"MMC" (space) message & send to 7575

قافلۂ حجاز میں ایک حسین بھی نہیں

علامہ اقبال نے امامِ عالی مقام حضرت حسینؓ کی شخصیت‘ کردار اور بے مثال ایثار وقربانی کو فہمِ اسلام کا ایک استعارہ بنایا ہے۔ کردارِ حسینی اُن کی نظر میں ایک مثالیہ ہے۔ انہوں نے یہاں تک کہا: ''رمزِ قرآں از حسین آموختیم‘‘ یعنی میں نے قرآن کے اَسرار ورموز کو حسینی کردار سے سمجھا ہے۔ اُن کی اسی فکر کا نتیجہ ہے کہ انہوں نے حق کو ''چراغِ مصطفوی‘‘ اور باطل کو ''شرارِ بولہبی‘‘ سے تعبیر کرتے ہوئے کہا تھا:
ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا امروز؍ چراغِ مصطفوی سے شرارِ بُولہبی
قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ نے بعثتِ رسالت کا مقصد بھی یہی بتایا ہے: ''اللہ وہ ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ بھیجا تاکہ اُسے تمام (باطل) ادیان پر غالب کر دے‘ خواہ مشرک اسے ناپسند کریں‘‘ (الصف: 9‘ التوبہ: 33)۔ (2) اللہ وہ ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ بھیجا تاکہ اُسے تمام (باطل) دینوں پر غالب کر دے اور (اس پر) گواہی کیلئے اللہ کافی ہے‘‘ (الفتح: 28)۔ (3) ''وہ چاہتے ہیں کہ اللہ کا نور اپنی پھونکوں سے بجھا دیں اور یہ اللہ کا اٹل فیصلہ ہے کہ وہ اپنے نور کو پایۂ تکمیل تک پہنچاکر رہے گا‘ خواہ کافروں کو کتنا ہی ناگوار ہو‘‘ (التوبہ: 32)۔ ان آیاتِ مبارکہ سے معلوم ہوا کہ بعثتِ رسالت کا مقصد حق کی حقانیت اور باطل کے بُطلان کو واضح کر کے اللہ کے بندوں پر اُس کی حجت کو قائم رکھنا ہے‘ اسی کو ''اِحقاقِ حق‘‘ اور''اِبطالِ باطل‘‘ کہتے ہیں۔ یہ مقصد اللہ تعالیٰ نے خود بیان فرمایا: ''اور ہم نے ایسے رسول بھیجے جن کے واقعات ہم اس سے پہلے آپ کو بیان کر چکے ہیں اور ایسے رسول بھی بھیجے جن کا تذکرہ ہم نے اس سے پہلے آپ کے سامنے نہیں کیا اور اللہ نے موسیٰ سے کلام فرمایا‘ (اسی طرح) ہم نے (جنت کی) بشارت دینے والے اور (جہنم سے) ڈرانے والے رسول بھیجے تاکہ لوگوں کیلئے ان رسولوں کی بعثت کے بعد اللہ کے حضور کوئی (قابلِ قبول) عذر باقی نہ رہے اور اللہ بڑا غالب اورعظیم حکمت والا ہے‘‘ (النسآء: 164 تا 165)۔الغرض ان آیاتِ مبارکہ میں بعثتِ نبوت ورسالت کی حکمت کو بیان کیا ہے اور یہ بھی واضح فرمایا کہ حق وباطل کی معرکہ آرائی ہمیشہ جاری رہے گی اور اللہ کے انبیائے کرام علیہم السلام کا فریضہ دینِ حق کو غالب کرنا اور حق کی حقانیت وصداقت کی حجت کو قائم کرنا رہا ہے اور یہ دعوت ہمیشہ کافروں‘ مشرکوں اور باطل کے پیروکاروں کو ناپسند رہی ہے‘ بلکہ ایسے ادوار بھی آتے رہے کہ ملمع کاری کر کے باطل کو حق بنا کر پیش کیا جاتا رہا ہے‘ جیسا کہ جمیل مظہری نے کہا:کسے خبر تھی کہ لے کر چراغِ مصطفوی؍ جہاں میں آگ لگاتی پھرے گی بولہبی۔
امیر المؤمنین حضرت علی کرّم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم کے عہدِ مبارک میں یہی معرکہ بپا تھا اورجب حکمتِ دین کے تحت حضرت علی رضی اللہ عنہ تحکیم پر راضی ہوئے تو اُس عہد کے خوارج نے اپنے باطل نظریات پر قرآنِ کریم ہی سے استدلال کرتے ہوئے کہا تھا: ''حکم تو بس اللہ ہی کا چلے گا‘‘ (الانعام: 57) اس پر امیر المومنین نے فرمایا تھا: ''یہ کلمہ تو بلاشبہ حق ہے‘ لیکن اس سے باطل مراد لیا جا رہا ہے‘‘ (مصباح الزجاجہ شرح ابن ماجہ للسیوطی‘ ص: 15)۔ اسی کو تلبیس یعنی دھوکا دے کر حق اور باطل کو خلط ملط کرنے سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی بابت فرمایا: ''اور حق کو باطل کے ساتھ خلط ملط نہ کرو اور تم جان بوجھ کر حق کو چھپاتے ہو‘‘ (البقرہ: 42)۔ اسے کِتمانِ حق سے بھی تعبیر کیا گیا ہے اور اس کی بابت اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ''بے شک جو لوگ ہماری نازل کی ہوئی روشن آیات اور ہدایت کو چھپاتے ہیں‘ بعد ازاں کہ ہم نے اس ہدایت کو لوگوں کیلئے کتاب میں واضح طور پر بیان کر دیا ہے‘ یہی وہ لوگ ہیں جن پر اللہ لعنت فرماتا ہے اور لعنت کرنے والے لعنت کرتے ہیں‘ ماسوا اُن لوگوں کے جنہوں نے توبہ کی اور اصلاح کی اور (جس حق کو چھپایا تھا‘ اُسے) ظاہر کر دیا تو میں ایسے لوگوں کی توبہ قبول فرماتا ہوں اور میں بہت توبہ قبول فرمانے والا‘ نہایت مہربان ہوں‘‘ (البقرہ: 159 تا 160)۔ آج بھی اُسی فتنۂ خوارج کا باندازِ جدید اُمّتِ مسلمہ کو سامنا ہے‘ مسلمانوں کو ظلماً قتل کیا جا رہا ہے اور اس کے جواز کیلئے قرآن وسنّت کی نصوص اور شریعت کی تعلیمات کا سہارا لیا جا رہا ہے۔ یہ اس کے باوجود کیا جا رہا ہے کہ اس سے اسلام کی کوئی خدمت ہو رہی ہے اور نہ باطل کو کوئی نقصان پہنچ رہا ہے‘ بلکہ سارے کا سارا نقصان اسلام اور مسلمانوں کا ہو رہا ہے‘ لیکن جس طرح اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کی بابت فرمایا ہے: ''اور بچھڑے کی محبت اُن کے دلوں میں کُوٹ کُوٹ کر بھر دی گئی تھی بسبب انکے کفر کے‘ کہہ دیجیے: اگر واقعی تم (تورات پر) ایمان لانے والے ہو تو تمہارا ایمان تمہیں کیسی بری باتوں کا حکم دیتا ہے‘‘ (البقرۃ: 93)۔
معرکۂ کربلا بھی اسی ''اِحقاقِ حق‘‘ اور ''اِبطالِ باطل‘‘ کے نبوی مشن کا تسلسل ہے۔ اسی لیے رسول اللہﷺ نے فرمایا تھا: ''حسینؓ مجھ سے ہیں اور میں حسین سے ہوں‘‘ (ترمذی: 3775)۔ یعنی حسینؓ میری نسل سے ہیں‘ اُن کی اور میری محبت لازم وملزوم ہے اور میرے کمالات یعنی اسلام کی دینی اقدار کی تکمیل اور تسلسل حسینؓ کے ذریعے ہوگا اور میرا مشن جاری رہے گا۔ اسی مشن میں ''خلافت علیٰ منہاجِ النُّبوۃ‘‘ کا تسلسل بھی ہے۔ معرکۂ کربلا کو بیتے ہوئے 1386 برس ہو چکے ہیں‘ لیکن یہ سانحہ امت کے ذہن میں اُسی طرح تازہ ہے جیسے کل وقوع پذیر ہوا ہو۔ مسئلہ یہ ہے کہ تذکارِ حسین کرنے والے بھی بہت ہیں‘ راہِ حق میں اُن کی بے مثل و بے مثال قربانیاں بیان کرنے والے بھی بہت ہیں‘ ماشاء اللہ ایک مضمون کو سو طرح سے باندھنے کا پورا ملکہ اور مہارت رکھتے ہیں‘ اُن کا غم بھی تازہ کیا جاتا ہے۔ لیکن اُن کی وہ اَقدار جن کے اِحیاء کی خاطر انہوں نے تاریخِ انسانیت کی عظیم قربانی پیش کی‘ اُن کو زندہ کرنے والے اور اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگیوں کو اُن کے سانچوں میں ڈھالنے والے کم ہیں۔ اسی لیے علامہ اقبال نے کہا تھا:قافلۂ حجاز میں ایک حسینؓ بھی نہیں؍ گرچہ ہے تاب دار‘ ابھی گیسوئے دجلہ و فرات۔
''تابدار‘‘ کے معنی چمک کے ہیں‘ پس دِجلہ وفرات کے گیسوئوں کی آب وتاب اور چمک دمک یعنی یزیدی اَقدار اب بھی اُسی شان سے قائم ہیں‘ ہمارے نظام میں سرایت کی ہوئی ہیں‘ یزید کو مطعون کرنے والے تو کروڑوں کی تعداد میں ہیں‘ لیکن یزیدی اَقدار سے بغاوت کرنے والے یا انہیں جڑ سے مٹانے کی جدوجہد کرنے والے کمیاب بلکہ نایاب ہیں۔ جیسے ہم حج کرنے کے بعد دامن جھاڑ کر واپس آ جاتے ہیں اور پھر زندگی کے شب وروز حسبِ سابق ہو جاتے ہیں‘ ہمارے ظاہر وباطن میں کوئی حقیقی تبدیلی رونما نہیں ہوتی‘ اسی طرح عاشورۂ محرم منانے کے بعد ہمارا آنے والا کل (فردا) ہمارے گزشتہ کل (دِیروز)کی طرح ہو جاتا ہے‘ بس سوچنے کی بات یہی ہے اور علامہ اقبال کے پیغام کی روح اوراسلام کی تاریخ بھی یہی ہے۔ ابراہیم علیہ السلام سے لے کر ختم المرسلینﷺ تک ہماری داستان ایسے ہی المیوں اور سانحات سے عبارت ہے۔ علامہ اقبال نے کہا تھا:
غریب و سادہ و رنگیں ہے داستانِ حرم
نہایت اس کی حُسین‘ ابتدا ہے اسماعیل
حضرت ابراہیم ؑجب ابتلاء وآزمائش کے مراحل سے گزرتے ہوئے عزیمت واستقامت کے اعلیٰ مقام تک پہنچے تو قرآن نے فرمایا: ''جب (باپ بیٹا) دونوں نے (حکمِ الٰہی کے آگے) سرِ تسلیم خم کر دیا‘ تو ابراہیم نے اپنے بیٹے کو پیشانی کے بل لٹایا (اور اُنکے گلے پر چھری چلایا ہی چاہتے تھے کہ) ہم نے (پردۂ غیب سے) ندا کی: اے ابراہیم! تم نے اپنا خواب سچ کر دکھایا‘ ہم اپنے احسان شِعار بندوں کو اسی طرح جزا دیتے ہیں‘ بے شک یہ ضرور کھلی آزمائش تھی‘‘ (الصافات: 103 تا 106)۔ اسماعیل ؑ کے فدیے کے طور پر تو اللہ تعالیٰ نے جنت سے مینڈھا بھیج دیا‘ مگر امام عالی مقام حسینؓ کو مع اہلبیتِ اطہار واعوان وانصار خود اس قربانی کے مرحلے سے گزرنا پڑا۔ اسی لیے اقبال نے اسے اسماعیل ؑ کی قربانی کی تکمیل قرار دیا ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں