بھارت گہری دلدل میں پھنس گیا!

آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل حمید گل مرحوم نے پیش گوئی کی تھی کہ نریندر مودی خود ہندوستان کو ٹکڑوں میں تقسیم کرے گا۔ اب اس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش باقی نہیں رہ جاتی کہ متشدد مودی کے خطے میں جارحانہ ا قدامات سے جنرل صاحب کی پیش گوئی سچ ثابت ہو رہی ہے ۔بھارت نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کرنے کے بعد لداخ کے متنازع علاقے کے ساتھ بھی کھیلنے کی کوشش کی تو بھارتی فوج کو لداخ میں ہونے والی مسلسل جھڑپوں میں چین کے ہاتھوں شدید ہزیمت کاسامنا کرنا پڑا۔یعنی چین نے بھارت کو واضح پیغام دیا کہ متنازع علاقے کا سٹیٹس یکطرفہ طور پر تبدیل کرنے کی کوشش کرے گا تو نتائج بھگتنا پڑیں گے۔لداخ مقبوضہ جموں وکشمیر کا مشرقی حصہ اور چین کے سر حدی کنارے پر واقع ہے جہاں سے مشرق میں اکسائی چن اور چین کے صوبے سنکیانگ کی جنوب مشرقی سرحد ملتی ہے۔اس کی سرحدیں پاکستان کے شمالی علاقے اور سیاچن سے بھی منسلک ہیں جو دنیا کا سب سے بلند میدان جنگ بھی ہے ۔مقبوضہ کشمیر کے آرٹیکل 370 اور 35A اور وادی کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے بعد لداخ کو یونین ٹیریٹری بنا دیا گیا ۔ بھارت اور چین کے درمیان دو طرح کا بارڈر ہے‘ ایک LAC اور دوسرا CCL ‘ ان کے درمیان لداخ میں Pangong جھیل پر بھی تنازعہ ہے۔ 134کلومیٹر لمبی اس جھیل کا دو تہائی حصہ اس وقت چین کی تحویل میں ہے۔ یہ جھیل اس لیے بھی اہم ہے کہ یہ لداخ سے تبت کو ملاتی ہے۔پنگونگ جھیل گلوان وادی میں شمال سے مشرق کی جانب ایل کی شکل میں ہے ۔ اس جھیل کے ساتھ مختلف مقامات کو فنگرز کہا جاتا ہے اور علاقے کو 8 فنگرز میں تقسیم کیا گیا ہے۔بھارت کا دعویٰ ہے کہ ایل اے سی فنگر 8 سے شروع ہوتی ہے ‘جو چین کے تصرف میں ہے ۔چین کا مؤقف ہے کہ سرحد فنگر نمبر2سے شروع ہوتی ہے۔
کارگل جنگ کے موقع پر جب بھارت نے یہاں اپنی تمام فوج پاکستان سے لڑنے کے لیے نکال لی تو چین نے فنگر نمبر 4پر ایک سڑک تعمیر کر لی تھی جس کی وجہ سے چین کو یہاں گاڑیوں سے پٹرولنگ کرنے میں آسانی ہو گئی ہے اور تب سے بھارت اس کے جواب میں گزشتہ کئی سال سے فنگر نمبر2کے قریب سڑک بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔ جس پر چین کو سخت تحفظات ہیں کیونکہ بھارت غیر قانونی طور پر یہاںسڑکوں اور ہوائی پٹیوں کی تعمیر سے علاقے میں اپنی بالادستی قائم کرنا چاہتا ہے ۔اسی لیے چین نے اب فنگر نمبر3کے مقام کے قریب اپنی فوج کی تعداد میں کئی گنا اضافہ کر دیا ہے اور فوجی بنکر بنا دیے ہیں تا کہ بھارت کو تعمیرات سے روکا جا سکے۔ اگر بھارت یہ سڑک نہ بناسکا تو یہ جھیل اس کے ہاتھ سے چلی جائے گی۔ یہ وہ واحد علاقہ ہے جہاں چین کا CCLاور LACتقریباً ایک ہے۔ چونکہ علاقے میں بارڈر کی نشاندہی نہیں کی گئی ہے اس لئے فوجیں متنازعہ علاقوں کی پٹر ولنگ کرکے اس پر علامتی حق جتاتی ہیں۔اگرچہ ہندوستان نے دنیا کے سامنے اپنی مظلویت کا رونا رو تے ہوئے دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش کی کہ چین نے بھارتی علاقہ میں گھس کر اپنا قبضہ جما لیا ہے‘ اس کے باوجودبھارت کی یہاں پوزیشن اب بہت کمزور ہوتی جا رہی ہے۔بھارت کی حتی الامکان کوشش ہو گی کہ جنگ سے بچا جائے‘ کیونکہ وہ اچھی طرح جانتا ہے کہ اگر اس نے کوئی فوجی سرگرمی دکھائی تو لداخ تو اس کے ہاتھ سے جائے گا اسے کشمیر کے ساتھ ساتھ سیاچن سے بھی بھاگنا پڑ جائے گا۔ چین نے جن علاقوں میں اپنی پوزیشن بہتر کی ہے وہ بھارت کے لیے خطرناک ہیں اور سی پیک کے لیے بھی اہم ہیں۔
بھارت کے لداخ میں توسیعی عزائم کا اصل ہدف سی پیک کا منصوبہ ہے جو گلگت بلتستان سے گزرتا ہے اور بھارت گلگت بلتستان کو ہتھیانے کے لیے بے چین ہے ۔اس کا مرکز چھوٹا سا قصبہ دولت بیگ ہے جو اکسائی چن میں واقع ہے جو 5065میٹر بلند ہے ۔دولت بیگ ہندوستان کی اہم پوسٹ ہے یہ چین کی جانب سے پرانی شاہراہ ریشم کو جوڑتی ہے۔ 1962ء میں انڈیا چین جنگ کے دوران بھارت نے یہاں ملٹری بیس بنائی تھی ۔ یہ قراقرم پاس سے آٹھ میل پر ہے‘ جس سے با آسانی گلگت تک رسائی ہو سکتی ہے ۔ گزشتہ سال انڈین آرمی نے دولت بیگ کا درجہ پوسٹ سے مکمل بریگیڈ لیول تک بڑھا دیا‘ جس کے ساتھ ہی انڈین فوج نے دولت بیگ کو اندرونِ بھارت مختلف ڈیفنس روڈ زنیٹ ورک سے ملا نے کے لیے پچھلے سال اکتوبر کے مہینے میں چین کے سرحدی علاقے میں راتوں رات سڑک تعمیر کی جسے دَربوک شیوَک دولت بیگ روڈ کا نام دیا گیا۔سڑک کی تعمیر کا مقصد دولت بیگ آرمی بریگیڈ کو حملے کی تیاری میں لانا تھا۔یاد رہے کہ اسی عرصے میں انڈیا کے جدید ہٹلر مودی نے پاکستان پر حملہ کرنے کی گیدڑ بھبکی بھی ماری تھی ۔تنازعے کی وجہ قراقرم درّے سے جڑی ہوئی گلوان وادی ہے۔اس وادی کی مغربی پہاڑی پرانڈین آرمی کی نئی تعمیر کردہ ڈی ایس ڈی روڈ واقع ہے۔یہاں دولت بیگ انڈین آرمی بریگیڈ کے لیے سپلائی کا کوئی دوسرا زمینی راستہ نہیں‘لہٰذا زمینی حقائق کی روشنی میں چین کی جانب سے انتہائی شاندار پتہ کھیلا گیا۔ چین پانچ ہزار فوجیوں کے ساتھ گلوان میں آبیٹھا ہے اور اب بھارت کے پاس یہاں تک پہنچنے کیلئے صرف ہوائی رابطہ بچا ہے۔ چین نے اپنی فوجی پوزیشن لداخ کے علاقے میں ہندوستان کی فوج سے بہت بہتر اور فیصلہ کن بنالی ہے۔ دولت بیگ بریگیڈ خوفناک ٹریپ میں آچکا ہے‘ جس کے نتیجے میں گلگت بلتستان اور سی پیک روٹ پر بھارتی قبضے کا خواب چکنا چور ہو گیا ہے۔در حقیقت بھارت ایک گہری دلدل میں پھنس چکا ہے۔
موجودہ حالات سے یہ اشارے ملتے ہیں کہ امریکہ براہ راست بھارت چین تنازعے کے درمیان اعلانیہ طور پر مداخلت نہیں کرے گا‘ اس لئے نیو دہلی کے بند کمرے کے اجلاس میں مودی کو اپنے حکومتی اداروں کی جانب سے خاصی تنقید برداشت کرنا پڑی ۔ اطلاعات یہ بھی ہیں کہ بھارتی سکیورٹی مشیر اجیت ڈوول کو بھی خاصی پشیمانی کا سامنا رہا ۔ اس اجلاس میں مودی کو کہا گیا تھا کہ اس کا ڈوول ڈاکٹرائن مکمل طور پر فیل ہوچکا ہے کیونکہ اس سے پہلے ان اداروں کو جو سبز دکھائے گئے تھے‘ ان میں یہ کہا گیا تھا کہ پاکستان کو خاکم بدہن ٹکڑوں میں تقسیم کردیا جائے گا ‘ پاکستان مقبوضہ کشمیر کی فکر چھوڑ کر اپنے کشمیر کو بچانے کی فکر کرے گا‘ اسے بلوچستان کو بچانا بھی مشکل ہوجائے گا‘ لیکن ان تمام معاملات کی قلعی چین کے حالیہ اقدامات نے کھول دی ہے ۔موجودہ صورتحال کے بعد بھارت منتوں ‘ ترلوں پر اتر آیا ہے۔ مودی سرکار نے چین کو مختلف ذرائع سے مذاکرات کی دعوت دی کہ ان معاملات کو عسکری بنیادوں کی بجائے بات چیت سے حل کیا جاسکے‘ لیکن چین نے نیو دہلی کو صاف جواب دے دیا اور یہ پیغام بھیجا کہ چین نے اب تک جو کارروائیاں کی ہیں بھارت اسے پہلے باقاعدہ طور پر تسلیم کرے‘ اس کے بعد اگلی بات کی جائے گی ۔
لگتا ہے اس وقت چین پرانے حساب برابر کرنے کے موڈ میں ہے۔مسلمانوں کے قاتل اور پاکستان کو دھمکی دینے والے نریندر مودی کی ہندو سینا کے لیے ڈوب مرنے کا مقام ہے‘ اس کی فوج کی دشمن کے ہاتھوں گرفتاری کے بعد درخواست پر رہائی عمل میں لائی گئی۔جس طرح چینی فوج نے ان بھارتی فوجیوں کی درگت بنائی‘ ساری دنیا نے دیکھی ۔ اگرچہ کئی دہائیوں سے دونوں ممالک کے مابین سرد جنگ جاری ہے ‘بھارت نے تبت کی خود ساختہ جلا وطن حکومت کے سربراہ دلائی لامہ کو پناہ بھی دی ہوئی ہے‘ اس تنازعہ کے باوجود دونوں ممالک کے درمیان 92بلین ڈالرز کی تجارت بھی ہو رہی تھی اور چین نے بھارت میں بھاری سرمایہ کاری بھی کر رکھی ہے۔ چین کے مطابق اس کا نوے ہزار کلومیٹر کا علاقہ بھارت کے کنٹرول میں ہے‘ جس کو چین واپس لینا چاہتا ہے۔ بھارت کو گمان تھا کہ جس طرح مقبوضہ کشمیر میں بھارتی بربریت پر دنیا خاموش رہی ‘ پاکستان کے ساتھ لائن آف کنٹرول اور نیپال کے تین علاقوں پر مقبوضہ جموں و کشمیر کی طرز پہ قبضہ جمانے کی بھارتی کوششوں پر کوئی قدغن نہیں لگائی جائے گی‘اس طرح چین کے معاملے پر بھی امریکہ اس کا سا تھ دے گا‘ لیکن بھارت کومنہ کی کھانا پڑی ہے ۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں