دستورِ پاکستان کی دوسری ترمیم میں عقیدۂ ختمِ نبوت کو آئینی اور قانونی تحفظ دیا گیا ہے۔ سیدنا محمد رسول اللہﷺ کی نبوت پر ایمان اس بات کو لازم ہے کہ آپﷺ کو اللہ تعالیٰ کا آخری نبی اور رسول تسلیم کیا جائے‘ پس اگرکوئی یہ کہے: میں آپﷺ کو نبی اور رسول تو مانتا ہوں‘ لیکن اللہ تعالیٰ کا آخری نبی اور رسول نہیں مانتا‘ تو یہ دراصل آپﷺ کی نبوت ورسالت کا انکار ہے اور ایسا شخص کافر اور دائرۂ اسلام سے خارج ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ''محمد تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں‘ بلکہ وہ اللہ کے رسول اور آخری نبی ہیں اور اللہ ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے‘‘ (الاحزاب: 40)۔
اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر اِتمامِ حجت کیلئے نظامِ نبوت ورسالت قائم کرتے ہوئے فرمایا: (1) ''ہم نے خوشخبری دینے اور ڈر سنانے والے رسول بھیجے تاکہ رسولوں کی بعثت کے بعد لوگوں کیلئے اللہ تعالیٰ کے حضور کوئی حجت باقی نہ رہے‘‘ (النسآء: 165)‘ (2) ''اے اہلِ کتاب! بیشک رسولوں کی آمد میں وقفے کے بعد تمہارے پاس ہمارا رسول آ گیا جو تمہارے لیے احکام بیان فرماتا ہے‘ مبادا تم یہ کہو کہ ہمارے پاس کوئی بشارت دینے والا اور ڈرانے والا نہیں آیا تھا‘ پس بیشک تمہارے پاس ایک بشیر ونذیر آ چکا ہے‘‘ (المائدہ: 19)۔ ان آیاتِ مبارکہ سے معلوم ہوا کہ اب کسی نبی اور رسول کے آنے کی ضرورت باقی نہیں رہی‘ کیونکہ خاتمُ النبیین محمد رسول اللہﷺ کی بعثت کے بعد قیامت تک کیلئے سارے انسانوں پر اللہ کی حجت قائم ہو چکی۔
سیدنا محمد رسول اللہﷺ سے پہلے کسی نبی کی زبانی یا کسی الہامی کتاب میں اللہ تعالیٰ نے تکمیلِ دین کا اعلان نہیں فرمایا‘ لیکن جب آپﷺ تشریف لے آئے تو حجۃ الوداع کے موقع پر اللہ تعالیٰ نے تکمیلِ دین کا اعلان فرما دیا: ''آج میں نے تمہارے لیے تمہارے دین کو مکمل کر دیا ہے اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور تمہارے لیے اسلام کو بطورِ دین پسند فرما لیا ہے‘‘ (المائدہ: 3)۔ تکمیلِ دین اور اتمامِ نعمت کی بابت اللہ تعالیٰ کا حتمی فیصلہ صادر ہونے کے بعد اب کسی نئے نبی اور رسول کی بعثت کی ضرورت باقی نہیں رہی‘ اب قیامت تک آپﷺ کی نبوت ورسالت ہی جاری رہے گی۔
قرآنِ کریم نے اس بات کو بھی واضح فرما دیا کہ آپﷺ کی نبوت کسی خاص خطے‘ زمانے یا قوم تک محدود نہیں ہے‘ بلکہ ساری انسانیت اور اللہ کی ساری مخلوق کیلئے ہے: (1) ''(اے رسولِ مکرم!) کہہ دیجیے: اے لوگو! میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہوں‘‘ (الاعراف: 158)‘ (2) ''اور ہم نے آپ کو تمام لوگوں کیلئے ثواب کی بشارت دینے والا اور عذاب سے ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے‘ لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے‘‘ (سبا: 28)‘ (3) ''اور ہم نے آپ کو تمام جہانوں کیلئے فقط رحمت بنا کر بھیجا ہے‘‘ (الانبیاء: 107)۔ رسول اللہﷺ نے خود اپنے خصائص بیان کرتے ہوئے فرمایا: (1) ''(پچھلی امتوں میں) نبی بطورِ خاص اپنی قوم کی طرف بھیجا جاتا تھا اور مجھے تمام انسانوں کی طرف نبی بناکر مبعوث کیا گیا ہے‘‘ (بخاری: 438)‘ (2) ''مجھے ساری مخلوق کی طرف رسول بناکر بھیجا گیا ہے اور مجھ پر نبوت کا سلسلہ ختم کر دیا گیا ہے‘‘ ( مسلم: 523)۔ قرآنِ کریم میں ہے: ''اور یاد کیجیے! جب اللہ نے تمام نبیوں سے عہد لیا کہ جب میں تمہیں (اپنی اپنی باری پر) کتاب اور نبوت عطا کروں‘ پھر تمہارے پاس وہ عظیم رسول آئے جو تمہاری کتابوں کی تصدیق فرمائے‘ تو تم سب ضرور بالضروراس پر ایمان لائو گے اور اس کی مدد کرو گے‘ (پھر) فرمایا: کیا تم نے (اس عہدکا) اقرار کر لیا اور میرے اس بھاری عہد کو قبول کر لیا‘ ان سب نے عرض کی: ہم نے اقرار کر لیا‘ (پھر) اللہ نے فرمایا: پس تم سب (ایک دوسرے پر) گواہ ہو جائو اور میں بھی تمہارے ساتھ گواہوں میں ہوں‘‘ (آل عمران: 81)‘ یعنی آپﷺ کی بعثت کا چرچا کرنا تمام انبیائے کرام کے فرائضِ نبوت میں سے تھا۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے تعمیرِ کعبہ کے بعد آپؐ کی بعثت کیلئے دعا کی‘ حضرت عیسیٰ ؑ آپﷺ کی آمد کی بشارت دیتے رہے اور قرآنِ کریم نے یہ شہادت بھی دی کہ آپﷺ کی بعثت سے پہلے بنی اسرائیل جنگ کے دوران دشمن کے دبائو میں آتے تو وہ نبی آخر الزماں علیہ الصلوٰۃ والسلام کے وسیلے سے دشمن پر فتح پانے کی دعائیں مانگتے تھے‘ کیونکہ تمام کتبِ سماوی میں آپﷺ کی آمد کے بارے میں بشارتیں موجود ہیں۔ حدیث پاک میں ہے: ''تمہارے لیے وہ منظر کس قدر باعثِ افتخار ہو گا کہ عیسیٰ ابن مریم تمہارے درمیان اتریں گے اور تمہارا امام تم ہی میں سے ہو گا‘‘ (مسند احمد: 8431)‘ یعنی قیامت قائم ہونے سے پہلے اس دنیا میں عیسیٰ علیہ السلام کا نزول ہوگا‘ لیکن وہ آپﷺ کے امتی کی حیثیت سے آئیں گے اور آپﷺ کے امتی امام مہدی کی اقتدا میں نماز پڑھیں گے‘ وہ آپﷺ کے امتی کی حیثیت سے حکومت کریں گے۔ ''اس ذات کی قسم جسکے قبضہ وقدرت میں میری جان ہے‘ عنقریب تم میں ابن مریم نازل ہوں گے‘ وہ عادل حکمران ہوں گے‘ صلیب کو توڑ دیں گے‘ خنزیر کو قتل کریں گے اور جزیہ کو ختم کر دیں گے اور مال کو بہائیں گے حتیٰ کہ اس کو کوئی قبول نہیں کرے گا‘‘ (بخاری: 2222)‘ یعنی گمراہی کی تمام علامتوں کو مٹا دیں گے اور ان کے دور میں مال کی اتنی فراوانی ہوگی کہ کوئی زکوٰۃ وصول کرنے والا نہیں ہو گا۔
کتبِ لغت اس بات کی مؤیّد ہیں کہ سورۃ الاحزاب‘ آیت 40 میں لفظِ ''خاتم‘‘ تا کی زبر کیساتھ ہو یا زیر کیساتھ ہو ''خَاتِمُ النَّبِیّٖن‘‘ کے معنی ''آخِرُ النَّبِیّٖن‘‘ ہیں اور تاجدارِ ختمِ نبوتﷺ کے وصالِ مبارک کے بعد صحابۂ کرام کا جس مسئلے پر اجماعِ کُلّی قطعی منعقد ہوا‘ وہ یہی ہے کہ ''خاتَمُ النَّبِیّٖن‘‘ کے معنی ''آخِرُ النَّبِیّٖن‘‘ کے ہیں اور اس پر سَلَف سے خَلَف تک امت کا اجماع رہا ہے اور ہمارے نزدیک صحابۂ کرام کا اجماعِ کُلّی شریعت میں قطعی حجت ہے اور اس کا انکار کفر ہے۔ اس لیے لفظِ خاتَم کے معنی میں کسی اور تاویل واحتمال کی بات کرنا ضلالت اور کفر ہے۔ حدیث پاک میں ہے: ''رسول اللہﷺ غزوۂ تبوک کیلئے نکلے اور (مدینہ منورہ میں) حضرت علیؓ کو اپنا جانشین بنایا‘ حضرت علیؓ نے عرض کی: کیا آپ مجھے عورتوں اور بچوں میں چھوڑ کر جا رہے ہیں(یعنی میں تو میدانِ جنگ کا شہسوار ہوں)‘ آپؐ نے فرمایا: کیا تمہیں یہ بات پسند نہیں کہ تمہیں مجھ سے وہی نسبت ہے جو ہارون کو موسیٰ سے تھی‘ سوائے اسکے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہو گا ‘‘ (بخاری: 4416)‘ (2) بنی اسرائیل کی سیاست اُن کے انبیائے کرام انجام دیتے تھے‘ جب ایک نبی کا وصال ہو جاتا تو اُن کی جگہ دوسرا نبی آ جاتا‘ لیکن اب میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا‘ سو میرے بعد خلفاء ہوں گے‘‘ (بخاری: 3455)‘ (3) ''رسالت اور نبوت کا سلسلہ بند ہو چکا‘ پس میرے بعد نہ کوئی رسول آئے گا اور نہ کوئی نبی‘‘ (ترمذی: 2272)۔
ختمِ نبوت کے موضوع پر احادیث حدِ تواتر کو پہنچی ہوئی ہیں‘ بعض علماء نے ان کی تعداد دو سو سے زائد بیان کی ہے‘۔علامہ غلام رسول سعیدی نے مکرّرات کو حذف کر کے پچاس صحیح احادیث اصل حوالہ جات کے ساتھ تبیان القرآن میں نقل کی ہیں۔ انکارِ ختمِ نبوت کو اجماعی طور پر کفر وارتداد قراردینے کا ثبوت یہ ہے کہ جھوٹے مدعی نبوت مسیلمہ کذاب کو مرتد قرار دے کر اسے جہنم رسیدکیا گیا‘ اس حوالے سے کسی ایک صحابی کا بھی اختلاف ثابت نہیں ہے۔ ہم نے عقیدۂ ختمِ نبوت کی عام فہم تشریح کی ہے جو اوسط تعلیمی استعداد رکھنے والے کو بھی بآسانی سمجھ میں آ جائے۔ قرآن میں لفظِ ''خَاتَمُ النَّبِیّٖن‘‘ قطعی الثبوت اور قطعی الدلالۃ ہے۔ یہ کسی اور تاویل اور توجیہ کا احتمال نہیں رکھتا‘ اس لیے ساری لفظی بحثیں غیر ضروری اور غیر متعلق ہیں۔ اللہ کی تقدیر سے مرزا غلام قادیانی نے اپنی فردِ جرم خود ہی مرتب کر لی تھی اور اُسی کے نتیجے میں 1974ء میں پاکستانی پارلیمنٹ مکمل اتفاقِ رائے سے اس نتیجے پر پہنچی کہ نبی تو درکنار‘ مرزا غلام قادیانی کو محض مسلمان ماننے والا بھی دائرۂ اسلام سے خارج ہے۔ دستورِ پاکستان کی دوسری ترمیم یہی ہے۔