قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو رسول اللہﷺ کی ذات کے ساتھ جوڑ کر ''اِثْنَیْن‘‘ سے تعبیر فرمایا اور سورۂ توبہ آیت: 40 میں غارِ ثور کے منظر کو اِن کلماتِ طیبات میں بیان فرمایا: ''دو میں سے دوسرا جب کہ وہ دونوں غار میں تھے، جب وہ اپنے صاحب سے فرما رہے تھے: غم نہ کرو، بے شک اللہ ہمارے ساتھ ہے، پس اللہ نے اُن پر قلبی طمانیت نازل فرمائی‘‘۔ اس آیت میں قرآنِ مجید کا کمالِ اعجاز ہے کہ رسول اللہﷺ اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ذکر ایک ساتھ فرمایا اور یہ ذکرِ مبارک اللہ تعالیٰ کو اس قدر پسند ہے کہ آیت کے ایک حصے میں دونوں کا مختلف انداز میں چھ‘ چھ بار ذکر فرمایا، اس کی تفصیل یہ ہے: تین مقامات میں دونوں کا ذکر ایک ہی کلمے میں ہے اور وہ ہیں:(1) 'اِثْنَیْن‘، (2) ضمیرِ تثنیہ 'ھُمَا‘، (3) 'مَعَنَا‘ میں ضمیر جمع متکلم۔ تین مقامات میں رسول اللہﷺ کا ذکر جدا ہے:(1) 'ثَانِیْ‘، (2) 'یَقُولُ‘ صیغہ واحد غائب، (3) 'لِصَاحِبِہٖ‘ میں 'ہ‘ ضمیرِ متصل۔ اسی طرح حضرت ابوبکر صدیقؓ کا ذکر بھی تین مقامات پر جدا ہے: (1) 'لِصَاحِبِہٖ‘ میں 'صاحب‘ سے مراد صدیقِ اکبرؓ ہیں، (2) 'لَا تَحْزَنْ میں واحد مذکر مخاطَب کی ضمیرِ مستتر 'اَنْتَ‘، (3) 'فَاَنْزَلَ اللّٰہُ سَکِیْنَتَہٗ عَلَیْہِ‘میں 'ہ‘ ضمیر متصل۔ اس کے علاوہ پوری آیت میں چار جگہ نبی کریمﷺ کا ذکرِ مبارک مزید بھی ہے: (1) 'اِلَّا تَنْصُرُوْہٗ‘ اور 'فَقَدْ نَصَرَہٗ‘ اور 'اِذْاَخْرَجَہٗٗ اور 'وَاَیَّدَہٗ‘ میں چار بار 'ہٗ‘ ضمیرِ متصل کا مرجع ذاتِ رسالت مآبﷺ ہے۔ گویا مجموعی طور پر رسول اللہﷺ کا ذکر دس مرتبہ آیا ہے۔
سفرِ ہجرت میں ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی رسول اللہﷺ کے ساتھ رفاقت اور غارِ ثور میں بلاشرکتِ غیرے معیّتِ مصطفیﷺ ایسا لارَیب شرف ہے کہ اِس کے مصداق میں اہلِ سنت اور اہلِ تشیُّع کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے۔ مشہور قول ہے: ''مَنْ اَحَبَّ شَیْئاً اَکْثَرَ ذِکْرَہٗ‘‘ یعنی جو جس سے محبت کرتا ہے، وہ اُس کا کثرت سے ذکر کرتا ہے، پس اللہ تعالیٰ کا اس ایک آیت میں رسول اللہﷺ اور آپ کے رفیقِ غار حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بالترتیب دس بار اور چھ بار مدح کے طور پر ذکر کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ یہ دونوں ہستیاں اللہ تعالیٰ کو محبوب ہیں۔ معیّت و رفاقت تو آج روضۂ انور میں بھی ہے، حشر میں بھی ہو گی اور یقینا جنت میں بھی ہو گی۔ امام فخر الدین رازی نے لکھا ہے: اللہ تعالیٰ نے النساء: 69 میں انعام یافتہ طبقات کا ذکر فرمایا اور اُس میں مقامِ نبوت کے بعد مقامِ صدیقیت کو بلافصل بیان کر کے بتا دیا کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک نبوت کے بعد یہ اعلیٰ ترین منصب ہے، اسی طرح آپﷺ کے بعد حضرت ابوبکر صدیق کی خلافت بھی بلا فصل ہے۔
قرآنِ مجید میں ایک سے زائد مرتبہ عظمتِ رسالت مآبﷺ کے لیے باری تعالیٰ نے یہ انداز اختیار فرمایا کہ جب مخالفین نے عِناد کی بنیاد پر رسول اللہﷺ پر کوئی الزام لگایا یا آپ پر عِیَاذاً بِاللّٰہ! کوئی طعن کیا تو اللہ تعالیٰ نے آپﷺ کی صفائی بیان فرمائی، بعینہٖ یہی شِعار ہمیں سیرتِ ابوبکرِ صدیق رضی اللہ عنہ کے بارے میں بھی نظر آتا ہے۔
حضرت سعید بن مسیَّب کی روایت میں ہے: آپ نے اپنے غلام نِسطاس کے عوض حضرت بلالؓ کو خرید کر آزاد کر دیا اور اُس کے پاس کافی مال تھا، وہ بھی اُمَیَّہ کو دے دیا۔ حضرت ابوبکرؓ نے اس سے کہا: تم مسلمان ہو جائو تو یہ سب مال تمہارا ہو جائے گا، اس نے انکار کر دیا جس وجہ سے حضرت ابوبکرؓ اس سے ناراض ہو گئے اور جب اُمَیَّہ نے کہا: میں بلال کو نِسطاس کے عوض بیچتا ہوں تو حضرت ابوبکرؓ نے اس کو غنیمت جانا اور نِسطاس کے عوض حضرت بلالؓ کو خرید لیا۔ اس موقع پر مشرکین نے طعن کیا اور کہا: ابوبکر نے جو بلال کو اتنی مہنگی قیمت پر خریدا ہے، لازم ہے کہ بلال نے اُن پر کوئی احسان کیا ہو گا، جس کا بدلہ انہوں نے چکایا ہے۔ اُس موقع پر یہ آیات نازل ہوئیں: ''اور عنقریب جہنم کی اِس آگ سے اُسے دور رکھا جائے گا، جو سب سے زیادہ متقی ہے، (یہ وہ شخص ہے) جو اپنا مال اس لیے دیتا ہے کہ (اُس کا دل ) پاک ہو جائے اور اُس پر کسی کا کوئی احسان نہیں ہے جس کا بدلہ چکایا جا رہا ہو، وہ اپنے بزرگ و برتر پروردگار کی رضا کے لیے (مال خرچ کرتا ہے) اور عنقریب وہ ضرور راضی ہو گا، (اللیل: 17 تا 21)‘‘ (السیرۃ النبویہ، ج: 1، ص: 354 تا 355، داراحیاء التراث العربی، بیروت)۔ اَھْلُ السُّنّۃ والجماعۃ کے تمام مفسرین کا اس امر پر اتفاق ہے کہ اِن آیاتِ مبارکہ کا مصداق صرف اور صرف حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے مختلف مواقع پر دیکھا کہ حضرت بلالؓ بن رباح پر اُن کا آقا بے پناہ ظلم کرتا تھا، تو حضرت ابوبکر صدیق نے انہیں خرید کر اللہ کی رضا کے لیے آزاد کر دیا۔ اسی طرح آپؓ نے چھ غلاموں کو اُن کے آقائوں کے ظلم و ستم سے بچانے کے لیے خرید کر آزاد کیا،اُن کے نام یہ ہیں: (1) عامر بن فہیرہ، یہ بئر معونہ کے موقع پر شہید ہوئے، (2) اُمِّ عُمَیس، (3) زُنَیرہ، اِن کی بینائی چلی گئی تھی، اللہ تعالیٰ نے کفار کے طعن کے بعد لوٹا دی، (4، 5) نہدیہ اور اُن کی بیٹی، (6) بنو مؤمل کی باندی۔
اللہ تبارک و تعالیٰ نے تمام انبیائے کرام علیہم السلام کو بلند درجات عطا فرمائے ہیں، لیکن اُن میں سے بعض کو بعض پر درجات میں فضیلت حاصل ہے اور یہی تفضیلِ درجات اللہ تعالیٰ کے انبیائے کرام و رُسلِ عظام کے درمیان بھی موجود ہے اور اس کا بیان اللہ تعالیٰ نے سورۂ بقرہ آیت: 253 میں فرمایا ہے۔ خود رسول اللہﷺ نے بھی دیگر انبیائے کرام علیہم السلام پر اپنی فضیلت کی وجوہ کو صراحت کے ساتھ بیان فرمایا ہے، اگرچہ اپنی جگہ ہر نبی کا رُتبہ بلند ہے۔ اسی طرح تمام اہلِ بیت اطہار اور صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اعلیٰ مراتب کے حامل ہیں، ہماری عقیدت و محبت کا مرجع اور محور ہیں اورہم اُن میں سے کسی کی بھی تنقیص کا تصور نہیں کر سکتے، لیکن ان کے درمیان باہم ایک دوسرے پر فضیلت کی گنجائش موجود ہے اور قرآن و سنت میں مختلف انداز میں اس کا بیان بھی ہے۔ لیکن اس باہم تفاضُل کا بیان نفسُ الامر اور حقیقتِ واقعی کے طور پرہونا چاہیے، اِس سے تعریض، توریہ، اشارہ و کنایہ اور ایہام کے طور پر کسی دوسرے صحابی کی تنقیص مراد لینا باطل ہے۔ حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ ہمیشہ ایثار اور جاں نثاری کا استعارہ اور حوالہ رہے اور ان شاء اللہ العزیز تاقیامت رہیں گے۔
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی ذات پر سید المرسلینﷺ کے غیر معمولی اعتماد کا ثبوت یہ ہے کہ آپﷺ نے نہ صرف انہیں بلکہ اُن کے پورے گھرانے کو ہجرت کی تیاری اور سفرِ ہجرت کے موقع پر امین بنایا، اس میں اُن کی بیوی، صاحب زادی، فرزند اور غلام، الغرض سب شامل تھے۔ یہ حضرتِ ابوبکر صدیق کی استقامت ہی تھی کہ خاتم النبیینﷺ کے وصالِ مبارک کے بعد انتہائی نازک دور میں امورِ خلافت کو سنبھالا اور اُسے منہاجِ نبوت پر اُستوار کیا۔ آپؓ ہی نے یہ شِعار قائم کیا کہ حالات کیسے ہی پُرخطر کیوں نہ ہوں، اطاعت و اتّباعِ مصطفیﷺ سے انحراف نہیں کیا جائے گا اور ''مقامِ اُبْنیٰ‘‘ کی طرف ''جیشِ اُسامہ‘‘ کی روانگی اس کی روشن مثال ہے۔ آپؓ نے یہ شِعاربھی قائم کیا کہ حالات کتنے ہی ناسازگار ہوں، اصولوں پر کوئی مفاہمت نہیں ہو سکتی، منکرینِ زکوٰۃ اور منکرینِ ختمِ نبوت کی سرکوبی اس کی واضح مثال ہے۔ آپؓ نے اپنے اوّلین خطبۂ خلافت میں اپنا منشور بیان کرتے ہوئے یہ اصول وضع کیا کہ ہر تنقید سے بالاتر اور معصوم عن الخطا صرف ذاتِ رسالت مآبﷺ ہے، آپؓ کے بعد ہر صاحبِ اقتدار و اختیار کو قرآن و سنت کے معیار پر پرکھا جائے گا اور اِسی پیمانے پر اُس سے اتفاق یا اختلاف کیا جا سکے گا، کوئی بڑے سے بڑا صاحبِ منصب اپنی ذات میں قطعی حجت نہیں ہے۔
''ثانی اثنین‘‘ کا مظہر صرف سفرِ ہجرت پر ہی موقوف نہیں ہے، بلکہ رسول اللہﷺ کی تئیس سالہ نبوی زندگی میں قدم قدم پر یہ منظر ہمیں نظر آئے گا۔ آپؓ ایمان اور دعوت وتبلیغِ دین میں بھی ''ثانی اثنین‘‘ ہیں، اسلام کے ابتدائی دور میں آپؓ ہی کی دعوت و ترغیب سے اسلام کے تابندہ ستارے حضرت عثمان بن عفان، عثمان بن مظعون، طلحہ بن عبیداللہ، زبیر بن عوام، عبدالرحمن بن عوف اور سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہم مشرّف بہ اسلام ہوئے۔ اِن میں سے پانچ حضرات عَشرۂ مبشّرہ میں سے ہیں جنہیں رسول اللہﷺ نے دنیا ہی میں جنت کی بشارت دیدی تھی۔ اسی طرح رسول اللہﷺ جب مرضِ وفات میں مبتلا ہوئے، تو آپﷺ نے حضرت ابوبکرصدیق کو مصلّیٰ امامت پر اپنا جانشین بنایا اور آپؓ نے رسول اللہﷺ کی حیاتِ ظاہری میں سترہ نمازوں کی امامت فرمائی۔
جب حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بیعت کی گئی توحضرت علی کرم اللہ وجہہ اور اُن کے ساتھیوں نے بیعت کی، اُس موقع پر حضرت ابوبکرؓ تین مرتبہ کھڑے ہو کر لوگوں کی جانب متوجہ ہوئے اور فرمایا: لوگو! میں نے تمہاری بیعت کو لوٹا دیا ہے، مبادا تم میں سے کوئی اس بات کو ناپسند کرے، ابوجحّاف بیان کرتے ہیں: پھر حضرت علیؓ کھڑے ہوئے اور فرمایا: اللہ کی قسم! ہم آپ کی بیعت کو واپس نہیں لیں گے اور نہ کبھی اس کا مطالبہ کریں گے، آپ کو رسول اللہﷺ نے نماز میں ہمارا امام بنایا، تو کون ہے جو آپ کو (خلافت میں) پیچھے رکھے۔ (فضائل الصحابہ لامام احمد بن حنبل: 101)۔ شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمہ اللہ تعالیٰ نے ''لمعات‘‘ میں اسی کے ہم معنی روایت لکھی ہے۔