دین اور شریعت رسول اللہﷺ کی اتباع کا نام ہے۔ اس میں اتنی شدت کہ بار محسوس ہو‘ مستحسن بات نہیں ہے۔ اسی طرح تقویٰ بھی وہی پسند ہے جو شِعارِ نبوت کے مطابق ہو، مَن پسند معیارِ تقویٰ اختیار نہیں کرنا چاہیے۔ احادیثِ مبارکہ میں ہے: ''حضرت انسؓ بیان کرتے ہیں: تین افراد نبیﷺ کی (عبادات کا معمول جاننے کے لیے) ازواجِ مطہرات کے گھروں پر آئے؛ پس جب انہیں آپﷺ کی عبادت کا معمول بتایا گیا، تو انہوں نے اپنی دانست میں اسے کم سمجھا اور کہا: کہاں ہم اورکہاں نبیﷺ، آپ کو تو اللہ تعالیٰ نے مغفرتِ کلی کی قطعی سند عطا فرما دی ہے، ان میں سے ایک نے کہا: میں تو ہمیشہ ساری رات نماز پڑھا کروں گا، دوسرے نے کہا: میں ہمیشہ روزہ رکھوں گا اورکبھی وقفہ نہیں کروں گا، تیسرے نے کہا: میں تجرُّد کی زندگی گزاروں گا اور کبھی شادی نہیں کروں گا، (اس دوران) رسول اللہﷺ تشریف لائے۔ آپﷺ نے فرمایا: تم لوگوں نے اس طرح کی باتیں کی ہیں، سنو! اللہ کی قسم! بے شک میں تم سب سے زیادہ اللہ کی خَشیَت رکھنے والا اور تم سب سے زیادہ متقی ہوں، لیکن میں کبھی نفلی روزے رکھتا ہوں اورکبھی چھوڑ بھی دیتا ہوں، میں راتوں کو نوافل بھی پڑھتا ہوں اورکچھ دیرکے لیے سو بھی جاتا ہوں اور میں نے عورتوں سے نکاح بھی کر رکھے ہیں (سوان کے حقوق بھی ادا کرتا ہوں)، پس جس نے میری سنت سے اعراض کیا، وہ میرے( پسندیدہ) طریقے پر نہیں ہے‘‘ (بخاری: 5063)۔
قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ نے ماہِ رمضان میں مریضوں اور مسافروں کے لیے روزہ چھوڑنے کی رخصت تو دی ہے کہ بعد میں قضا کر لی جائے، مگر روزہ رکھنے کو افضل قرار دیا ہے۔ مزید یہ کہ سفر کے حالات اور تقاضے بھی مختلف ہوتے ہیں۔ جہاد میں مجاہد کو تازہ دم اور توانا رہنا چاہیے، کسی بھی وقت فریقِ مخالف سے ٹکرائو ہو سکتا ہے، فتحِ مکہ کا سفر رمضان المبارک میں پیش آیا۔ عزیمت پر عمل کرتے ہوئے بعض صحابہ نے روزہ رکھا ہوا تھا، پھر وہ نڈھال ہو گئے۔ رسول اللہﷺ نے اسے پسند نہ فرمایا: (1) ''حضرت جابر بن عبداللہؓ بیان کرتے ہیں: رسول اللہﷺ نے (فتحِ مکہ کے) سفر میں لوگوں کی بھیڑ دیکھی، وہ ایک شخص پر سایہ کیے ہوئے تھے۔ آپﷺ نے پوچھا: یہ کیا ہے؟ لوگوں نے عرض کی: یہ شخص روزے سے ہے (یعنی روزے نے اسے بے حال کر دیا ہے)، آپﷺ نے فرمایا: (جہاد کے موقع پر) سفر میں روزہ رکھنا نیکی نہیں ہے‘‘ (بخاری: 1946)، (2) ''حضرت انسؓ بیان کرتے ہیں: ہم (فتحِ مکہ کے) سفر میں نبیﷺ کے ساتھ تھے، ہم میں سے بعض نے روزہ رکھا اور بعض نے چھوڑ دیا، پس ہم ایک دن شدید گرمی میں ایک مقام پر اترے، تو جو روزے دار تھے، وہ گر پڑے، جبکہ روزہ چھوڑنے والوں نے خیمے تانے، جانوروں کو پانی پلایا، تو رسول اللہﷺ نے فرمایا: آج روزہ چھوڑنے والے روزے داروں پر اجر کمانے میں سبقت لے گئے‘‘ (بخاری: 2890)۔ اس کے برعکس نصاریٰ کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ''انہوں نے رضائے الٰہی کی خاطر رہبانیت کو ایجاد کیا جو ہم نے ان پر فرض نہیں کی تھی، پھر انہوں نے اس کی ایسی رعایت نہ کی جیسا کہ اس کاحق تھا‘‘ (الحدید: 27)۔ یعنی تعلیماتِ نبوت کو نظر انداز کر کے انہوں نے اپنی عقل سے رَہبانیت کو اختیار کیا، لیکن اس پر پورا نہ اتر سکے، پس شریعت کا وہی معیار انسانی فطرت کے لیے سازگار اور عقلِ سلیم کے مطابق ہے جو نبیﷺ کی تعلیم کے مطابق ہو، بعض اوقات انسان نیک نیتی سے ایک طریقہ اختیار کرتا ہے، لیکن وہ اس کے لیے مشکلات کا سبب بن جاتا ہے۔ احادیثِ مبارکہ میں ہے: (1) ''رسول اللہﷺ نے حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاصؓ سے پوچھا: ''عبداللہ! مجھے بتایا گیا ہے کہ تم دن کو روزہ رکھتے ہو اور رات کو قیام کرتے ہو، انہوں نے عرض کی: ہاں! یا رسول اللہﷺ! آپﷺ نے فرمایا: تم ایسا نہ کرو، کبھی روزے رکھ لیا کرو اور کبھی چھوڑ دیا کرو، رات کو نوافل پڑھا کرو اور کچھ دیر سو بھی جایا کرو، کیونکہ تمہارے جسم کا تم پر حق ہے، تمہاری آنکھوں کا تم پر حق ہے، تمہاری بیوی کا تم پر حق ہے، تمہارے مہمان کا تم پر حق ہے، سو تمہارے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ تم ہر مہینے تین دن (نفلی) روزے رکھ لیا کرو، کیونکہ اللہ تعالیٰ ہر نیکی کا اجر دس گنا عطا فرماتا ہے اور اس طرح تمہیں صائم الدہر (دائمی روزے دار) ہونے کا ثواب مل جائے گا۔ میں نے (رسول اللہﷺ کے اس مشورے پر عمل نہ کیا اور) اپنے اوپر سختی کی تو میرے لیے بھی سختی مقدر ہو گئی۔ میں نے عرض کی: یا رسول اللہﷺ! میں اپنے اندر قوت پاتا ہوں، تو آپﷺ نے فرمایا: پھر تم اللہ کے نبی دائود علیہ السلام کی طرح روزہ رکھ لیا کرو اور بس! میں نے عرض کی: دائود علیہ السلام کا روزوں کی بابت کیا معمول تھا؟ آپﷺ نے فرمایا: ایک دن چھوڑ کر روزہ رکھنا۔ حضرت عبداللہؓ بڑھاپے میں کہتے تھے: کاش کہ میں نے نبیﷺ کی دی ہوئی رخصت کو قبول کر لیا ہوتا‘‘ (بخاری: 1975)۔
(2) ''رسول اللہﷺ نے حضرت سلمان فارسی اور حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہما میں مواخات کا رشتہ قائم فرمایا، وہ ابودرداءؓ سے ملنے آئے،تو دیکھا کہ (ان کی بیوی) اُمِّ درداء پراگندہ حال ہیں۔ انہوں نے کہا: تم نے اپنا کیا حال بنا رکھا ہے۔ امِّ درداءؓ نے جواب دیا: تمہارے بھائی ابودرداء کو دنیاوی حاجات سے غرض ہی نہیں (تو میں کس کے لیے زینت اختیار کروں)، اتنے میں حضرت ابودرداءؓ آ گئے،انہوں نے حضرت سلمانؓ کو کھانا پیش کیا، حضرت سلمانؓ نے کہا: آپ بھی کھائیں۔ حضرت ابودرداءؓ نے کہا: میں روزے سے ہوں۔ حضرت سلمانؓ نے کہا: میں اس وقت تک نہیں کھائوں گا جب تک آپ نہیں کھائیں گے۔ پھر حضرت ابودرداءؓ نے کھانا کھایا۔ پھر جب رات ہو گئی تو ابودرداءؓ نماز پڑھنے کے لیے جانے لگے، حضرت سلمانؓ نے ان سے کہا: آپ سو جائیں، (مہمان کے اکرام میں) وہ سو گئے، (کچھ دیر بعد) وہ پھر نماز پڑھنے کے لیے اٹھے۔ حضرت سلمانؓ نے کہا: سو جائو، پھر جب رات کا آخری پہر ہوا تو حضرت سلمانؓ نے کہا: اب آپ اٹھیں، پھر دونوں نے نماز پڑھی، پھراُن سے حضرت سلمانؓ نے کہا: آپ کے رب کا آپ پر حق ہے، آپ کے نفس کا آپ پر حق ہے، آپ کی بیوی کا آپ پر حق ہے، آپ ہر حقدار کو اس کا حق دیں۔ پھر حضرت ابودرداءؓ نبی کریمﷺ کے پاس گئے اور آپ کو یہ قصہ سنایا۔ نبیﷺنے فرمایا: سلمان نے سچ کہا ہے‘‘ (بخاری: 1968)۔
الغرض راتوں کو عبادت میں قیام کرنے والوں اور تہجد گزاروں کی تعریف اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں فرمائی ہے، لیکن شریعت نے اس میں غُلُوّ کو پسند نہیں فرمایا، نہ اس بات کو ترجیح دی ہے کہ بندوں کے حقوق کو نظر انداز کر کے محض عبادت گزاری کو کُل دین سمجھ لیا جائے، کیونکہ کسی ایک شعبے کو اعلیٰ معیار پر اختیار کرنے اور باقی شعبہ جات کو ترک کرنے سے دین کی کُلّیت اور کامل بندگی کے تقاضے پورے نہیں ہوتے۔ دین توازن، اعتدال اور میانہ روی کا نام ہے۔
اسلام نے اس بات کو بھی پسندیدہ قرار نہیں دیا کہ اچانک جوش آئے اور کثرتِ عبادت میں مشغول ہو جائیں اور پھر کچھ دنوں کے بعد فرائض و واجبات اور سنتوں کے تارک بن جائیں۔ اسلام نوافل میں کثرت و طوالت کے مقابلے میں ہمیشگی کو ترجیح دیتا ہے: ''حضرت عائشہ صدیقہؓ بیان کرتی ہیں: رسول اللہﷺ نے فرمایا: درست کام کرو اور نیکی کے قریب تر رہا کرو، جان لو کہ تم میں سے کسی کا (محض) عمل اسے جنت میں داخل نہیں کرے گا (تاوقتیکہ اللہ کا فضل شاملِ حال نہ ہو) اور بے شک اللہ کی بارگاہ میں ہمیشگی والا عمل سب سے زیادہ پسندیدہ ہے خواہ وہ تھوڑا ہو‘‘ (بخاری: 6464)۔
