"MMC" (space) message & send to 7575

مقامِ شہادت

قرآن وحدیث میں اللہ تعالیٰ کی راہ میں جدوجہد کیلئے دو کلمات آئے ہیں: ایک ''جہاد ‘‘ اور دوسرا ''قتال فی سبیل اللہ‘‘۔ جہاد میں عموم ہے اور قتال فی سبیل اللہ اُس کا ایک شعبہ ہے‘ جیساکہ حدیث پاک میں ہے: ''نبیﷺ کے پاس بعض مجاہدین آئے‘ آپﷺ نے اُن سے فرمایا: خوش آمدید! تمہارا آنا باعثِ خیر ہو‘ اب تم جہادِ اصغر سے جہادِ اکبر کی طرف آئے ہو۔ صحابہ نے عرض کی: یا رسول اللہﷺ! جہادِ اکبر کیا ہے؟ آپﷺ نے فرمایا: بندے کا اپنے نفس کی خواہشاتِ (باطلہ) کے خلاف جِدّوجُہد کرنا‘‘ (الدرر المنتثرۃ فی الاحادیث المشتھرۃ: 245)۔ یہ حدیث اگرچہ سند کے اعتبار سے ضعیف ہے‘ مگر معنیً درست ہے۔ الغرض مومن کی زندگی سعیِ پیہم اور جُہدِ مُسلسل کا نام ہے اور قِتال فی سبیل اللہ اُس کا ایک شعبہ ہے۔ قتال فی سبیل اللہ کی تعریف اس حدیث مبارک میں موجود ہے: ''ایک شخص نے نبیﷺ کے پاس حاضر ہو کر عرض کی: یا رسول اللہﷺ! ایک شخص (ذاتی‘ قبائلی یا گروہی) حمیّت کی خاطر لڑتا ہے‘ دوسرا دادِ شَجاعت پانے کیلئے لڑتا ہے اور تیسرا شان دکھانے کیلئے لڑتا ہے‘ ان میں سے اللہ کی راہ میں کون ہے؟ آپﷺ نے فرمایا: جو اللہ کے کلمے (دین) کے غلبے کیلئے لڑے‘ تو اللہ کی راہ میں ہے‘‘ (بخاری: 7458)۔
اللہ تعالیٰ نے اپنی راہ میں جہاد کو اپنے ساتھ بیع و شراء سے تعبیر فرمایا: ''بے شک اللہ نے مومنوں سے اُن کی جانوں اور مالوں کو جنت کے عوض خرید لیا ہے‘ (یہ وہ لوگ ہیں) جو اللہ کی راہ میں لڑتے ہیں‘ پس (کبھی دشمن کو) قتل کرتے ہیں اور (کبھی راہِ خدا میں) مارے جاتے ہیں‘ یہ تورات‘ انجیل اور قرآن میں اللہ کا سچا وعدہ ہے اور اللہ سے بڑھ کر اپنے وعدے کو پورا کرنے والا اور کون ہے‘ پس تم اس سودے پر خوش ہو جائو جو تم نے اللہ سے کیا ہے اور یہی بڑی کامیابی ہے‘‘ (التوبہ: 111)۔ پس اللہ کی راہ میں مارے جانے والے کو شہید کہتے ہیں۔ علماء نے بتایا: اُسے شہید اس لیے کہتے ہیں کہ وہ زبانِ قال کے بجائے زبانِ حال سے شہادت دیتا ہے کہ اُس نے اپنی جان اللہ کی راہ میں قربان کر دی ہے اور اس کی روح موت کے ساتھ ہی جنت میں پہنچ جاتی ہے۔
اللہ کی راہ میں جان قربان کرنے میں جو روحانی لذت ہے‘ اُس کے مقابلے میں جنت کی نعمتیں بھی کم ہیں۔ حدیث پاک میں ہے: ''نبیﷺ نے فرمایا: ہر وہ شخص جو جنت میں داخل ہوگا‘ وہ (دوبارہ) دنیا میں واپس جانا پسند نہیں کرے گا‘ خواہ اس کو روئے زمین کی تمام چیزیں مل جائیں‘ البتہ شہید جب آخرت میں اپنی عزت اور وجاہت دیکھے گا تو صرف وہ یہ تمنا کرے گا کہ وہ پھر دنیا میں جائے اور (یکے بعد دیگرے) دس بار راہِ خدا میں قتل کیا جائے‘‘ (بخاری: 2817)‘‘۔ رسول اللہﷺ نے مقامِ شہادت کو عظمت عطا کرتے ہوئے فرمایا: ''اللہ تعالیٰ اس شخص کا ضامن ہے جو اللہ کی راہ میں گھر سے نکلا‘ اس کا گھر سے نکلنا صرف مجھ پر ایمان اور میرے رسولوں کی تصدیق کی وجہ سے تھا کہ میں اس کو اجرِ کثیر یا مالِ غنیمت کے ساتھ لوٹائوں یا اس کو جنت میں داخل کروں‘ اگر میں اپنی امت پر دشوار نہ سمجھتا تو میں کسی لشکر سے پیچھے بیٹھا نہ رہتا‘ میں اس کو ضرور پسند کرتا ہوں کہ میں اللہ کی راہ میں قتل کیا جائوں‘ پھرزندہ کیا جائوں‘ پھر قتل کیا جائوں‘ پھر زندہ کیا جائوں‘ پھر قتل کیا جائوں‘‘ (بخاری: 36)۔ یقینا آپﷺ نے شہادتِ ظاہری کو نہیں پانا تھا‘ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آپ سے وعدہ فرمایا تھا: ''اور اللہ لوگوں سے آپ کی حفاظت فرمائے گا‘‘ (المائدہ:67) لیکن اس کے باوجود آپﷺنے بار بار شہادت کی تمنا کر کے اس منصب کو عظمت عطا کی۔
''رسول اللہﷺ نے صحابہ کرام میں کھڑے ہوکر فرمایا: اللہ کی راہ میں جہاد کرنا اور اللہ پر ایمان لانا تمام اعمال میں افضل ہے۔ ایک شخص نے عرض کی: یا رسول اللہﷺ! بتلائیے کہ اگر میں اللہ کی راہ میں قتل کیا جائوں تو کیا اس سے میرے گناہوں کا کفارہ ہو جائے گا‘ آپﷺ نے فرمایا: ہاں! اگر تم اللہ کی راہ میں قتل کیے جائو درآں حالیکہ تم صبر کرنے والے‘ ثواب کی نیت رکھنے والے ہو اور پیٹھ پھیرنے والے نہ ہو۔ پھر آپﷺ نے فرمایا: تم نے کیا کہا تھا؟ اس نے عرض کیا: میں نے کہا تھا: اگر میں اللہ کی راہ میں قتل کیا جائوں تو کیا اس سے میرے گناہوں کی معافی ہو جائے گی۔ آپﷺنے فرمایا: ہاں! درآں حالیکہ تم صبر کرنے والے‘ ثواب کی نیت رکھنے والے ہو اور پیٹھ پھیرنے والے نہ ہو تو قرض کے سوا تمہارے باقی گناہ معاف کر دیے جائیں گے‘ کیونکہ جبریل امین نے مجھے یہ ابھی بتایا ہے‘‘ (مسلم: 1885)۔
قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ نے شہداء کیلئے حیاتِ جاودانی کی بشارت دی ہے: ''اور جو اللہ کی راہ میں مارا جائے‘ اُسے مردہ نہ کہو‘ بلکہ وہ زندہ ہیں‘ لیکن تمہیں اُن کی زندگی کا شعور نہیں ہے‘‘ (البقرہ: 154) (2) ''اور جو اللہ کی راہ میں مارے جائیں‘ تم انہیں ہرگز مُردہ گمان نہ کرو‘ بلکہ وہ زندہ ہیں‘ اپنے رب کے پاس رزق پاتے ہیں‘‘ (آل عمران: 169)۔ جو اللہ کی راہ میں شہید ہو جائے‘ وہ طبّی اور ظاہری اعتبار سے فوت ہو جاتا ہے اور اس پر موت کے احکام جاری ہوتے ہیں‘ اس کی بیوی بیوہ قرار پاتی ہے‘ اس کی وراثت تقسیم ہو جاتی ہے‘ لیکن اس کے باوجود اللہ تعالیٰ نے انہیں مردہ کہنے کی ممانعت فرمائی اور یہ بھی کہ اپنے ذہن میں بھی انہیں مردہ گمان نہ کرو۔ اُن کی حیات بعدَ الموت کی کیفیت کیا ہے‘ یہ اللہ تبارک وتعالیٰ بہتر جانتا ہے‘ ہم غیر مشروط طور پر اس پر ایمان لانے کے پابند ہیں۔
شہید کامقام اتنا بلند اس لیے ہے کہ وہ رضا ورغبت سے اپنی سب سے قیمتی متاعِ حیات کو اللہ کی راہ میں قربان کر دیتا ہے۔ مذکورہ احادیثِ مبارکہ اس پر شاہد ہیں کہ وہ جنت کی ابدی اور دائمی نعمتوں کو پا کر بھی تمنائے شہادت کرے گا‘ جبکہ حدیث مبارک کی شہادت کے مطابق کوئی اور جنتی دوبارہ دنیا میں جانے کی تمنا نہیں کرے گا‘ جبکہ شہید زبانِ حال سے کہتا ہے :
جان دی‘ دی ہوئی اُسی کی تھی؍ حق تو یوں ہے کہ حق ادا نہ ہوا
یعنی بندۂ مومن نے اگر اللہ کی راہ میں جان دی ہے تو یہ اُسی کی عطا تھی‘ اپنے پاس سے کیا دیا‘ ہاں! ایک جان کے بدلے میں سو جانیں قربان کرتا تو یہ اُس کا کمال ہوتا‘ مگر یہ اُس کے بس کی بات نہیں ہے۔ چنانچہ امام عالی مقام حسین رضی اللہ عنہ نے شبِ عاشور اپنے اہلِ بیت اور جاں نثاروں سے فرمایا: ''جو آج کی رات اپنے گھر والوں کے پاس جانا چاہے تو میں اُسے اجازت دیتا ہوں‘ کیونکہ قوم میرے خون کی پیاسی ہے‘ جب وہ مجھے شہید کر دیں گے‘ تو دوسروں سے بے نیاز ہو جائیں گے‘ آپؓ نے اپنے چچا زادوں بنو عقیل سے کہا: تمہارے حصے کی قربانی مسلم بن عقیل نے اپنی شہادت سے دیدی ہے‘ میں تمہیں اجازت دیتا ہوں: تم چلے جائو‘ سب نے یک زبان ہو کر کہا: آپ کے بعد جینا کس کام کا‘ لوگ کیا کہیں گے: ہم نے اپنے بزرگ‘ اپنے سردار‘ اپنے چچا زاد کو مشکل وقت میں چھوڑ دیا‘ ہم نے دنیا کی زندگی کی محبت میں ان کے ساتھ مل کر دشمن پر تیر چلایا‘ نہ نیزہ گھونپا اور نہ تلوار چلائی‘ واللہ! ہم ہرگز آپ کا ساتھ نہیں چھوڑیں گے‘ بلکہ ہم اپنی جانوں‘ مالوں اور اہل سمیت اپنا سب کچھ آپ پر قربان کر دیں گے اور اُس وقت تک لڑتے رہیں گے جب تک آپ کے انجام کو نہ پہنچیں۔ مسلم بن عوسجہ اسدی اور سعید بن عبداللہ حنفی نے کہا: واللہ! ہم آپ کو مشکل وقت میں ہرگز تنہا نہیں چھوڑیں گے حتیٰ کہ اللہ دیکھ لے کہ ہم نے رسول اللہﷺ کے غیاب میں اپنی بساط کے مطابق آپ کی حفاظت کی‘ واللہ! یہ تو ایک جان ہے‘ اگر ہمیں ہزار جانیں بھی ملیں تو ہم ایک ایک کر کے سب آپ پر قربان کر دیں گے۔ ہم تب تک آپ کا ساتھ نہیں چھوڑیں گے جب تک کہ ہم اپنا سب کچھ آپ پر قربان نہ کر دیں اور جب ہم شہید کر دیے جائیں گے تو ہم سمجھیں گے کہ ہم نے حق ادا کر دیا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں