علامہ شاہ احمد نورانی صدیقیؒ 1926ء کو میرٹھ میں پیدا ہوئے‘ آپ کے والد گرامی مبلغ اسلام شاہ عبدالعلیم صدیقیؒ برصغیرکے اکابر علماء میں سے تھے‘ آپ کا سلسہ نسب حضرت ابوبکرصدیقؓ سے جا ملتا ہے‘ سلسلہ طریقت وخلافت میں آپ امام احمد رضا قادری کے خلیفہ مُجاز تھے۔ آٹھ سال کی عمر میں قرآن مجید کو حفظ کرنے کے بعد ثانوی تعلیم کیلئے ایسے سکول میں داخلہ لیا جہاں ذریعہ تعلیم عربی تھا۔ نیشنل عربک کالج سے گریجویشن اور الہ آباد یونیورسٹی سے فاضل عربی کی سند حاصل کی‘ دینی نصاب ''مدرسہ اسلامیہ قومیہ میرٹھ‘‘ میں اُستاذ العلما علامہ غلام جیلانی میرٹھی سے پڑھا۔ آپ کو اپنے والد سے بیعت وخلافت کا شرف حاصل ہے‘ آپ نے اپنے والد ماجد کے تبلیغی نیٹ ورک کو تمام براعظموں میں پھیلایا۔ امام احمد رضا قادری کے خلیفہ مُجاز مولانا ضیا الدین مدنی کے فرزند ارجمند حضرت مولانا فضل الرحمن مدنی آپ کے خُسر تھے۔ آپ کی شادی 1962ء میں ہوئی اور نکاح مسجد نبوی میں ہوا۔
1968ء میں مرکزی جماعت اہلسنّت میں عملی طور پر متحرک ہوئے‘ 7 دسمبر 1970ء کے انتخابات میں آپ جمعیت علماء پاکستان کے پلیٹ فارم سے قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے‘ پھر قومی اسمبلی میں جمعیت علماء پاکستان کے پارلیمانی قائد منتخب ہوئے‘ بعد ازاں آپ دو بار سینیٹر بھی منتخب ہوئے۔ 1972ء میں آپ جمعیت علمائے پاکستان کے صدر بنے اور تاحیات اس منصب پر فائز رہے۔ 1972ء میں عالمی سطح پر اسلام کی تبلیغ کیلئے آپ نے ورلڈ اسلامک مشن کی بنیاد رکھی اور دنیا کے بیشتر ممالک کے بڑے شہروں میں اس کے مراکز قائم کیے۔ آپ کی زندگی کا سب سے قابلِ افتخار کارنامہ قومی اسمبلی میں ارتدادِ قادیانیت کی قرارداد پیش کرنا ہے‘ جسے بعد میں طویل بحث کے بعد پارلیمنٹ نے 7 ستمبر1974ء کو منظور کیا۔ اس سال اُس کا ''جشنِ زرّیں‘‘ منایا جا رہا ہے۔ ہمیں یہ تسلیم کرنے میں کوئی باک نہیں کہ اس عظیم ہدف کو حاصل کرنے میں پارلیمنٹ کے اندر اور باہر تمام مکاتب فکر کے علماء کی اجتماعی کاوشیں شامل تھیں۔
تاریخ اسلام میں ریاست کی سطح پر فتنہ انکار ختم نبوت کو کفر وارتداد قرار دینے اور ان کے خلاف عَلم جہاد بلند کرنے کا اعزاز سب سے پہلے خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیقؓ کو حاصل ہے اور ان کے بعد یہ اعزاز انہی کی اولاد امجاد میں قائدِ ملت اسلامیہ علامہ شاہ احمد نورانی صدیقی کو حاصل ہوا۔ 1977ء میں پاکستان قومی اتحاد کی تحریک کو ''تحریکِ نظامِ مصطفی‘‘ کا عنوان دیا گیا‘ یہ دراصل جمعیت علماء پاکستان کا منشور تھا۔ اس کے نتیجے میں جمعہ کی سرکاری تعطیل کا اعلان ہوا‘ شراب نوشی‘ جوئے کے اڈوں‘ جوا بازی پر مبنی ریس کورس اور قحبہ خانوں کو ممنوع قرار دیا گیا۔ بعد ازاں حدود وقصاص کے قوانین نافذ ہوئے‘ لیکن بعد کو پرویز مشرف نے بعض قوانین کے ذریعے انہیں بے اثر کر دیا۔ بدقسمتی سے تحریکِ نظامِ مصطفی اپنے مقاصد کو پوری طرح حاصل نہ کر سکی‘ کیونکہ اُس کی رکن بعض جماعتیں ضیا کابینہ میں شامل ہو چکی تھیں‘ مگر علامہ شاہ احمد نورانی نے اپنے دامن کو اس ملامت سے داغ دار نہیں ہونے دیا اور عزیمت پر قائم رہے۔ اس کے نتیجے میں اُن کی جماعت کو شکست وریخت سے دوچار کیا گیا اور پھر سندھ کے شہری علاقوں کے سیاسی منظر سے مذہبی سیاسی جماعتوں کوبے دخل کرنے کیلئے باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت ایک لسانی جماعت تخلیق کی گئی‘ پھر ریاستی قوت سے اُسے مسلّط کیا گیا‘ جو بعد میں خود ریاست پر بوجھ بن گئی۔ 2002ء کے انتخابات سے پہلے ''متحدہ مجلس عمل‘‘ کی صورت میں مذہبی سیاسی جماعتوں کا اتحاد وجود میں آیا‘ اُس کی قیادت کا اعزاز علامہ شاہ احمد نورانی کو حاصل ہوا اور اُن انتخابات میں ایم ایم اے نے نمایاں کامیابی حاصل کی‘ مگر علامہ شاہ احمد نورانی کے وصال کے بعد وہ اتحاد قائم نہ رہ سکا ۔ آپ نے غیر جمہوری اورغیر آئینی اقتدار کو کبھی تسلیم نہیں کیا‘ بلکہ اس کے خلاف جدوجہد کرتے رہے‘ مشرقی پاکستان کے سقوط کو بچانے کی آخری کوشش کے طور پر آپ نے ڈھاکہ کا دورہ بھی کیا‘ لیکن یہ کوششیں بارآور نہ ہو سکیں ۔ 7 دسمبر 1970ء کو متحدہ پاکستان میں بالغ رائے دہی اور ایک فرد ایک ووٹ کی بنیاد پر پہلے پارلیمانی جمہوری انتخابات منعقد ہوئے‘ مگر اس آئین ساز اسمبلی کا اجلاس منعقد ہی نہ ہو سکا تاآنکہ 16 دسمبر 1971ء کو سقوطِ مشرقی پاکستان ہوا‘ پھر جنرل یحییٰ خان کو بصد انداز رسوائی اقتدار سویلین چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کو تفویض کرنا پڑا۔ ابتدا میں انہوں نے عبوری آئین جاری کیا‘ پھر 1972ء میں قومی اسمبلی میں موجود تمام سیاسی جماعتوں کے نمائندوں پر مشتمل دستور ساز قومی کمیٹی بنی۔ علامہ شاہ احمد نورانی اُس دستور ساز کمیٹی کے رکن تھے‘ اس دستور کو پارلیمنٹ نے مکمل اتفاقِ رائے سے منظور کیا اور پھر یہ 14 اگست 1973ء کو نافذ ہوا۔ اس دستور میں اسلامی دفعات کی شمولیت کیلئے علامہ شاہ احمد نورانی اور دیگر مذہبی سیاسی جماعتوں کے ارکان کی اجتماعی کاوشیں انتہائی قابلِ قدر ہیں۔
12 اکتوبر 1999ء کو جنرل پرویز مشرف نے ایک منتخب حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قبضہ کیا اور تمام مناصب کو اپنی ذات میں جمع کر دیا۔ دستور کو معطل کرکے عبوری دستور کا حکم نامہ جاری کرتے ہوئے انہوں نے دستور کی روبہ عمل دفعات میں اُن اسلامی دفعات کو شامل نہ کیا‘ جن میں قرآن وسنّت کی بالادستی‘ امتناع قادیانیت اور تحفظ ناموس رسالت کی ضمانت دی گئی تھی۔ ایک بار پھر علامہ شاہ احمد نورانی کی قیادت میں دستور کی ان دفعات کی بحالی کی مہم چلائی گئی‘ ملک بھر میں مکمل شٹر ڈائون اور پہیہ جام ہڑتال ہوئی‘ نشتر پارک میں عظیم الشان تاریخی ختم نبوت کانفرنس منعقد کرکے مشرف حکومت پر دبائو ڈالا گیا اور اللہ تعالیٰ کی تائید ونصرت اور اس کے حبیب مکرمﷺ کی نگاہ کرم سے حکومت ان دفعات کو عبوری آئین کا روبہ عمل حصہ بنانے پر مجبور ہو گئی۔ بھٹو دورِ حکومت میں ارکانِ پارلیمنٹ کو نوازنے کیلئے کاروں کے پرمٹ اور پھر جونیجو دورِ حکومت میں پلاٹوں کی الاٹمنٹ اور بجٹ میں ارکانِ پارلیمنٹ کیلئے ترقیاتی فنڈ مختص کرنے کی رسمِ قبیح جاری ہوئی جو اب تک کسی نہ کسی صورت میں جاری ہے۔ مگر استحقاق کے باوجود علامہ شاہ احمد نورانی نے نہ کار کا پرمٹ لیا‘ نہ پلاٹ یا کوئی اور مراعات لیں‘ سو اُن کا دامنِ سیاست بے داغ رہا‘ اُجلا رہا۔ پس وہ یقینا اس نعرے کا مصداق تھے: ''حق وصداقت کی نشانی‘ شاہ احمد نورانی‘‘۔
علامہ شاہ احمد نورانی نے قناعت سے بھرپور زندگی گزاری‘ صدر کراچی میں مسجدِ قصاباں کے متصل پرانی طرز کے دو کمروں کے فلیٹ میں بطورِ کرایہ دار رہے‘ وہیں وہ سیاستدانوں اور حکمرانوں سے ملاقاتیں کرتے‘ انہوں نے سنّتِ مصطفیﷺ کو ادا کرتے ہوئے فقرِ اختیاری کو اپنا شعار بنائے رکھا‘ چمک دمک کے اسیر نہ ہوئے۔ زندگی کے آخری ایام میں اُن کی اہلیہ محترمہ کو اُن کے والدِ ماجد علامہ فضل الرحمن مدنی سے وراثت کا حصہ ملا اور اُس سے 500 گز کا ایک مکان اُنہی کے نام پر کلفٹن کراچی میں خریدا گیا اور علامہ شاہ احمد نورانی اپنے خاندان سمیت وہاں منتقل ہوئے۔ انہوں نے اپنی والدۂ ماجدہ کی بہت خدمت کی۔ کسی نے اُن سے پوچھا: ''والدہ صاحبہ آپ کے ساتھ رہتی ہیں‘‘ آپ نے جواب دیا: ''میں اپنی والدہ کے ساتھ رہتا ہوں‘‘۔ راوی بیان کرتے ہیں: آپ سونے سے پہلے اپنی والدہ ماجدہ کے پائوں دباتے اور ان کی خدمت کرتے۔ قاضی حسین احمد راوی ہیں: ''میں نے انہیں سفر میں بھی باقاعدہ تہجد گزار دیکھا‘‘۔ زندگی کے آخری سال تک رمضان میں ایک ختمِ قرآن نمازِ تراویح میں اور ایک ختم نمازِ تہجد میں کرتے تھے‘ اس معمول کو انہوں نے کبھی نہ چھوڑا۔ 11 دسمبر 2003ء کو انتقال فرمایا۔ نشتر پارک کراچی میں آپ کا تاریخی جنازہ پڑھا گیا اور عبداللہ شاہ غازیؒ کے مزارکے متصل قبرستان میں والدہ ماجدہ کے پہلو میں تدفین ہوئی: ''حق مغفرت کرے‘ عجب آزاد مرد تھا‘‘۔ میرا ایمان ہے: اُن کی نَجات اور آخرت میں سرخروئی کیلئے تحریکِ ختم نبوت میں اُن کا کردار کافی ہے۔