اس کالم کا عنوان علامہ اقبال کی اس فارسی نظم کے ایک شعر کا پہلا مصرع ہے، اس نظم کے چند اشعار درج ذیل ہیں:
مَن شَبے صدیق را دیدم بخواب
گل زِخاکِ راہِ اُو چیدم بخواب
آں اَمَنُّ النَّاس بر مولائے ما
آں کلیمے اوّلِ سینائے ما
ہمت اُو کِشتِ ملّت را چو ابر
ثانیِ اسلام و غار و بدر و قبر
گفتمش اے خاصّۂ خاصانِ عشق
عشقِ تو سِرّے مَطلعِ دیوانِ عشق
پختہ از دستت اساسِ کارِ ما
چارہ فرمائے آزارِ ما
نوٹ: ''اَمَنّ‘‘ کے معنی ہیں: '' بہت زیادہ احسان کرنے والا‘‘۔
مفہومی ترجمہ: ''ایک رات میں نے خواب میں حضرت ابوبکر صدیقؓ کو دیکھا، آپ کی خاکِ راہ سے میں نے عالمِ خواب میں چند پھول چُنے۔ وہ صدیق جو ہمارے آقا و مولا سیدنا محمد رسول اللہﷺ پر سب سے زیادہ احسان کرنے والے اور ہمارے ''کوہِ سینا‘‘ کے پہلے کلیم اور ہمراز ہیں‘‘ (''سینائے ما‘‘ سے مراد غارِ ثور لیا جا سکتا ہے، کیونکہ اس موقع پر رسول اللہﷺ کے ہمراز و کلیم صرف جنابِ صدیق اکبرؓ تھے)۔ اُن کی عزیمت کشتِ ملّت کے لیے ابرِ رحمت کی طرح ہے، وہ اسلام قبول کرنے میں اور غارِ ثور، غزوۂ بدر اور روضۂ انور میں آپﷺ کے ثانی ہیں۔ الغرض وہ نبوت کے تئیس سالہ دور میں اور بعد از وصال آپﷺ کے رفیق ہیں۔ میں نے اُن سے عرض کی: اے عشقِ نبوت کے سرخیلوں کے تاجدار! کتابِ عشق کا عنوان اور اُس کا سربستہ راز آپ ہی تو ہیں۔ آپؓ ہی کے دستِ مبارک سے تاجدارِ نبوتﷺ کے وصالِ مبارک کے بعد ''خلافت علیٰ منہاجِ النُّبوّۃ‘‘ کی بنیاد پڑی، آج امت ایک بار پھر مصیبت میں مبتلا ہے، اس مشکل میں آپ ہماری چارہ گری فرمائیے‘‘۔
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا جو جواب علامہ اقبال نے اپنی دانش کے مطابق اشعار میں رقم کیا ہے، اس کا خلاصہ یہ ہے: ''حرص و ہوس کو چھوڑو اور سورۂ اخلاص سے توحید کی آب و تاب کو حاصل کرو۔ یہ جو ہزاروں سینوں میں ایک ہی سانس رواں دواں ہے، یہ توحید کے رازوں میں سے ایک راز ہے۔ اے اہلِ ایمان! توحید کے سانچے میں ڈھل کر سب اُسی کے رنگ میں رنگ جائو اور اُس کا عکس بن جائو۔ وہ ذات جس نے تمہارا نام مسلمان رکھا ہے، وہ تمہیں وحدتِ ملّت کی لڑی میں پروئے ہوئے دیکھنا چاہتی ہے اور تو ترک و افغان کہلانا پسند کرتا ہے، یعنی تم نے قومیتوں، اوطان اور قبیلوں میں بٹ کر اپنی وحدت کو پارہ پارہ کر دیاہے۔ ایک بار پھر توحید کو اپنی اساس اور پہچان بنائو اور قبائل یا اقوام میں منقسم ہوکر اپنی وحدت کو پارہ پارہ نہ کرو۔ اے مسلم! تو نے اپنے آپ کو سو ملّتوں میں منقسم کر کے خود ہی اپنی وحدت پر شب خون مارا۔ سو ایک بار پھر اپنے گمشدہ عقیدۂ توحید میں ڈھل کر ایک ہو جائو، ایمان کی لذت عمل سے بڑھتی ہے اور بے عمل کا ایمان مردہ ہو جاتا ہے‘‘۔
علامہ اقبال نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب کر کے وہی بات کہی، جو اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں بیان فرمائی ہے: ''(تم اُن سے کہو:) ہم نے خود کو اللہ کے رنگ میں رنگ لیا ہے اور اللہ کے رنگ سے بہتر اور کس کا رنگ ہوگا اور ہم اُسی کی عبادت کرتے ہیں‘‘ (بقرہ: 138)، اِسی مفہوم کو مولانا عبدالرحمن جامی نے اپنے شعر میں منظوم کیا ہے:
بندۂ عشق شُدی، ترکِ نسب کُن جامی
کہ دریں راہ، فلاں ابن فلاں چیزے نیست
ترجمہ: ''شِعارِ عشق میں ڈھل جائو اور نسب پر اِترانا چھوڑ دو، کیونکہ راہِ عشق میں نسب نہیں پوچھا جاتا، مقصد سے لگن اور ایثار کی اصل اہمیت ہوتی ہے‘‘۔ مولانا جامی کی عشق سے مراد یہ ہے کہ راہِ حق میں نفع و نقصان کو نہیں دیکھا جاتا، بلکہ مقصد اور نظریے سے غیر مشروط وابستگی اصل متاع ہوتی ہے۔ اسی مفہوم کو علامہ اقبال نے اپنے اردو شعر میں بیان کیا ہے:
عقل عیّار ہے، سو بھیس بدل لیتی ہے
عشق بے چارہ نہ مُلّا نہ زاہد نہ حکیم
علامہ اقبال کے جس مصرعے کو ہم نے کالم کا عنوان بنایا ہے، وہ اس حدیثِ مبارک سے ماخوذ ہے: ''حضرت ابوسعید خُدریؓ بیان کرتے ہیں: نبیﷺ نے فرمایا: تمام لوگوں میں سے اپنی رفاقت اور مال کے ذریعے مجھ پر سب سے زیادہ احسان کرنے والے ابوبکر ہیں‘‘ (بخاری:3624)۔ ایک اور حدیث میں نبی کریمﷺ نے فرمایا: ''ہم پر جس کا بھی کوئی احسان ہے اُس کا صلہ ہم نے عطا کر دیا، سوائے ابوبکر کے،کیونکہ اُن کے ہم پر اتنے احسانات ہیں جن کا صلہ اللہ تعالیٰ انہیں قیامت کے دن عطا فرمائے گا اور مجھے (یعنی دینِ اسلام کو ) کسی کے مال نے اتنا نفع نہیں پہنچایا، جتنا کہ ابوبکر کے مال نے پہنچایا ہے‘‘ (سنن ترمذی: 3661)۔ یہ آپؓ ہی کا امتیاز ہے کہ آپ نے اپنا سارا مال اللہ کی بارگاہ اور اُس کے رسولﷺ کے قدموں میں دین کی سربلندی کے لیے نچھاور کر دیا۔ احادیثِ مبارکہ میں ہے:(1) ''حضرت عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: رسول اللہﷺ نے ہمیں مال صدقہ کرنے کا حکم دیا، (اس موقع پر) میرے پاس کثیر مال موجود تھا تو میں نے دل میں کہا: ''اگر میں کبھی ابوبکرؓ پر سبقت لے جا سکتا ہوں تو وہ آج ہی کا دن ہے۔ حضرت عمرؓ کہتے ہیں: میں (گھر) آیا اور آدھا مال لے کر حضورﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا، رسول اللہﷺ نے پوچھا: گھر والوں کے لیے کیاچھوڑا ہے؟ میں نے کہا: بقیہ نصف مال گھر والوں کے لیے چھوڑا ہے۔ اتنے میں حضرت ابوبکرؓ اپنا مال لے کر حاضر ہوئے، آپﷺ نے فرمایا: اپنے گھر والوں کے لیے کیا چھوڑا ہے ؟ حضرت ابوبکرؓ نے عرض کیا: گھر والوں کے لیے اللہ اور اُس کے رسول کا نام باقی چھوڑا ہے۔ حضرت عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے دل میں کہا: میں کبھی بھی حضرت ابوبکرؓ سے سبقت نہیں لے سکتا‘‘ (ترمذی: 3675)، (2) حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: '' حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ جب اسلام لائے تو اُس وقت اُن کے پاس گھر میں چالیس ہزار درہم موجود تھے، لیکن جب آپؓ مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کے لیے نکلے تو اُس وقت آپ کے پاس صرف پانچ ہزار درہم رہ گئے تھے، آپؓ نے یہ ساری رقم غلاموں کو آزاد کرنے اور اسلام کی خدمت پر خرچ کر دی‘‘ (تاریخ دمشق، ج: 30، ص: 68)۔
ان احادیثِ مبارکہ میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے اسلام اور نبی کریمﷺ پر احسانات کا بیان ظاہری صورت کے اعتبار سے ہے اور نبی کریمﷺ کا یہ شِعار تھا کہ آپﷺ اپنے جانثاروں کی حوصلہ افزائی فرماتے تھے تاکہ دوسروں میں اُن کی تقلید اور پیروی کا جذبہ پیدا ہو، ورنہ حقیقتِ حال کے اعتبار سے ہر مسلمان نبی کریمﷺ اور اسلام کا ممنون ہے، کیونکہ ایمان اور اسلام سے برتر کسی نعمت کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ''اَعراب نے کہا: ہم ایمان لائے، آپ کہیے: (در حقیقت) تم ایمان نہیں لائے، ہاں‘ یوں کہو: ہم نے اطاعت کی اور ابھی تک ایمان تمہارے دلوں میں داخل نہیں ہوا، اور اگر تم اللہ اور اُس کے رسول کی اطاعت کرو گے، تو اللہ تمہارے (نیک) اعمال میں کوئی کمی نہیں کرے گا، بے شک اللہ بہت بخشنے والا، بے حد رحم فرمانے والا ہے۔ (درحقیقت) ایمان لانے والے تو صرف وہی ہیں جو اللہ اور اُس کے رسول پر ایمان لائے، پھر انہوں نے کوئی شک نہ کیا اور اپنے مالوں اور اپنی جانوں سے اللہ کی راہ میں جہاد کیا، (دعوائے ایمان میں) وہی سچے ہیں۔ آپ کہیے: کیا تم اللہ کو اپنے دین کی خبر دے رہے ہو؟ حالانکہ آسمانوں اور زمینوں میں جو کچھ ہے، اللہ اُسے جانتا ہے اور اللہ ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے۔ (اے رسولِ مکرّم!) یہ آپ پر احسان جتاتے ہیں کہ وہ اسلام لے آئے، آپ کہیے: مجھ پر اپنے اسلام کا احسان نہ جتائو، بلکہ اللہ تم پر احسان فرماتا ہے کہ اس نے تمہیں ایمان لانے کی ہدایت دی، اگر تم سچے ہو‘‘ (الحجرات: 14 تا 17)۔
ذاتِ رسالت مآبﷺ جملہ اہلِ ایمان سمیت پوری کائنات کیلئے اللہ تعالیٰ کی عظیم ترین نعمت ہیں اور اللہ تعالیٰ کے جملہ انعامات میں سے یہ واحد نعمت ہے جس کا اللہ تعالیٰ نے اہلِ ایمان پر تاکیدات کیساتھ احسان جتلایا ہے، ورنہ اللہ تعالیٰ کی نعمتیں تو بے شمار ہیں اور اُن کا احاطہ کرنا انسان کے بس میں نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ''اور اگرتم اللہ کی نعمتوں کو شمار کرنے لگو تو اُنہیں شمار نہیں کر پائو گے‘‘ (ابراہیم: 34)۔ شیخ سعدی شیرازی نے کہا: ''سانس اللہ کی بیش بہا نعمت ہے، ہر وہ سانس جو انسانی وجود کے اندر آتی ہے، اُس سے انسان کی حیات ایک سانس کی مقدار دراز ہو جاتی ہے، ورنہ انسان کی موت واقع ہو جائے اور ہر وہ سانس جو باہر آتی ہے، فرحت و انبساط کا باعث بنتی ہے، ورنہ دم گھٹنے سے انسان کی موت واقع ہو جائے‘‘۔
حضرت ابوبکر صدیقؓ کی رسول اللہﷺ سے فطری مناسبت کا عالَم یہ تھا کہ جب آپﷺ غارِ حرا سے پہلی وحیِ ربّانی لے کر اپنے گھر آئے اور بشری تقاضے کے تحت آپ پر نبوت کی بھاری ذمہ داری کے احساس سے گھبراہٹ طاری تھی تو آپﷺ کی رفیقۂ حیات حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے آپ کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا: ''اللہ کبھی بھی آپ کو شرمندگی سے دوچار نہیں فرمائے گا، کیونکہ آپ صلۂ رحمی کرتے ہیں، ناداروں کے کام آتے ہیں، کمزوروں کا بوجھ اٹھاتے ہیں، مہمان نوازی کرتے ہیں اور حق کی راہ میں مصیبت میں مبتلا لوگوں کی مدد کرتے ہیں‘‘ (صحیح بخاری: 4953)۔ اسی طرح جب حضرت ابوبکر صدیقؓ اہلِ مکہ کے مظالم سے تنگ آکر ہجرت کے ارادے سے نکلے تو راستے میں مکے کے ایک رئیس ابن الدغنہ سے ملاقات ہوئی، اُس نے کہا: ''(اے ابوبکرؓ!) آپ جیسے بلند کردار کے حامل شخص کو نہ تو اپنا وطن چھوڑ کر جانا چاہیے اور نہ ہی ایسے شخص کو جلاوطن کرنا چاہیے، کیونکہ آپ صلۂ رحمی کرتے ہیں، ناداروں کے کام آتے ہیں، کمزوروں کا بوجھ اٹھاتے ہیں، مہمان نوازی کرتے ہیں اور حق کی خاطر مصیبت میں مبتلا لوگوں کی مدد کرتے ہیں‘‘ (سبل الھدیٰ و الرشاد، ج: 2، ص: 410)۔