رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ خام ایندھن کو جلانے کی شرح میں اضافے کے باعث زہریلی گیسوں کا اخراج بڑھا ہے اور جنگلات میں لگنے والی آگ سے یہ مزید بدتر ہوگیا جبکہ درختوں کی کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کرنے کی صلاحیت بھی ممکنہ طور پرکم ہوگئی ہے۔ نیز 2023ء میں فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی سطح 420 پی پی ایم تک پہنچ گئی تھی جو صنعتی انقلاب کے عہد کے مقابلے میں 51فیصد زیادہ ہے۔ ماحول اور موسم کے ماہرین ایک عرصے سے متنبہ کر رہے تھے کہ ترقی یافتہ ممالک کے صنعتی نظام سے جو طرح طرح کی گیسیں خارج ہو رہی ہیں یہ بالائی فضا‘ ماحول اور موسمی حالات کو متاثر کر رہی ہیں‘ ان موسمی تغیرات کے نتیجے میں برفانی تودے پگھل سکتے ہیں‘ جن سے بڑے پیمانے پر ایسے سیلاب آ سکتے ہیں کہ ان پر قابو پانا کسی کے بس میں نہیں ہو گا۔ سابق برطانوی رکن پارلیمنٹ کلاڈیا ویب نے کہا تھا: ''پاکستان ایک فیصد خطرناک گیسیں خارج کر رہا ہے‘ لیکن اس وقت موسمی تبدیلیوں کے حوالے سے یہ دنیا کے دس سب سے زیادہ متاثرہ ممالک میں سے ہے‘ یہ متاثرہ ممالک ہم صنعتی ممالک کی لالچ کی قیمت چکانے پر مجبور ہیں۔ قطبِ شمالی کے بعد سب سے زیادہ برفانی تودے پاکستان میں ہیں‘ ان کی تعداد 7253 بتائی جاتی ہے‘‘۔ ذرا سوچیں! اگر خدانخواستہ یہ پگھلنا شروع ہوئے تو پاکستان میں کیا بچے گا۔ اس سے پہلے پاکستان میں سیلاب دریائوں سے آتے تھے‘ کبھی بھارت اپنے دریائوں (راوی‘ چناب اور ستلج) کا فاضل پانی پاکستان کی طرف موڑ دیتا تھا‘ لیکن دوبرس قبل یہ سارا سیلاب غیر معمولی بارشوں کی وجہ سے آیا تھا۔ 2022ء کے بارانی سیلاب کے بارے میں ماہرین نے بتایا کہ اچانک بادل پھٹ پڑے اور بے پناہ موسلادھار بارش برسی۔ اُس وقت پاکستان کا تیس فیصد رقبہ زیرِ آب آ چکا تھا اور اب اس کی بحالی میں شاید کئی برس لگ جائیں۔ ہمارے ہاں جانی‘ مالی‘ مکانات‘ زرعی اور مویشیوں کے نقصانات کے صحیح اور قطعی اعداد وشمارکبھی دستیاب نہیں ہوتے‘ جو کچھ بتایا جاتا ہے سب اندازوں اور ظنّ وتخمین پر مبنی ہوتا ہے۔ ان نقصانات کی تلافی تو الگ بات ہے‘ کسی کو اندازہ نہیں کہ آنے والے مہینوں اور برسوں میں موسم کی صورتِ حال کیا ہو گی۔ یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ موسمی تبدیلی کے اثرات ہمہ گیر ہیں اور باری باری سب ممالک متاثر ہوں گے۔ توانائی کی کمی کا مسئلہ بھی درپیش ہے‘ جرمنی میں ابھی سے گیس کے کم استعمال کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے اور اگر عالمی درجۂ حرارت میں تبدیلی کا یہی رجحان رہا تو آنے والے برسوں میں مشکلات میں غیر متوقع اضافہ ہو سکتا ہے۔
