ابو دلامہ نے ابو مسلم خراسانی کے کرد ہونے کے متعلق یہ اشعار کہے ہیں: ''اے مجرموں کے سرغنہ! اللہ تعالیٰ بندوں کو دی ہوئی اپنی کوئی نعمت واپس نہیں لیتا‘ حتی کہ بندے خود اس نعمت کو ناشکری کے ذریعے بدل نہ دیں‘ تُو نے جو منصور کی حکومت میں بے وفائی کا ارادہ کیا‘ (یہ تعجب کی بات نہیں ہے‘ کیونکہ) بیشک تیرے آباؤ اجداد کرد تو ہیں ہی بے وفا‘‘۔ عباسیوں کی حکومت کو مستحکم و مضبوط کرنے والا برامکہ کا خاندان بھی کردوں کی نسل سے ہے‘ اس خاندان کے ایک انتہائی قابل اور نامور فرد خالد برمکی عباسی لشکر کے ابتدائی داعیوں میں سے تھے‘ جنہوں نے خراسان میں انقلاب کے عَلم کو بلند کیا اور بعد میں عباسی خلافت میں باوقار مناصب پائے اور عباسیوں کے ہاتھوں ہی ان کا زوال بھی ہوا۔ تاریخ اسلام میں سب سے زیادہ کردوں کو جن کی طرف سے مصائب وآلام کا سامنا کرنا پڑا ہے‘ وہ ترک ہیں۔ سلجوقیوں اور عثمانیوں کے دور میں بھی انہیں بے حد مشکلات اور پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ سلطان عماد الدین زنگی کے بڑے سپہ سالاروں میں سے ایک شیر کوہ کرد تھے۔کہا جا سکتا ہے کہ شیر کوہ سلطان نور الدین زنگی کی سلطنت میں جدید دورکے وزیر دفاع کی مانند تھے‘ نور الدین زنگی کو ان کی شَجاعت اور جرأت و ہمت پر بے حد اعتماد تھا‘ اسی وجہ سے انہوں نے اپنے سارے لشکر کی کمان انہیں سونپ دی اور انہیں حِمْص اور رَحبہ میں جاگیریں عطا کیں۔ عظیم فاتح اور سپہ سالار سلطان صلاح الدین ایوبی جنہوں نے صلیبی جنگوں میں اپنی فتوحات سے تاریخ اسلام میں بڑا نام پیدا کیا‘ وہ شیر کوہ کے بھتیجے تھے اور سلطان صلاح الدین ایوبی کی جنگی مہارت اور صلیبیوں کے خلاف ان کی معرکہ آرائیاں بالخصوص حِطِّین کا معرکہ تاریخ اسلام کا درخشاں باب ہے۔
کردوں میں سے بعض اہلِ علم و فضل کے علمی افادات سے ساری امت مسلمہ نفع اٹھا رہی ہے‘ ان میں سے قاضی کمال الدین شہرزوری‘ امام ابن صلاح شہرزوری شافعی بھی علمی دنیا میں بالخصوص اصول حدیث وافتاء کے باب میں سند مانے جاتے ہیں۔ وہ اپنے علم وفضل کے اعتبار سے انتہائی ممتاز حیثیت کے مالک ہیں۔
پہلی عالمگیر جنگ سے پہلے کرد اس علاقہ میں سلطنت عثمانیہ کے تحت خانہ بدوشوں کی زندگی گزارتے تھے‘ سلطنت عثمانیہ کے خاتمہ کے بعد مشرق وسطیٰ میں کئی نئی آزاد مملکتیں وجود میں آئیں‘ لیکن آزاد خودمختار مملکت کے بارے میں کردوں کا خواب کبھی شرمندۂ تعبیر نہ ہو سکا۔ حالانکہ 1920ء کے Treaty of Sevres میں‘ جس کے تحت عراق‘ شام اور کویت کی آزاد مملکتیں وجود میں آئیں‘ کردوں کی ایک آزاد مملکت کا بھی وعدہ کیا گیا تھا‘ لیکن مصطفی کمال اتا ترک کے برسرِ اقتدار آنے کے بعد ترکیہ نے اور اس کے ساتھ ایران اور عراق نے کردوں کی آزاد مملکت کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ اگرچہ شمالی عراق میں کردوں کی آبادی 60لاکھ کے لگ بھگ ہے‘ لیکن ان کی سب سے زیادہ تعداد ترکیہ میں ہے‘ تقریباً ایک کروڑ 80 لاکھ۔ شام میں ان کی تعداد 28لاکھ اور ایران میں 48لاکھ کے قریب ہے۔ ایران میں کردوں کی اکثریت آذربائیجان اور ہمدان کے علاقہ میں آباد ہے‘ اسے ایرانی کردستان کہا جاتا ہے‘ کرد اسے مشرقی کردستان کہتے ہیں۔ ایران میں کردوں کے خلاف کارروائیوں کا سلسلہ سترہویں صدی سے شروع ہوا تھا‘ جب شاہ عباس نے کردوں کو بڑے پیمانے پر زبردستی خراسان میں منتقل کر دیا۔ پھر 1946ء میں قاضی محمد کی قیادت میں بغاوت ہوئی اور کردوں نے مہاآباد جمہوریہ کے نام سے ایک الگ مملکت قائم کی جو زیادہ عرصہ نہ چل سکی۔قاضی محمد کو آخرکار کھلے عام پھانسی دی گئی۔ رضا شاہ پہلوی کے دور میں کردوں کی زبان پر پابندی عائد کی گئی اور 1979ء میں انقلابِ ایران کے بعد امام خمینی نے کردوں کے خلاف جہاد کا اعلان کیا اور بڑے پیمانے پر کرد علاقوں میں فوجی کارروائی کی گئی‘ آخرکار کردوں کو گھٹنے ٹیکنے پڑے۔ ادھر شمالی عراق میں کردوں نے 1960ء سے 1975ء تک مصطفی برزانی کی قیادت میں بغاوت کی‘ اسکے نتیجہ میں انہیں خودمختاری حاصل ہوئی‘ لیکن 1991ء میں کردوں کی بغاوت کے بعد صدام حسین کی حکومت نے اس علاقے پر دوبارہ قبضہ کر لیا اور کردوں پر سخت مظالم کیے۔ عراق میں صدام حسین کے زوال کے بعد کردوں کو نئے آئین کے تحت خودمختاری حاصل ہوئی اور ان کی علاقائی پارلیمنٹ بھی تسلیم کر لی گئی۔ عراق کی جنگ کے بعد امریکیوں نے انکے تیل سے مالا مال علاقے کی وجہ سے ان پر دستِ شفقت رکھا‘ لیکن نجانے پھر کیوں ہاتھ کھینچ لیا۔ پچھلے دنوں کردوں نے اپنی آزاد خودمختار مملکت کے قیام کیلئے ریفرنڈم کا بھی انعقاد کیا تھا‘ اسے عراقی حکومت نے ردّ کر دیا اور فوج کشی کر کے کردوں کی آزادی کے سارے خواب چکنا چور کر دیے‘ یہی وجہ ہے کہ کردوں کی تاریخ ایران اور عراق میں بغاوتوں سے عبارت ہے۔
منگولوں کے بعد جب مسلمانوں کو دوبارہ عروج ملا تو اس دور میں بھی کرد ایک ذیلی قوم کے طور پر خلافتِ عثمانیہ کا حصہ رہے۔ ان کی عثمانی اہلکاروں سے جھگڑے ہوتے رہتے تھے‘ لیکن یہ اس وقت بھی ایران اور خلافتِ عثمانیہ کے زیر اقتدار علاقوں میں منقسم رہے۔ کردوں کے ایک عالم ادریسی بدلیسی نے کردوں اور خلافت عثمانیہ کے درمیان ایک معاہدہ کرایا۔جس کے مطابق عثمانی علاقوں میں رہنے والے کرد قبیلوں نے خلیفہ کی حاکمیت کو تسلیم کر لیا اور اس کے عوض خلیفہ نے ان قبائل کی خودمختاری کو مان لیا۔ خلافت عثمانیہ میں اگلی کئی صدیوں تک کرد ایک خودمختار قوم اور خودمختار قبائل کو صورت میں پُرامن زندگی گُزارتے رہے۔ لیکن قومی ریاست کے مغربی تصورات مشرق میں بھی پھیلنا شروع ہوئے تو کردوں کے ایک سردار میر محمد نے 1830ء سے 1839ء تک ایک متحدہ کردستان کے قیام کیلئے عثمانیوں کے خلاف جنگ لڑی۔ کردوں کی ان کوششوں کی ناکامی کے بعد خلافت عثمانیہ کے ترک اہلکاروں نے کرد علاقوں کو براہِ راست کنٹرول میں لے کر کرد سرداروں کو خلیفہ کا وفادار بنانے کیلئے مالی‘ تعلیمی اور منصبی مراعات دیں‘ ان مراعات سے کردوں میں جدید تعلیم یافتہ اشرافیہ پیدا ہوئی۔ اس نے کردوں میں سیاسی بیداری پیدا کی‘ ادارے قائم کیے‘ اپنی قومی شناخت کیلئے جدوجہد کا آغاز کیا۔ ترکیہ میں 1925ء میں شیخ سعید کی قیادت میں کردوں نے بغاوت کی‘ اس کے بعد ترکیہ کی حکومت نے کردوں کے خلاف نہایت سخت پالیسی اختیار کی‘ ان کی زبان اور ثقافت ختم کرکے پہاڑی ترک قرار دیا اور انہیں ترک معاشرہ میں ضم کرنے کی مہم شروع کر دی۔ 1978ء میں کردوں نے جب آزادی اور خودمختاری کی تحریک شروع کی تو بڑے پیمانے پر ترکیہ کی حکومت اور کردوں کے درمیان معرکہ آرائی ہوئی۔ اس تحریک میں علیحدگی پسند تنظیم کردستان ورکرز پارٹی پیش پیش تھی۔ یہ تحریک ترکیہ کی معیشت کیلئے تباہ کن ثابت ہوئی اور معیشت کو 450ارب ڈالر کا خسارہ ہوا۔ آخرکار قائدِ تحریک عبداللہ اوجلان نے 2015ء میں تحریک ختم کرنے کا اعلان کیا اور یہ معرکہ آرائی ختم ہوئی۔
کرد دنیا کے مختلف خطوں میں آباد ہیں‘ ان میں سے ہمارے وطن عزیز پاکستان کا خطہ بھی ہے‘ بلوچستان میں بھی کرد موجود ہیں‘ خاص طور ساراوان اور شیستان کے علاقے میں کرد پائے جاتے ہیں۔ بلوچستان کا قبیلہ براخوئی جنہیں بلوچی میں براہوی کہا جاتا ہے‘ یہ کردوں کا بلوچستان میں سب سے بڑا قبیلہ ہے۔ یہ ہم نے تاریخی تناظر میں لکھا ہے‘ معلوم نہیں کہ براہوی بلوچ اپنے آپ کو کردی الاصل مانتے ہیں یا نہیں۔ کردستان کے علاقہ کے علاوہ پوری دنیا میں ایک کروڑ سے زیادہ کرد پھیلے ہوئے ہیں‘ ان میں زیادہ تر وہ ہیں جنہوں نے ترکیہ‘ عراق اور ایران میں ظلم وستم سے فرار ہو کر پناہ لی ہے۔ ان کردوں کا کہنا ہے کہ یہ کس قدر حیرت اور تاسف کی بات ہے کہ ان کے کرد قائد سلطان صلاح الدین ایوبی نے تو ایران سے لیکر شمالی افریقہ تک ایک بڑی تعداد میں ملکوں کو آزادی کی نعمت سے سرشار کیا‘ لیکن ان کی اپنی قوم ابھی تک آزادی کی نعمت سے محروم ہے۔ الغرض کرد کافی ستم رسیدہ قوم ہیں‘ ان کی تاریخ مصائب وآلام سے پُر ہے۔