مغربی جمہوریت کا ہولناک سچ

جمہوریت کا آغاز یونان سے ہوا۔ اٹھارہویں صدی عیسوی میں اس نے نئی کروٹ لی اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے دنیا کے سب سے مقبول و پسندیدہ نظامِ سیاست کی حیثیت حاصل کرلی ۔ جمہوریت نے انسانوں کوآمریت اور عیسائی تھیوکریسی سے نجات دلائی ‘انہیں آزادی اور بنیادی حقوق عطا کئے‘ لیکن اس قدر بے مہار آزادی عطا کردی کہ لوگ روحانیت اور اخلاقیات سے عاری ہوگئے اور پوری روئے زمین فحاشی و عریانیت اور بے حیائی و بد اخلاقی کی آماجگاہ بن گئی۔ مغربی جمہوریت نے اپنے منافقانہ نعروں کے ذریعے انسانیت کو غلامی‘ دہشت گردی اور استعمار کے تحفے دیئے ۔یہ انسانی حقوق کے علمبرداروں میں چھپے ہوئے وہ رہزن ہیں‘ جنہوں نے ترقی ‘ جدیدیت اور روشن خیالی کے نام پر سفاکیت و بربریت کی بدترین مثالیں قائم کیں اور سب سے زیادہ مسلمانوں کا خون بہایا۔ دراصل جمہوریت کو اساس ‘اہل ِ یورپ نے ہی فراہم کی تھی۔ نام نہاد جمہوریت کے نام پرمسلم امہ کو اسلامی نظام سے بیزار کرکے ان ملکوں میں بھی اپنی مرضی کا سیاسی نظام وضع کیا ۔جب مسلمانوں نے اسے ا پنایاتو اس میں بنیادی طور پر تین طرح کی آراء تھیں؛پہلی یہ کہ اسے مکمل رد کردیاجائے‘ دوسری یہ تھی کہ اسے مکمل قبول کرلیاجائے ‘جبکہ بعض کے ہاں اسے قبول توکیا جائے‘ لیکن ترمیم و اضافے کیساتھ! درحقیقت دنیا گزشتہ دوصدیوں سے جمہوریت کاناکام تجربہ کررہی ہے ۔
اس میں کسی شک وشبہ کی گنجائش باقی نہیں کہ مغربی طرز کی جمہوریت انسانیت کی تحقیر ہے‘ لیکن اس سے سرمایہ داروں اور صیہونیوں کو خوب فائدہ پہنچتا ہے۔آج کے فرعونوں نے جس طرح دیگر قوموں کی لوٹ کھسوٹ کی اس طرح کسی زمانے میں نہیں کی گئی۔ فسطائی قوتوں نے جب یہ دیکھا کہ بردہ داری اور استعمار سے ان کے مفادات حاصل نہیں ہوسکتے تو انہوں نے دنیا پر ایک نئی اور ماڈرن طاقت کو مسلط کرنے کا فیصلہ کیا‘ جو بظاہر جمہوری بنیادوں پر آزادی اور انسانی حقوق کی طرفدار ہو‘ لیکن پس ِپردہ‘ اسی قسم کی سامراجیت اور انسانوں کا قتل عام کرنے والی ہواوراس کو صرف مسلمانوں پرنہیں ‘بلکہ پوری انسانیت پر مسلط کر دیا گیا ۔ علامہ اقبالؒ نے مغربی جمہوری نظام کا سنجیدہ اور گہرا مطالعہ کرنے کے بعد اسے ''دیو استبداد‘‘ قرار دیا تھا۔اقبالؒ مسلم امہ کے مسیحا تھے۔ انہوں نے مسلمانوں کے عروق مردہ میں نئی روح ڈالی۔ انہوں نے یورپ کے جمہوری نظام سے سخت نفرت کا اظہار کیا۔ انہوں نے دو ٹوک الفاظ میں کہا۔؎
تو نے کیا دیکھا نہیں مغرب کا جمہوری نظام
چہرہ روشن اندرون چنگیز سے تاریک تر
افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ وطن ِعزیز بھی چنگیزی جمہوریت کے پنجوں میں بری طرح جکڑا ہوا ہے۔ موجودہ گمبھیر حالات سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ یہاں یہ فرسودہ سسٹم آخری ہچکولے لے رہا ہے ۔عوام کو مہنگائی سمیت ناانصافی کے عفریت کا سامنا ہے‘ کیونکہ معاشرہ کفر پر تو قائم رہ سکتا ہے ‘مگرنانصافی پر نہیں اور وقت کے یہ سارے چنگیز ی ‘ جمہوریت کے نام پر تو عوام پر مسلط ہیں ؎
جلالِ پادشاہی ہو کہ جمہوری تماشا ہو
جُدا ہو دِیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی
جبکہ مغرب کے جمہوری نظام کی کہانی کچھ یوں ہے کہ سلیمانی ہیکل سے چند یہودی عیسائیت کا لبادہ اوڑھ کر مسلمانوں سے ان کی حفاظت کرنے کے لیے خفیہ اکٹھے ہوئے۔ انہوں نے عیسائی پوپ کے ذریعے صلیبی جنگوں کا آغاز کر لیا۔ سودی بینکاری‘ ہنڈی‘ بیمہ‘ سونا گروی رکھنے کے کام متعارف کرائے۔ سب سے پہلے چرچ اور سیاست کو الگ کیا۔ رفتہ رفتہ جمہوریت کے خونخوار پنجوں نے بادشاہت ‘ خلافت اور دیگر نظام ہائے حکومت کو ہی اکھاڑ پھینکا ۔ یہودیوں کی خفیہ تنظیم فری میسن نے سکاٹ لینڈ کو سنٹر بنایا‘پھر برطانیہ کی سرپرستی میں فری میسن نے ترک قومیت اور عرب قومیت کے جذبات الگ الگ ابھارے۔علاقائی اور مذہبی منافرت میں کامیابی حاصل کی۔ 1288ء میں قائم ہونے والی خلافت عثمانیہ کو 1924 ء میں منہدم کر دیااور ایک ترک حکمران کو اپنا ایجنٹ بنا کر مسلمانوں کے اتحاد کے محور کو تباہ و برباد کر دیا۔ مذہبی مقامات کی بے حرمتی کی گئی۔ عربی کے الفاظ تک ترکی زبان سے نکال دئیے گئے اور ترکی میں مغربی جمہوریت کے کرشمے نظر آنے لگے۔
دنیا کے چند امیر ترین خاندان جمہوری نظام کو چلا رہے ہیں اور دنیا پر حکمرانی کررہے ہیں۔ ''چنگیزی جمہوریت‘‘ اپنے ہی بنائے ہوئے عالمی اصولوں اور عالمی تنظیموں (اقوام متحدہ) کو تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں۔ امریکی جمہوریت نے عراق اور افغانستان میں اس قدر انسانی ہلاکتیں کیں کہ دنیا چنگیز خان کو بھول گئی۔ آج امریکہ اس کے اتحادی اور عرب ممالک یہودی دجال کے قبضے میں ہیں‘ جو پوری دنیا سے بے شمار خفیہ تنظیموں کے ذریعے لوگوں کے ضمیر خرید رہے ہیں اور اسلامی اقدار کا دنیا سے خاتمہ کرنا چاہتے ہیں۔ امریکہ ہی نہیں دنیا بھر کے الیکٹرانک میڈیا پر ان کا قبضہ ہے۔ امریکی جمہوریت نے عالمی امن کو یقینی اور انسانیت کو محفوظ بنانے کی بجائے اس قدر خطرناک ایٹمی ہتھیار تیار کیے ہیں‘ جو چند منٹوں میں پوری دنیا کا خاتمہ کرسکتے ہیں‘ اگر جمہوریت نظام اخلاقیات کا پابند ہوتا تو آج دنیا محفوظ اورپرُامن ہوتی۔حال ہی میں امریکی قومی سلامتی کے سابق مشیر جان بولٹن کا اپنی کتاب میں کیا گیا ایک نیا انکشاف سامنے آیا ہے کہ امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے نومبر 2020ء کے صدارتی انتخابات جیتنے کے لیے چین کے صدر شی جن پنگ سے مدد مانگی۔ جان بولٹن نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جاپان کے دورے میں ہونے والی ملاقات میں کہا کہ آپ چینی مصنوعات خریدیں۔ انہوں نے چینی صدر شی جن پنگ سے کہا کہ آپ ایغور مسلمانوں کے ساتھ جو بہتر سمجھیں‘ کریں۔دوسری طرف تیسری دنیا کے ممالک‘ امریکہ اور یورپ سے اکثر اقتدار کی بھیک مانگتے ہوئے پائے جاتے ہیں۔
یہ ہے‘ امریکی و مغربی جمہوریت کا خوفناک چہرہ۔ دوسری جانب سیاہ فام امریکی جارج فلائیڈ کے قتل نے نا صرف امریکہ کے ہوش اڑا دئیے‘ بلکہ پورا یورپ اس کی لپیٹ میں ہے ہر جگہ غلامی کی نشانیوں پر حملے ہو رہے ہیں۔ غلاموں کی تجارت کرنیوالی شخصیات کے مجسمے توڑے جا رہے ہیں اور اس احتجاجی طوفان نے یورپی حکمرانوں کی نیندیں اڑا کر رکھ دی ہیں۔ برطانیہ کے وزیراعظم بورس جانسن کو جذباتی ہو کر بیان دینا پڑا کہ مرتے دم تک ونسٹن چرچل کے مجسمے کی حفاظت کریں گے ‘ اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ نسلی امتیازکے حوالے سے دنیا بھر کو مساوات کا درس دینے والے امریکا و مغرب ہیں‘ جہاں نسلی امتیاز معاشرے میں بری طرح سرائیت کرگیا ہے۔ نسلی امتیاز کے اسی غرور نے یورپ میں انسانی غلامی کی داغ بیل ڈالی۔ نسلی امتیازکی بنیاد پر ہی اکثروبیشتر سفید فام سیاہ فاموں کو قتل کردیتے ہیں۔نام نہاد جمہوریت کی آڑ میں امریکہ و یورپ کے حکمرانوں نے ‘وہاں کی سکیورٹی فورسز نے اور ان ملکوں کے خفیہ اداروں نے پوری دنیامیں ظلم و جوراور قتل و غارت گری و دہشت گردی و انتہا پسندی کابازار گرم کر رکھاہے۔
سچ تو یہ ہے کہ یورپی حکومتوں نے ایشیائی ملکوں کی قیمت پراپنی ریاستوں میں معاشی خوشحالی اور امن و امان کی داغ بیل ڈالی ۔ وہاں کی حکومتیں ہی نہیں عوامی اور تفریحی ادارے بھی دہشت گردی کی کھل کر سرپرستی کرتے ہیں۔دوسری جنگ ِعظیم کے بعد سے فلموں کے ذریعے تفریح کے نام پر دہشت گردی کاایک نہ تھمتاہوا طوفان ہے ‘جو پوری دنیاکو برآمد کیاگیا۔ ویڈیوگیمزکے اندر بھی تشدداورمارپیٹ کااخلاق باختہ سیکولرازم کایہ پیغام پوری دنیاتک چابکدستی سے پہنچایاگیا ۔الغرض آج ان کی لگائی آگ ان ہی کے گھروں تک پہنچ چکی ہے‘اسے تاریخ کا جبر کہا جائے یا مکافات ِعمل کہ سوویت یونین کے بکھرنے کے بعد بغلیں بجاتا یورپی یونین بھی اسی انجام کی جانب رواں دواں ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں