"MMC" (space) message & send to 7575

عبرت کی نشانیاں!

ملک کے کئی علاقوں بالخصوص خیبر پختونخوا کے بعض علاقوں میں طوفانِ بادو باراں نے قیامت کا منظر پیش کیا ہے‘ چند خاندان اپنے مکانات اور سازو سامان سمیت صفحہ ہستی سے مٹ گئے‘ بادل پھٹ پڑے اور بپھری ہوئی موجوں کے آگے آنے والی ہرچیز بہتی ہوئی دکھائی دی۔ سب سے پہلے ہم تمام متاثرین کے ساتھ اظہارِ ہمدردی کرتے ہیں‘ جو مسلمان شہید ہو گئے‘ اللہ تعالیٰ اُن سب کو شہاداتِ مقبولہ کا درجہ نصیب فرمائے‘ ان کے متعلقین کو صبرِ جمیل عطا فرمائے‘ زخمیوں کو جلد شفا عطا فرمائے اور تمام متاثرین کو یہ صدمہ برداشت کرنے کا حوصلہ عطا فرمائے اور اُن کی جلد بحالی کے اسباب مقدر فرمائے۔ رَسل ورسائل کے ذرائع بھی تباہ وبرباد ہو چکے ہیں اور اس تباہ شدہ ڈھانچے کی بحالی کیلئے کافی وسائل اور وقت درکار ہو گا۔
معیاری طریقہ کار تو یہ ہوتا کہ ایک مرکزی نظام ہوتا‘ وفاقی‘ صوبائی اور مسلّح افواج کے وسائل اس میں جمع ہوتے اور ایک مرکزی نظام کے تحت اس کی مستحقین میں تقسیم کا انتظام ہوتا‘ اس کا فائدہ یہ ہوتا کہ تحقیق وتنقیح کے مرکزی نظام کے تحت سب متاثرین کا ڈیٹا یکجا ہوتا اور پھر مختلف مدات: مثلاً: فوت شدگان کے ورثا کی اعانت‘ زخمیوں کے علاج کا انتظام‘ مکمل یا جزوی تباہ شدہ مکانات کی بحالی کا معاوضہ اور تباہ شدہ ڈھانچے کی تعمیر ومرمت وغیرہ کیلئے رقوم کا تعیّن اور تقسیم کا شفاف نظام وضع ہوتا۔ اس میں اس غلطی کا امکان نہیں رہتا کہ بعض کو ایک سے زائد ذرائع سے مل جائے اور بعض کو سرے سے نہ ملے یا مطلوبہ معیار سے کم ملے مگر ہمارے ہاں اس طرح کا انتظام مفقود ہوتا ہے‘ یقینا نجی رفاہی ادارے بھی اس میں حصہ لیں گے‘ اگر ان میں بھی کوئی اشتراکِ عمل ہو اور آپس میں تقسیمِ کار کر لیں تو زیادہ سے زیادہ لوگوں کی اعانت ہو سکتی ہے‘ کیونکہ یہ انسانی المیہ ہے اور اس میں مذہبی‘ سیاسی اور گروہی ترجیحات کے بجائے متاثرین کے احوال کی ترجیح پیشِ نظر رہنی چاہیے۔ ہم نے اللہ کو یاد کرنا چھوڑ دیا ہے‘ ایسے مواقع پر رسول اللہﷺ اللہ کی رحمت کو پکارتے تھے اور اگر آندھی اور طوفان تباہی وبربادی کا سبب بنتا تو آپﷺ دعا فرماتے: ''اے اللہ! اس طوفان کو ہم پر مسلّط نہ فرما‘ اسے ہم سے دور لے جا‘ اسے پہاڑوں‘ ٹیلوں‘ وادیوں اور جنگلوں پر برسا‘‘۔
ایسے المیوں پر تبصروں کے زاویے مختلف ہوتے ہیں۔ ہر چیز کو مادّی نظر سے دیکھنے والے اس کے مادّی اسباب پر بات کرتے ہیں‘ کسی حد تک یہ بھی درست ہے کہ ایسے المیوں کے اسباب پیدا کرنے میں قدرتی عوامل کے ساتھ ساتھ انسانوں کی انفرادی اور اجتماعی کوتاہیوں اور جنگلات کی تباہی وبربادی کے ساتھ ساتھ قدرتی نظام میں دخل اندازیوں کا بھی بہت تعلق ہے۔ ہم نے اپنے لڑکپن کے دور میں دیکھا ہے کہ پہاڑی ندی نالوں اور دریائوں کے پاٹ یعنی بہائو کے راستے وسیع ہوتے تھے اور جب طوفانی بارشیں ہوتیں تو یہ وسیع پاٹ اس کو سمیٹ لیتے‘ زیادہ سے زیادہ کنارے کے کھیتوں میں پانی چلا جاتا‘ مگر انسانی المیہ بہت کم ہوتا تھا۔ بعض اوقات بے خبری میں اِکّا دُکّا افراد یا جانور پانی میں بہہ جاتے تھے‘ لیکن بستیوں کی بستیاں برباد ہونے کا المیہ رونما نہیں ہوتا تھا۔ جس طرح اللہ تعالیٰ نے پہاڑوں کو زمین کا توازن قائم کرنے کیلئے کیلوں اور لنگروں سے تشبیہ دی ہے‘ اسی طرح گھنے جنگلوں میں بھی پانی کا بہائو درختوں سے ٹکرا کر پھیل جاتا تھا اور زمین کا کٹائو کم سے کم ہوتا تھا۔ مگر انسان کی لالچ اور با اثر لوگوں کی بے رحمی کی وجہ سے جنگلات برباد ہو گئے‘ ندی نالوں اور دریائوں کے کنارے مکانات اور ہوٹل بننے لگے‘ پانی کے پھیلائو اور بہائو کے راستے مسدود ہوتے گئے اور اس کا نتیجہ اب ہم تباہی کی صورت میں دیکھ رہے ہیں۔ موسمی تبدیلیوں میں انسان کا بھی بڑا دخل ہے‘ درجہ حرارت کو بڑھانے کے اسباب انسان نے ضرر رساں گیسوں کے ذریعے خود پیدا کیے ہیں اور: خود کردہ را علاجے نیست۔
ماضی میں آبادیوں اور بستیوں کے قریب پہاڑوں پر جنگلات حکومتی ملکیت ہوتے تھے‘ اُن کی حفاظت کا انتظام کیا جاتا تھا‘ ان پر اس علاقے کے رہنے والوں کا مشترکہ حق ہوتا تھا‘ مگر سیاسی اور حکومتی اثر ورسوخ رکھنے والوں نے وہ تمام جنگلات نیست ونابود کر دیے۔ اب کبھی ان علاقوں میں جانا ہوتا ہے تو قدیم سرکاری یا قومی جنگلات کے پہاڑی علاقے بالکل چٹیل اوردرختوں سے خالی نظر آتے ہیں‘ بس صرف لوگوں کی نجی زمینوں میں درخت یا جنگلات نظر آتے ہیں‘ کیونکہ وہ خود ان کی حفاظت کرتے ہیں۔
موسمی ماہرین اپنے علم‘ تجربے اور مشاہدے کی بنیاد پر پیش گوئیاں کرتے ہیں‘ چند سال پہلے ماہرین نے بتایا: بحرِ ہند اور بحیرہ عرب سے موجیں اٹھ رہی ہیں اور تندو تیز ہوائیں اور آندھیاں انہیں دھکیل کر کراچی کے ساحل کی طرف لا رہی ہیں‘ ان کی رفتار یہ ہے اور اتنے دنوں یا گھنٹوں کے بعد وہ کراچی کے ساحل سے ٹکرا جائیں گی۔ لیکن ان آندھیوں اور ہوائوں کی باگ ڈور ماہرین کے ہاتھ میں نہیں ہوتی‘ بلکہ خالقِ کائنات‘ربِّ ذوالجلال کے قبضہ وقدرت میں ہوتی ہے‘ وہ چاہے تو اُن کا رخ موڑ دیتا ہے اور چاہے تو انہیں جامد کر دیتا ہے اور سامنے دکھتا ہوا عذاب بھی ٹل جاتا ہے۔ الغرض یہ زلزلے‘ آندھیاں‘ طوفانی بارشیں اور سیلاب قدرت کی طرف سے تنبیہات بھی ہیں‘ اِنذار بھی ہیں‘ ابتلا بھی ہیں اور قیامت برپا ہونے کی ایک ادنیٰ جھلک بھی ہیں۔ قرآنِ کریم کے آخری پاروں میں قیامت برپا ہونے کے مناظر کی جو منظر کشی الفاظ میں کی گئی ہے‘ ان کا بغور اور نگاہِ عبرت سے مطالعہ کریں تو ہمیں ان تنبیہات کی حکمت سمجھ آ جائے گی۔ قیامت برپا کرنے کیلئے قدرت اسباب بھی تخلیق فرما سکتی ہے اور ماورائے اسباب آنِ واحد میں بھی برپا کرسکتی ہے‘ وہ فَعَّالٌ لِمَا یُرِیْد ہے‘ جو چاہے کرگزرنے والا ہے‘ یَخْلُقُ مَا یَشَآئُ وَیَخْتَار‘ وہ جو چاہے اور جو پسند کرے‘ پلک جھپکنے میں تخلیق فرما لیتا ہے‘ اس کی قدرت بے پایاں ہے‘ اس کی کوئی حد وانتہا نہیں ہے‘ اس کی پکڑ بھی بہت سخت ہے اور اس کا عفو وکرم بھی بے حد وبے حساب ہے۔ کاش کہ ہم اسے پکاریں‘اس کے کرم کو اپنی جانب متوجہ کرائیں تو سب بلائیں ٹل بھی سکتی ہیں‘ ومَا ذٰلِکَ عَلَی اللّٰہِ بِعَزِیْز‘ اللہ پر ان امور کا برپا کرنا اور ٹال دینا کوئی دشوار نہیں ہے۔
ہم اپنی طاقت سے چند قطرے یا چند گیلن پانی بھی فضا میں معلّق نہیں رکھ سکتے‘ یہ وہی قادرِ مطلق ہے جو بادلوں کے تہہ در تہہ پہاڑوں کی صورت میں لاکھوں ٹن کے حساب سے پانی کو فضا میں معلّق فرماتا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ''کیا آپ نے دیکھا نہیں کہ اللہ بادلوں کو چلاتا ہے‘ پھر ان کو باہم جوڑ دیتا ہے‘ پھر ان کو تہہ بہ تہہ کر دیتا ہے‘ پھر آپ دیکھتے ہیں کہ ان بادلوں کے درمیان سے بارش برستی ہے اور اللہ آسمان میں پائے جانے والے پہاڑوں سے اولے نازل کرتا ہے‘ پھر جس پر چاہے انہیں برسا دیتا ہے اور جس سے چاہتا ہے‘ پھیر دیتا ہے‘‘ (النور: 43)۔ اس کی عام سنّتِ جاریہ یہ ہے کہ بارش کبھی تیز بھاری قطروں کی صورت میں اور کبھی بوندا باندی کی صورت میں برستی ہے‘ کبھی یہ بادل اچانک پھٹ پڑتے ہیں اور لاکھوں ٹنوں کے حساب سے یہ پانی کم از کم وقت میں زمین پر آ گرتا ہے اور بہت کچھ بہا کر لے جاتا ہے۔ ہم ان تباہیوں کے مناظر کو دیکھ کر یا بھگت کر فریاد کناں ہوتے ہیں‘ لیکن یہ نہیں سوچتے کہ اتنی بڑی مقدار میں پانی کو کسی سہارے کے بغیر فضا میں کس نے معلّق کر رکھا تھا اور جب اُس کی حکمت نے چاہا تو سب بند ٹوٹ گئے اور آسمان سے دریا کی صورت میں پانی برس پڑا۔ انسان تباہیوں کو دیکھ کر تو قدرت سے شکوہ کناں ہوتا ہے‘ لیکن ان سے سامانِ حیات پاکر شکرگزار نہیں بنتا۔ قرآنِ کریم میں ہے: ''بھلا بتائو تو سہی! وہ پانی جو تم پیتے ہو‘ کیا تم نے اُس کو بادل سے اتارا ہے یا ہم اتارنے والے ہیں اور اگر ہم چاہیں تو اسے سخت کڑوا بنا دیں‘ تو پھر تم شکر کیوں نہیں ادا کرتے‘‘ (الواقعہ: 68 تا 70)۔ یہی بارش ہے جس سے فضا کی تطہیر ہوتی ہے اور آلودگی دھل جاتی ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں