نوٹ: ہم نے ''چند سبق آموز احادیث‘‘ کے عنوان سے آٹھ اقساط پہلے شائع کی ہیں‘ آج کا کالم اسی کا تسلسل ہے۔
قرآن وحدیث میں صغیرہ و کبیرہ گناہوں کا تصور موجود ہے اور احادیثِ مبارکہ میں کئی گناہوں کو کبیرہ قرار دیا گیا ہے مگر دینی تعلیمات کی روح یہ ہے کہ کسی گناہ کو حقیر نہ سمجھو‘ ورنہ اس کے ارتکاب پر جری ہو جائو گے اور کسی نیکی کو بڑا نہ سمجھو‘ ورنہ اس پر اترانے لگو گے: رسول اللہﷺ نے فرمایا: ''عائشہ! معمولی سمجھے جانے والے گناہوں سے بچے رہو‘ یقینا اُن کی بابت بھی اللہ تعالیٰ کے حضور باز پرس ہو گی‘‘ (مسند احمد: 24415)۔ حضرت عبداللہؓ بن مسعود نے ایک رسول اللہﷺ سے اور ایک اپنی طرف سے‘ دو حدیثیں بیان کیں: ''بے شک مؤمن اپنے گناہوں کو اس طرح سمجھتا ہے جیسے وہ پہاڑ کے نیچے بیٹھا ہو اور اُسے لگے کہ پہاڑ اس پر گرنے والا ہے (یعنی وہ گناہ کے تصور ہی سے کانپ اٹھتا ہے) اور فاجر اپنے گناہوں کو اس قدر (حقیر ) سمجھتا ہے جیسے مکھی اس کی ناک پر بیٹھی ہے اور وہ اپنے ہاتھ کے اشارے سے اُسے اڑا دے گا‘‘ (بخاری: 6308)۔ الغرض گناہوں کا صغیرہ اور کبیرہ ہونا احکام اور اُن پر مرتب ہونے والے نتائج کے اعتبار سے ہے‘ ورنہ ہرگناہ اپنی جگہ عظیم ہے اور اس سے بچتے رہنا چاہیے۔ حضرت انسؓ بیان کرتے ہیں: ''تم ایسے کام کرتے ہو کہ جو تمہاری نظروں میں بال سے زیادہ باریک ہیں (یعنی تم انہیں معمولی سمجھتے ہو)‘ حالانکہ ہم لوگ نبی کریمﷺ کے زمانے میں ان کاموں کو مُہلک (ہلاک کر دینے والے) سمجھتے تھے‘‘ (بخاری: 6492)۔ شیطان انسان کو بہکانے کیلئے کسی چور دروازے کا سہارا لیتا ہے‘ وہ اُن کے سامنے ان بظاہر معمولی گناہوں کو ہلکا کر کے پیش کرتا ہے اور یہ تاثر دیتا ہے کہ ان سے بچنا کسی کیلئے ممکن نہیں ہے‘ بظاہر سلجھے ہوئے لوگ بھی اس کے بہکاوے میں آ جاتے ہیں۔ آپﷺ نے حجۃ الوداع کے موقع پر شیطان کے ہتھکنڈوں سے خبردار کرتے ہوئے فرمایا: سنو! شیطان اس بات سے مایوس ہو چکا ہے کہ تمہارے ملک میں اب کبھی اُس کی عبادت کی جائے گی‘ البتہ اس سے مایوس نہیں ہوا کہ اُن برائیوں میں اس کی اطاعت کی جائے گی جنہیں تم معمولی سمجھتے ہو۔
راستے کے حق کو فقہی اصطلاح میں ''حَقُّ الْمُرُور‘‘ کہتے ہیں‘ یعنی کسی کو عام گزرگاہ پہ دوسروں کا راستہ روکنے کا حق نہیں ہے۔ آپﷺ نے فرمایا: ''راستوں پر نہ بیٹھو‘ صحابۂ کرام نے عرض کیا: یا رسول اللہﷺ! ہمیں بیٹھنے سے چارہ نہیں‘ ہم یہیں بیٹھ کر آپس میں بات کرتے ہیں تو رسول اللہﷺ نے فرمایا: پھر راستے کا حق ادا کرو‘ صحابۂ کرام نے پوچھا: راستے کا حق کیا ہے‘ آپﷺ نے فرمایا: نظریں نیچی رکھنا‘ راستے سے تکلیف دہ چیزوں کو ہٹانا‘ سلام کا جواب دینا‘ نیکی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا ہے‘‘ (بخاری: 2465)۔ دوسری حدیث میں فرمایا: ''ایمان کے ساٹھ اور کچھ یا ستّر اور کچھ شعبے ہیں‘ اُن میں سے سب سے افضل کلمۂ لا الٰہ الا اللہ ہے اور سب سے معمولی راستے سے تکلیف دہ چیز کو ہٹا دینا اور حیا بھی ایمان کا ایک شعبہ ہے‘‘ (مسلم: 35)۔ نیز آپﷺ نے فرمایا: ''ایسے تین کاموں سے بچو جو لعنت کا سبب بنتے ہیں: ایک پانی کے گھاٹ پر‘ دوسرا راستے میں اور تیسرا سائے کی جگہ (جہاں مسافر کچھ دیر سَستانے کیلئے بیٹھتے ہیں) بول وبراز کرنا‘ (ابودائود: 26)۔ یعنی جو کوئی بھی ان مقامات پر نجاست دیکھے گا تو وہ ایسا کرنے والے پر لعنت ہی کرے گا۔
آج کل احتجاجی جلوسوں‘ ریلیوں اور دھرنوں کی وجہ سے راستے بند ہو جاتے ہیں اور لوگوں کیلئے شدید اذیت کا باعث بنتے ہیں‘ گھنٹوں ٹریفک رک جاتی ہے‘ بعض قریب المرگ مریضوں کا ایمبولینس میں انتقال ہو جاتا ہے‘ بعض اوقات زچگی کے عالَم میں راستے یا گاڑیوں میں کسی خاتون کے بچے کی ولادت ہو جاتی ہے‘ اس میں مذہبی اور سیکولر لبرل سب شامل ہیں۔ لازم ہے کہ قومی اتفاقِ رائے سے اس کیلئے کوئی طریقۂ کار وضع کیا جائے۔ ہو یہ رہا ہے کہ اپنی باری پر ہر ایک ان کاموں کیلئے جواز پیش کرتا ہے اور اگر اس کا فریقِ مخالف یہی کام کرے تو اُس پر طعن کرتا ہے‘ ملامت کرتا ہے اور تبصرے کرتا ہے۔ قوانین اور قواعد وضوابط ایسے ہونے چاہئیں جو سب پر یکساں لاگو ہوں‘ یہ نہیں کہ ایک جماعت کرے تو ٹھیک ہے اور دوسری کرے تو غلط ہے‘ غلط ہر صورت میں غلط ہے اور صحیح ہر صورت میں صحیح ہے‘ الغرض اس کیلئے ایک قومی اتفاقِ رائے کی ضرورت ہے۔
حدیث پاک میں ہے: ''حضرت مُعاذؓ بن انَس بیان کرتے ہیں: میں رسول اللہﷺ کے ہمراہ جہاد میں شریک ہوا تو لوگوں نے پڑائو کی جگہ کو تنگ کر دیا اور راستے بند کر دیے۔ نبی کریمﷺ نے ایک شخص کو لوگوں میں اعلان کرانے کیلئے بھیجا کہ جس نے پڑائو کی جگہیں تنگ کر دیں یا راستے کو بند کر دیا تو اس کا جہاد نہیں ہے‘‘ (ابودائود: 2629)۔ یہ کتنی بڑی وعید ہے کہ ایسا کرنے والا جہاد کے ثمرات سے محروم ہو جاتا ہے۔ حضرت ابن عمرؓ بیان کرتے ہیں: رسول اللہﷺ نے سات مقامات پر نماز پڑھنے سے منع فرمایا: (1) کوڑے کا ڈھیر‘ (2) مذبح‘ (3) مقبرہ (کہ قبر کی طرف سجدہ ہونے کی صورت میں بت پرستی کے مشابہ ہوگا)‘ (4) شارعِ عام (کہ لوگوں کیلئے اذیت کا سبب بنے گا)‘ (6) حمّام (6) اونٹوں کے بیٹھنے کی جگہ (کہ نماز کی تقدیس کے منافی ہے)‘ (7) بیت اللہ کی چھت پر (کہ خلافِ ادب ہے)‘‘ (ترمذی: 346)۔ شارعِ عام پر نماز پڑھنا مکروہِ تحریمی ہے کہ عامّۃ الناس کیلئے حرج کا سبب بنتا ہے۔ پس جب نماز کیلئے شارعِ عام کو روکنا جائز نہیں ہے تو شادی بیاہ اور تقریبات کیلئے کیسے جائز ہوگا۔ حکومتوں کو چاہیے کہ ہر آبادی میں اس طرح کی تقریبات کیلئے جگہیں مختص کرے تاکہ عام زندگی کے معمولات میں حرج واقع نہ ہو۔ نبیﷺ نے فرمایا: ''ایک شخص راستے میں جا رہا تھاکہ اس نے کانٹے دار ٹہنی راستے میں دیکھی تو اسے ہٹا دیا‘ اللہ تعالیٰ نے اُس کے اس فعل کو اتنا پسند فرمایا کہ اس کو بخش دیا‘‘ (ترمذی: 1958)۔ اسی طرح راستے میں پھلوں سبزیوں وغیرہ کے ریڑھے اور ٹھیلے لگا دینا بھی راہگیروں کیلئے اذیت کا باعث ہے اور پیدل چلنے والوں کیلئے جو فٹ پاتھ بنائے گئے ہیں‘ ان کو بھی روکنا قانوناً اور شرعاً جائز نہیں ہے۔
امام غزالی اپنے عہد کے اعتبار سے لکھتے ہیں: ''پس عام منکَرات میں سے نجی ملکیتی عمارتوں سے متصل ستون اور چبوترے بنانا‘ درخت لگانا‘ بالکونی اور چھجوں کو باہر نکالنا‘ سڑکوں پر لکڑیاں‘ اناج اور کھانے پینے کی چیزیں رکھنا‘ اگر اس سے راستے تنگ ہوتے ہوں اور گزرنے والوں کو اس سے نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو تو یہ سب ناجائز ہیں اور اگر راستہ کشادہ ہونے کی وجہ سے نقصان کا اندیشہ نہ ہو تو پھر منع نہیں ہے۔ نیزگھروں تک پہنچانے کیلئے (عارضی طور پر) لکڑیوں اور کھانے پینے کی چیزوں کا رکھنا ایسا امر ہے جس کی ضرورت سب کو ہوتی ہے اور اس سے منع کرنا ممکن نہیں ہے۔ جانوروں کو سڑک پر اس طرح باندھنا کہ اس سے راستہ تنگ ہو‘ راہگیروں کو ناپاک کر دے‘ ناجائز ہے‘ اس سے منع کرنا واجب ہے‘ اس کا سبب یہ ہے کہ راستے پر سب کا حق برابر ہے اور کسی کو یہ حق نہیں ہے کہ اس کو ضرورت کے سوا اپنے لیے مختص کر دے۔ چراگاہ وہ ضرورت ہے جس کیلئے عام طور پر لوگ دیگر ضروریات کے برعکس سڑکوں پر جاتے ہیں اور سڑکوں پر جانوروں کو لے جانا‘ جبکہ ان پر کانٹے ہوں جو لوگوں کے کپڑوں کو پھاڑ دیتے ہیں‘ تو یہ ناجائز ہے‘ اگر ان کو جمع کرنا اور باندھنا ممکن ہو کہ اس سے نقصان نہ ہو یا اگر ان کو کسی کشادہ جگہ پر منتقل کرنا ممکن ہو تو صحیح‘ ورنہ منع نہیں کیا جائے گا‘ کیونکہ شہر کے سب لوگوں کو اس کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہاں! ان کو منتقل ہونے کی مدت کے سوا سڑکوں پر نہیں چھوڑا جائے گا‘‘ (اِحیائُ علومِ الدِّین‘ تلخیص‘ ج: 2‘ ص: 339)۔