بھارتی شرانگیزیاں اور عالمی امن کے تقاضے!

چین کے بعد سپر پاور امریکہ کو کورونا وبانے جس تباہی سے دوچار کیا ہے ‘اس سے جہاں اقوام عالم کی2بڑی فوجی اور اقتصادی قوتیں آمنے سامنے ہیں‘ وہیں مڈل ایسٹ میں عرب ممالک کی باہمی چپقلشیں اور ایشیا میں بھارت کی ریشہ دیوانیاں بھی کھل کر سامنے آرہی ہیں۔ کوروناکی تباہ کاریوں سے دنیا کا کوئی بھی ملک محفوظ نہیں ۔یورپ اور یورو زون کا تیسرا معاشی طور پرمستحکم ملک اٹلی بھی ان دنوں انتہائی کٹھن حالات سے گزر رہا ہے۔روس اور سعودی عرب کا تیل کی پیداوار پر ٹکرائو اور عالمی مارکیٹ میں اس کی گرتی ہوئی قیمت سے بعض ممالک دیوالیہ پن کا شکار ہیں ۔
عالمی قیادتیں اس نازک وقت میں کیا فیصلے کرتی ہیں؟ ملکی وسائل کو استعمال کرنے کیلئے کتنی فصاحت اور بلاغت کا مظاہرہ کیا جاتا ہے‘ یہ تو وقت ہی بتائے گا‘ لیکن یہاں یہ بات ذہن نشین رکھنا ہو گی کہ معمولی علاقائی تنازعات ہی پہلی اور دوسری جنگ عظیم کا سبب بنے تھے ۔ جنگ عظیم دوم کے شروع ہونے کی وجوہ بھی پہلی جنگ عظیم سے کافی مماثلت رکھتی ہیں۔آسٹریا کی طرف سے 28 جون 1914 ء میں جہاں شاہی خاندان کے فرد فرانز فرڈینینڈ کے قتل کی پاداش میں سربیا پر چڑھائی کا فیصلہ جنگ کا باعث بناتھا‘ وہیں یکم ستمبر 1939ء سے 1945ء تک جاری رہنے والی دوسری جنگ عظیم نے پوری دنیا کا نقشہ ہی تبدیل کر دیا۔امریکہ نے جاپان کے2شہروں ناگا ساکی اور ہیرو شیما پرجو ایٹم بم برسائے تھے ‘اس کے اثرات آج بھی باقی ہیں۔
یورپی یونین کے بعض ممالک متبادل سپرپاور کو ٹھوس شکل دینے کیلئے نیٹو کی بجائے اپنی فوج تیار کرنے پر زور دے رہے ہیں‘جس میں روس کو بھی شامل کرنے پر غور کیا جا رہا ہے‘ جس کی بڑی وجہ یہی ہے کہ نیٹو میں شامل ممالک دنیا بھر میں دفاعی امور پر خرچ ہونے والی رقم کا 70فیصد خرچ کرتے ہیں۔ امریکہ نے جب کووڈ 19 کو پہلے ''ووہان وائرس‘‘ اور پھر ''چینی وائرس‘ ‘کے نام سے تعبیر دی ‘تو چین نے امریکی حکام کو متنبہ کیا کہ وہ الزام تراشی کی بجائے اپنے کام پر توجہ دیں۔بھارت میں کورونا کے پھیلائو کا ذمہ دار مسلمانوں کو ٹھہرا کر قتل و غارت کابازار گرم ہے ۔ اب جس انداز سے امریکہ اور اس کے یورپی اتحادیوں کے بعد آسٹریلیا کا چین کیخلاف تحقیقات جاری رکھنے کا اعلان کیا جا رہا ہے‘ وہ کسی بڑی تباہی کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتا ہے ۔
یاد رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کووڈ 19کو ''چینی وائرس‘ ‘ کہہ کر پکارا تو امریکی جریدے سپیکٹیٹر نے اپنی ایک رپورٹ میں لکھا کہ کورونا کے ہاتھوں پہلی ہلاکت اس امریکی سوچ کی تھی کہ وہ چین کے عالمی طاقت بننے کی حقیقت کو باہمی مفادات کے ذریعے قابو کر سکتا ہے۔جریدے نے پروفیسر گراہم ایلیسن کی کتاب کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا کہ صدر ٹرمپ کا یہ بیان'' توسیڈائڈز ٹریپ‘‘ یعنی ایک ابھرتی عالمی طاقت (چین) اور ایک موجود عالمی طاقت (امریکہ) کے درمیان نہ ٹلنے والی جنگ کے زمرے میں آتا ہے۔ ''توسیڈائڈز ٹریپ‘‘ ایک ایسے عمل کا نام ہے جس میں اپنے وقت کی بالادست طاقت یہ خطرہ محسوس کرتی ہے کہ ابھرتی ہوئی طاقت اس کی جگہ لے لے گی اور وہ اسے روکنے کی کوشش کرتی ہے اور اس کوشش میں لڑائی کا امکان بہت زیادہ ہوتا ہے۔بحر اوقیانوس کے ساحلی ملک لیبیا سے لے کر مصر‘ یمن‘ شام‘ فلسطین‘ عراق اور افغانستان کا علاقہ اس مستقل جنگ کی گرد میں لپٹا ہوا ہے۔
بھارت میں مودی سرکار جارحانہ پالیسیوں اور ہٹ دھرمی کے باعث عالمی امن کو تباہ کرنے کے درپے ہے ‘جس کا اندازہ امریکی کمیشن برائے مذہبی آزادی کی رپورٹ سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ بھارتی فوج کی اشتعال انگیزیاں یقینا خطہ کے امن کیلئے خطرہ بن چکی ہیں۔ نہتے شہریوں پر فائرنگ کا اقدام بلاشبہ جنگی جرائم کے زمرے میں آتا ہے‘ لیکن بھارت اپنی شرانگیزکارروائیوں سے جنگ کے شعلوں کو ہوا دے رہا ہے‘ جس کایقینا عالمی برادری کو احساس ہونا چاہیے۔امریکی کمیشن کی رپورٹ میں وہی کچھ کہا گیا ہے‘ جوانسانی حقوق کی عالمی تنظیمیں پہلے ہی کہہ چکی ہیں‘جن کے مطابق بھارت نے جان بوجھ کر مذہبی آزادی کیخلاف کارروائیوں کی اجازت دیتے ہوئے بین الاقوامی مذہبی آزادی کے قانون کی سنگین خلاف ورزیاں کیں۔ مسلم کش فسادات کروانے پر مودی پر 2005 ء میں بطورِ وزیراعلیٰ گجرات بھی سفارتی پابندیاں لگ چکی ہیں۔یہاں قابل غور امر یہ بھی ہے کہ ان کا وزیراعظم بننے تک امریکہ میں داخلہ بھی بند تھا۔مقبوضہ کشمیر میں بدترین پابندیوں کے حامل کرفیو کو 9 ماہ سے زائد کا عرصہ بیت جانے کے بعد ایک نیا انسانی المیہ جنم لے رہا ہے۔ایک طرف کوروناکی تباہ کاریاں جاری ہیں تو دوسری طرف بھارتی سفاک فورسز کشمیریوں کا ناطقہ بند کئے ہوئے ہیں۔ کشمیر کی خون آلود جھیلیں ‘ جلتے چنار ‘ بلکتے بچے‘ چیختی خواتین‘ گمنام قبریں‘ سنسان اورنعشوں سے بھری گلیاں اور بازارانسانی حقوق کے علمبرداروں کا منہ چڑارہے ہیں۔بھارت جتنی انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں مقبوضہ کشمیر میں کر رہا ہے۔ شاید اتنے بدترین واقعات قبل از تاریخ بھی رونما نہیں ہوئے ہوں گے۔ پیلٹ گنوں کے استعمال سے سینکڑوں افراد کی بینائی ختم کردی گئی ‘گولہ بارود سے تعلیمی اداروں اور ہسپتالوں کی عمارتیں منہدم ہوگئیں۔چادر اور چار دیواری کا تقدس جس طرح پامال کیا جا رہا ہے ‘اس کی مثال نہیں ملتی ‘بیٹیوں کی پرورش کیلئے مہم چلانے والی مودی سرکار کی درندہ صفت فوج کشمیر میں خواتین کے ساتھ مبینہ زیادتی میں مصروف ہے۔ ''ظلم رہے اورامن بھی ہو ‘‘ کے مصداق بھارت اور کشمیر میں گولی ‘ لاٹھی اور کرفیو کے ذریعے جذبہ آزادی اور مودی مخالف تحریکوں کو دبانے کی بھارتی سرکار تمام کوششیں بروئے کار لارہی ہے ۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ میں خبردارکیاگیا ہے کہ گمراہ کن پراپیگنڈے اور نفرت سے وبا بڑھ رہی ہے۔کورونا وائرس کا پھیلائو اگر کسی حکومت کی پالیسیوں کے باعث بڑھ رہا ہے تو عالمی برادری کیلئے ایسے ملک کا مقاطعہ ہونا چاہیے۔ بھارت ایک تو کورونا وائرس کے بڑھنے کا موجب بن رہا ہے ‘دوسرے اس کے کشمیریوں پر مظالم بدستور جاری ہیں‘ تیسرے اس کی لائن آف کنٹرول پر مسلسل اشتعال انگیزی سے پاکستان کے ساتھ کشیدگی بڑھ رہی ہے‘ جو کسی بھی وقت دو ایٹمی قوتوں کے درمیان جنگ کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتی ہے‘ جس کے شعلے یقیناعالمی امن کو بھی جلا کر خاکستر کردیں گے‘ لہٰذا ایسی ہولناک صورت ِ حال سے بچنے کیلئے اقوام متحدہ اور عالمی برادری پر یہ بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ بھارت سے تما م سفارتی تعلقات منقطع کرکے خطے میں قیام امن کی کوششوں کو زائل ہونے سے بچایا جائے۔افریقہ‘ایشیاء اور مشرق وسطیٰ میں جنگوں اور مسلسل خانہ جنگی نے انفراسٹرکچرہی تباہ نہیں کیا ‘بلکہ ایک انسانی المیے کو جنم دیا ہے اور اب موذی وبا نے دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے کر ایک نئی تاریخ رقم کر دی ہے‘ لہٰذا ان نازک حالات سے نمٹنے کیلئے اقوام متحدہ اورعالمی برادری کو ایسی جامع پالیسیاں مرتب کرنا ہوں گی کہ جن سے عالمی امن کیخلاف ہونے والی سازشوں کا وقت پر ہی تدارک کیا جا سکے ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں