں کی ادائی کے لیے مہلت طلب کی جائے، چند برسوں کے لیے اقساط کی ادائی کو موقوف کیا جائے، سود کی اقساط کی ادائی کو معاف کرایا جائے اور اپنے انتظامی و دفاعی اخراجات کو اپنے وسائل کے اندر رکھنے کی حکمتِ عملی ترتیب دی جائے۔ برآمدات پر مبنی ایسی صنعتی پالیسی تشکیل دی جائے جو عالمی مسابقت کے ماحول میں اپنی مصنوعات کے لیے مارکیٹ پیدا کر سکے اور اس حوالے سے چین کی پالیسی کو رول ماڈل بنایا جا سکتا ہے۔ بیرونِ ملک پاکستانیوں کو زرِ مبادلہ کی ترسیل کے لیے ترغیبات دی جائیں اور ملک سے باہر زرِ مبادلہ کی غیر قانونی ترسیل کے راستے بند کیے جائیں۔
حکومت محض ناکام انتظامی اقدامات کے اعلان کے بجائے ایوانِ صنعت و تجارت کے ساتھ مذاکرات کرے، انہیں ملک کی حقیقی اقتصادی صورتِ حال اور مشکلات سے آگاہ کرے، مارکیٹوں کو رضاکارانہ طور پر سرِ شام بند کرنے کی ترغیب دے تاکہ توانائی کے اخراجات کم کیے جا سکیں، مغربی ممالک میں عام مارکیٹیں سرِ شام بند ہو جاتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ''اور ہم نے رات کو پردہ پوش بنایا اور دن کو روزی کمانے کا ذریعہ بنایا‘‘ (النبا:10 تا 11)۔ نیز فرمایا: ''اللہ ہی ہے جس نے تمہارے آرام کے لیے رات بنائی اور دن بنایا تاکہ اس میں (اپنے معاش کے ذرائع) دیکھ سکو، یقینا اللہ لوگوں پر فضل فرمانے والا ہے، لیکن اکثر لوگ شکر نہیں کرتے‘‘ (المومن: 61)۔ مگر ہم نے قدرت کے بنائے ہوئے نظام کو بدل دیا، راتوں کو جاگتے ہیں اور دن کو سوتے ہیں، جبکہ لندن میں ہیتھرو ایئرپورٹ پر راتوں کو فضائی پروازیں بند ہوتی ہیں تاکہ لوگوں کے آرام میں خلل واقع نہ ہو، رات دس بجے کے بعد ٹیلی وژن نشریات کو بھی بند کیا جا سکتا ہے۔ احادیث مبارکہ میں ہے: (1) ''حضرت صخر غامدیؓ بیان کرتے ہیں: نبی کریمﷺ نے فرمایا: اے اللہ! میری امت کے لیے اس کی صبح میں برکت عطا فرما اور آپ ﷺ جب کوئی لشکر روانہ کرتے تو دن کے شروع میں روانہ فرماتے۔ صخر تاجر پیشہ تھے اور وہ اپنی تجارتی قافلے کو صبح کے وقت روانہ کرتے تھے (تو اس کی برکت سے) اللہ تعالیٰ نے اس کو کثرتِ مال سے نوازا‘‘ (سنن ابودائود: 2606)، (2) نبی اکرمﷺ نے فرمایا: صبح کے وقت (سونا) رزق (کی کشادگی) کو روک دیتا ہے‘‘ (مسند احمد: 530)۔
رسول اللہﷺ نے کام کے آغاز کے لیے صبح کو ترجیح دی جو دن کے عروج کی علامت ہے اور ہم لوگ دن کے آغاز میں سوئے رہتے ہیں اور زوال کے وقت کام شروع کرتے ہیں جو زوال کی علامت ہے۔ اسی طرح ہماری دینی اور معاشرتی تقریبات بھی بالعموم راتوں کو منعقد ہوتی ہیں، حالانکہ ہم دن میں بھی یہ کام کر سکتے ہیں اور اس سے توانائی کی کافی بچت ہو سکتی ہے۔ ہمارے ہاں اصلاح کے کاموں میں رکاوٹ پیدا کرنا لوگوں کو بہت آسان معلوم ہوتا ہے، سب یک جان اور یک آواز ہو جاتے ہیں، حب الوطنی کا تقاضا یہ ہے کہ ہم اپنی ملّی، ملکی اور قومی مشکلات کا ادراک کریں اور ان مشکلات کو کم کرنے میں اپنا حصہ ڈالیں۔