"MMC" (space) message & send to 7575

ایران اسرائیل کی امکانی استعداد

ایران پر اسرائیلی حملوں کا آغاز 13جون کو ہوا اور 24 جون کو جنگ بندی ہوئی‘ اس میں بلاشبہ تناسب کے اعتبار سے ایران کا نقصان بہت زیادہ ہوا ہے۔ اعلیٰ فوجی قیادت منظر سے ہٹ گئی‘ بعض ایٹمی مراکز‘ حساس دفاعی تنصیبات اور شہری مقامات پر اندھا دھند بمباری کی گئی لیکن امریکہ‘ اسرائیل اور اہلِ مغرب کے تمام تر اندازوں کے برعکس ایران نے ہتھیار نہیں ڈالے‘ بلکہ جرأت واستقامت کے ساتھ مقابلہ کیا۔ ایران کی بعض کمزوریاں بھی سامنے آئیں کہ موساد‘ را اور سی آئی اے کے اشتراک سے دشمن کا جاسوسی نظام اُن کی صفوں کے اندر نفوذ کر چکا تھا حتیٰ کہ ایران کے اندر ڈرون تیار کرنے کا کارخانہ بھی بنا لیا گیا تھا۔ اس انٹیلی جنس خامی کے سبب ایران کو بھاری نقصان اٹھانا پڑا‘ لیکن انہوں نے گھنٹے نہیں ٹیکے۔ سطورِ ذیل میں ہم ایران اور اسرائیل کی امکانی استعداد کا تقابل کرتے ہیں:
(1) ایران کا رقبہ 16لاکھ 48ہزار مربع کلو میٹر جبکہ اسرائیل کا رقبہ 22 ہزار 145 مربع کلومیٹر ہے‘ پس ایران کا رقبہ اسرائیل سے تقریباً 75 گنا بڑا ہے۔ ایران کی آبادی تقریباً آٹھ کروڑ نوّے لاکھ اور اسرائیل کی آبادی تقریباً پچانوے لاکھ ہے‘ پس ایران کی آبادی اسرائیل سے تقریباً ساڑھے نوگنا زائد ہے۔ رقبے کی وسعت اور آبادی کا تناسب ایران کی بہت بڑی قوت ہے۔ ایرانی بھاری نقصان اٹھا کر بھی دوبارہ ابھر سکتے ہیں‘طاقت بن سکتے ہیں‘ کیونکہ ان میں قومی تفاخر کا جذبہ موجود ہے‘ جنگ کی شدید ترین تباہی وبربادی کے باوجود ایرانیوں کے جلوسوں اور جمعہ کے اجتماعات سے اس کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ ایران سے بھارت کو پہچاننے میں غلطی ہوئی اور اس کا نقصان انہیں اس جنگ میں اٹھانا پڑا۔ اس جنگ کا سبق یہ ہے کہ ایران کو پڑوسی مسلم ممالک پر زیادہ سے زیادہ اعتماد کرنا چاہیے۔ ایران کا ایک صوبہ آذربائیجان ہے اور اس کے متصل آذربائیجان ایک خودمختار ملک بھی ہے‘ ایران کے اُس کے ساتھ بھی تعلقات خوشگوار نہیں ہیں‘ ایران کو اس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
(2) اسرائیل کی آبادی اور رقبہ دونوں محدود ہیں‘ اگر ایران دس آدمیوں کا نقصان برداشت کرسکتا ہے تو اُس کے مقابل اسرائیل کیلئے ایک آدمی کا نقصان بھی ناقابلِ برداشت ہے۔ مسلمان کی خوبی یہ ہے کہ وہ موت سے نہیں ڈرتا‘ کیونکہ اس کا عقیدہ ہے کہ موت کا وقت مقرر ہے اور وہ ٹلتا نہیں ہے‘جبکہ قرآنِ کریم کی شہادتیں موجود ہیں اور ہم ایک گزشتہ کالم میں اُن آیاتِ مبارکہ کے حوالے دے چکے ہیں کہ یہودی موت سے بہت ڈرتا ہے اور یہی اُس کی بڑی کمزوری بھی ہے۔
(3) ایران کی کمزوری فضائی قوت کا نہ ہونا ہے۔ اُس کے پاس شاہ کے زمانے کے فرسودہ جنگی ہوائی جہاز ہیں جو جدید دور کے جنگی ہوائی جہازوں کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ اسی سبب اسرائیل کو فضا میں کسی مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑا‘ کیونکہ اسرائیل کے جنگی جہاز جدید ترین ہیں‘ انہیں پانچویں نسل کے جنگی جہاز کہا جاتا ہے اور موجودہ دور کی جنگوں میں وہی استعمال ہوتے ہیں۔ الحمدللہ! پاکستان کے پاس بھی جدید ترین جنگی جہاز موجود ہیں اور حالیہ پاک بھارت جنگ میں اُن کی برتری ثابت ہو چکی ہے۔ یہ محض یکطرفہ دعویٰ نہیں ہے‘ بلکہ عالمی میڈیا نے اسے تسلیم کیا ہے‘ اگرچہ بھارت کو اس حقیقت کے تسلیم کرنے میں سبکی محسوس ہو رہی ہے۔
(4) اسرائیل کے پاس فضائی دفاع کا آئرن ڈوم نظام ہے‘ اس کے ذریعے دشمن کے میزائلوں کو ہدف تک پہنچنے سے پہلے فضا میں تحلیل کر دیا جاتا ہے‘ جیسا کہ ابتدائی طور پر ایران کے میزائلوں کے ساتھ ہوا۔ لیکن جب ایران نے فتح‘ خیبر اور سِجّیل ہائپر سونک میزائل داغے تو اسرائیل کا فضائی دفاعی نظام سو فیصد مؤثر نہیں رہا۔ لہٰذا بعض میزائل اپنے اہداف تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئے‘ اگرچہ اُن کا حقیقی تناسب ابھی تک سامنے نہیں آیا‘ کیونکہ زمانۂ جنگ میں قومی اعتماد کو قائم رکھنے کیلئے حقائق کو چھپایا بھی جاتا ہے۔ تاہم یہ ضرور ثابت ہوا کہ میزائل ٹیکنالوجی میں ایران کافی آگے ہے اور شاید اسرائیل‘ امریکہ اور اہلِ مغرب کو بھی ایران کی اس استعداد کا صحیح اندازہ نہیں تھا۔
(5) اسرائیل نے دعویٰ کیا ہے کہ ہم نے میزائل سازی کے کارخانے کو بھی تباہ کر دیا ہے۔ اس کی حقیقت تو ہمیں معلوم نہیں ہے‘ یہ بھی ممکن ہے کہ ایران نے ایک سے زائد مقامات پر یہ کارخانے لگائے ہوں‘ لیکن ایران کے سابق وزیر خارجہ نے بجا طور پر کہا ہے کہ آپ میزائل سازی کے کارخانوں اور حساس ایٹمی مراکز تو نقصان پہنچا سکتے ہیں‘ لیکن آپ علم کو نیست ونابود نہیں کر سکتے۔ جب ہمارے پاس اعلیٰ ٹیکنالوجی‘ جدید سائنسی اور جوہری علوم کے حامل رِجالِ کار موجود ہوں گے‘ تو ہم دوبارہ یہ قوت حاصل کر لیں گے۔ جنگ میں اسلحے کی آزمائش بھی ہوتی ہے‘ اس لیے جنگ کے بعد اس کی تکنیکی کمزوریوں پر بھی قابو پایا جا سکتا ہے۔ ایران اسرائیل جنگ کے تجربے کا ایک سبق یہ ہے کہ پاکستان کو اپنی میزائل سازی کی صنعت کو مزید ترقی دینے کی ضرورت ہے‘ اب ہمیں ہائپر سونک میزائلوں کی طرف جانا ہوگا‘ نیز آئرن ڈوم کی طرز پر فضائی دفاعی نظام بنانا بھی وقت کی ضرورت ہے۔
(6) یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ایران نے عالمی پابندیوں اور اقتصادی مشکلات کے باوجود اپنے کافی وسائل شام‘ لبنان‘ یمن اور عراق میں اپنے زیرِ اثر مسلّح گروہ تشکیل دینے پر خرچ کیے‘ لیکن آخرکار اُن علاقوں سے دستبردار ہونا پڑا۔ اب انہیں اس امر کا بھی جائزہ لینا ہوگا کہ آیا یہ حکمتِ عملی درست تھی‘ اس پر کتنے وسائل خرچ ہوئے اور نتائج کیا ملے۔ بشار الاسد کی حکومت کو بچانے کیلئے ایران نے بہت کچھ کیا‘ لیکن انجامِ کار اُس کے زوال کو بھی بچایا نہ جا سکا‘ یہ ایران کیلئے مایوسی اور ندامت کی بات تھی۔ اگر ایران یہ تمام وسائل اپنی فضائی‘ برّی اور بحری قوت کو منظم کرنے پر خرچ کرتا تو شاید نتائج مختلف ہوتے۔
(7) ایران کی حکمتِ عملی کی ایک غلطی انقلاب کو برآمد کرنے کا نعرہ تھا‘ اس سے عرب حکمرانوں کو اپنی سلطنتیں اور حکومتیں بچانے کی فکر لاحق ہو گئی‘ اس کے نتیجے میں ایران کو دس سال تک عراق کے ساتھ بے نتیجہ جنگ میں اپنے وسائل جھونکنا پڑے۔ فارسی کا مقولہ ہے ''مشک آنست کہ خود ببوید‘ نہ کہ عطار بگوید‘‘ یعنی خوشبو اپنا اشتہار خود ہوتی ہے‘ عطّار کی تعریف کی محتاج نہیں ہوتی۔
(8) یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ایران عراق جنگ کے زمانے میں ہمارے ملک میں بھی بیرونی سرمائے سے اپنے تابع فرمان گروہ پیدا کیے گئے‘ مسالک کے درمیان مسلّح تصادم ہوئے‘ اس سے ہمارے ملک کو بہت نقصان پہنچا۔ اگر یہ سلسلے اب موقوف کر دیے جائیں تو سب پڑوسی ممالک کیلئے اچھا ہوگا‘ امارتِ اسلامیہ افغانستان کو بھی ہمارا مشورہ یہی ہے۔ بہرصورت اب جنگ بندی کے بعد ٹھنڈے دل سے اس کے اسباب‘ نتائج اور حکمتِ عملی کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔
(9) ہمارے ائمۂ مجتہدین نے ہمیشہ اپنے اجتہادات کو قرآن وسنّت کے دلائل سے مزیّن کیا‘ اسی بنیاد پر بحث وتمحیص کا شِعار رائج کیا‘ نزاع اور تصادم سے گریز کیا‘ اس کے نتیجے میں اسلام کو بہت بڑا علمی سرمایہ ورثے میں ملا۔ پس بہتر ہے کہ اپنے اپنے دائرۂ کار میں سب اپنے موقف کو اپنے دلائل سے بیان کریں‘ دوسروں پر طنز‘ طَعن وتشنیع‘ سبّ وشتم‘ تبرّا اور تحقیر واہانت کا سلسلہ ترک کر دیں تو ملک و ملّت کیلئے یہ شعار بہتر ہو گا۔ جب کسی کے علمی اثاثے میں دلائل نہ ہوں تو طاقت کے استعمال کی نوبت آتی ہے اور یہیں سے فساد کا آغاز ہوتا ہے۔ آج ہمارے دفاعی ادارے ایسے ہی طبقات کو فتنۃ الخوارج اور فتنۂ ہند سے تعبیر کر رہے ہیں۔ یہ تقابل ہم نے اپنی فہم کے مطابق نیک نیتی سے کیا ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں