٭ذبح کرتے وقت قربانی کا جانور اچھلا کودا اور اس میں کوئی عیب پیدا ہو گیا یا ذبح ہوتے ہوئے اٹھ کر بھاگا اور وہ عیب دار ہو گیا تو اسے اسی حالت میں ذبح کر دیں‘ قربانی ہو جائے گی۔ ٭افضل یہ ہے کہ قربانی کے گوشت کے تین حصے کیے جائیں: ایک حصہ ذاتی استعمال کیلئے‘ ایک حصہ اقارب و احباب کیلئے اور ایک حصہ فقرا اور ناداروں پر صرف کیا جائے۔ سارا گوشت رضائے الٰہی کیلئے مستحقین کو دے دینا عزیمت اور اعلیٰ درجے کی نیکی ہے اور ضرورت مند ہونے کی صورت میں کل یا اکثر گوشت ذاتی استعمال میں لانے کی بھی رخصت و اجازت ہے‘ لیکن یہ روحِ قربانی کے منافی ہے۔ ٭قربانی کا وقت دس ذی الحجہ کی صبح صادق سے لے کر بارہ ذی الحجہ کے غروب آفتاب تک ہے۔ گیارہویں اور بارہویں شب میں بھی قربانی ہو سکتی ہے‘ شریعت کے مطابق عورت کا ذبیحہ حلال ہے۔ ایسے دیہات اور قصبات جہاں عید کی نماز پڑھی جاتی ہے‘ وہاں نمازِ عید سے پہلے قربانی جائز نہیں اور جہاں نمازِ عید کا اہتمام نہیں ہوتا‘ وہاں دس ذوالحجہ کو صبح صادق کے بعد جائز ہے۔ قربانی کیلئے تین دن اور دو راتیں ہیں۔ ٭آسٹریلوی گائے کی قربانی جائز ہے‘ سنا ہے کہ دودھ دینے کی صلاحیت میں اضافے کیلئے ان کی افزائشِ نسل حرام جانور سے کرائی جاتی ہے‘ اس سلسلے میں یہ بات ذہن نشین رہے کہ فقہی رائے کا مدار سنی سنائی باتوں پر نہیں ہوتا بلکہ حقائق وشواہد پر ہوتا ہے۔ فقہی اصول ہے: ''یقین شک سے زائل نہیں ہوتا‘‘۔ تاہم اگر یہ بات درست بھی ہو تو یہ گائیں حلال ہیں‘ ان کا گوشت کھانا اور دودھ پینا جائز ہے‘ کیونکہ جانور کی نسل کا مدار ماں پر ہوتا ہے۔ علامہ مرغینانی لکھتے ہیں: ''جو بچہ پالتو مادہ اور وحشی نر کے ملاپ سے پید ا ہو‘ وہ ماں کے تابع ہوتا ہے‘ کیونکہ بچے کے تابع ہونے میں ماں ہی اصل ہے‘ حتیٰ کہ اگر بھیڑیے نے بکری سے ملاپ کیا‘ تو ان کے ملاپ سے جو بچہ پیدا ہو گا‘ اس کی قربانی جائز ہے‘‘۔ اس کی شرح میں علامہ محمد بن محمود حنفی لکھتے ہیں: ''کیونکہ بچہ ماں کا جُز ہوتا ہے‘ یہی وجہ ہے کہ بچہ آزاد یا غلام ہونے میں ماں کے تابع ہوتا ہے (یہ عہدِ غلامی کا مسئلہ ہے) کیونکہ نر کے وجود سے نطفہ جدا ہوتا ہے اور وہ قربانی کا محل نہیں ہے اور مادہ کے وجود سے حیوان جدا ہوتا ہے اور وہ قربانی کا محل ہے‘ پس اسی کا اعتبار کیا گیا ہے‘‘ (فتح القدیر‘ ج: 9‘ ص: 532)۔
٭ہمارے بہت سے لوگ روزگار کے سلسلے میں مغربی ممالک میں مقیم ہیں‘ وہ اپنی قربانی اپنے آبائی وطن میں کرانے کو ترجیح دیتے ہیں‘ اس کا ایک سبب یہ ہے کہ بعض صورتوں میں اُن ممالک کے قوانین کی وجہ سے قربانی کرنا دشوار ہوتا ہے اور دوسرا یہ کہ وہاں مستحقین دستیاب نہیں ہیں۔ لہٰذا وہ کسی رشتہ دار یا دینی مدرسہ یا رفاہی ادارے کو وکیل بنا کر قربانی کی رقم پاکستان بھیج دیتے ہیں تاکہ قربانی کا گوشت مستحقین تک پہنچ جائے۔ اس میں ان امور کا خیال رکھنا ہو گا: جس دن امریکہ یا کینیڈا وغیرہ میں مقیم کسی شخص کی قربانی پاکستان میں کی جا رہی ہے‘ ضروری ہے کہ اس دن دونوں ممالک میں قربانی کے ایام ہوں‘ خواہ وہ یہاں کے اعتبار سے عید کا پہلا دن ہو یا دوسرا یا تیسرا‘ کیونکہ بعض اوقات امریکہ یا کینیڈا میں عید ایک دن پہلے ہو جاتی ہے۔ البتہ ذبح میں مقامی وقت کا اعتبار ہو گا۔ ٭قربانی کے جانور کو ذبح کرتے وقت بائیں پہلو پر قبلہ رو لٹائیں‘ خود ذبح کریں یا کسی سے ذبح کرائیں‘ چھری تیز ہو اور کم از کم تین رگیں کٹنی ضروری ہیں‘ افضل یہ ہے کہ چاروں رگیں کاٹی جائیں۔ بہتر یہ ہے کہ ایک جانور کے سامنے دوسرا جانور ذبح نہ کریں اور ذبح سے پہلے پانی پلائیں۔ ٭ذبح کے وقت قربانی کے جانور کا جو خون دھار کی شکل میں نکلتا ہے‘ اُسے دمِ مسفوح کہتے ہیں‘ یہ حرام ہے اور ناپاک بھی ہے۔ اگر کپڑے یا جسم پر لگ جائے تو اُسے دھوئے بغیر نماز نہ پڑھی جائے‘ البتہ ذبح کے بعد گوشت کے ساتھ جو خون ہوتا ہے‘ وہ ناپاک نہیں ہوتا۔ ٭بعض قصّاب ذبح کر کے جانور کی کھال کے اندر چھری مارتے ہیں تاکہ کلیجہ کٹ جائے اور جانور کی جان جلد نکل جائے‘ یہ درست نہیں ہے اور قصاب کو اس سے منع کیا جائے‘ کیونکہ فطری طریقے سے جان نکلنی چاہیے تاکہ ذبح کے وقت بہنے والا خون (دمِ مسفوح) جانور کے وجود سے نکل جائے۔ ٭بعض قصاب جانور کی جان نکلنے اور ٹھنڈا ہونے سے پہلے کھال اتارنا شروع کر دیتے ہیں‘ یہ درست نہیں ہے‘ کیونکہ یہ جانور کیلئے مزید اذیت کا باعث ہے‘ لہٰذا اس سے قصاب کو منع کیا جائے۔ ٭شریعت کے مطابق ذبح کیے ہوئے حلال جانور کے مندرجہ ذیل اعضا کھانے منع ہیں: دم مسفوح (ذبح کے وقت بہنے والا خون)۔ نر جانور کا آلہ تناسل۔ گائے‘ بکری کے پیشاب کی جگہ۔ کپورے‘ مثانہ‘ جانور کے پاخانے کی جگہ۔ حرام مغز‘ اوجھڑی اور آنتیں‘ ان میں دمِ مسفوح حرام قطعی اور باقی مکروہ ِ تحریمی ہیں۔ بَٹ کو کھانا جائز ہے‘ اوجھڑی کو امامِ اہلسنّت نے مکروہِ تحریمی کہا ہے اور بعض علما اس کے جواز کے قائل ہیں۔
ذبح سے پہلے کی دعا: ''اِنِّیْ وَجَّھْتُ وَجْھِیَ لِلَّذِیْ فَطَرَ السَّمٰوٰتِ وَاْلاَرْضَ عَلٰی مِلَّۃِ اِبْراہِیْمَ حَنَیفًاوَّمَااَنَا مِنَ الْمُشْرِکِیْنَo اِنَّ صَلاَتِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّٰہ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَo لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَبِذَالِکَ اُمِرْتُ وَاَنَا مِنَ الْمُسْلِمِیْنَo اَلّٰلھُمَّ مِنْکَ وَلَکَ عَنْ (فُلاَنٍ اوفُلاَنَۃٍ)۔ (جس کی قربانی ہے‘ اس کا نام لیں اور گائے کی قربانی ہو تو سب شرکا کا نام لیں)‘ پھر بلند آواز سے بِسْمِ اللّٰہِ اَللّٰہُ اَکْبَرُ پڑھ کر ذبح کردیںاور ذبح میں چاروں یا کم از کم تین رگیں کٹنی چاہئیں۔
نوٹ: ''بِسْمِ اللّٰہِ اَللّٰہُ اَکْبَرُ‘‘ ذبح کرنے والے کیلئے کہنا ضروری ہے‘ پاس کھڑے شخص کا کہنا معتبر نہیں ہوگا۔ ذبح کے بعد کی دعا: ''اَللّٰھُمَّ تَقَبَّلْ مِنِّی کَمَا تَقَبَّلْتَ مِنْ خَلِیْلِکَ اِبْرٰاھِیْمَ عَلَیْہِ السَّلاَمُ وَحَبِیْبِکَ مُحَمَّدٍﷺ‘‘۔ اگر دوسرے کی طرف سے ہوتو مِنِّی کی جگہ مِنْ فُلَانٍ (اس شخص کا نام) لیں۔ اگر گائے و اونٹ وغیرہ ہو تو تمام شرکا قربانی کے نام لیں۔ ٭قربانی کے جانور کی کھال صاحبِ قربانی خود استعمال کر سکتا ہے‘ لیکن قصاب کو اجرت میں نہیں دے سکتا اور اگر فروخت کر دے تو اس کی قیمت صدقہ کرنا ہو گی۔ بہتر یہ ہے کہ دینی مدارس و جامعات اور رفاہی اداروں کو قربانی کی کھالیں دی جائیں۔ آج کل ماحول کو آلودگی سے بچانے کیلئے ہر مکان کے آگے اور ہر گلی کوچے میں قربانیاں کرنے سے بہتر ہے کہ اجتماعی قربانی میں حصہ لیا جائے‘ کیونکہ وہاں نجاست کو اٹھانے اور صفائی کا مکمل انتظام ہوتا ہے۔ ٭ایسا شخص جو قربانی کرنے کا ارادہ رکھتا ہے‘ وہ یکم ذوالحجہ سے قربانی کے دن تک ناخن اور بال نہ ترشوائے۔ اِس حکم پر عمل کرے تو بہتر ہے‘ نہ کرے تو مضائقہ نہیں کہ یہ مستحب ہے‘ واجب نہیں۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ''جس نے ذوالحجّہ کا چاند دیکھ لیا اور وہ قربانی کرنے کا ارادہ رکھتا ہے‘ تو جب تک قربانی نہ کر لے‘ بال اور ناخنوں سے کچھ نہ لے یعنی انہیں نہ ترشوائے‘‘ (ترمذی: 1523)۔ احادیث مبارکہ میں طہارت ونظافت کے احکام میں ناخن تراشنے‘ مونچھیں پست کرانے‘ بغل اور زیرِ ناف بال صاف کرنے کیلئے جو انتہائی مدت بیان کی گئی ہے‘ وہ چالیس دن ہے‘ اِس سے زائد مدت تک چھوڑے رہنا مکروہِ تحریمی ہے۔ حدیث میں ہے: ''مونچھیں کاٹنے‘ ناخن ترشوانے‘ بغل کے بال لینے اور زیرِ ناف بال دور کرنے کیلئے یہ میعاد مقرر کی گئی کہ چالیس دن سے زیادہ نہ چھوڑیں‘‘ (مسلم: 599)۔
امام احمد رضا قادری لکھتے ہیں: ''اگر کسی شخص نے 31 دن سے کسی عذر کے سبب یا بلاعذر نہ ناخن تراشے ہوں‘ نہ خط بنوایا ہو کہ ذوالحجہ کا چاند طلوع ہو گیا‘ تو وہ اگر قربانی کا ارادہ رکھتا ہو‘ اس مستحب پر عمل نہیں کر سکتا کہ اب دسویں تک رکھے گا تو ناخن و خط بنوائے ہوئے 41واں دن ہو جائے گا اور چالیس دن سے زیادہ نہ بنوانا مکروہِ تحریمی ہے اورمستحب کی رعایت کیلئے واجب کو ترک نہیں کیا جا سکتا‘‘۔ (فتاویٰ رضویہ‘ جلد:20‘ ص: 354‘ بتصرف)۔ بہتر یہ ہے کہ جو مسلمان قربانی کا ارادہ رکھتے ہیں‘ وہ ذوالحجہ کے چاند سے ایک دو دن پہلے اپنے ناخن تراش لیں‘ مونچھیں اور ضرورت سے زیادہ بال کٹوا لیں۔