ہماری بدنصیبی یہ ہے کہ ہماری حکومتوں کو اپنے مستقبل کا علم نہیں ہے‘ حالات غیر یقینی ہیں اور انہیں مزید غیر یقینی بنایا جا رہا ہے۔ ایسے میں کسی طویل منصوبہ بندی کی توقع رکھنا عبث ہے۔ ملک کی قسمت سے کھیلنے والوں نے اپنے کیے کے نتائج اپنی آنکھوں سے دیکھ لیے ہیں۔ پس ضرورت اس امر کی ہے کہ ہوش کے ناخن لیے جائیں اور نظم کے تسلسل اور سنجیدہ منصوبہ بندی پر توجہ دی جائے۔ اگر صورتحال یہی رہی کہ مقتدرہ کی ترجیح کوئی اور ہے‘ عدلیہ کی ترجیحات اور ہیں تو ایسے میں سول انتظامیہ مفلوج ہوکر رہ جاتی ہے۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ملک کے حالات کو یہاں تک پہنچانے میں مقتدرہ کے ساتھ عدلیہ کا بھی حصہ رہا ہے‘ کوئی دانستہ آنکھیں بند کرنا چاہے توکر سکتا ہے‘ ورنہ نوشتۂ دیوار ہر ذی ہوش کو نظر آرہا ہے۔
جب ہم دعا اور توبہ واستغفار کی بات کرتے ہیں تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہوتا کہ اسباب کو ترک کر دیا جائے‘ ہاتھ اٹھا دیے جائیں اور ملک کو حالات کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا جائے۔ توکل کے معنی ہیں: ''تمام تر ممکنہ اسباب کو اختیار کیا جائے‘ تدبیر وتدبّر سے حکمتِ عملی مرتب کی جائے اور اس پر عمل کیا جائے‘ مگر اسباب کے سازگار اور مؤثر ہونے کیلئے ذاتِ مسبِّبُ الاسباب پر بھروسا کیا جائے‘‘۔ اسباب کی باگ ڈور قدرت کے دائرۂ اختیار میں ہے‘ اُس کی رحیمی اور کریمی متوجہ ہو جائے تو صورتحال بہتر بھی ہو سکتی ہے اور ہمارے حق میں بدل بھی سکتی ہے۔ قرآنِ کریم ہمیں یہی سبق دیتا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ''بھلا سوچو تو سہی‘ جو کچھ تم (زمین میں) کاشت کرتے ہو‘ اُسے تم اگاتے ہو یا ہم اگانے والے ہیں اور اگر ہم چاہیں تو اُسے ریزہ ریزہ کر دیں اور تم باتیں بناتے رہ جائو کہ ہم پر تاوان پڑ گیا‘ بلکہ ہم تو محروم ہی ہو گئے‘ بھلا سوچو تو سہی! یہ پانی جو تم پیتے ہو‘ اُسے تم نے بادلوں سے اتارا ہے یا ہم اتارنے والے ہیں اور اگر ہم چاہیں تو اسے سخت کھارا بنا دیں‘ پھر تم کیوں شکر ادا نہیں کرتے‘‘ (الواقعہ: 63 تا 71)۔
اللہ تعالیٰ نے زمین میں توازن پیدا کرنے کیلئے پہاڑ بنائے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ''اور کیا ہم نے زمین کو فرش نہ بنایا اور پہاڑوں کو کیلیں بنایا (تاکہ توازن قائم رہے)‘‘ (النبا: 6 تا 7)۔ (2) ''اور اس کے بعد زمین کو پھیلا دیا‘ اُس سے اس کا پانی اور چارہ نکالا اور پہاڑوں کو اُس میں نصب کر دیا‘‘ (النازعات: 30 تا 32)۔ یعنی زمین کا توازن قائم کرنے کیلئے پہاڑوں کو لنگر کی طرح زمین میں گاڑ دیا‘ اس کا ذکر ایک حدیث پاک میں بھی ہے: ''نبیﷺ نے فرمایا: جب اللہ تعالیٰ نے زمین کو پیدا کیا تو وہ ڈولنے لگی‘ پھر (زمین کا توازن قائم کرنے کیلئے اللہ تعالیٰ نے) پہاڑوں کو پیدا کیا اور انہیں حکم دیا: اسے تھامے رکھو‘ پس زمین ٹھہر گئی‘ ملائکہ نے پہاڑوں کی طاقت پر تعجب کیا اور عرض کیا: اے پروردگار! کیا آپ کی مخلوق میں کوئی چیز پہاڑوں سے بھی زیادہ طاقتور ہے‘ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ہاں! وہ لوہا ہے (کہ آہنی آلات سے پہاڑوں کو بھی ریزہ ریزہ کر دیا جاتا ہے)‘ فرشتوں نے پھر پوچھا: اے پروردگار! آپ کی مخلوق میں کوئی چیز لوہے سے بھی زیادہ طاقتور ہے‘ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ہاں!وہ آگ ہے (کہ آگ میں لوہا پگھل جاتا ہے)‘ فرشتوں نے پھر پوچھا: اے پروردگار! آپ کی مخلوق میں کوئی چیز آگ سے بھی زیادہ طاقتور ہے‘ فرمایا: ہاں! وہ تند وتیز آندھیاں اور ہوائیں ہیں‘ فرشتوں نے عرض کیا: اے پروردگار! آپ کی مخلوق میں کوئی چیز تند وتیز ہوائوں سے بھی زیادہ طاقتور ہے‘ فرمایا: ہاں! وہ بنی آدم ہے کہ دائیں ہاتھ سے صدقہ کرتا ہے تو اُسے بائیں ہاتھ سے پوشیدہ رکھتا ہے‘‘ (ترمذی: 3369)۔ یعنی بندۂ مومن کے اخلاص کی طاقت بے حد وبے حساب اور بے پایاں ہے۔ جس طرح زمین میں توازن پیدا کرنے اور ٹھیرائو کیلئے اللہ تعالیٰ نے پہاڑوں کو پیدا کیا‘ اسی طرح طوفانی بارشوں‘ سیلابوں اور زلزلوں سے زمین کے کٹائو کو بچانے کیلئے اللہ تعالیٰ نے جنگلات پیدا فرمائے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ بارانی سلسلوں کے جاری رہنے کیلئے زمین کے کم ازکم چوتھائی یا اس سے زیادہ رقبے پر جنگلات ہونے چاہئیں‘ جبکہ پاکستان میں جنگلات صرف چار فیصد رقبے پر بتائے جاتے ہیں‘ یہ شرح خطرناک حد تک کم ہے۔ ماضی میں آزاد کشمیر اور صوبۂ خیبر پختونخوا کے جنگلات کو بااختیار لوگ تباہ وبرباد کر کے اپنی دولت میں اضافہ کرتے رہے اور اب موسمی تغیّرات کے سبب بارشوں اور برفباری کی اوسط مقدار خطرناک حد تک کم ہو چکی ہے۔ اس سال بارشوں کا تناسب بہت کم ہے اور نہ صرف بارانی علاقوں میں قلتِ آب کا خدشہ ہے‘ بلکہ اس کا اثر مجموعی طور پر ملک پر بھی پڑے گا۔ بارشوں کی قلت کے سبب زیرِ زمیں پانی کی قلت ہوتی جاتی ہے اور اس کا اثر ملک کی مجموعی معیشت پر مرتب ہونا لازمی ہے‘ کیونکہ پہاڑوں پر برسنے والی بارش اور پگھلنے والی برف کا پانی ہی ندی نالوں اور دریائوں میں بہہ کر آتا ہے۔ اسلام میں شجرکاری کی اہمیت کا اندازہ لگانا ہو تو احادیثِ مبارکہ کا مطالعہ ضرور کیجیے‘ عام ضابطہ یہ ہے: ''اعمال پر جزا وسزا کا مدار نیتوں پر ہے‘‘ (بخاری: 1)۔ یعنی یہ کہ انسان کے عمل کے پیچھے کون سی نیت کارفرما ہے‘ اگر عمل بظاہر نیک ہے‘ لیکن اس کے پیچھے جو نیت کارفرما ہے‘ اُس سے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولﷺ کی رضا مطلوب نہیں ہے‘ تو وہ عمل اجرِ آخرت کے اعتبار سے ضائع ہو جائے گا۔ (جاری)