ہم جب قرآنِ کریم کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہر عہد کے کفار کا ایک شِعار یہ نظر آتا ہے کہ وہ تعلیماتِ نبوت کے مقابلے میں تقلیدِ آباء کواختیار کرتے تھے، یعنی Status quo کے علمبردار تھے۔ وہ صحیح و غلط میں تمیز کیے بغیر ماضی کے ساتھ جڑے رہنے کو ترجیح دیتے تھے، جبکہ بندگی کا شِعار یہ ہے کہ جب حق آشکار ہو جائے تو اُسے قبول کر لیا جائے اور سرِ تسلیم خم کیا جائے۔ حضرت مسیَّبؓ بیان کرتے ہیں: وہ نبیﷺ کے پاس حاضر ہوئے، آپﷺ نے پوچھا: تمہارا نام کیا ہے؟ انہوں نے عرض کی: ''حَزْن‘‘، آپﷺ نے فرمایا: تم ''سَہل‘‘ ہو، انہوں نے عرض کی: میں اپنے باپ کے رکھے ہوئے نام کو تبدیل نہیں کروں گا۔ پھر وہ کہا کرتے تھے: اس کے بعد ہمارے خاندان کے مزاج میں ہمیشہ سختی رہی‘‘ (بخاری: 6190)۔ کیونکہ حَزن کے معنی سختی کے ہیں اور سہل کے معنی نرمی کے ہیں، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض صورتوں میں ناموں کی معنویت کا بھی شخصیت پر اثر مرتّب ہوتا ہے، اس لیے اچھے اور بامعنی نام رکھنے چاہئیں؛ البتہ حصولِ برکت کے لیے اگر اکابرِ امت کے نام پر نام رکھا جائے تو اس میں نسبت مراد ہوتی ہے۔ رسول اللہﷺ نے اُن کو نام بدلنے کا حکم نہیں فرمایا تھا، بلکہ مشورہ دیا تھا۔ شریعت کی رُو سے مشورے پر عمل کرنا لازم نہیں ہے، جبکہ واجب پر عمل کرنا لازم ہے۔ اس لیے رسول اللہﷺ اس میں صحابۂ کرامؓ کے لیے گنجائش رکھتے تھے۔
امام غزالی نے لکھا ہے: ''اللہ تعالیٰ نے جن اخلاقی صفات اور بشری مَلَکات سے انسان کو نوازا ہے، ان میں بھی اِفراط و تفریط نقصان دہ ہے اور توازن و اعتدال پسندیدہ ہے؛ چنانچہ غضب انسان کی فطرت میں ودیعت کیا گیا ہے، یہ ایک بہیمی صفت ہے، لیکن جب اسے شریعت کے تابع کر دیا جائے تو ملکوتی وصف بن جاتا ہے، اگر غضب میں افراط کیا جائے تو یہ انسان کو منتقم مزاج اور جارِح بنا دیتا ہے، اِسے تھَوُّر بھی کہتے ہیں، یہ انسان کے اندر بے رحمی پیدا کرتا ہے اور اگر اس میں تفریط کی جائے تو انسان بزدل بن جاتا ہے، لیکن اگر اس میں توازن اختیار کیا جائے تو یہ وصفِ محمود ''شَجاعت‘‘ کہلاتا ہے‘‘۔
یہی صورتِ حال ''اِنفاق‘‘ کی ہے کہ اس میں افراط اِسراف ہے، تبذیر ہے، شیطانی خصلت ہے اور تفریط بخل ہے، لیکن دو انتہائوں کے درمیان توازن اور اعتدال قائم ہو جائے تو اس سے وصفِ سخاوت پیدا ہوتا ہے جو انتہائی پسندیدہ صفت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کے اندر شہوات بھی رکھی ہیں، اس میں افراط بے حیائی، فحاشی، آوارگی اور بے آبروئی ہے، تفریط پژمردگی، اِضمحلال اور توازن و اعتدال حیا ہے، عفت ہے، پاک دامنی ہے۔ رشتۂ ازدواج میں منسلک ہونا سنتِ نبوی ہے اور مقاصدِ شرعیہ میں سے ہے۔