جدید دور میں تعلیم اور روزگار کو لازم وملزوم سمجھ لیا گیا ہے‘ اس لیے یونیورسٹیوں کے جلسۂ تقسیمِ اسناد کے موقع پر باہر بینزر لگے ہوتے ہیں: ''ہمیں ڈگری نہیں روزگار چاہیے‘‘۔ یہ کسی حد تک اس دورکی ضرورت بن گئی ہے۔ لیکن دینی وسماجی علوم کا بنیادی مقصد تہذیبِ نفس ہے‘ یعنی نفس کو رذائل سے پاک اور فضائل سے مزیّن کرنا‘ ظاہر وباطن کے تضاد کو رفع کرنا۔ اسی کو تصوف کی زبان میں تخلیہ اور تجلیہ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ نوجوان علماء کو سمجھنا چاہیے کہ انہوں نے اپنے آپ کو اسلام کے ایک عملی نمائندے کے طور پر پیش کیا ہے‘ لہٰذا لوگ اُن کی شخصیت کے آئینے میں اسلام کے بارے میں رائے قائم کریں گے‘ اگر اُن کے کردار میں کوئی جھول پائیں گے تو اسلام‘ اس کی مادرِ علمی اور اساتذہ کو مطعون کریں گے۔ لہٰذا عالم کے قول وفعل میں تضاد نہیں ہونا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ''اے ایمان والو! تم وہ بات کہتے ہی کیوں ہو‘ جس پر تم خود عمل نہیں کرتے‘ اللہ کے نزدیک یہ بات انتہائی ناراضی کا سبب ہے کہ تم وہ کہو جو خود کرتے نہیں ہو‘‘ (الصف: 1 تا 2)۔ ایک طویل حدیث میں ہے: ''رسول اللہﷺ نے فرمایا: قیامت کے دن ایک شخص کو لاکر جہنم میں ڈال دیا جائے گا‘ آگ میں اس کی آنتیں باہر نکل آئیں گی اور وہ شخص اس طرح چکر لگانے لگے گا جیسے گدھا کولہو کے گرد چکر لگاتا ہے۔ جہنمی اس کے قریب آ کر جمع ہوں گے اور کہیں گے: اے فلاں شخص! تمہاری یہ حالت کیوں ہے‘ تم تو ہمیں نیکیوں کا حکم دیتے تھے اور برائیوں سے منع کیا کرتے تھے‘ وہ کہے گا: میں تمہیں تو نیکیوں کا حکم دیتا تھا‘ لیکن خود ان پر عمل نہیں کرتا تھا‘ تمہیں برائیوں سے منع کرتا تھا‘ لیکن میں خود وہ برائیاں کرتا تھا‘‘ (بخاری: 3267)۔ چنانچہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: (1) ''جو عالم لوگوں کو نیکی کا حکم دے اور اپنے آپ کو بھول جائے (کہ وہ خود بھی ان احکام کا جوابدہ ہے) تو اُس کی مثال اُس چراغ کی سی ہے جو لوگوں کو تو روشنی دیتا ہے‘ مگر خود جلتا رہتا ہے‘‘ (المعجم الکبیر للطبرانی: 1681)‘ (2) ''قیامت کے دن سب سے زیادہ عذاب اُس عالم کو ہوگا جس کا علم اُسے نفع نہ دے (یعنی اس کی اپنی اصلاح کا سبب نہ بنے)‘‘ (المعجم الصغیر للطبرانی: 507)۔ معراج کے مشاہدات میں ایک یہ بھی ہے: رسول اللہﷺ نے فرمایا: ''میں نے کچھ لوگوں کو دیکھا کہ اُن کے ہونٹوں کو آگ کی قینچیوں سے کاٹا جا رہا ہے‘ میں نے پوچھا: اے جبرائیل! یہ کون لوگ ہیں‘ انہوں نے کہا: (یا رسول اللہﷺ!) یہ آپ کی امت کے وہ خطباء ہیں جو لوگوں کو نیکی کا حکم دیتے ہیں اور اپنے آپ کو فراموش کر دیتے ہیں‘‘ (سنن بیہقی: 1773)۔
علم کا مقصد اپنی برتری جتلانا نہیں ہونا چاہیے‘ جو عُجب وکِبر میں مبتلا ہو‘ وہ علم کے فیضان سے محروم ہو جاتا ہے۔ حدیث پاک میں ہے: ''حضرت کعب بن مالکؓ بیان کرتے ہیں: میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: جس نے (دین کا) علم اس لیے حاصل کیا کہ علماء پر اپنی برتری جتلائے‘ کم علم اور بیوقوفوں سے (غیرضروری) بحث وتکرار کرے یا اس کے ذریعے لوگوں کے رُخِ عقیدت کو اپنی جانب متوجہ کرے تو اللہ اُسے جہنم میں داخل کرے گا‘‘ (ترمذی: 2654)۔ پس عالم کو عَجز وانکسار کا پیکر ہونا چاہیے اور کِبر وریا سے پاک ہونا چاہیے اور ایسی مناظرہ بازی سے بھی احتراز لازم ہے جو عُجبِ نفس میں مبتلا کرے۔ ایسے مناظروں کا انجام ہم نے کبھی نتیجہ خیز نہیں دیکھا۔ نوجوان علماء کو اپنے علاقوں اور حلقۂ اثر میں درسِ قرآن‘ درسِ حدیث اور درسِ فقہ کی مجالس قائم کرنی چاہئیں‘ آہستہ آہستہ یہ حلقۂ اثر پھیلتا چلا جائے گا۔ کراچی میں کئی علماء نے شام کی کلاسیں شروع کر رکھی ہیں‘ بعض پورا نصاب پڑھاتے ہیں اور بعض نے مختصر نصاب بھی بنا رکھے ہیں۔ تعلیم یافتہ شہری‘ طلبہ اور تاجر حضرات بھی شوق سے ان کلاسوں میں شریک ہوتے ہیں‘ بعض تخصص تک تعلیم دیتے ہیں۔ مفتی محمد اکمل مدنی صاحب کا نیٹ ورک کافی وسیع ہے‘ کئی شہری طلبہ فیس دے کر بھی پڑھتے ہیں۔ کراچی میں نورِ حمزہ اسلامک کالج اس کی واضح مثال ہے‘ جہاں طلبہ معقول فیس دے کر پورا دینی نصاب پڑھتے ہیں۔
قرآنِ کریم میں ہے: ''اور ہم نے ہر رسول کو اُس کی قوم کی زبان کا حامل بھیجا تاکہ وہ اُنہیں (اللہ کے احکام) واضح طور پر بیان کریں‘‘ (ابراہیم: 4)۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مخاطَبین کیلئے پیغامِ الٰہی کا سمجھنا آسان ہو۔ آج کل کے اعتبار سے 'لسانِ قوم‘ سے ہم یہ بھی مراد لے سکتے ہیں کہ دین کے مُبلّغ کو اپنے مخاطَبین کے روز مرّہ‘ محاورے اور اصطلاحات سے خوب آگاہ ہونا چاہیے‘ نیز اس میں یہ استعداد ہونی چاہیے کہ مخاطَب کی ذہنی وعلمی سطح سے مطابقت کے ساتھ ابلاغِ دین کر سکے۔ مزید یہ کہ الحاد‘ لادینیت اور اباحتِ کُلّی کے جو فلسفے ہیں‘ اُن کا احسن انداز میں ردّ کر سکے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولِ مکرّمﷺ سے فرمایا: ''اور اُن سے بہت اثر آفریں بات کیجیے جو اُن کے دلوں میں اتر جائے‘‘ (النسآء: 63)۔ یہ وہی اندازِ بیان ہے جس کی بابت اہلِ علم کہتے ہیں: جرم سے نفرت کرو اور مجرم سے ہمدردی‘ مجرم سے ہمدردی کرنے سے مراد اُس کی حوصلہ افزائی نہیں ہے‘ بلکہ حکمتِ بلیغ اور موعظۂ حسنہ کے ساتھ اُسے باطل عقائد واعمال کی خرابیوں اور تباہ کن نتائج سے آگاہ کرنا ہے۔
کئی ایسے حضرات دیکھے ہیں کہ جنہوں نے دین کا علم حاصل کیا ہے اور عملی زندگی میں وہ تجارت‘ صنعت یا دوسرے شعبوں میں ملازمت سے وابستہ ہوتے ہیں۔ ایسے حضرات جب استغناء کے ساتھ دین کا کام کرتے ہیں یا دین کا ابلاغ کرتے ہیں تو اُن کے قول وفعل کی اثر آفرینی زیادہ ہوتی ہے۔ کیونکہ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ تبلیغِ دین کے ساتھ ان کا معاش وابستہ نہیں ہے اور یہ اُن کے اخلاص کی دلیل ہے۔ یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ کوئی دینی یا اجتماعی فلاح کے کسی شعبے کو اختیار کر لے‘ تو اُن کے بدخواہ اور نقاد بھی بہت پیدا ہوتے ہیں‘ بلکہ ہمارے معاشرے میں تحسین اور حوصلہ افزائی کے مقابلے میں تنقیص اور حوصلہ شکنی کا مزاج زیادہ ہے۔ لہٰذا دین کے داعی کو ایسی منفی ذہنیت کے حامل لوگوں سے الجھنے کے بجائے اپنے مشن پر پوری توجہ دینی چاہیے۔ آپ کی محنت‘ اخلاص اور دیانت کی برکت سے راستے کی رکاوٹیں خود دور ہوتی چلی جائیں گی۔
دوسروں کی خامیوں کی نشاندہی پر اکتفاکرنے یا انہیں اپنی توجہات کا مرکز بنانے کے بجائے اپنے اندر خوبیاں پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اس کی مثال یہ ہے: ایک شخص نے ایک مارکیٹ میں کسی خاص جنس سے متعلق دکان کھولی ہے اور وہ صبح سے شام تک اپنے حریفوں کے مال کے نقائص بیان کرتا رہتا ہے‘ اس سے ان حریفوں کو فائدہ ہو یا نقصان‘ اس کا مال تو نہیں بکے گا‘ اس کا مال تب بکے گا جب گاہک کو اس کی خوبیوں کا قائل کر لیاجائے۔ پس دوسروں کے معایب پر زور دینے کے بجائے اپنے اندر محاسن پیدا کرنے پر پوری توجہ دینی چاہیے۔ اسی لیے دانا لوگوں نے کہا ہے: ''حقیقی خوشبو وہ ہے جو خود دوسروں کے مشامِ جاں کو معطر کرے‘ عطار یعنی خوشبو فروش کو اس کی خوبیاں بیان کرنے کی ضرورت نہ پڑے‘‘۔ چنانچہ رسول اللہﷺ نے صحبتِ صالح اور صحبتِ بَد کے فرق کو اس مثال سے بیان فرمایا: '' نیک ساتھی اور برے ساتھی کی مثال کستوری بیچنے والے عطار اور لوہار کی سی ہے۔ مشک بیچنے والے کے پاس سے تم دو اچھائیوں میں سے ایک نہ ایک ضرور پا لو گے یا تو مشک خرید لو گے ورنہ کم از کم اس کی خوشبو تو ضرور پا لو گے‘ اس کے برعکس اگر تم لوہار کی بھٹی کے پاس بیٹھو گے تو اس کی تپش اور دھواں تمہارے بدن اور لباس کو جھلسا دے گا اور اگر تمہارا بدن اور لباس محفوظ بھی رہے تو تم اس کی بدبو کو ضرور محسوس کرو گے‘‘ (بخاری: 2101)۔ اسی مفہوم کو رسول اللہﷺ نے ایک حدیث مبارک میں اس طرح بیان کیا: ''نیک لوگوں کی مجلس میں کوئی غیر ارادی طور پر بھی آکر بیٹھ جائے تو وہ بدبخت نہیں رہتا‘‘ (بخاری: 6408) یعنی کچھ نہ کچھ فیض اس کو ضرور ملے گا‘ ورنہ کم از کم جتنی دیر وہ نیکوں کی مجلس میں رہے گا‘ اتنی دیر تک وہ خرابیوں سے بچا رہے گا۔