"MMC" (space) message & send to 7575

دشمن کاجنگی ہتھیار

جنگ یا حالتِ جنگ میں دشمن کا ایک ہتھیار جان بوجھ کر غلط خبر پھیلانا‘ تحقیق کے بغیر خبر پھیلانا‘ عوام میں بے چینی پیداکرنے کیلئے جھوٹی خبریں پھیلانا اور اصحابِ معاملہ کو الجھانے کیلئے متضاد خبریں پھیلانا ہے۔ اسے انگریزی میں 'مِس انفارمیشن، ڈِس انفارمیشن اور فالز انفارمیشن‘ کہا جاتا ہے۔ گوگل میں ان کی متعدد تعریفات کی گئی ہیں: بدنیتی کے بغیر غیر ارادی طور پر جھوٹی خبریں پھیلانا مِس انفارمیشن اور بدنیتی کے ساتھ گمراہ کرنے اور دھوکا دہی کیلئے جھوٹی خبریں پھیلانا ڈِس انفارمیشن کہلاتا ہے۔ غیر مصدقہ خبر یں پھیلانا بھی ایک حربہ ہے‘ خواہ ایسی خبر پھیلانے والے کی نیت خراب نہ ہو۔ Wrong Information کا دائرہ اس سے بھی وسیع ہے‘ کیونکہ اس کے مقاصد میں پروپیگنڈا‘ عوام میں سنسنی پھیلانا اور فیصلہ کن مراکز پر اثرانداز ہونا بھی شامل ہوتا ہے تاکہ وہ یکسوئی کے ساتھ اپنے کام پر توجہ دینے کے بجائے غیر ضروری کاموں کی تدبیر یا وضاحت کرنے میں مشغول ہو جائیں۔ آج کل مصنوعی ذہانت کی وجہ سے یہ کام اور بھی آسان اور اس کے مفاسد کا دائرہ بہت وسیع ہو گیا ہے۔ جب خبروں کا ایک سیلاب آ جائے تو صحیح اور غلط اور حق اور باطل میں تمیز کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔
عہدِ رسالت مآبﷺ میں بھی یہ مسائل موجود تھے۔ مدینہ منورہ میں یہود بھی تھے اور مُذبذب منافقین بھی تھے۔ ان کی تعریف قرآنِ کریم میں یہ کی گئی ہے: ''بیشک منافقین (اپنے زعمِ باطل میں) اللہ کو دھوکا دینا چاہتے ہیں اور وہ انہیں ڈھیل دے کر دھوکے کی سزا دے گا اور جب وہ نماز کیلئے کھڑے ہوتے ہیں تو لوگوں کو دکھانے کیلئے انتہائی کسل مندی کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں اور اللہ کا ذکر بہت کم کرتے ہیں‘ وہ ایمان اور کفر کے درمیان ڈگمگا رہے ہیں‘ (درحقیقت) نہ وہ مسلمانوں کے ساتھ ہیں اور نہ کافروں کے ساتھ اور (اے مخاطَب!) جسے اللہ گمراہی میں چھوڑ دے تو آپ اُس کیلئے (ہدایت کی) کوئی راہ نہ پائو گے‘‘ (النسآء: 142 تا 143)۔ مدینۂ منورہ میں بھی جھوٹی اور غیر مصدقہ خبریں پھیلانے والے موجود تھے‘ جب مسلمانوں کا کوئی لشکر جہاد پر گیا ہوتا تو یہ اہلِ مدینہ سے کہتے: تمہارے اکثر لوگ قتل کر دیے گئے ہیں یا شکست کھا گئے ہیں تاکہ مسلمان رنجیدہ ہوں یا دشمن کے اچانک حملے کی خبر پھیلا کر سنسنی پیدا کرتے۔ قرآنِ کریم میں ہے: ''اگر منافق اور وہ لوگ جن کے دلوں میں (مسلمانوں کی عداوت کا) روگ ہے اور مدینے میں لرزہ خیز خبریں پھیلانے والے اب بھی باز نہ آئے تو ہم ضرور آپ کو اُن پر مسلّط فرما دیں گے‘ پھر وہ آپ کے پاس مدینے میں زیادہ عرصہ ٹھہر نہیں سکیں گے‘ یہ لعنتی لوگ ہیں‘ یہ جہاں بھی پکڑے جائیں گے‘ انہیں چن چن کر قتل کر دیا جائے گا‘ ماضی کے (منافقین کے بارے میں) اللہ کا دستور یہی تھا اور آپ اللہ کے دستور میں ہرگز کوئی تبدیلی نہیں پائیں گے‘‘ (الاحزاب: 61 تا 62)۔ ایسے لوگوں کی حقیقت کو اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں بے نقاب فرمایا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ''اور جب اُن کے پاس اطمینان یا خوف کی کوئی خبر آتی ہے تو یہ (تحقیق کیے بغیر) اُسے پھیلا دیتے ہیں اور اگر وہ اس (سنی سنائی) خبر کو اللہ کے رسول اور (جنگی) حکمتِ عملی طے کرنے والے صحابہ کے سامنے پیش کرتے تو اُن میں سے خبر کا تجزیہ کرنے والے ضرور اس کی تہہ تک پہنچ جاتے اور اگر تم پر اللہ کا فضل اور اُس کی رحمت نہ ہوتی‘ تو چند لوگوں کے سوا تم شیطان کی پیروی کر لیتے‘‘ (النسآء: 83)۔ اس سے معلوم ہوا کہ حقیقی جنگ یا حالتِ جنگ میں ہر سنی سنائی خبر کو پھیلا دینا حکمت کے منافی ہے‘ کیونکہ اس سے دشمن فائدہ اٹھا سکتا ہے‘ ناپختہ ذہن کے لوگوں میں پژمردگی اور اضمحلال پیدا ہوتا ہے‘ ایسی سنسنی پھیل سکتی ہے کہ اس کے نقصانات کو سمیٹنا مشکل ہو جائے۔ اس لیے قرآن نے تعلیم دی کہ جس کے پاس ایسی خبر آئے‘ وہ اسے دینی وملّی امانت سمجھے‘ قومی وملکی سلامتی کو پیشِ نظر رکھے اور انتہائی رازداری سے منصوبہ بندی کرنے والوں اور حکمتِ عملی طے کرنے والوں تک پہنچائے تاکہ وہ اس کی حقیقت کو جان سکیں اور اس کے مثبت پہلوئوں سے استفادہ اور منفی اثرات کا سدِّباب کر سکیں۔ یہ ایسا ہی ہے کہ کسی مریض کو کسی خاص مرض کیلئے دوا دی جاتی ہے تو اصل مرض کا مداوا کرنے کے ساتھ ساتھ اُس کے کچھ ذیلی اثرات (Side Effects) بھی ہوتے ہیں اور ماہر طبیب اُن ممکنہ نقصانات کی تلافی کیلئے اضافی دوا نسخے میں شامل کرتے ہیں‘ اس کو حکمت کی زبان میں ''بَدرَقہ‘‘ کہا جاتا ہے۔ ایمانیات واعمال میں اس کی مثال یہ حدیث ہے: ''حضرت ابوذر غفاریؓ بیان کرتے ہیں: رسول اللہﷺ نے مجھ سے فرمایا: تم جہاں کہیں بھی ہو‘ اللہ سے ڈرتے رہا کرو اور ( بشری تقاضے کے تحت) برائی کر بیٹھو تو اس کے فوراً بعد نیکی کرو‘ وہ برائی کے اثراتِ بد کو مٹا دے گی اور لوگوں کے ساتھ اچھے اخلاق کے ساتھ پیش آئو‘‘ (ترمذی: 1987)۔ رسول اللہﷺ کا یہ بھی فرمان ہے: ''کسی آدمی کے جھوٹا ہونے کیلئے اتنا ہی کافی ہے کہ ہر سنی سنائی بات کو (تحقیق کے بغیر) آگے بیان کرتا پھرے‘‘ (صحیح مسلم: 5)۔
جنگ میں دشمن کو دھوکا دینے کیلئے بھی تدبیر اختیار کی جاتی ہے‘ اسے Camouflage کہتے ہیں تاکہ اسکی توجہ اصل ہدف سے ہٹ جائے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ''جنگ دھوکا ہے‘‘ (بخاری: 3029)۔ جاسوسی بھی جنگ کی حکمتِ عملی میں بہت اہم شعبہ ہے۔ امام احمد بن حنبلؒ روایت کرتے ہیں: ''نبیﷺ نے حضرت حذیفہؓ بن الیمان کو غزوۂ خندق کے موقع پر مشرکینِ مکہ کے لشکر کی طرف جاسوس بنا کر بھیجا‘ اس رات حضرت حذیفہؓ کا سخت سردی اور بھوک سے برا حال تھا۔ رسول اللہﷺ نے ان کو دعا دی اور ان سے فرمایا: دشمن کے حالات معلوم کرنا اور ان کو میرے خلاف بھڑکا نہ دینا۔ حضرت حذیفہؓ بیان کرتے ہیں: چنانچہ میں چلا گیا اور دشمن کے لشکر میں گھس گیا جہاں ہوائیں اور اللہ کے لشکر اپنے کام کر رہے تھے اور ان کی کوئی ہنڈیا آگ اور خیمہ ٹھہر نہیں پا رہے تھے۔ یہ دیکھ کر ابوسفیان بن حرب کھڑا ہوا اور کہنے لگا: اے گروہِ قریش! ہر آدمی دیکھ لے کہ اسکے ساتھ کون بیٹھا ہے‘ (تاکہ کہیں کوئی جاسوس نہ ہو)اس پر میں نے پہل کرتے ہوئے اپنے ساتھ بیٹھے ہوئے ایک شخص کا ہاتھ پکڑکر اس سے پوچھا: تم کون ہو؟‘ اس نے بتایا: میں فلاں بن فلاں ہوں‘ پھرابوسفیان کہنے لگا: اے گروہِ قریش بخدا! اس جگہ تمہارے لیے مزید ٹھہرنا اب ممکن نہیں رہا‘ مویشی ہلاک ہو رہے ہیں‘ بنوقریظہ نے بھی ہم سے وعدہ خلافی کی ہے اور ہمیں انکی طرف سے ناپسندیدہ حالات کا سامنا کرنا پڑا ہے اور اس آندھی سے جو حالات پیدا ہو گئے ہیں‘ وہ تم دیکھ ہی رہے ہو کہ کوئی ہانڈی ٹھہر نہیں پا رہی‘آگ جل نہیں رہی اور خیمے اپنے جگہ کھڑے نہیں ہو پا رہے۔ اس لیے میری رائے تو یہ ہے کہ تم لوگ واپس روانہ ہو جاؤ اور میں بھی واپس جا رہا ہوں۔ یہ کہہ کر وہ اپنے گھوڑے کی طرف چل دیا جو رسی سے باندھا گیا تھا اور اس پر سوار ہو کر ایڑ لگادی وہ تین مرتبہ اچھلا‘ لیکن جب اس نے رسی چھوڑی تو وہ کھڑا ہو گیا۔ اگر نبیﷺ نے مجھے وصیت نہ کی ہوتی کہ کوئی نیا کام نہ کرناجب تک میرے پاس واپس نہ آ جاؤ تو میں ضرور اپنا تیر مار کر ابوسفیان کو قتل کر سکتا تھا۔ پھر میں نبی کریمﷺکی طرف واپس روانہ ہو گیا‘ نبی کریمﷺ اس وقت چادر اوڑھے نماز پڑھ رہے تھے‘ مجھے دیکھ کر آپﷺ نے مجھے اپنے خیمے ہی میں بلا لیا اور چادر کا ایک کونا مجھ پر ڈال دیا‘ پھر رکوع اور سجدہ کیا جبکہ میں خیمے ہی میں رہا۔ آپﷺ سلام پھیر چکے تو نبی کریمﷺ کوساری بات بتا دی‘جب بنوغطفان کو پتا چلا کہ قریش نے کیا کیا ہے تو وہ اپنے علاقے کی طرف واپس لوٹ گئے‘‘ (مسند احمد: 23334)۔ امام محمد بن یوسف صالحی شامی نے ''سُبُلُ الْھُدیٰ وَالرَّشَاد‘‘ کی جلد: 4‘ صفحات: 383 تا 386 میں غزوۂ احزاب ہی کے موقع پر نُعَیم بن مسعود کی یہودِ خیبر ومشرکینِ قریش کے مابین اختلافات اور بدگمانی پیدا کرنے کی کامیاب جاسوسی حکمتِ عملی کا تذکرہ کافی تفصیل کے ساتھ کیا ہے اور یہ بہت دلچسپ ہے۔
نوٹ: یہ کالم بھارت کے جنگ چھیڑنے سے پہلے لکھا گیا تھا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں