تاہم ''کوانٹم ڈاٹ ٹیٹوز ‘‘جن کو بل گیٹس '' ڈیجیٹل سرٹیفکیٹ‘‘ کہہ رہے ہیں‘یہ بنیادی طور پر شوگر ز کی سوئیاں ہیں‘ جس کے اندر ویکسین ہے اور Fluorescence Copper Based Quantum Dots Embeddedہیں ‘جوکہ بہت ہی چھوٹے مائیکرو کیپسول ہیں‘ ان سے آسانی سے دوا یا ویکسین کشید کرکے اسے جسم میں داخل کیا جاسکتا ہے اور جیسے جیسے ویکسین جسم میں اترتی جاتی ہے‘ ویسے ویسے اس کا ریکارڈ کوانٹم ڈاٹس میں جمع ہوتا رہتا ہے۔ دراصل یہ ایسی ویکسین ہے‘ جو انسان کے اندر لگائی جائے گی اور اس سے ہو گایہ کہ انسان کی جلد کے اوپر ایک قابل ِشناخت ٹیٹو بن جائے گا‘ جس کو کسی سکینر سے دیکھا جا سکے گا اور اسے چیک کر کے حتمی نتیجہ اخذ کیا جا سکے گا کہ کس نے ویکسین لی ہے اور کس نے ویکسین نہیں لی ۔یہ ٹیٹو پوری دنیا میں بل گیٹس کی فائونڈیشن کے ذریعے سپلائی کیا جائے گا‘اس پراجیکٹ پر بہت پہلے سے کا م ہو رہا ہے اور اس پراجیکٹ کو آئی ڈی 2020ء نام دیا گیاہے۔
حقیقت میں کوانٹم ڈاٹ ٹیٹوز نظام کسی بھی شخص کی ویکسین کی تاریخ کو نوٹ کرتا ہے اور اس سے حاصل ہونے والے ڈیٹا سے بتاتا ہے کہ کب اورکیسے ویکسین دی گئی ہے‘لہٰذا خاص طور پر اس ایجاد کا مرکز غریب ممالک کی عوام کو بنایا گیا ہے ۔یاد رہے کہ مائیکروسافٹ نے یہ پراجیکٹ اس لئے بنایا تھا کہ جن کے پاس آئی ڈی کارڈ نہیں۔ اس وقت پوری دنیا میں قریباً ایک بلین سے زائد لوگ ہیں‘جن کی کوئی شناخت نہیں‘ تو یہ ان شناخت دے گا ۔ مائیکرو سافٹ نے چار اور کمپنیوں کے ساتھ مل کر آئی ڈی 2020ء Sustainable Development Goals (SDGs) کو اقوام متحدہ میں شامل کروایا ہے اور اقوام متحدہ ان کی سرپرستی کررہی ہے۔ اقوام متحدہ بھی یہ چاہتی ہے کہ پوری دنیا کے انسانوں میں مائیکروچپ نصب کردی جائے ۔مائیکر و سافٹ کے ساتھ جو مزید چار کمپنیاں ہیں ‘جو اس گھنائونے اور انتہائی خطرناک کھیل میں شامل ہیں‘ وہ یہ چار کمپنیاں ہیں؛ (Accenture)‘ (Gavi)‘(Rockefeller Foundation)اور (IDEO.Org)۔یہ وہ کمپنیاں ہیں ‘جو اس پراجیکٹ پر کام کررہی ہیں۔The Rockefeller Foundation ایلومیناتی کی 13بلڈ لائنز کے نام میں سے ایک بلڈ لائن کا نام ہے ۔ بل گیٹس اس پر کافی عرصہ سے کام کررہے ہیں ‘جبکہ آنے والے کچھ عرصہ بعد کوئی بھی بغیر مائیکروچپ کی خریداری نہیں کر سکے گا ۔
بل گیٹس کی سوچ یہیں تک محدود نہیں اور نہ ہی وہ آسان اور عام چیزوں کو اس وقت دیکھ رہا ہے‘ کیونکہ پچھلے 6برس سے گیٹس فائونڈیشن ایک اور پراجیکٹ کو فنڈنگ کر رہی ہے‘ جس میں انسان کے اندر مائیکرو چپ لگائی جائے گی ‘یہ پراجیکٹ( MIT) Massachusetts Institute of Technologyکی بنیاد پر کیا جارہا ہے ‘ جس کا مقصدخواتین میں بچہ پیدا کرنے والے ہارمونز کو کنٹرول کرنا ہے‘ تاکہ برتھ کو کنٹرول کیا جاسکے ‘جس کو مائیکر برتھ کنٹرول چپ کا نام دیا گیا ہے ۔بل گیٹس انسانی آبادی کو کم کرنے کے مختلف طریقوں پر سب سے زیادہ کام کرنے میں مصروف ہیں۔010 2 ء میں امریکا کی میڈیا تنظیم ''ٹی ای ڈی‘‘ (ٹیکنالوجی‘ انٹرٹینمنٹ ڈیزائن) کے زیراہتمام کیلیفورنیا میں ہونے والی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے‘ انہوں نے دنیا کی آبادی کم کے حوالے سے اپنے عزائم کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ''دنیا کی آبادی اس وقت 6 ارب 8 کروڑ ہے‘ جو قریباً 9 بلین ہونے کی طرف گامزن ہے۔ اب ‘ اگر ہم نئی ویکسین‘ حفظان صحت اور تولیدی صحت کے ساتھ کچھ نیا کریں تو ہم اسے شاید 10سے 15 فیصد تک کم سکتے ہیں‘‘ ۔ بی ایم جی ایف بھارت اور پاکستان میں بچوں کو پولیو ویکسین کی بڑے پیمانے پر جاری مہم کو بھرپور مالی معاونت فراہم کرتی ہے اور فاؤنڈیشن ان دونوںممالک سے پولیو کے مکمل خاتمے کو اپنا مقصد باور کراتی ہے‘ اس مہم میں بچوں کو پولیو ویکسین کی 2 قسموں میں سے ایک ''او پی وی‘‘ دی جاتی ہے۔کہا جاتا ہے کہ گیٹس فائونڈیشن کی کی پولیو ویکسی نیشن مہم کے باعث ہزاروں کی تعداد میں(AFP) Flaccid Paralysis Acuteکے کیسز سامنے آئے۔ اے ایف پی کا مرض جسم میں قوت ِمدافعت گھٹانے اور معذوری کا سبب بنتا ہے۔
بھارتی ریاستوںمیں قدیم قبائل کے تیس ہزار بچوں پر ایچ پی وی ویکسین آزمائی گئی‘ جن میں سے بہت سے بچے بیمار ہوگئے اور ان میں سے متعددکی موت واقع ہوگئی ‘جبکہ متاثرہ بچے بانجھ پن کا شکار بھی ہوگئے۔ترقی یافتہ ممالک میں اب یہ ذہن سازی کی جا رہی ہے کہ سب سے محفوظ طریقہ ڈیجیٹل ادائیگی ہی ہے‘ چاہے بجلی کے ہوں یا گیس کے بل وغیرہ ڈیجیٹل طریقہ سے ادا کرنے چاہئیں ‘لہٰذا اب یہ ہمارے حکمرانوں کی ذمہ داری اور فرض بنتا ہے کہ اس مصیبت سے قوم کو محفوظ رکھا جائے۔ پاکستان میں قطعی طور پر ڈیجیٹل سرٹیفکیٹ لازم نہیں ہونا چاہیے کہ لوگوں کو ڈیجیٹل سرٹیفکیٹ دئیے جائیں‘اگر کورونا وائرس کی ڈیجیٹل سرٹیفیکیشن دینی بھی ہے تو وہ سمارٹ فون یا ہمارے آئی ڈی کارڈ پر موجود چپ کے ذریعے دی جائے ۔ آئی ڈی کارڈ کے ذریعے ہی سکین کرکے پتا چل سکتا ہے کہ اس شخص کو ویکسین لگی ہے یا نہیں؟
امریکا میں 2016 ء میں ایسی کوشش کی گئی تھی تو وہاں کے مسیحی پارلیمنٹرین نے اس کو آڑے ہاتھوں لیا تھاکہ ہم کسی صورت یہ برداشت نہیں کرسکتے کہ انسانوں کے جسموں پر''Mark of the beast ‘‘ لگائے جائیں ‘کیونکہ یہ حرام ہے‘ لیکن اب پھر سے یہ پوری دنیا پر مسلط کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔بل گیٹس اس قدر دولت مند ہیں کہ وہ اپنی دولت کا اگر37 فیصد حصہ دے دیں تو دنیا سے بھوک کا خاتمہ ہوجائے‘ مگر انہوں نے براہِ راست بھوک اور افلاس مٹانے پر رقم خرچ کرنے کی بجائے ایسی کارپوریشنوں میں سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ بل گیٹس کا سرمایہ ایسی 69 کمپنیوں میں ہے ‘جو امریکہ اور کینیڈا میں آلودگی بڑھانے میں سب سے آگے ہیں۔ ان میں ڈاؤ کیمیکل بھی شامل ہے۔یہ کمپنی ان ادویہ ساز کمپنیوں کے کاروبار میں حصہ دار ہے‘ جن کی ایڈز کیلئے بنی دوائیں اپنی گراں قیمت کے باعث دنیا بھر کے غریب ایڈز کے مریضوں کی پہنچ سے بہت دور ہیں۔۔کورونا وائرس کا چکمہ دے کر آج دنیا کے معاشی نظام کو تباہ کیا جارہا ہے۔ایک ایک کرکے تمام ممالک کی آزادی پر شب خون مارا جا رہا ہے۔یہاں یہ بات قابل ِغور ہے کہ آج جو کچھ ہورہا ہے‘ اس کے صحت پرکم‘ لیکن معاشی زندگی پر بہت طویل اثرات ہوں گے‘ کیونکہ بھوک و افلاس کے اس گھنائونے کھیل میں کوئی چھوٹا کاروباری نہیں بچے گا؛حتیٰ کہ درمیانے درجہ کا کاروباری بھی شدید متاثر ہوگا‘ اگر کوئی بچے گا تو بڑی بڑی کارپوریشنز بچیں گی‘ جو ہر چیز کی مالک ہیں۔کورونا وائرس سے بچاؤ کی خاطرلوگوں کو'' قرنطینہ‘‘ میں پہنچ کر یہ احساس ہوگا کہ ان کے پاس کچھ بھی نہیں بچا ۔عوام کو گھروں میںمقید کر کے خود ساختہ ڈپریشن کا شکار کر دیا گیاہے۔مصنوعی طور پر بے روزگاری کو جنم دیا جارہا ہے ۔
کہا جارہا ہے کہ سونا اور کیش کو آپ کی زندگیوں سے نکال دیا جائے گا‘ کیونکہ اسے کنٹرول نہیں کیا جا سکتا اور نہ اس پر کوئی سیریل نمبر لگ سکتا ہے‘ جس کا تعاقب کیا جا سکے۔اب ‘یہ منصوبہ بندی کی جارہی ہے کہ یہ دیکھا جائے کہ آپ پیسہ کہاں پر خرچ کرتے ہیں‘ تاکہ مناسب وقت پراس کو قابو کیا جا سکے۔ یہاں سوال بہت اہم ہے کہ کورونا پر کنٹرول حاصل کرلینے کے بعد کیا اشرف المخلوقات انسان ‘ انسانیت کے احساس کو اپنے میں باقی رکھ پائے گا؟کیا اس کے اندر سے دولت جمع کرنے کی حرص کم ہو پائے گی؟کیا اس سے انسانیت کو کوئی سبق حاصل ہو گا؟ (ختم)