گریٹر اسرائیل کے قیام کیلئے مشرق وسطیٰ میں خونیں کھیل

خطۂ شام جسے بلادِ شام بھی کہا جاتا ہے صرف قدیم نبوتوں اور صحیفوں کے حوالے سے نہیں‘ احادیث نبوی کے اندر بھی ایک قابل تعظیم خطہ کے طور پر مذکور ہوتا ہے ۔ حالیہ جغرافیائی تقسیم کے تناظر میں بلادِ شام سے مراد فلسطین‘ موجودہ شام‘ اردن اور لبنان کا علاقہ بنتا ہے۔پہلی جنگِ عظیم تک یہ چاروں ممالک شام میں شامل تھے۔ انگریزوں اور اہلِ فرانس کی مکاری سے اسے ٹکڑوں میں تقسیم کردیا گیاتھا۔تاریخِ عالم طاغوتی طاقتوں کی مکارانہ چالوں کی گواہ ہے کہ کس طرح مسلم اُمہ کو زوال پذیر کرنے اور خلافت عثمانیہ کو توڑنے کیلئے پہلی جنگ عظیم کروائی گئی تھی۔ جنگِ عظیم کے اختتام پر ترکی کے سوا تمام مسلم ممالک کو ان مسلم دشمن قوتوں نے اپنی کالونی بنا لیا تھا۔ جنگ ِعظیم دوم شروع کرنے کا مقصد بھی دنیا پر یہودیوں کیلئے ناجائز ریاست اسرائیل کا قیام عمل میں لانا تھا‘ کیونکہ اس وقت امریکی و برطانوی سرزمین کے مالیاتی معاملات صہیونیوں کے تصرف میں تھے اور آج بھی یہی صورتحال ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ و برطانیہ نہ چاہتے ہوئے بھی یہودیوں کے مفادات کا تحفظ کرنے کے پابند ہیں کیونکہ عالمی بینک اور دیگر عالمی مالیاتی ادارے انہی کی ملکیت ہیں۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ پہلی اور دوسری عالمی جنگ کو یہودیوں نے اپنے حق کیلئے بھرپور استعمال کیا اب وہ گریٹر اسرائیل کے قیام کیلئے دنیا کو تیسری عالمی جنگ کی جانب دھکیل رہے ہیں اور جب تک تیسری عالمی جنگ برپا نہ ہو جائے اور مشرق وسطی تباہ نہ ہو جائے گریٹر اسرائیل کا قیام ناممکن ہے۔ مشرق وسطیٰ کے تباہ ہونے کی صورت میں ہی گریٹر اسرائیل معرض وجود میں آئے گا کیونکہ گریٹر اسرائیل کے نقشے میں موجود مشرقِ وسطیٰ کے مسلم ممالک معدنی دولت و تیل کے ذخائر سے مالا مال ہیں اور اسرائیل جانتا ہے کہ جو اس خطے کا مالک ہوگا وہ پوری دنیا کا مالک بن سکتا ہے اور یہاں کے قدرتی ذخائر کو قابو میں لا کر ہی گریٹر اسرائیل کی راہ ہموار کی جا سکتی ہے ۔کیو نکہ فرقہ وارانہ لڑائی ہی اس جنگ کو ایندھن فراہم کرے گی اس لئے خانہ جنگی شروع کر دی گئی تاکہ یہ کمزور ہو کر یہود و نصاریٰ سے مدد مانگیں ‘بدلے میں یہود کی غلامی قبول کر لیں اور پھر گریٹر اسرائیل کی کالونی بن جائیں؛چنانچہ مشرقِ وسطیٰ کو تباہ کرنے کیلئے خونیں کھیل کھیلتے ہوئے اُسے فسادات کی آگ میں دھکیل دیا گیا ہے۔ افسوس مسلمان حکمران تخت و تاج کے حصول کی جنگ میں اس قدر مصروف ہیں کہ انہوں نے درپیش خطرات سے آنکھیں موند رکھی ہیں۔ منظم سازش کے تحت صدام حسین کو راستے سے ہٹا کر عراق تباہ کر دیا گیا‘ پھر عراق‘ شام میں داعش کو تخلیق کر کے وہاں کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی۔ لیبیا میں خانہ جنگی کروائی گئی اور معمر قذافی کو شہید کر دیا گیا۔ یمن میں آگ بھڑکائی گئی‘ یمن میں حوثیوں کو کھڑا کر کے سعودی عرب کو ہراساں کیا گیا اور اس کو امریکہ کے تابع رہنے پر مجبور کردیا گیا۔ دوسری طرف ایران کو بھی نہ چھوڑا گیا اور اس پر بھی پابندیاں عائد کی گئیں بعد ازاں علاقے میں کیا باقی بچا ہے جو صہیونیوں کے مقابل آسکے۔ گویا اسرائیلی غلامی کو تسلم کیا جا چکا ہے۔ 
سنن ابی داود کی ایک صحیح روایت میں ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ تمہارے دین اسلام کا معاملہ یہ ہو گا کہ تم لشکروں کی صورت میں بٹ جاؤ گے۔ ایک لشکر شام میں‘ ایک عراق میں اور ایک یمن میں ہو گا۔راوی ابن حوالہ نے کہا‘ اے اللہ کے رسولﷺ اگر میں اس زمانے کو پا لوں تو مجھے اس بارے کوئی وصیت فرما دیں‘ آپﷺ نے فرمایا: شام کو پکڑ لے کیونکہ وہ اللہ کی زمینوں میں سے بہتر سرزمین ہے۔ اللہ کے بہترین بندے اس کی طرف کھنچے چلے جائیں گے۔ پس اگر تمہارا ذہن شامی لشکر کا ساتھ دینے پر مطمئن نہ ہو تو یمن کی طرف چلے جانا اور صرف اپنے گھاٹ سے پانی پینا۔ اللہ تعالیٰ نے میرا اکرام کرتے ہوئے شام اور اہلِ شام کی ذمہ داری لے لی ہے۔سنن النسائی کی ایک صحیح روایت میں ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا میری طرف یہ وحی کی گئی ہے کہ مجھے اٹھا لیا جائے گا اور تم میری اتباع کرو گے اور مختلف فرقوں میں تقسیم ہو کر کرو گے اور ایک دوسرے کی گردنیں مارو گے اور ان حالات میں شام اہلِ ایمان کا گھرہو گا۔
افغانستان سے امریکی انخلا نے اگر ایک طرف ہندوستان کو پریشان کر رکھا ہے تو دوسری جانب مڈل ایسٹ سے امریکی فوج کی واپسی نے بھی اسرائیل میں ہلچل مچا رکھی ہے۔ اب اسرائیل نہیں چاہتا کہ مشرقِ وسطیٰ سے امریکہ نکلے‘ اس لئے تو ایک بار پھر سے خطے میں نئی خوفناک جنگ کا آغاز کر دیا گیا ہے۔ بیروت میں بم دھماکے بھی اسی مذموم سلسلے کی ایک کڑی ہے۔لبنان کے دارالحکومت بیروت میں ہونے والے دوانتہائی طاقتور دھماکوں میں جاں بحق ہونے والوں کی تعداد 157 تک پہنچ چکی ہے اور ان میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ دھماکہ اتنا شدید تھا کہ اس کی آواز 240 کلومیٹر دور نکوسیا میں بھی سنی گئی۔ لبنان کے وزیراعظم کے مطابق دھماکہ ایک گودام میں رکھے 2750 ٹن امونیم نائٹریٹ کی وجہ سے ہوا جس کا استعمال عام طور پر کھیتوں میں ہوتا ہے۔اس دھماکے سے نصف شہر برباد ہو چکا ہے اور تین لاکھ سے زائد افراد بے گھر ہو گئے ہیں۔ لبنان میں یہ دھماکہ اس وقت ہوا جب ملک کے سابق صدر حریری کے قتل کیس کا فیصلہ سنایا جانا ہے۔ سابق صدر رفیق حریری 2005ء میں ایک کار بم دھماکے میں جاں بحق ہو گئے تھے۔دوسری عالمی جنگ کے بعد بیروت دنیا میں سیاحت کا مرکز بن گیا تھا اس کی معیشت اتنی ترقی کر رہی تھی کہ اسے مشرق ِوسطیٰ کا پیرس کہا جانے لگا تھا۔ 1950ء سے 1970ء کے اوائل کی تصاویر میں بیروت شہر پُرتعیش ہوٹلوں اور جدید بلند و بالا عمارتوں کا منظر پیش کرتا رہا جو فرانسیسی طرزِ تعمیر کا نمونہ ہیں۔ روشنی‘ خوشبو اور خوش لباسی اس کے مکینوں کی آسودگی کا پتہ دیتی تھی۔ 1975ء سے 1999ء تک بیروت کی گلیوں‘ بازاروں میں جاری خانہ جنگی میں ایک لاکھ بیس ہزار کے لگ بھگ افراد لقمۂ اجل بنے۔ ہزاروں ملک کے اندر اور ملک چھوڑنے پر مجبور ہو گئے تھے اور مشرقِ وسطیٰ کا پیرس کھنڈر بن گیا اور 1980ء میں اسرائیل نے اس کو تباہ کر کے رکھ دیا پھر 2005ء میں سابق وزیراعظم رفیق حریری کی بم دھماکے میں ہلاکت اور 2006ء میں ایک بار پھر اسرائیل کے ساتھ جنگ نے لبنان کو نقصان پہنچایا ۔ ڈیپ سی پورٹ لبنان کی لاجسٹک کا مرکز ومحور تھی‘ جو اب مکمل طور پر تباہ ہو چکی ہے۔ یہاں سے ملکی معیشت کو رواں رکھنے والی 80 فیصد درآمدات کا گزر ہوتا تھا۔ اقتصادی بحران سے دوچار مشرقِ وسطیٰ کے 'پیرس ‘ کی 50 فیصد آبادی پہلے ہی خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔لبنان میں اس وقت سیاسی کشیدگی بھی عروج پر ہے۔ لبنانی مظاہرین اپنے ملک میں گہری ہوتی فرقہ واریت کے سامنے عاجز دکھائی دیتے ہیں۔دوسری طرف کورونا کی بدولت حالات مزید ابتر ہوچکے ہیں۔ اس کے ساتھ اسرائیل کی ریشہ دوانیوں کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ اس وقت بیروت کے ہسپتال زخمیوں سے بھرے ہوئے ہیں ابھی بھی لاکھوں کی تعداد میں شہری ملبے تلے دبے ہیں۔ بیروت سانحہ کو ہیروشیما‘ ناگا ساکی ایٹمی حملے کے برابر قرار دیا جا رہا ہے اور اس واقعے کو ملکی تاریخ کا سب سے تباہ کن سانحہ قرار دیا گیا ہے۔ اسرائیل نواز عالمی میڈیا نے اس حملے کو رفیق حریری کی موت اور اس کے مقدمے اور فیصلے سے جوڑ دیاہے تاکہ فرقہ واریت کو ہوا دے کر اس کو مزید خانہ جنگی کی طرف دھکیل کر تباہ کیا جائے‘تاکہ اسرائیل چین کی نیند سوئے اور مغرب ہتھیار فروخت کرے۔ عالمی میڈیا ایک تو کوریج صحیح سے نہیں کر رہا اور دوسرے اسے بم بلاسٹ کا نام دینے کو تیار نہیں۔امریکی صدر نے بھی اپنے ایک بیان میں اسے حادثہ نہیں حملہ قرار دیا ہے جس سے لگتا ہے یقینا مشرقِ وسطی میں بڑا خونیں کھیل کھیلا جا رہا ہے ۔ افسوس صد افسوس !عالمی برادری ‘ اقوام متحدہ اور بین الاقوامی تنظیمیں تو مسلم عناد و تعصب اور غلبۂ اسلام کے خوف سے خاموش ہیں مگر مسلم حکمران ‘ مسلم تنظیمیں اور مسلم ذمہ داران بھی غفلت کی چادر تانے سورہے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں