انسانوں کی ہدایت کے لیے اللہ تعالیٰ کا آخری کلام قرآنِ مجید ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ''اورکون ہے جس کی بات اللہ سے زیادہ سچی ہو‘‘ (النسآء: 87)۔ الغرض قرآنِ کریم کل بھی سچا تھا، آج بھی سچا ہے اور قیامت تک اس کی صداقت کی شہادتیں آتی رہیں گی۔ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں قیامت کے منظر کو یوں بیان کیا ہے: (1) ''ہم آج ان کے مونہوں پر مہر لگا دیں گے اور ان کے ہاتھ ہم سے کلام کریں گے اور ان کے پائوں ان کے کرتوتوں کی گواہی دیں گے‘‘ (یٰس: 65)، (2) ''اور جس دن اللہ کے دشمن آگ کی طرف ہانکے جائیں گے تو انہیں (سب کے جمع ہونے تک) روک دیا جائے گا، یہاں تک کہ جب وہ دوزخ کے پاس پہنچیں گے تو ان کے کان، ان کی آنکھیں اور ان کی کھالیں اُن کے خلاف ان کے اعمال کی گواہی دیں گی جو وہ (دنیا میں) کرتے رہے، وہ اپنی کھالوں کو کہیں گے: تم نے ہمارے خلاف کیوں گواہی دی، وہ کہیں گی: ہمیں اُسی اللہ نے گویائی عطا کی جس نے ہر چیز کوگویائی بخشی اور اُسی نے تمہیں پہلی بار پیدا کیا اور تمہیں دوبارہ اسی کی بارگاہ میں پیش کیا جائے گا اور تم اس بنا پر (بظاہر) اپنے گناہوں کو چھپاتے تھے (کہ تمہیں کوئی اندیشہ نہیں تھا) کہ (قیامت کے دن) تمہارے کان، تمہاری آنکھیں اور تمہاری کھالیں تمہارے خلاف گواہی دیں گی، بلکہ تمہارا گمان یہ تھا کہ اللہ تمہارے بہت سے کاموں کو جانتاہی نہیں، یہ تمہارا وہ گمان ہے جو تم اپنے رب کے بارے میں رکھتے تھے، اسی (بے خوفی) نے تمہیں ہلاک کر دیا، پس تم نقصان اٹھانے والوں میں سے ہو گئے‘‘ (حم السجدہ: 19 تا 23)۔
امام ابن جریر طبری نے لکھا ہے: ''اس مقام پر جُلُوْد (کھالوں) سے مراد شرم گاہیں ہیں (جو بدکاری کی گواہی دیں گی)‘‘۔ حدیثِ پاک میں ہے: ''نبیﷺ نے فرمایا: تم قیامت کے دن اس طرح آئو گے کہ تمہارے مونہوں پر چھینکا ہو گا اور سب سے پہلے آدمی کی ران اور ہتھیلی کلام کرے گی‘‘ (مسند احمد: 20026)۔ امام جعفر صادق سے روایت ہے: ''(جب ملائک کفار و مشرکین کی فردِ جرم پیش کریں گے) تو وہ کہیں گے: پروردگار! یہ فرشتے تیرے ہی تو ہیں جو تیرے لیے گواہی دے رہے ہیں، پھر وہ اللہ کی قسم کھائیں گے: انہوں نے یہ سب کچھ نہیں کیا، قرآنِ کریم میں ہے: جس دن اللہ انہیں اٹھائے گا تو وہ اس کے سامنے اسی طرح قسمیں کھائیں گے جیسے تمہارے سامنے کھاتے ہیں تو اُس وقت اللہ ان کی زبانوں پر مہر لگا دے گا اور ان کے اعضا گواہی دیں گے‘‘ (تفسیر فصل الخطاب، ج: 3، ص: 338)۔ غالب نے کہا تھا:
پکڑے جاتے ہیں فرشتوں کے لکھے پہ ناحق
آدمی کوئی ہمارا دمِ تحریر بھی تھا
حدیث پاک میں ہے: ''حضرت انس بن مالکؓ بیان کرتے ہیں: رسول اللہﷺ نے ایک دن تبسم کیا اور فرمایا: تم پوچھو گے نہیں کہ میں نے کس چیز پر تبسم کیا، صحابہ نے عرض کی: یا رسول اللہﷺ! آپ نے کس چیز پر تبسم فرمایا، آپﷺ نے فرمایا: میں نے اس بات پر تبسم کیا کہ بندہ قیامت کے دن اپنے رب سے جھگڑا کرے گا اور کہے گا: اے میرے رب! کیا تو نے مجھ سے وعدہ نہیں کیا تھا کہ تو مجھ پر ظلم نہیں کرے گا، اللہ فرمائے گا: یقینا میں نے یہ وعدہ کیا تھا، بندہ کہے گا: میں (اس فردِ جرم) کو تسلیم نہیں کروں گا تاوقتیکہ میرے خلاف کوئی گواہی پیش نہ کی جائے، اس پر اللہ تبارک و تعالیٰ فرمائے گا: کیا تیرے لیے میری اور اعمال نامہ لکھنے والے میرے معزز فرشتوں کی گواہی کافی نہیں ہے، وہ اسے بار بار ردّ کرے گا، پھر اللہ اس کے منہ پر مہر لگا دے گااور اُس کے اعضا اُس کے اعمال کو بیان کریں گے، پھر وہ (زِچ ہوکراپنے اعضا سے) کہے گا: تم پر لعنت ہو، میں تو تمہاری طرف سے ہی جھگڑ رہا تھا‘‘ (مسند البزار: 7446، تفسیر ابن کثیر، ج: 7، ص: 170)۔
الغرض انسان اپنے مختلف اعضا سے مختلف کام لیتا ہے، لیکن یہ ان اعضا کا یا اس شخص کا ذاتی کمال نہیں ہے، بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کا شاہکار ہے کہ اُس نے اِن اعضا میں یہ صلاحیتیں پیدا فرمائیں، وہ جب چاہے انہیں سلب فرما لیتا ہے: آنکھ ہوتی ہے مگر بینائی سے محروم ہوتی ہے، کان ہوتے ہیں، مگر سماعت سے محروم ہوتے ہیں، زبان ہوتی ہے مگر گویائی سے محروم ہوتی ہے، دماغ ہوتا ہے مگر سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے محروم ہو جاتا ہے۔ پس انسان کو اپنی کسی قابلیت و صلاحیت اور اہلیت پر ناز نہیں کرنا چاہیے، بلکہ ا للہ تعالیٰ کے فضل وکرم پر شکر گزار ہونا چاہیے، چنانچہ قیامت کے دن انسان حیرت زدہ ہوکر اپنی کھالوں سے کہے گا: ''تم نے ہمارے خلاف گواہی کیوں دی، وہ (اعضا) کہیں گے: ہمیں اُسی اللہ نے گویائی عطا کی جس نے ہرچیز کو گویائی کی صلاحیت بخشی‘‘۔
حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قول ہے: ''اِس انسان پر تعجب کرو، یہ چربی (کی ایک بوٹی آنکھ) سے دیکھتا ہے، گوشت کے ایک لوتھڑے (زبان) سے بولتا ہے، کان (کی نرم ہڈی) سے سنتا ہے اور (ناک کی) درمیانی ہڈی سے سانس لیتا ہے‘‘ (نہج البلاغہ، کلماتِ قِصار: 8)۔
انہی اعضا سے انسان دنیا کی زندگی میں اچھے اور برے کام کرتا ہے، گویا یہ اعضا آلات ہیں اور ان کے پیچھے کارفرما انسان کی نیت، ارادہ اور قوتِ عاقلہ ہے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے اگر ہم حکومت کی ہیئت حاکمہ کو ایک وجود سے تشبیہ دیں، تو اُس نظامِ حکومت کو کنٹرول کرنے والے حاکم کی مثال دل و دماغ کی سی ہے اور اُس کے افسرانِ اعلیٰ،کابینہ کے ارکان، مشیروں اورمعاونین کی مثال اعضا و جوارح کی ہے، وہ سب اقتدار کی نعمت سے لطف اندوز ہوتے ہیں اور حق و باطل،جائز و ناجائز اور صواب و خطا کی تمیز سے بے نیاز ہو کر اپنے آقا ولیِ نعمت کی خوشنودی کو مقدم رکھتے ہیں۔ وہ وہی بات کرتے ہیں، وہی رائے دیتے ہیں، وہی تجویز دیتے ہیں جو آقا کو پسند ہوتی ہے۔ لیکن جب ابتلا کا وقت آتا ہے تو یہی ارکانِ سلطنت اپنے آقا ولیِ نعمت کے خلاف سلطانی گواہ بن جاتے ہیں اور پھر وہ ان سے حیرت زدہ ہوکر پوچھتا ہے، جیسے انسان قیامت کے دن اپنے اعضا سے سوال کرے گا: ''تم نے ہمارے خلاف گواہی کیوں دی‘‘۔ اس کالم کا عنوان موجودہ حالات کے تناظر میں ذہن میں آیا، جب میڈیا نے رپورٹ کیا: سابق وزیرِاعظم کا سب سے معتمد شخص اور اُن کا پرنسپل سیکرٹری اُن کے خلاف سلطانی گواہ بن گیا ہے، سنا ہے: سلطانی گواہوں کی فہرست طویل ہے۔
ان آیاتِ مبارکہ سے معلوم ہوتا ہے: انسان اپنے جن اعضا و جوارح سے اپنے خالق و مالک کی نافرمانی کرتا ہے، وہی قیامت کے دن اُس کے خلاف سلطانی گواہ بن جائیں گے، اسی کو آج کل کی قانونی زبان میں ''وعدہ معاف گواہ‘‘ کہتے ہیں۔ فرق یہ ہے کہ آج کے سلطانی گواہ کو اپنے جرم کی معافی مل جاتی ہے، لیکن انسانی اعضا و جوارح کو قیامت میں معافی نہیں ملے گی، وہ بھی عذاب میں مبتلا ہوں گے۔
کاش! ہمارے ہر دور کے حکمران اللہ تبارک وتعالیٰ کے ان ارشادات سے سبق حاصل کریں اور نظامِ حکومت کو چلاتے ہوئے قدم قدم پر اس بات کو پیشِ نظر رکھیں کہ جو کچھ ہم کر رہے ہیں، اس کی جواب دہی کی نوبت بھی آ سکتی ہے اور آج جو ہمارے نظامِ حکومت کے اعضا و ارکان صحیح و غلط کی تمیز کے بغیر ہر بات پر داد و تحسین کرتے ہیں، ہلّا شیری دیتے ہیں اور اپنے آقا ولیِ نعمت کو یہ باور کراتے ہیں: ''کس کی مجال کہ آپ سے باز پرس کر سکے، کیونکہ آپ کا اقتدار و اختیار لازوال ہے، کوئی آپ کے مدِّمقابل ٹھہر نہیں سکتا، جو آئے گا اُسے نشانِ عبرت بنا دیا جائے گا‘‘۔ لیکن جب قدرت کا فیصلہ آتا ہے تو شطرنج کی ساری بساط الٹ جاتی ہے۔ علامہ اقبال نے کہا تھا:
اس کھیل میں، تعیینِ مراتب ہے ضروری
شاطر کی عنایت سے تو فرزیں، میں پیادہ
بے چارہ پیادہ تو ہے، اک مہرۂ ناچیز
فرزیں سے بھی پوشیدہ ہے، شاطر کا ارادہ
پھر وہ وقت آتا ہے جب ایک دوسرے کو مَورَدِ الزام قرار دے کر اپنی برأت کا راستہ تلاش کیا جاتا ہے، لیکن یہ تمام سعی بے سود ہوتی ہے، انسان قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کی عدالت میں بھی ایسے ہی حیلے اختیار کرے گا، کبھی شیطان کو قصوروار ٹھہرائے گا، کبھی اپنے سرداروں، رہنمائوں اور بڑوں کو ذمہ دار قرار دے گا۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: (1) ''جس دن اُن کے چہرے آگ میں الٹ پلٹ کیے جائیں گے، وہ کہیں گے: کاش ہم نے اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کی ہوتی اور کہیں گے: اے ہمارے رب! بے شک ہم نے اپنے سرداروں اور اپنے بڑوں کا کہا مانا، سو انہوں نے ہمیں (راہِ راست سے) گمراہ کر دیا، اے ہمارے رب! ان کو دگنا عذاب دے اور ان پر بہت بڑی لعنت فرما‘‘ (الاحزاب: 66 تا 68)، (2) ''اورکافرکہیں گے: اے ہمارے رب! ہمیں جِنّوں اور انسانوں میں سے اُن لوگوں کو دکھا جنہوں نے ہمیں گمراہ کیا تھا کہ ان کوہم اپنے پائوں تلے روند ڈالیں تاکہ وہ جہنم کے سب سے نچلے طبقے میں ہو جائیں‘‘ (حم السجدہ: 29)، (3) ''جب (آخرت میں جزا و سزا کا) فیصلہ ہو جائے گا تو شیطان کہے گا: اللہ نے تم سے سچا وعدہ کیا تھا اور میں نے بھی تم سے وعدہ کیا تھا، لیکن میں نے اس کی خلاف ورزی کی، میرا تم پر کوئی جبر نہیں تھا، ہاں! یہ بات ضرور تھی کہ میں نے تمہیں (گمراہی کی طرف) بلایا تو تم نے میری بات مان لی، لہٰذا اب مجھے نہیں بلکہ اپنے آپ کو ملامت کرو، آج نہ میں تمہاری مدد کر سکتا ہوں اور نہ تم میری مدد کر سکتے ہو، اس سے پہلے جو تم نے مجھے اللہ کا شریک بنایا تھا، میں اس کا انکار کرتا ہوں، بے شک ظالموں کے لیے دردناک عذاب ہے‘‘ (ابراہیم: 22)۔
الغرض قیامت کے دن شیطان بھی اپنا دامن جھاڑ لے گا اور نفسی نفسی کا عالَم ہو گا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ''اور اُس دن سے ڈرو جب کوئی شخص کسی شخص کا بدلہ نہ ہو سکے گا اور نہ (بلا اذنِ الٰہی) کسی شخص کی شفاعت قبول کی جائے گی، نہ کسی شخص سے فدیہ لیا جائے گا اور نہ اُن کی مدد کی جائے گی‘‘ (البقرہ: 48)، نیز اُس دن انسان کہے گا: ''میرا مال کسی کام نہ آیا اور میری حجت برباد ہو گئی‘‘ (الحاقّۃ: 28 تا 29)، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ''اے ایمان والو! جو مال ہم نے تمہیں عطا کیا ہے، اُس میں سے اُس دن کے آنے سے پہلے (اللہ کی راہ میں) خرچ کرو، جس میں لین دین نہیں ہو گا اور نہ دوستی کام آئے گی اور نہ (کافروں کے لیے) سفارش چلے گی‘‘ (البقرہ: 254)‘‘۔