ہم نے ''سبز باغ‘‘ کے عنوان سے 11 جنوری کو کالم لکھا تھا، آج ''سَراب‘‘ کے عنوان سے اُسی موضوع پر چند گزارشات پیش کی جا رہی ہیں۔ تقریباً تمام جمہوری ممالک میں یہ روایت ہے کہ قومی انتخابات میں حصہ لینے والی سیاسی جماعتیں اپنا منشور پیش کرتی ہیں اور اُس کی بنا پر دعویٰ کرتی ہیں کہ وہ حکومت پر فائز ہونے کی سب سے زیادہ حق دار ہیں، اس حوالے سے آئندہ دورانیے کے لیے مستقبل کے وعدوں پر مشتمل جو دستاویز قوم کے سامنے پیش کی جاتی ہے، اُسے سیاسی اصطلاح میں ''منشور‘‘ کہا جاتا ہے۔ اردو ڈکشنری بورڈ کی مرتّبہ ڈکشنری میں منشور کے معنی ہیں: ''نافذ العمل تحریر، وہ دستاویز جو معاہدے پر مشتمل ہو، شاہی فرمان، پروانہ، حکم نامہ، وغیرہ‘‘۔ الغرض ہر جماعت آئندہ پانچ سال تک اپنے آپ کو حکمرانی کا سب سے بہتر حق دار قرار دینے کے لیے بلند بانگ دعوے کرتی ہے، پُرکشش اور دلربا منشور پیش کرتی ہے، سب کو معلوم ہے کہ انتخابات کے بعد یہ منشور طاقِ نسیاں پر رکھ دیا جائے گا، پس منظر میں چلا جائے گا اورحکمرانوں کو نئے حالات میں نئے درباری اور نورتن مل جائیں گے۔
کسی چٹیل میدان میں ریت کے شفاف ذرات ہوں، ان پر سورج کی تیز کرنیں پڑیں تو دور سے دیکھنے والے پیاسے کو یہ چمک پانی کی طرح نظر آتی ہے اور وہ اس کی طرف چل پڑتا ہے، لیکن جب وہاں پہنچتا ہے تو پانی کا نام و نشان نہیں ہوتا، اسی کو ''سَراب‘‘ کہتے ہیں، قرآنِ کریم میں ہے: ''اور کافروں کے اعمال کی مثال چٹیل میدان میں سَراب کی سی ہے کہ پیاسا اُسے پانی گمان کرتا ہے، یہاں تک کہ جب وہ وہاں پہنچتا ہے تو وہاں کچھ نہیں پاتا‘‘ (النور: 39)۔ شاعر نے کہا ہے:
ہستی اپنی حَباب کی سی ہے ؍ یہ نمائش سراب کی سی ہے
''سبز باغ‘‘ کے عنوان سے ہم نے پاکستان پیپلز پارٹی، جماعتِ اسلامی اور تحریکِ لبیک پاکستان کے انتخابی منشور پر بات کی تھی، اب مسلم لیگ (ن) کا تفصیلی منشور بھی آ چکا ہے۔ حسین اور پُرکشش وعدے یقینا دل کو لبھاتے ہیں، مگراُن کی عملی تصویر اور تعبیر پیش نہیں کی جاتی۔ ترقی یافتہ ممالک میں حکومت کی کامیابی عوام کو زیادہ سے زیادہ روزگار کے مواقع فراہم کرنے کو قرار دیا جاتا ہے، جبکہ ہمارے ہاں مقابلہ یوتھ کارڈ، خواتین کارڈ، مزدور کارڈ، کسان کارڈ، صحت کارڈ الغرض معاشرے کے ہر طبقے کے لیے اعانتی کارڈکے اجرا میں ہے، لیکن اس سے جو تصویر سامنے آتی ہے، وہ یہ ہے کہ ہم ایک ''وظیفہ خور‘‘ قوم تیار کر رہے ہیں، اگر سب کو گھر بیٹھے سب ضرورتیں مل جائیں، تو اس سے اچھی بات کیا ہے، لیکن کسی منشور میں یہ واضح نہیں ہے کہ سخاوت کے اس سمندر کے لیے وسائل کہاں سے آئیں گے، داخلی اور خارجی قرضوں کا جو انبار ہماری قوم پر لدا ہوا ہے، اُس سے چھٹکارا کیسے ملے گا، آئندہ ہم قرضوں کی لَت سے نجات کیسے پائیں گے، سو یہ ''ملین ڈالر‘‘ کا سوال ہے۔ سرِ دست تو دیوار پر یہ لکھا ہے: ''جس جماعت کی بھی حکومت آئے، اُسے اولین فرصت میں آئی ایم ایف، عالمی مالیاتی اداروں اور مہربان حکومتوں کا دروازہ کھٹکھٹانا پڑے گا‘‘۔
مسلم لیگ (ن) کے منشور میں بعض آئینی ترمیمات کا عزم بھی شامل ہے، اُن میں سے ایک دستور کے آرٹیکل 62/63 میں ترمیم کر کے اُسے 1973ء کے اصل آئین کے مطابق بنانا ہے اور جنرل ضیاء الحق کے زمانے میں صادق و امین وغیرہ کے جو اضافے کیے گئے تھے، انہیں ختم کر دیا جائے گا، کیونکہ اُن کے لیے کوئی لگی بندھی کسوٹی نہیں ہے۔ انہوں نے دوسری ترمیم یہ تجویز کی ہے کہ صدر پارلیمنٹ کا حصہ نہیں ہے، کیونکہ صدر عارف علوی نے پارلیمنٹ کے پاس کیے ہوئے بعض قوانین کو روکے رکھا، بعض کو واپس پارلیمنٹ بھیج دیا، یہ دراصل تاخیری حربے تھے، کیونکہ اُس وقت پارلیمنٹ میں اتحادی حکومت تھی اور صدرِ مملکت کا تعلق پی ٹی آئی سے تھا۔مسلم لیگ (ن) نے دعویٰ کیا ہے: اُن کا منشور حقیقت پسندی پر مبنی ہے اور وہ اس پر کامیابی سے عمل کر سکتے ہیں، لیکن اُن کے منشور میں بھی آمد و خرچ میں توازن کا کوئی حل نہیں دیا گیا ہے، اسی طرح نیب کے ادارے کو ختم کرنے کی بات بھی کی گئی ہے، لیکن اس کے لیے پارلیمنٹ میں دو تہائی اکثریت چاہیے۔
دانشمندی کا تقاضا تو یہ ہے: عوام کو مشکل وقت کے لیے ذہنی طور پر تیار کیا جائے، ملک و قوم کے سر پر قرضوں کا جو انبار لدا ہے، اُس سے آگاہ کیا جائے، قرضوں کا یہ انبار عنقریب ہماری جی ڈی پی یعنی مجموعی قومی آمدنی کے برابر ہو جائے گا۔ ہم مالی وسائل میں اضافہ کرنے کے بجائے اپنے قومی اثاثوں کو گروی رکھنے اور اُن پر صکوک جاری کرنے کی سوچ رہے ہیں، ان صکوک پر جو اصل رقم مع نفع ادا کرنا ہو گی، وہ کہاں سے آئے گی، کیونکہ ان جامد اثاثوں مثلاً: موٹر ویز، ایئر پورٹس وغیرہ سے اتنی آمدنی حاصل نہیں ہوتی کہ یہ ساری ادائیگیاں کی جا سکیں، ان ادائیگیوں کی ضامن بھی وفاقی حکومت ہو گی، جو پہلے ہی بے انتہا مالی دبائو کا شکار ہے۔ بعض غیر منافع بخش قومی ادارے مثلاً ریلوے، پی آئی اے، ایئر پورٹس، پاکستان سٹیل وغیرہ کو فروخت کرنے کا بھی پروگرام تیار کیا جا رہا ہے، اس کی بابت بھی حقیقی صورتِ حال یہ ہے: جو جماعت اقتدار میں ہوتی ہے، وہ ان قومی اثاثوں کو بیچنا چاہتی ہے، لیکن جو جماعتیں حزبِ اختلاف میں ہوتی ہیں، وہ اس نجکاری کی مخالفت کرتی ہیں اور جب حکمراں جماعت دوسری چھوٹی جماعتوں کی بیساکھیوں یا سادہ اکثریت پر کھڑی ہو تو وہ دبائو کا مقابلہ نہیں کر سکتی، لہٰذا اداروں کی نجکاری نہیں ہو پاتی، کیونکہ ان اداروں کے ملازمین بھی سدِّ راہ بنتے ہیں، ہڑتالیں کرتے ہیں، کیونکہ اُنہیں روزگار سے محروم ہونے کا اندیشہ لاحق ہوتا ہے۔
پاکستان ایک زرعی ملک ہے، اس کا تقاضا یہ ہے: ہم اپنی زرعی اجناس میں خودکفیل ہوں، بلکہ اضافی پیداوار حاصل کرکے زرِ مبادلہ بھی کما سکیں، جبکہ حال یہ ہے: ہمیں بنیادی زرعی اجناس، گندم، دالیں وغیرہ بھی دوسرے ممالک سے درآمد کرنا پڑتی ہیں، اسی طرح ہم خوردنی تیل کی پیداوار میں خود کفیل نہیں ہیں، اس لیے اس کی درآمد پر بھی بھاری زرِ مبادلہ خرچ ہوتا ہے۔ چند سال سے ہم موسمی تبدیلیوں کی زَد میں ہیں، آج کل بھی خشک سالی چل رہی ہے اور کبھی غیر متوقع طور پر معمول سے زیادہ بارشیں ہوتی ہیں، زمینوں اور سڑکوں کا کٹائو ہوتا ہے، اربوں روپے کے مصارف سے تعمیر کردہ شہری ضروریات کا ڈھانچہ زمیں بوس ہو جاتا ہے۔ پس ضرورت اس امر کی ہے کہ بارانی اور سیلابی علاقوں میں پانی کے ذخیروں کے لیے ڈیم بنائے جائیں اور جہاں ممکن ہو، اُن سے پن بجلی بھی پیدا کی جائے، جو بجلی پیدا کرنے کے دیگر ذرائع کے مقابلے میں سستی ہے اور اس کی فراہمی کے لیے مقامی آبادی کو ترجیح دی جائے، اس طرح اس جمع شدہ پانی کے سبب غیر متوقع سیلابوں میں کمی آئے گی، زمینوں، سڑکوں اور پلوں کا کٹائو نہیں ہو گا، جنگلات کی پیداوار میں اضافہ ہو گا اور یہ پانی انسانی، حیوانی، زرعی اور صنعتی ضروریات کے لیے بھی استعمال کیا جا سکے گا، کیونکہ عالمی ماہرین کے مطابق مستقبل میں دنیا بالخصوص ہمارے خطے کو پانی کی قلّت کا سامنا پڑ سکتا ہے اور موسمی تبدیلیوں کے سبب برفانی تودے معمول سے زیادہ پگھلنے سے بڑے پیمانے پر سیلاب بھی آ سکتے ہیں۔
المیہ یہ ہے: حکومت کو عوام پر اور عوام کو حکومت پر اعتماد نہیں ہے، اس لیے معیشت کو دستاویزی بنانے کی کوششیں ہمیشہ ناکام رہتی ہیں، مزید یہ کہ پارلیمنٹ میں اکثریت جاگیرداروں کی ہوتی ہے اور وہ ٹیکس ادا کرنے کے لیے کسی بھی صورت آمادہ نہیں ہوتے، جب زرعی آمدنی پر ٹیکس کی بات کی جائے تو وہ بجلی، ڈیزل، کھاد، بیج، آبیانہ، ٹریکٹر اور دیگر چیزوں کی مہنگائی کا واویلا شروع کر دیتے ہیں، حالانکہ ٹیکس تو مصارف نکالنے کے بعد خالص بچت پر ہوتا ہے، اس مسئلے کا بھی کوئی نہ کوئی حل نکالنا پڑے گا۔